دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مسئلہ کشمیر کے تاریخی حقائق اور کچھ گمراہ کن مغالطے
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم

ہمارے عزیز دوست ایک صاحب راے ، اور ممتاز دانشور نے تحریر فرمایا ہے کہ انیس سو سینتالیس میں لارڈ ماونٹ بیٹن نے قائد اعظم کو کشمیر میں رائے شماری کی تجویز دی تھی جو کہ قائد اعظم نے ٹھکرا دی تھی ، یہ بات معاملے کے سیاق و سباق کے لحاظ سے درست اور منطقی نہیں ہے کیونکہ کشمیر میں راے شماری کی تجویز لیاقت علی خان کے دور میں آپریشن بیری پتن جس کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا ، کے دوران بھارت کی طرف سے پیش کی گئی ، لہذا یہ کہنا کہ لارڈ ماونٹ بیٹن نے اس سے پہلے ہی قائد اعظم کو یہ تجویز پیش کی ، حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا ، کیونکہ کشمیر واحد ریاست ہے جس پر طویل جنگ چھڑی اور اس کے نتیجے میں یہ معاملہ بھارت کی طرف سے ہی اقوام متحدہ میں لے جایا گیا ۔ اس سے قبل باقی کسی ریاست میں راے شماری عمل میں نہیں آئی بلکہ ان ریاستوں کے عوام کی اکثریت کی طرف سے مذہبی رجحان کی بنیاد پر ہی ازخود یہ طے کر لیا گیا کہ ان ریاستوں کا ادغام ان کے عوام کے مذہبی رجہان کی بنیاد پر منطقی طور پر کس طرف ہونا چاہئیے ۔

اس سلسلے میں حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کی ریاستیں جہاں کے مہاراجہ یا نواب مسلمان تھے جبکہ وہاں کی رعایا کی اکثریت ہندو تھی ، ان میں سے حیدآباد دکن کی ریاست ریاست کشمیر سے بھی بڑی اور امیر ریاست تھی۔ اس کے حکمران نظام کی خواہش تھی کہ وہ خودمختار رہے، لیکن بھارت نے وہاں کی آبادی میں ہندو اکثریت کے بہانے قائد اعظم کی وفات کے فورا بعد فوج کے زریعے حملہ کر کے ریاست پر قبضہ کر لیا۔ اسی طرح جونا گڑھ کی ریاست جہاں کے نواب مسلمان اور رعایا کی اکثریت ہندو تھی اس پر بھی اسی بہانے ہندوستان نے قبضہ کر لیا کہ وہاں کے مسلم حکمران کو اپنی رعایا کے اکثریتی رجحان کے برخلاف فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ یہ سب لارڈ ماونٹ بیٹن کی موجودگی میں اور اس کے سامنے ہوتا رہا ، لیکن اس نے ان میں سے یا دیگر کسی بھی ریاست میں راے شماری کی تجویز نہیں دی ۔ تو ان حالات میں یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کی تجویز قائد اعظم کو پیش کرتا ، خصوصا تب جب بھارتی قیادت اس پیشکش سے بے خبر یاشامل نہ ہوتے ۔

دوسری طرف کچھ عناصر مہاراجہ کی طرف سے پاکستان کے ساتھ " سٹینڈ سٹل معاہدے " کو مہاراجہ کشمیر کی " نیک نیتی" کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ریاست کشمیر میں زمینی ممکن ، آسان اور نزدیک ترین زمینی رابطوں کی وجہ سے ریاست میں ڈاک اور تار مواصلات کا نظام پہلے سے ہی پاکستان بن جانے والے علاقوں کے ذریعے ہی چل رہا تھا کیونکہ ان دنوں کہیں اور سے یہ رابطہ ممکن ہی نہ تھا۔ یہ سب پاکستانی ملحقہ علاقے ریاست جموں کشمیر سے نزدیک ترین ہر موسم میں کھلے رہنے والے راستوں کے ذریعے منسلک تھے ، جبکہ بھارت کی طرف سے کشمیر آنے کا کوئی قریبی اور آسان راستہ تک نہ تھا۔ یہ راستہ بعد میں اس کو مسلم اکثریتی علاقہ گرداسپور کے ریڈ کلف ایواڈ کے تحت بھارت کو مل جانے کی وجہ سے ملا ۔ وہ بھی بہت دور اور مشکل راستہ تھا ۔ پاکستان سے اس سٹینڈ سٹل معائدے کی آڑ میں مہاراجہ بھی کچھ پراسرار سرگرمیوں میں مصروف تھا ایک پراسرار کردار " سوامی راج گرو" راسپوٹین کی طرح بھارت سے آ کر اس کے محل میں مہارانی تارہ دیوی کا خصوصی مہمان بنا ہوا تھا ۔اس شخص کے پس منظر سے کوئی آگاہ نہ تھا لہذا حالات و قرائن کی روشنی میں اب یہ کہا جا سکتا تھا کہ وہ بھارت کی طرف سے خصوصی مشن پر بھیجا گیا کوئی تربیت یافتہ ایجنٹ تھا ، جو مہارانی تارہ دیوی جس کا مہاراجہ پر بہت اثر تھا ، کے ذریعے مہاراجہ کی بھارت سے الحاق اور اس سے مدد مانگنے کے لئے ذہن سازی میں مصروف تھا۔

