دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
" دانش مردود "
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
کیسی بدنصیب نسل ہیں ہم لوگ بھی ۔ دنیا میں کسی بھی ملک کے عوام ، حتی کے قحط ، خانہ جنگی ، غربت اور خشک سالی ، بدامنی کا شکار افریقی ممالک میں بھی لوگ اپنے ملک کے نظام کی مخالفت کرتے ہیں ، لڑتے ہیں ، حکومتوں کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں ، خانہ جنگیوں میں اور حکومت کے خلاف پرتشدد مظاہرے تک کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کہیں بھی، کوئی اپنے ملک کو توڑنے اس کے حصے بخرے کرنے یا اس سے الگ ہونے کی بات نہیں کرتا ۔

عراق ، افغانستان ، لیبیا اور شام میں شدید نسلی ، اور لسانی تنوع اور آپس کی مخالفتوں سیاسی تفریق ، ان ممالک میں طویل المدتی بیرونی فوجی مداخلت اور مقامی حکومتوں اور نظام کی شکست کے باوجود ان ممالک میں کہیں بھی ان کی وحدت اور جوازیت پر سوال نہیں اٹھایا گیا اور ان تمام مشکلات کے باوجود ان ممالک کے عوام کی طرف سے ان ممالک کو تقسیم کرنے کے بیرونی فاتح قوتوں کے ارادوں کے خلاف شدید مزاحمت اور مخالفت کی گئی ، ان ممالک کے عوام نے اپنے باہمی اختلافات اور نسلی تضادات کے باوجود ، اپنے ممالک کی وحدت اور سالمیت کو تمام تر مشکلات کے باوجود برقرار رکھا ، اور اپنے ملک کو تقسیم نہیں ہونے دیا۔

یہ بددعا اور نحوست صرف ہمارے ہی ملک پر مسلط ہے کہ لوگ بھارت کے مسلمانوں کی حالت زار ، بیچارگی و بیبسی دیکھتے ہوے بھی ، دوسری طرف افغانستان میں وہاں کے باشندوں کی حالت اور وہاں انسانی بنیادی آزادیوں اور حقوق کی المناک حالت دیکھتے ہوے بھی ، دشمن طاقتوں کے ہمارے بارے میں اعلانیہ عزائم سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی، اپنے وطن کے جواز پر اس کی بنیاد پر سوال اٹھاتے ہیں ، بلکہ اس کی وحدت اور سالمیت کی کھلے عام مخالفت تک کرتے ہیں۔ گویا ہماری جس نسل نے یہ ملک حاصل کرنے کے لئیے اپنی جانوں تک کی قربانیاں دیں ، اس وطن کے حصول کی جدوجہد میں اپنی زندگیاں برباد کیں ، وہ خدانخواستہ کسی پاگل پن کا شکار تھے یا شعور اور فہم سے بالکل عاری لوگ تھے ، موجودہ نسل کے وہ لوگ جو اپنے ہی ملک کی بنیادوں اور اس کے وجود کے انہدام کے عمل میں کسی بھی طرح سے مشغول ہیں ، یا اس کی خواہش رکھتے ہیں، یہ نفرت ، تعصب اور تفرقے کے سوداگر ، دشمن کے عزائم کی تکمیل کے لئیے دانستہ یا نادانستہ طور پر آلہ کار کا مکروہ کردار ادا کر رہے ہیں ، اور اپنے مستقبل کا منظر نامہ تصور کئیے بغیر ملک کے بکھر جانے کو اپنے مسائل کا حل سمجھتے ہیں ۔

حقوق کے ساتھ ہمیشہ کچھ فرائض بھی ہوا کرتے ہیں، ورنہ حقوق کی غیر واضع اصطلاح گمراہ کن اور تباہ کن ثابت ہوا کرتی ہے ، حقوق کا تعین ہمیشہ اجتماعی قومی مفاد اور دستیاب وسائل کے لحاظ سے کیا جاتا ہے ، نہ کہ کسی " گروہ " کی زاتی خواہشات کے مطابق ۔ کوئی آزادی کچھ پابندیوں کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوا کرتی ۔ حقوق و فرائض میں توازن نہ ہو تو انارکی ، انتشار اور متعصبانہ تقسیم پیدا ہوتی ہے جس سے ہمیشہ دشمن ہی فائدہ اٹھایا کرتے ہیں ۔ نظام کو درست کرنے کی ، نشاندھی اور کوشش کے بجائے ملک کے وجود پر ہی سوال اٹھا دینا ، مایوس ہونا اور مایوسی پھیلانا ، شکست خوردگی اور دشمن کے عزائم کے آلہ کار بننے کے مترادف ہے ۔ یہ ملک برا نہیں اس کے وجود کی مخالفت کرنے والے یہ کوتاہ اندیش، ناشکرے لوگ ہی بدنسل لوگ ہیں ۔

اگر ان کے عزائم خدانخواستہ پورے ہوتے ہیں، تو ان کا مستقبل برما کے مسلمانوں سے ملتا جلتا ہو گا ۔ تب ان کی پشیمانی بھی ان کے کسی کام نہیں آئے گی ۔ یہاں بہت سے بظاہر تعلیم یافتہ افراد کا نام نہاد" شعور " سادہ لوح ، نیم خواندہ ، اور مختلف جاہلانہ تعصبات کے شکار اپنے ملک کے عوام کو اپنے وطن کے وجود سے متنفر کرنے ، ان کے درمیان نفرتیں پھیلانے ، ان کو گمراہ کرنے کا کام اس طرح کر رہا ہے، جیسے یہ بہت قومی خدمت اور نیک کام ہو ۔

ہمارے وطن میں سب اچھا نہیں ہے اس کے قیام کے پچھتر سال کے بعد بھی ہمیں اس کو اس کے قیام کے مقاصد کے مطابق بنانے کے لئیے بہت سا کام کرنے ، اس ملک کے نظام کی بہتری کے لئیے، بہت سی تبدیلیوں اور غلطیوں کی درستگی ، اور بہتری کے لئیے مسلسل اور انتھک جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ لیکن المیہ یہ کہ ہمارے قومی وجود اور اتحاد کے دشمن ان عناصر کو ان وطن دشمن، مزموم اقدامات ، اور ملک دشمن نظریات کو پھیلانے کی بغیر کسی مزاحمت کے پوری آزادی حاصل ہے ، ہمارے ملک کے وجود پر یقین رکھنے والے دانشور مجرمانہ طور پر خاموش رہ کر نہ جانے کس المئیے کا انتظار کر رہے ہیں ۔
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو




واپس کریں