دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نوجوان نسل کی بھارت کے بارے میں رومانیت
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
دیکھنے میں آ رہا ہے کہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں کچھ لوگ ، خصوصا نوجوان بھارت کے بارے میں اور تقسیم سے پہلے کے دور کے بارے میں کچھ رومانیت بلکہ مرعوبیت کا شکار دکھائی دیتے ہیں ، وہ نسل تقریبا ختم ہو چکی ہے، جنہوں نے خود شعور کی حالت میں وہ زمانہ دیکھ رکھا ہو ، جو چند موجود ہیں، وہ اس وقت چھوٹے بچے ہوں گے ، بچپن انسان کی زندگی کا ایک خوبصورت دور ہوتا ہے چاہے یہ بچہ غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہو یا کسی امیر خاندان سے ، یہ قبل شعور کی عمر سماجی اور معاشی حالات و مشکلات سے بےخبر ہی ہوتی ہے ، اس کا کچھ انحصار ان کے والدین کی تعلیم اور شعوری معیار پر بھی ہوتا ہے ، جو ماحول بچوں کی شخصیت سازی کرتا ہے ، اسی وجہ سے آج کی نوجوان نسل جو مطالعے سے دور اور تقریبا اپنی تاریخ سے بےخبر ہے وہ بھارت اور ہندو کے بارے میں غیر حقیقی قسم کی رومانیت اور مرعوبیت کا شکار دکھائی دیتے ہیں ۔

ان کو بھارت کا کھرب پتی امبانی تو دکھائی دیتا ہے، لیکن اس ظاہری ترقی اورچمک دمک کے پیچھے چھپی دردناک سماجی تقسیم ، زات پات کا غیر انسانی نظام ، ظلم، تعصب اور استحصال دکھائی نہیں دیتا ، جس کا خصوصی طور پر نشانہ بھارت کے مسلمان اور دیگر پچھڑی زاتوں والے باشندے ہیں ، وہ بھارت جہاں مقبوضہ کشمیر کا فاروق عبداللہ تک یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے، کہ ہماے خاندان نے کشمیر کو بھارت میں شامل کروایا ، اپنے بچوں بچیوں کی شادیاں ہندو اور سکھوں میں کیں ، لیکن اسی ہندوستان میں ہم پر بھی اعتبار نہیں کیا جاتا ۔ بھارتی مسلمانوں کا کئی سال سے " شیڈول کاسٹ " میں شامل کئیے جانے کا مطالبہ ہے ، یعنی ان کی سماجی ، معاشی ، اور سیاسی حالت " شیڈول کاسٹ " سے بھی نیچے ہے ۔ یہ مطالبہ اس لئیے کیا جا رہا ہے کہ حکومت نے " شیڈول کاسٹ یعنی ادنی پیشوں اور زاتوں سے وابستہ درجہ فہرست باشندوں کے لئیے نوکریوں میں کوٹہ مختض کیا ہے ، مسلمان اتنے شدید سماجی اور معاشی استحصال کا شکار ہیں کہ وہ ان شیڈول کاسٹ میں شامل کئیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ اس طرح ہی سہی لیکن ان کو کچھ تو نوکریوں میں حصہ ملے ، ۔

کل ہی بھارت میں مسلمانوں کی بڑی آبادی کے شہر " مظفرپور " میں مسلمانوں کو کہا گیا کہ وہ اپنی دکانوں ، ڈھابوں اور رہڑیوں تک پر واضع طور پر اپنی مزہبی شناخت کا بینر لگائیں تاکہ کوئی ہندو ان سے نادانستہ طور پر بھی کوئی خریداری نہ کر لے ، اس حکم پر عمل درامد بزریہ پولیس کروایا جا رہا ہے ، اسی طرح کشمیر میں ضلع اننت ناگ میں واقع " امر ناتھ " کی یاترا کے راستے میں واقع دکانوں کے مالک مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے، کہ وہ اپنی مزہبی شناخت سرخ رنگ سے لکھے بینر کے زریعے واضع طور پر اپنی دکانوں پرلگائیں تاکہ کوئی ہندو یاتری نادانستگی میں ان سے کچھ خریداری نہ کر لے یا ان سے خرید کر کچھ کھا نہ لے ، جس سے اس کا دھرم بھرشٹ نہ ہو جاے ۔

