دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وانی قوم کا تاریخی پس منظر شواہد کی روشنی میں
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
وانی یا وانڑی کا ذکر ہمیں قبل از آریا کے دراوڑ کلچر میں ملتا ہے جہاں اس شاندار تہذیب کے موئنجو دڑو اور ہڑپہ جیسے شہروں اور دیہات میں کاروبار " وانڑیوں " کے ہاتھ تھا جو یہ پیشہ یا کام نسل در نسل کیا کرتے تھے۔سندھی زبان میں آج بھی کاروبار ، بیوپار کو " ونڑج" کہا جاتا تھا بلکہ سندھی زبان اور ادب کے سرکاری تحقیقی ادارے " سندھی ادبی بورڈ کی شائع کردہ کتاب " وادی سندھ کے قدیم شہر اور باشندے " میں سندھ کی قدیم اقوام کے ضمن میں " وانیا " قبیلے کا زکر ہے جو زمینداروں سے ان کی فصلیں خرید لیا کرتے تھے۔ آج بھی تھر کے علاقوں میں وانیا قوم موجود اور اپنے ابائی پیشہ سے وابستہ ہے ۔ ہندو بنیا بھی دراصل یہ ہی قدیم " وانیا " ہی ہے ۔ موئنجو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیب میں ہمیں دو طبقات کا ذکر ملتا ہے ایک " اسور " دوسرے "ورتر " ۔ ان میں سے "ورتر" حکمران اور سرکاری عمال ہوا کرتے تھے اور" اسور" عوام تھے، جن میں کاشت کار ، ہنر مند ، تاجر دکاندار شامل ہوا کرتے تھے۔ وانڑیں ان ہی اسوروں میں شامل سمجھے جاتے تھے ۔

جب انڈس سویلائزیشن کی اس شاندار اور پرامن تہذیب کو آریا حملہ آوروں نے مغلوب اور مفتوح کر لیا تو باقی مقامی باشندوں کو انہوں نے داسیو یعنی خدمت گار اور شودر کا درجہ دیا۔ لیکن کیونکہ آریا تجارت کا ہنر نہیں جانتے تھے اس لئیے انہوں نے تجارت اور کاروبار کا ہنر جاننے والوں کو " ویش " کا درجہ دے کر اپنی سوسائٹی میں شامل کر لیا ۔ سنسکرت زبان میں " جاننے والے یا علم رکھنے والے کو " وانی " کہا جاتا ہے۔ابتدائی طور پر یہ حوالہ کاروبار کے ہی متعلق تھا یعنی کاروبار کا علم رکھنے والے ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سنسکرت میں اس اصطلاح کے معنی میں وسعت آتی چلی گئی اور جدید سنسکرت میں " وانی " کا مفہوم و مطلب جاننے والا یا علم رکھنے والا کے طور پر لیا جاتا ہے ۔ اسی لئیے ہندوستان کے سرکاری ریڈیو کا نام " آکاش وانی " رکھا گیا جس کا مطلب آکاش یعنی آسمان کا علم یاخبر رکھنے والا ہے ۔

دراوڑ تہذیب پرمکمل غلبے کے بعد ایک نئے سماجی اور معاشرتی نظام کی ضرورت محسوس کی گئی، تاکہ فتح کے فوائد کو ایک سماجی معاشرتی شکل دے کر طبقات پر مشتمل ایک تخصیصی سماج کی بنیاد رکھی جا سکے۔ اس معاشرے میں براہمن کا رتبہ سب سے اعلی رکھا گیا۔ وہ مذھب کی ترویج و تشریح کے اجارہ دار ٹہراے گئے ، پھر کھشتری تھے جو جنگجو ہوا کرتے تھے اور عموما حکمران بھی کھشتریوں میں سے ہی ہوا کرتے تھے ، پھر نئے شامل کردہ ویش اور پھر ادنی ذات ٹہرائے گئے شودر ۔وانی یا وانڑیں کی موجودگی صرف کشمیر تک محدود نہیں ہے ۔ آج کے پنجاب میں بھی یہ موجود ہیں اور " وائیں " کہلاتے ہیں ، صوبہ پختون خواہ کے خصوصا ہزارہ کے علاقوں میں یہ کاروباری قبیلہ موجود ہے جنھیں وہاں " پنی " کہا جاتا ہے ۔ مشہور کتاب " تاریخ ہزارہ " کیمصنف " شیر بہادر خان پنی " بھی خود کو کاروباری پیشہ نسل قرار دیتے ہیں ۔ گویا سندھ کا " وانڑیں ہو ، بھارتی گجرات کا "بنیا" ہو, تھر کے علاقوں کا " وانیا " ہو ، پنجاب کا " وائیں " ہو ، پختون خواہ کا " پنی " ہو یا کشمیر کا "وانی" ان سب میں قدر مشترک ان کا پیشہ یعنی کاروبار اور دکانداری ہے ، یہ سب جہاں بھی ہیں زیادہ تر اپنے قدیم ترین پیشے سے ہی وابستہ ہوتے ہیں ۔