اس کاوش کا اثر ہمیں مہاراجہ کے وزیر اعظم رام چندر کاک کے ہندوستان کے پے درپے خفیہ دوروں اور وہاں نہرو اور لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ ملاقاتوں سے ملتا ہے۔ اس ساری صورتحال سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ مہاراجہ اس معاہدے کے بہانے اور دھوکے سے اتنا وقت حاصل کرنا چاہتا تھا کہ بھارت کشمیر میں اپنی فوجی مہم کی تیاری مکمل کر سکے ۔ بعد کے حالات نے اس بات کی تصدیق کی ۔ کیونکہ کشمیر میں فوجیں اتارنے کے آپریشن کی کمان خود لارڈ ماونٹ بیٹن کر رہا تھا، جس کی بیگم پر پنڈت جواہر لال نہرو کا گہرا اور قریبی اثر بھی تھا ۔ریاست کشمیر میں فوج بھیجنے کے لئیے کافی عرصہ قبل ، بلکہ مہاراجہ کے بھارت سے مدد مانگنے کی دستاویز پر دستخط سے کافی عرصہ پہلے سے تیاری جاری تھی ، جس کے لئیے اس آپریشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئیے ایک سو سول اور فوجی ہوائی جہازوں کا انتظام کر رکھا گیا تھا ، ( حوالہ، کشمیر کی سرزمین پر اترنے والے پہلے بھارتی فوجی دستے کے کمانڈر ایل پی سین کی کتاب " سلنڈر واز تھریڈ " میں یہ سب تفصیل درج ہے۔

) پاکستان نے راے شماری کی تجویز کو رد نہیں کیا تھا بلکہ ان قراردادوں پر عمل درآمد کے لئیے اقوام متحدہ کی طرف سے فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان اور بھارت اپنی افواج کا بڑا حصہ کشمیر سے نکال لیں گے، جبکہ راے شماری کے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی عمل کے دوران مقامی امن و امان کے لئیے چھ ہزار بھارتی فوج کشمیر کی ریاست میں رہے گی ، یاد رہے کہ بھارت کی اس وقت کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں فوج موجود تھی بلکہ وادی سے لولاب ، ہندواڑہ اور تراگبل کی طرف ایڈوانس کرتا ہوا آٹھ برگیڈ پر مشتمل بھارتی ڈویثن جو جنرل تھمایا کی کمان میں گریز کی طرف ایڈوانس کر رہا تھا جس کی تفصیل کتاب " تھمایا آف انڈیا " میں موجود ہے ۔ اس کے علاوہ بھارتی فوج کے تین برگیڈ اوڑی مظفرآباد روڈ اور اس کے اطراف سے مظفرآباد کی طرف ایڈوانس کر رہے تھے ۔ پونچھ ، نوشہرہ ، جھنگڑ پر حملے میں مصروف ڈویثن ان کے علاوہ تھے، جن کے جواب میں پاکستان کی طرف سے جنرل نزیر کی کمان میں صرف نمبر 4 ڈویثن کچھ مجاہدین کے ہمراہ دفاعی رول میں تعینات تھا ۔