بھارت میں مسلم آبادی کے سب سے بڑے صوبے یو پی میں چند ماہ قبل ہی چھ بار لوک سبھا کے ممبر رہنے والے عتیق احمد کو کس طرح عبرت کا نشان بنا دیا گیا، وہ دنیا نے دیکھا اس کو اس کے بھائی کو پولیس حراست میں سرعام اجرتی قاتلوں سے قتل کروا دیا گیا ، اس کے نوجوان بیٹے کو جعلی انکاونٹر میں ہلاک کر دیا گیا، اس کی بیگم کو گرفتار کر کے غائب کر دیا گیا ، ان کی جدی پشتی جائیدادوں کو بلڈوزرز سے مسمار کر دیا گیا ، پھر بھارتی چینلز کے نمائندے وہاں مسلمانوں سے اس قتل و تباہی پر طنزیہ انداز میں راے پوچھتے تو ان مسلمانوں کی آنکھوں سے بےبسی کی وجہ سے آنسو بہتے، لیکن وہ ایک لفظ بھی بولنے کی جرات نہیں کرتے، کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ وہ ایک لفظ بھی بولیں گے تو پولیس ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے گی ۔

گجرات کے مسلم کش فسادات میں ہند کی تحریک آزادی کے رہنما ممتاز کانگریسی لیڈر احسان جعفری کو سرکاری آفیسرز اور وزراء کالونی میں اس کی رہائش گاہ پر کرسی سے باندھ کر اس کے سامنے اس کی بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی، اور پھر ان سب کو پیٹرول چھڑک کر راکھ بنا دیا گیا ۔ وہ اس حملے سے قبل دوسرے وزراء اور پولیس کے اعلی افسران کو فون کرتا رہا لیکن کسی نے اس کا فون تک نہ اٹھایا ، ایسے ہزاروں واقعات میں سے کیا کیا گنوایا جاے ۔ ہمارے ہاں جو نوجوان نسل بھارت اورہندو کے بارے میں ان کی محبت میں " آرگیزم " کا شکار نظر آتے ہیں، ان کو کم از کم محکمہ مال کا ریکارڈ دیکھ لینا چاہئیے کہ تقسیم سے قبل مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی نوے فی صد زمینیں، جائیدادیں ، کاروبار اور سرکاری اعلی عہدے ہندو اور سکھوں کے پاس تھے، اور اکثریتی مسلمانوں کی حالت کمی اور رعیت والی تھی ۔

پاکستان میں ہزار خرابیاں ہیں لیکن اس کی قدر قیمت کا اندازہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ اپنے ہمسایہ بھارت میں مسلمانوں کی سماجی ، معاشی اور سیاسی حالت کا اپنی حالت سے منصفانہ موازنہ کیا جاے تب ہی ہمیں اس وطن کی قدر و قیمت کا اندازہ ہو سکے گا ، یہ وطن ہو گا تو ہی ہم کبھی نہ کبھی اسے اپنے خوابوں کی تعبیر جیسا بنا سکیں گے ۔ ورنہ کم از کم تقسیم سے قبل مسلمانوں میں ایک منظم سازش کے تحت پھیلائی گئی " ترک موالات " تحریک کے نتیجے میں ہجرت کر کے " دارالاسلام " افغانستان جانے والے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ہوے سلوک پر ہی نظر ڈال لیں ، جن بےچارے خوش فہم ہندوستانی مسلمانوں کی بیٹیاں افغانستان کے بازاروں میں نیلام کی گئیں ، ان کو لوٹا گیا اور ان کو تباہ و برباد کر کے واپس دھکیل دیا گیا ۔