رہے کشمیر کے " وانی " تو ان کی کشمیر میں موجودگی اور آمد کی بھی دلچسپ کہانی ہے ،سندھو دھرتی یعنی انڈس سویلائزیشن جسے آرین قبائل نے " سپت سندھو ( سات دریائوں کی سرزمین ) کا نام دیا اس تمام خطے پر آریا قبائل نے اپنی جنگی برتری کی بنا پرقبضہ کر لیا تو مقامی آبادی کا ایک حصہ اپنا مال و متاع لے کر اپنی جان مال اور عزت بچانے کے لئیے یہاں سے ہجرت کر کے وادی کشمیر جا پہنچا ، یہ وادی، عظیم جھیل" ستی سر" کا بند ایک زلزلے سے ٹوٹ جانے کی وجہ سے جھیل کا پانی آج کے دریاے جہلم کے رخ پر خارج ہونے کی وجہ سے اس عظیم جھیل کی تہہ سے نمودار ہوئی تھی ، اس ٹوٹی ہوئی رکاوٹ کے آثار ہمیں آج بھی اوڑی سے کچھ نیچے کی طرف دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ وادی اس زمانے میں بالکل خالی پڑی تھی ، کیونکہ اس تک پہنچنا آج کے جموں کی سمت سے پیر پنجال کے انتہائی دشوار گزار حصہ ہونے کی وجہ سے تقریبا ناممکن تھا ، لیکن سپت سندھو کی طرف سے یہاں وادی کشمیر میں آنے کے نسبتا آسان کئی راستے تھے، تو سندھو تہزیب کے قدیم باشندوں میں سیکچھ باشندے مغلوب ہو جانے کے بعد ہجرت کر کے خالی پڑی وادی کشمیر پہنچے اور یہاں آباد ہوگئے ۔ ان میں ناگ کو پوجنے والے سونے اور قیمتی پتھروں کا کاروبار کرنے والے امیر ترین لوگ بھی تھے ، ناگ کو اج بھی خزانے کی علامت سمجھا جاتا ہے ، لہزا یہ ناگ قبائل چونکہ سونے اور قیمتی پتھروں کے کاروبار سے متعلق تھے تو یہ اپنی دولت کے علامتی محافظ کے طور پر " ناگ پوجا " کیا کرتے تھے ، لہذا یوں اس وقت کی اس نوآبادی " وادی کشمیر " کا مزھب " نیل مت پرانت " کہلایا جس میں ناگ پوجا ہوا کرتی تھی اور وادی کشمیر کے بہت سے چشموں اورجھیلوں کو علامتی طور پر ناگ کی موجودگی کا مقام قرار دے کر وہاں پوجا کی رسومات کاآغاز ہوا ۔

اب ہم اپنے بنیادی موضوع کی طرف آتے ہیں ان نوآباد کاروں میں کچھ گھرانے سندھو دیش والے وانڑیوں کے بھی تھے جنہوں نے غالب اور قابض آریا کے ساتھ یا ماتحت رہنا مناسب نہ سمجھا اور ہجرت کر کے اپنے ہم وطن دوسرے مختلف نسلوں ، مختلف پیشوں سے وابستہ آبادی کے ساتھ سندھو دیش سے ہجرت کر کے وادی کشمیر میں آ کر آباد ہو گئے اور یہاں بھی اپنے آبائی پیشہ یعنی تجارت اور دکانداری کو جاری رکھا ۔ وانیوں کی تجارت کے ساتھ وابستگی کی ایک علامت ہمیں کشمیری زبان میں بھی ملتی ہے جہاں کشمیری زبان میں دکان کو " وان" کہا جاتا ہے ، یہ لفظ بھی ایک طرح سے وانی کی ہی نمائندگی کرتا ہے ۔

