دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
غلطی یا سازش، حل طلب معمہ
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
آزاد کشمیر میں عوام کو احتجاج پر مجبور کرنے کی حکومتی کوشش کی اصل وجوہات پر غور کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ ناجائز اور غیر قانونی احتجاج اور اجتماعات کو روکنے کے لئیے پہلے ہی دفعہ144 سمیت بہت سے قوانین موجود تھے ، تو ان قوانین کی موجودگی میں آزاد کشمیر حکومت کو آخر اجتماعات پر پابندی اور صرف رجسٹرڈ تنظیموں کو پیشگی اجازت کے ساتھ احتجاج یا اجتماعات کی اجازت دینے کے غیر قانونی ، غیر ائینی اور مضحکہ خیز قانون کو بنانے اور جانتے بوجھتے ہوے عوام کو احتجاج پر ابھارنے کی کیوں ضرورت پڑی ، اور کیا ایسے غیر آئینی قوانین سے کسی شہری سے اس کے احتجاج کرنے کا قانونی و آئینی حق چھینا یا سلب کیا جا سکتا ہے ؟

اتنے سادہ لوح اورمعصوم یہ اہل اقتدار بھی نہیں کہ ویسے ہی ایسے مضحکہ خیز اور ناقابل عمل قوانین منظور کریں ، لہذا شائبہ ہوتا ہے کہ یہ پابندی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اور یہ معلوم ہوتے ہوئے کہ عوام اس قانون کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے، بلکہ اس کے خلاف ان میں شدید ردعمل پیدا ہو گا اور وہ اس کے نفاذ کے خلاف اور اپنے قانونی و آئینی حق کی حمایت میں شدید احتجاج کریں گے ، پھر بھی اس قانون پر اصرار کیا گیا۔ عدالت نے گو اس قانون کو " عارضی طور پر معطل کردیا ہے، گو کہ اس غیر ضروری اور غیر آئینی قانون کو یکسر منسوخ کیا جانا چاہئیے تھا ، جو کسی شہری کے بنیادی آئینی اور قانونی حقوق پر ناجائز قدغن عائد کرتا ہے، لیکن مقصد شاید اس قضئیے کوختم کرنا ہے ہی نہیں ۔

یہ جانتے ہوئے کہ اس قانون کا نفاذ ، عوام کی طرف سے شدید مخالفت اور احتجاج کا باعث بنے گا ، تب بھی اس غیر ضروری ، غیر آئینی قانون کے نفاذ پر حکومت کا اصرار ایک نان ایشو کو سنجیدہ مسئلہ بنانے کے مترادف ہے ۔کوئی بھی احتجاجی اجتماع ایک موقع بھی ہوا کرتا ہے ان عناصر کے لئیے بھی جو ان کی آڑ میں دیگر عزائم کی تکمیل کی کوششیں کرتے ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب بجلی اور آٹے کی قیمتوں کو کم کرنے کے مطالبات پر چلنے والی عوامی تحریک کے پلیٹ فارم پر کچھ مخصوص عناصر کی طرف سے قبضہ اور نفوذ حاصل کرکے پاکستان ، اور اس کے عوام کے خلاف نفرت انگیزی اور "اقصائے چن" کی آزادی سے ہوتی ہوئی سرکاری تنصیبات پرحملوں اور جیل توڑنے کے ارادوں تک بات جا پہنچائی گئی ۔پاکستان اور پاکستان کے عوام اور اداروں کے بارے میں نفرت انگیزی کرتے ہوئے آزاد کشمیر سے پاکستان کی طرف جانے والے مسافروں اور خواتین پر حملوں کے فرضی واقعات اچھالے گئے ۔