مقبوضہ کشمیر کے باشعور اور تعلیم یافتہ عوام تمام تر " مراعات " لالچ اور " ریل گاڑی " کے باوجود اگر بھارت کے قبضے کے خلاف ہیں اور اس جدوجہد میں اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں ، وہاں اپنے عالمی طور پر تسلیم شدہ حق خود ارادیت کے مطالبے کی پاداش میں کشمیری رہنماوں اور کارکنوں کو بغیر کسی جرم کے تیس تیس سال سے جیلوں میں بند رکھا گیا ہے ، ان کی جائیدادیں ضبط اور مسمار کی جاتی ہیں ، ان کشمیری عوام کو ان معاملات کا ہم سے بہتر تجربہ ، شعور اورآگاہی ہے ۔

ہم نے دیکھا کہ آزاد کشمیر میں اس آٹے اور بجلی کی قیمتوں کے بارے میں عوامی احتجاج میں کن مشکوک پس منظر کے افراد نے سٹیج پر قبضہ کر کے کس طرح پاکستان کے خلاف نفرت انگیزی کی ، کس طرح کھل کر بھارت کے خلاف جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کو گالیاں تک دیں ۔ عوام کو حکومتی نظام کے مکمل انہدام اور سرکاری تنصیبات پر حملے پر اکسایا ، پاکستان اور اس کے عوام کے بارے میں کس طرح شدید نفرت انگیزی اور اشتعال انگیزی کی گئی ان کو کم از کم الفاظ میں کس کے " سہولت کار " اور آلہ کار سمجھا جانا چاہئیے ؟

بھارتی کے ہمدردوں اور سہولت کاروں کو دلائل سے کون قائل کر سکتا ہے ۔ وہ اپنے نفرت انگیزی کے کام پر پوری تن دہی سے لگے ہوے ہیں ۔ یہ تو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف جدوجہد کرنے والے کشمیری حریت پسندوں تک کو کھلے عام برا بھلا کہتے ہیں ۔ بھارت کا اور ان عناصر کا موقف اور نشانہ ایک ہی ہے ۔جس وراثت سے ڈوگرہ مہاراجہ کا اصلی وارث تک دستبردار ہو چکا ہے، یہ اس وراثت کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ مظفرآباد کے آخری ڈی سی مہتہ کی بیوہ جو محفوظ طریقے سے بھارت بھجوا دی گئی تھی، اس کے نوحے کے طور پر تو پوری کتاب لکھ مارتے ہیں، اور اسے آزاد کشمیر کی نوجوان نسل کو گمراہ کرنے، تاریخی حقائق کو مسخ کرنے اور یک طرفہ تصویر دکھانے کے لئیے استعمال کرتے ہیں، لیکن یہ کبھی نوجوانوں کو یہ نہیں بتائیں گے کہ قبائلی حملہ آور تو ایک طوفان کی طرح ڈوگرہ فوج کی باقیات سے لڑتے اور قتل و غارت کرتے سیدھے بارہ مولہ کی طرف بڑھ گئے ، تو ان کے بعد مقامی افراد نے کس طرح لوکل ہلاک شدہ یا فرار شدہ اپنے ہمساے ہندو اور سکھ افراد کے گھر لوٹے ، اور ان کے قتل میں حصہ لیا ۔ ابھی بھی بہت سے بزرگ موجود ہیں ، جنہوں نے یہ لوٹ مار خود دیکھ رکھی ہے ، ان سے ان سب باتوں کی تصدیق کی جا سکتی ہے ۔