کشمیر کی اصل اور اکثر آبادی وہی سندھو سویلائزیشن ( اج کے سندھ اور پنجاب ، اور پختون خواہ کے کچھ ملحق حصوں) سے ہجرت کر کے وادی میں آ کر آباد ہو جانے والے افراد اور خاندانوں ، اور گروہوں پر ہی مشتمل ہے ۔ گو کہ بعد کے ادوار میں چینی اور روسی ترکستان ، وسطی ایشیا اور ایران سے بھی لوگوں کے کشمیر آ کر آباد ہونے کے ثبوت ملتے ہیں جس کے واضح اثرات ہمیں کشمیر کی ثقافت ، لباس، کھانوں ، برتنوں اور مستعمل اوزاروں کی شکل میں نظر آتے ہیں ۔ مثال کے طور پر وادی کشمیر میں چاے کو گرم رکھنے کے لئیے ایک مخصوص ساخت کا منقش برتن استعمال ہوتا ہے جسے "سماوار" کہا جاتا ہے ، یہ برتن دراصل روس سے یہاں آیا ہے روس کے دیہات میں یہ اب تک استعمال ہوتا ہے اور دلچسپ بات یہ کہ اسے روسی زبان میں بھی سماوار ہی کہا جاتا ہے ۔

ہمیں اج تقریبا پانچ ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود اس قدیم علاقے سندھو تہزیب سے رشتے اور تعلق کی کئی ثقافتی علامات وادی کشمیر میں دکھائی دیتی ہیں، جن میں سے ایک " ندر تہ گاڈ " ( ندرو اور مچھلی)کا پکوان بھی ہے، جس میں مچھلی کو تیز مسالہے مرچ کے ساتھ، کنول کی جڑ جسے کشمیر میں ندرو کہتے ہیں پکایا جاتا ہے اور ابلے ہوے چاول کے ساتھ کھایا جاتا ہے ۔ سندھ کے قدیم سندھیوں میں اج تک یہی پکوان اسی طرح مچھلی کو کنول کی جڑ کے ساتھ جسے وہاں سندھ میں " بیں " کہا جاتا ہے تیز مرچ والے سالن کی شکل میں پکا کر سفید ابلے چاول کے ساتھ کھایا جاتا ہے ۔ سندھ اور کشمیر کے قدیم رابطوں کا زکر ہمیں سندھ کے راجہ " راجہ داھر " کی شکل میں ملتا ہے جو کئی نسل قبل کشمیر سے واپس آ کر سندھ میں اباد ہونے والوں کی نسل سے تھا ۔ اور محمد بن قاسم کے ساتھ ایک خط میں راجہ داھر کشمیر پر حکمران اپنے " رشتہ داروں " کی طاقت کا حوالہ بھی دیتا ہے اور اس نے اپنے خاندان کے کچھ افراد کو جنگ میں شکست دیکھتے ہوئے پناہ کے لئیے کشمیر بھجوا دیا تھا ۔

آرین کشمیر میں کافی بعد میں آے اس وقت تک یہ سپت سندھو سے اگے بڑھ کر گنگا و جمنا کے وسیع اور زرخیز خطوں پر قابض ہوچکے تھے لحذا کشمیر میں اولین آریا براہمن مبلغین کی شکل میں آئے اور یہیں آباد ہوئے اور اپنے حسن سلوک سے مقامی باشندوں کے دل جیت لئیے اور اس طرح رفتہ رفتہ یہاں کے قدیم مذھب " نیل مت پرانت " کا خاتمہ کر کے عوام کی وسیع تعداد کو ہندو مت میں شامل کر لیا ۔ کشمیر میں آج کے ہندو پنڈت ان ہی ابتدائی مبلغین کی ہی نسل ہیں اور ان کے حسن سلوک کے اثرات ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی مقامی ابادی کی ان کے بارے میں محبت اورخیر سگالی کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے ۔
واپس کریں