نوبت یہاں تک پہنچی کہ چند مخصوص عناصر کی طرف سے سٹیج سے پاکستان اور پاکستان کے اداروں کے خلاف زہر انگیزی کرتے ہوے ، مقبوضہ کشمیر کے عوام تک کو ان کے بھارت کے خلاف تحریک آزادی چلانے پر ان کو گالیاں تک دی گئیں ، آزاد کشمیر پولیس کے باوردی اہلکاروں اور سرکاری افیسرز پر ہجوم کی طرف سے تشدد اور شدید توہین تک کی گئی۔ غرض انارکی اور لاقانونیت پیدا کرنے کی پوری منظم کوششیں کی گئیں۔ آزاد کشمیر حکومت اس تمام احتجاج کے دوران مکمل طور پر مفلوج اور بے اثر نظر آئی۔حکومتی وزرا نے خاموشی اور گوشہ نشینی اختیار کر لی ۔اسی اثنا میں حکومت پاکستان کی طرف سے براہ راست مداخلت کر کے احتجاج کے بنیادی مطالبات کو تسلیم کر لیا گیا ، جس سے احتجاج میں شامل عوام کی اکثریت بہت حد تک مطمئن ہو گئے اور اپنا احتجاج ختم کر دیا۔

اب وہ عناصر جو پہلے اس احتجاج کے پلیٹ فارم پر نفوذ کر کے دیگر عزائم کی تکمیل چاہتے تھے ، واضح ہو گئے اور ان کے پاس عوامی ہجوم کی ڈھال نہ رہی، اور وہ اور ان کے عزائم بڑی حد تک عوام کی اکثریت کے سامنے آشکار ہو گئے ۔ ان عناصر کی یہ کوشش اس حد تک منظم تھی کہ اسلام آباد میں رہنے والے ایک شاعر صاحب نے بیان دیا اور ان کے اس بیان کو وسیع پیمانے پر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا بھی گیا کہ پاکستانی رینجرز کی فائرنگ سے " درجنوں " افراد ہلاک ہو گئے ہیں ۔مقصد یہ جھوٹی خبر پھیلانے کا وہی تھا کہ کسی طرح اس احتجاج کو عوام کو مشتعل کر کے تشدد کا رنگ دیا جا سکے۔ لیکن جب عوام کی اکثریت ان کے اصل عزائم کو بھانپ کر ان سے فاصلے پر ہو گئے، تو ان ہی شاعر صاحب نے بغیر کسی شرمندگی کے بیان دیا کہ ان کا سابق ہلاکتوں کے بارے میں بیان غلط معلومات کی وجہ سے تھا ، حالانکہ ان کا وہ خطرناک جھوٹا بیان بڑے پیمانے پر تشدد اور انارکی کا باعث بن سکتا تھا، اور دراصل ان کے اس بیان دینے کی وجہ بھی یہی کوشش تھی، لیکن ان عناصر کی یہ کوشش ناکام ہو گئی اور وہ اور ان کے سرپرست ، اور سہولت کار عوامی مزاج کو بھانپتے ہوے دوبارہ اپنے بلوں میں جا چھپے۔

لیکن یہ بات یاد اور مدنظر رکھنی چاہئیے کہ یہ عناصر اور ان کے مددگار و سہولت کار بدستور موجود اور کسی موقع کی تلاش میں ہیں ۔ اور کسی بھی موقع پر عمومی عوامی احتجاج کو اپنے مزموم عزائم کی تکمیل کے لئیے استعمال کرنے کی پوری جلی و مخفی کوششیں بھی کرتے ہیں ۔ مختلف نعروں کی آڑ میں یہ اپنی تعصب اور ریاست پاکستان ، اس کے عوام و اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ ایسے حالات میں حکومت کی طرف سے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے غیر ضروری ، غیر قانونی ، غیر آئینی مضحکہ خیز قوانین کے نفازذکی کوششیں، دراصل ان ہی منتظر عناصر کے مزموم عزائم کی تکمیل میں سہولت کاری ہے۔ اس معاملے پر گہرائی سے غور کرنے کی اور معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ اس قانون کی تجویز کس طرف سے اور کیوں آئی ؟ جس دن اس سوال کا جواب مل گیا ، ان منفی عزائم کے حامل افراد و عناصر سے ان حکومت میں شامل افراد کے مقصد کی یکسانیت اور سہولت کاری کا پراسرار معمہ حل ہوجائے گا ۔



واپس کریں