تو بھارت کی مسلسل وعدہ خلافیوں کے پیش نظر پاکستان نے یہ کہا کہ فوجوں کا انخلا اقوام متحدہ کیے نمائندوں کی زیر نگرانی ہونا چاہئیے تاکہ بھارت اپنی بھاری فوجی برتری کی وجہ سے پاک فوج کے خالی کئیے آزاد کشمیر کے علاقوں پر اچانک حملہ کر کے قبضہ نہ کر لے ۔ یہ خدشہ بیجا نہ تھا کیونکہ پونچھ کے محاصرے میں جب پونچھ پر قبضہ ہونے ہی والا تھا، توپنڈت نہرو نے خود لیاقت علی خان کو فون کر کے پونچھ سے عورتوں کو نکال لینے اور پھر قبضہ پاکستانی فورسز کو دینے کا وعدہ کیا۔ جب لیاقت علی خان نے اس پر اعتبار کرتے ہوے انسانی بنیادوں پر یہ حملہ روک دیا تو بھارت نے عورتوں کو نکالنے کے بہانے مزید فوج اور توپیں پونچھ کے ہوائی اڈے پر اتار دیں اور پھر حملہ کر کے پونچھ کا محاصرہ توڑ دیا اور پونچھ اور اوڑی کا راستہ اس پر قبضہ کر کے بحال کر دیا ۔اس پر جنرل گریسی جو پاک فوج کے اس وقت کمانڈر انچیف تھے ، جو اس سے قبل تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کرتے ہوے خود کو کشمیر کی جنگ سے لاتعلق ظاہر کرتے تھے ، اور پاکستان کی قیادت کی طرف سے ملنے والے ہر حکم کو اپنے سپریم کمانڈر " آکنلیک " جو پاکستان اور بھارت کی افواج کے مشترکہ سپریم کمانڈر بھی تھے، کی منظوری سے مشروط کرتے تھے ، جبکہ دوسری طرف ہمیں وائسراے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن ہمیں بھارت کی افواج کے کشمیر میں اتارنے اوربھجوانے کے آپریشن کی خود قیادت کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔

تو جنرل گریسی نے لیاقت علی کو خط لکھا کہ بھارت کی فوج کے نوشہرہ جھنگڑ سیکٹر میں ایڈوانس سے پاکستان کے زیر قبضہ کوٹلی ، میر پور اور جی ٹی روڈ تک کو خطرہ ہے لہذا بھارت کو وہیں روکنا ضروری ہے۔س پر پوری کور کا توپخانہ ، ایک آرمڈ برگیڈ اور دو باقائدہ انفنٹری برگیڈز کا اجتماع کر کے بیری پتن کے علاقے میں بھاری توپوں سے شدید گولہ باری کی گئی حتی کہ ایک رات میں پانچ ہزار سے زائد گولے فائر کئیے گئے جن کی زد میں بہت سے ایمونیشن ڈپوز کے علاوہ اکھنور پل تک آیا ۔ اب اس گولہ باری کے بعد زمینی حملہ کرنا تھا ، جس کے بارے میں تمام فوجی ماہرین کی راے تھی کہ اگر یہ حملہ کیا جاتا ہے ، تو رسل و رسائل کی برتری اور آسانی کی وجہ سے یہ حملہ اپنے ابتدائی تھرسٹ سے ہی جموں ہر قبضہ کر لیتا۔ اس پر حالات کی نزاکت بھانپتے ہوے بھارت فوری طور پر اقوام متحدہ میں چلا گیا ، اور وہاں کشمیر کا فیصلہ کشمیری باشندوں کی رائے کے مطابق راے شماری سے کروانے کا وعدہ کیا اس پر یہ مجوزہ حملہ جو پاکستان کی طرف سے ہونا تھا روک لیا گیا، کہ اب تو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کے زریعے پرامن طریقے سے یہ مسئلہ حل ہورہا ہے ، لیکن بھارت نے مزید افواج لا کر وعدہ خلافی کرتے ہوے کشمیر پر اپنا قبضہ مزید مستحکم کر لیا ۔ اور اب حیلے بہانوں سے اقوام متحدہ جہاں یہ مسئلہ وہ خود لے کر گیا تھا ، اس مسئلے کو طویل لایعنی بحثوں کے زریعے طول دینے لگا ۔ اور اقوام متحدہ کی راے شماری کے بارے میں قراردادوں پر عمل کرنے پر حیل و حجت سے کام لینے لگا ۔