آج کے، اپنی تاریخ سے بےخبر نوجوان کو یہ کوئی نہیں بتاے گا ، کہ قبائلی حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کے بجاے ، سری نگر سے اپنے محل کا سازوسامان ایک سو گاڑیوں میں لاد کر اپنی مسلم رعایا کو حملہ آوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر، فرار ہو کے جموں چلے جانے والے " مہاراجہ " نے قبائلی حملہ آوروں کا بدلہ کس طرح جموں میں اپنی پرامن اور نہتی مسلم " پرجا " کے منظم قتل عام اور عصمت دری کی صورت میں لیا ، اس منظم قتل عام کا آغاز اس نے جموں راج محل کے لئیے دودھ لانے والے غریب گوجروں کواپنے ہاتھ سے گولی مار کرکیا ، جن کی بےگور و کفن لاشیں نزدیک کے کوڑے کے ڈھیر پر کئی دن تک پڑی رہیں ۔ لاکھوں کی تعداد میں بےگناہ مسلم " پرجا " کو فرید کوٹ ، پٹیالا سے منگواے سکھ ریاستی فوجیوں اور ڈوگرہ فوج و غنڈوں کی مدد سے قتل کیا گیا ان کی خواتین کو اغواء کیا گیا ان کی عصمت دری کی گئی اور ہزاروں کو زبردستی پاکستان کی طرف دھکیل دیا گیا ، ان اغواء شدہ خواتین میں جیل میں بند مسلم کانفرنس کے لیڈر چوہدری غلام عباس کی صاحبزادی بھی شامل تھیں ۔

ان عناصر کو مظفر آباد کے ہندو ڈپٹی کمشنر مہتہ کی زندہ سلامت بھارت پہنچ جانے والی بیوہ کا نوحہ لکھنے کا احساس ہے ، لیکن جموں کے بےگناہ قتل کر دئیے جانے والے نہتے پرامن مسلمانوں کا ، اور ہزاروں عصمت ماب مسلم بیٹیاں کی تباہی و بربادی کا نوحہ لکھنے یا زکر تک کرنے کی توفیق نہیں یہ اپنی تاریخ کے حقائق سےبےخبر نوجوان نسل کو یک طرفہ جھوٹی تصویر دکھا کر ان میں پاکستان کے خلاف نفرت انگیزی کے مشن کی تکمیل میں کھلے عام مصروف ہیں ۔ ان عناصر کو ایسی کاوائیوں ، نفرت انگیزی ، اشتعال انگیزی کرنے کی کھلی چھوٹ، ان کے لئیے " نظام " کے اندر سے بھی پراسرار طور پر مدد ، سہولت کاری کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے ۔

ہمارے خود مختار کشمیر کا نعرہ لگانے والوں کی " خود مختاری " بھی مقبوضہ کشمیر اور بھارت کا نام لینے سے کتراتی ہے ، آپ کبھی ان کے منہ سے نہ بھارت کی مزمت سنیں گے نہ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کا زکر ، بلکہ یہ وہاں بھارت کے خلاف جدوجہد میں مصروف حریت پسندوں کو گالیاں تک دیتے ہیں، ان سے صرف ایک سوال کہ ، کیا یہ " خود مختار کشمیر " صرف آزاد کشمیر کے پونے پانچ ہزار مربع میل کے مختصر علاقے میں بنانا چاہتے ہیں ، اگر ( خدانخواستہ ) اس علاقے سے پاکستان کی تمام فورسز نکل بھی جائیں تو یہ بھارت کے اعلان کردہ عزائم کے مطابق بھارتی فوج کو آگے بڑھ کر اس علاقے پر قبضہ کر لینے سے کتنے گھنٹے روک کر اس کے سامنے اپنی " خود مختاری کا دفاع کر سکیں گے ؟ کیونکہ ایسی صورت میں بھارت صرف تین گھنٹے میں اس پورے علاقے پر قبضہ کر لینے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔

یا تو ان عناصر کو بھارت ، راج ناتھ یا اجیت دوگل کی طرف سے کوئی خفیہ یقین دہانی دی جا چکی ہو کہ بھارت اگے بڑھ کر ان کی خود مختاری کو تہس نہس نہیں کر دے گا ۔ ان عناصر کی نفرت انگیزی کانشانہ اور رخ صرف پاکستان کی طرف ہونا اور بھارت یا مقبوضہ کشمیر اور وہاں بھارت کے مظالم کا نام تک نا لینا قابل غور ہے ، اور بھارت کے موقف اور عزائم کی ہی سہولت کاری کے مترادف ہے ۔
واپس کریں