دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
" بات ہی کوئی نہیں "
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم

ہمارے ایک عزیز دوست ٹھیکیدار تھے ، اللہ رکھے اب بھی ہیں۔ تئیس برس پہلے کی بات ہے ، ایک بار وہ اور ہم ایک دور دراز سائٹ کی طرف رات کے اندھیرے میں روانہ ہوے ، رات کو اس لئیے کہ دن کو وہاں جانے کا تمام راستہ براہ راست بھارتی فوج کے فائر کی زد میں رہتا تھا ، اور وہ وہاں سے گزرنے والی ہر سول گاڑی تک پر فائرنگ کرتے ، مارٹر کے گولے پھینکتے، جن کی وجہ سے آے دن بہت سے لوگ ہلاک یا زخمی بھی ہو جایا کرتے تھے ، لہزا اس طرف ہمارا سفر رات کے اندھیرے میں گاڑی کی لائٹس بند کر کے گھنے جنگل سے گھرے ہوے خطرناک پہاڑی راستے کی ایک کچی سڑک کے زریعے ہوا کرتا تھا ، اپنے دل کے خوف اور خدشات کو چھپانے کے لئیے ہم ادھر ادھر کی بیسروپا باتوں اور ہنسی مزاق میں مصروف ہو کر ماحول کی اس خوفناکی اور دہشت سے توجہ ہٹانے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔

جیپ کا ڈرائیور بالکل کچھ نہیں بولتا تھا، اور ہلکی سردی میں کانوں پر مفلر لپیٹے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گھنے اندھیرے دیکھنے کی کوشش کرتا اور جیب کسی رینگنے والے کیڑے کی رفتار سے چلتی جاتی ۔چڑھائی کے دوران تنگ موڑ ، بغیر ہینڈ بریک کی جیپ کو دو دو بار ریورس کر کے مڑنے پڑتے تھے، اس طرح کہ عمودی سی چڑھائی پر ڈرائیور آدھا پاوں ایکسیلریٹر اور آدھا پاوں بریک پر رکھ کر گاڑی دو تین بار ریورس کرتا ، اگر زرا سا اس کا پیر کسی پیڈل سے سلپ ہو تو شہدا کی طویل فہرست میں شامل ہونے کا پورا امکان ہوا کرتا تھا ۔ وہاں دو دنیائیں تھیں ، ایک چوٹی سے اس طرف اس پر چڑھتے ہوے خطرناک ، بغیر زیادہ درختوں کے ، خشک اور دوسری دنیا چوٹی کے نزدیک سے شروع ہوتی تھی ، جہاں سے دیار کے گھنے جنگل کا آغاز ہوتا تھا ، ان دونوں " دنیاوں " کی کیفیات بھی ان ہی کی طرح بالکل مختلف ہوا کرتی تھیں، جب تک گاڑی اس طرف سے چوٹی کی طرف گامزن رہتی ، ہمیں اپنے بچے ، اپنا گھر شدت سے یاد آتا رہتا ، گویا ہم موت کی طرف جا رہے ہوں ، دل بہت بوجھل اور افسردہ سا ہو جاتا ، لیکن جوں ہی ہم اس سڑک کے بلند ترین مقام پر پہنچ کر دوسری طرف کے سفر کا آغاز کرتے ، نہ جانے کیوں اور کیسے ، پیچھے کے تمام خیالات ، تمام یادیں تمام اداسی بھی پیچھے رہ جاتی ، وہ آگے کی دنیا ہی کچھ اور ہوتی تھی، جو ہمیں بھی بدل کر کوئی اور بنا دیتی تھی ۔ اس طویل راستے کے عین درمیان میں پہاڑ کی چوٹی کے نزدیک منیر کا ہوٹل تھا ، وہاں اور کچھ بھی نہیں تھا نہ کوئی گھر نہ کوئی انسان ، صرف ستاروں سے بھرا ہوا آسمان ، دیار کا تاریک گھنا جنگل اور منیر کا ہوٹل ۔

بھارتی فوج کی گولہ باری کے خدشے کی وجہ سے اندھیرا چھایا ہوا تھا ، یعنی بلیک آوٹ کیا گیا تھا ، ہوٹل کے داخلی دروازے کو بوریوں سے بنے پردے سے بند کیا گیا تھا تاکہ معمولی روشنی کی کوئی کرن بھی دور سے دکھائی نہ دے سکے ۔ ہم وہاں کھانے کے لئیے رکے ، ٹھیکیدار صاحب شاید پہلے سے منیر کے اچھے واقف تھے ، اس سے بولے کہ منیر کیا ہے ، منیر مودبانہ انداز میں بولا جناب موٹھی ( رازما ) چاول ہیں ، شوربے والے آلو بھی ہیں ، گرم روٹیاں بھی لگا دوں گا ، کچھ رکا اور پھر بولا ایک مرغی بھی ہے ، جیسے کہیں گے بنا دوں گا ، ٹھیکیدار صاحب خوش ہو کر بولے آدھی مرغی روسٹ کر دو، اور آدھی کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں کر کے کڑاہی سی بنا دو ، کچھ ہی دیر میں یہ سب تیار ہو گیا، اور ہم نے انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ کھانا تناول کیا ، جس کے ساتھ ایک ٹرے میں ڈھیر ساری سلاد بھی تھی ، باہر سڑک پر نکلے تو دور دور تک ویرانی اور سناٹے کے باوجود دنیا ہی اور تھی، آسمان پر پورا جاند کسی چاندی کے تھال کی طرح چمک رہا تھا، گویا ہاتھ بڑھا کر اسے چھو لو ، اب تک شاید یہ کسی پہاڑی کی اوٹ میں پوشیدہ تھا ، ہمیں اداس ، دلگرفتہ ، پریشان دیکھا تو ہمیں کمپنی دینے کے لئیے نکل آیا ، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ خود بھی تنہائی کا شکار ہو ، اور اس ویران جنگل میں ہمیں دیکھ کر خود ہمارے قریب چلا آیا ہو ، سٹارٹ جیپ کے دروازے کھلے ہوے تھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے اس کے ٹیپ ریکارڈر سے" آنکھ ہے بھری بھری اور تم ، مسکرانے کی بات کرتے ہو " گانا لگا ہوا تھا ۔