یعنی بھارت کی کشمیر کے محاز پروعدہ خلافیوں اور دھوکوں کی پوری ایک تاریخ تھی جس کی وجہ سے فوجوں کے یکطرفہ انخلا کے بارے میں پاکستان کے خدشات بیبنیاد نہ تھے ۔ بھارت کی نیت میں چونکہ واقعی فتور تھا لہذا اس نے اقوام متحدہ جس نے اپنی نگرانی میں رائے شماری کروانی تھی، اس کی نگرانی میں انخلا سے صاف انکار کر دیا ۔ یہاں ایک اہم معاملہ کہ جیسا آپ نے لکھا ہے کہ ( بظاہر ) مہاراجہ آزاد اور خودمختار رہنا چاہتا تھا اور اس کو اس خواہش میں شیخ عبداللہ کی حمایت بھی حاصل تھی، لیکن پھر بھی مہاراجہ نے اقوام متحدہ میں پاکستان یا بھارت سے الحاق کی محدود آپشنز میں ریاست کی خود مختاری کی آپشن شامل کروانے کی کوئی رسمی سی کوشش بھی نہیں کی بلکہ مہاراجہ اور شیخ عبداللہ نے اپنی پوری حمایت بھارت کے پلڑے میں ڈال دی ۔

اس کے بعد انیس سو اکاون میں اقوام متحدہ کی طرف سے آسٹریا کے جج سر اوون ڈکسن نے بحیثیت نمائندہ اقوام متحدہ براے راے شماری کشمیر کا دورہ کیا اور یہاں تمام فریقین سے تفصیلی ملاقاتیں اور دورے کئیے تاکہ رائے شماری کے لئیے قابل عمل لائحہ عمل مرتب کیا جا سکے ، انہوں نے متعلقہ تمام لیڈرز سے ملاقاتوں کے بعد کشمیر کی مختلف اکائیوں لداخ ، جموں ، وادی ، آزاد کشمیر ، اور گلگت بلتستان کے عوام کی خواہشات کے پیش نظر یہ سفارش کی کہ ان اکائیوں میں الگ الگ رائے شماری کروا کر ان علاقوں کے عوام کی رائے معلوم کی جائے ، تاکہ کوئی اکثریتی اکائی اپنی تعدادی برتری کی وجہ سے دیگر علاقوں کے عوام کی خواہشات کو یرغمال نہ بنا سکیں ۔ مطلب اندر سے یہ تھا کہ کیونکہ آبادی کے لحاظ سے بنیادی اور سب سے بڑی اکائی وادی کشمیر تھی جس کی مسلم اکثریت کا رجہان واضح تھا ، اور خدشہ تھا کہ رائے شماری میں ان کی تعدادی برتری کی وجہ سے بدھ اکثریتی لداخ اور ہندو اکثریتی جموں بھی پاکستان کی طرف نہ چلے جائیں ۔ پاکستان نے اپنے تحفظات کے باوجود سر اوون ڈکسن کی ان تجاویز کو بھی تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ۔

یہاں ضمنی طور پر یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ علاقائی لحاظ سے رائے شماری کے نتیجے میں یہ واضح تھا کہ دریائے چناب کے پار ہندو اکثریت اور بدھ اکثریت اپنے مذہبی رجحان اور خواہش کے مطابق بھارت کے حق میں فیصلہ کریں گے اور دریائے چناب سے اس طرف وادی کشمیر ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے مسلم اکثریتی علاقے اپنے رجحان اور خواہشات کے مطابق پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کریں گے ۔ اسی وجہ سے اسے " چناب فارمولہ " بھی کہا گیا ۔ لیکن بھارت نے اب بھی اپنی فوجی برتری اور طاقت کے بل بوتے پر یہ تجاویز تک ماننے سے صاف انکار کر دیا ۔ جبکہ پاکستان اپنے تحفظات جن کا زکر کیا گیا ہے ، کے باوجود ریاست کی الگ الگ اکائیوں میں الگ الگ راے شماری پر بھی رضامند ہو گیا تھا ۔لہذا یہ کہنا کہ پاکستان کی وجہ سے ریاست کشمیر میں رائے شماری نہیں ہو سکی ، مکمل طور پر بے سروپا اور بے بنیاد بات ہے جو تاریخی حقائق و شواہد کو مسخ کرنے کے مترادف ہے ۔
واپس کریں