عجیب بات ہے کہ اس زمانے میں، میں جب بھی اس سڑک سے گزرا، چاہے کسی مسافر جیپ میں ہوں، کسی کے ساتھ ہوں یا اپنے محکمہ کی پک اپ میں ، میں جب بھی اس چوٹی سے، تقریبا نو ہزار فٹ کی بلندی سے گزرنے والے اس راستے سے گزرتا ، حیرت انگیز طور پر یہی گانا چل رہا ہوتا ، تو آج بھی چاندنی میں نہاے ہوے راستے پر ہم مخبوط الحواس سے ہو کر اس راستے کے درمیان میں کھڑے تھے ، ہماری کچھ عجیب سی کیفیت ہو چکی تھی ، اس گھنے بلند تاریک جنگل پر عجیب ناقابل بیان قسم کی نور جیسی چاندنی پھیلی ہوئی تھی ، اور ہم اس کے طلسم کا شکار ہو کر دم بخود کھڑے تھے ، زہن کچھ فوکس نہیں کر پا رہا تھا ، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر ہم کہاں ہیں ، اور اگر یہاں ہیں تو کیوں ہیں ، اور اگر ہیں تو ہم کیا کریں ، کیا دوبارہ منیر کے ہوٹل کی نیم تاریک عافیت میں جا گھسیں ، راستے کے ساتھ کی گہری اندھیری کھائی میں کود جائیں ، اوپر ڈھوان پر تاریک گھنے جنگل کی طرف چڑھ جائیں ۔۔کیا کریں ۔ہمارے دوست ٹھیکیدار صاحب زیادہ حقیقت پسند اور عملی نکلے انہوں نے ان الجھے ہوے فلسفیانہ مسائل کا سیدھا ، کارگر اور موثر حل نکالا کہ وہیں ویران راستے کے درمیان ، گاڑی میں بجتے گانے کی دھن پر مکمل جزب کے عالم میں بالکل سنجیدگی کے ساتھ ایک والہانہ سلو موشن سے ردھم پر رقص شروع کر دیا ، میں ان کے نزدیک خاموش کھڑا ہمدردانہ نظروں سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا ، جبکہ دراصل شاید اس وقت ہمدردی کی زیادہ ضرورت خود مجھے تھی ۔ گویا اس وقت پوری دنیا میں ایک میں ہی تھا، جو ان کی اس کیفیت کو، ان کے اس بیساختہ ردعمل کو سمجھ سکتا تھا ، مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا ان کا دل شفاف کانچ کا بنا ہوا ہے ، اور میں اس کے آر پار دیکھ رہا ہوں کسی رکاوٹ کسی شائبے، کسی دھندلے سپاٹ کے بغیر ، جیسے بغیر کسی اندرونی و بیرونی خراش ، دھندلاہٹ اور کثافت کے، ایک سچا گلابی یاقوت ہوتا ہے ، پوتر ، پاکیزہ اور خوبصورت ۔

ہمارے چہروں پر نمی کی بارک پھوار کا لمس باقائدہ محسوس ہو رہا تھا ، شاید کوئی بھولا بھٹکا بادل کا ٹکڑا بھی ہماری محفل میں شامل ہونے کے لئیے نزدیک آ گیا تھا ، یا اوس پڑ رہی تھی ، کچھ معلوم نہیں ہو رہا تھا ، صرف اپنے چہروں کو چھوتی نمی کی باریک پھوار محسوس ہو رہی تھی ۔ گاڑی کے انجن کی مسلسل آواز ایک ردھم میں آ رہی تھی ، ہم ڈیش بورڈ پر لگے راڈ کو تھام کر بالکل خاموش سامنے اندھیرے میں دیکھ رہے تھے ، یار کبھی پھر اسی طرح ادھر آئیں گے ، بغیر کسی کام کے ، بغیر کسی مجبوری کے ، اندھیرے میں ان کی آواز آئی ، بات ہی کوئی نہیں ، کراچی بڑا زبردست شہر ہے وہاں کے ساحل کی شام کی تو کیا ہی بات ہے کہ چاند کی روشنی میں سمندر کنارے کی سیال ہوا میں دوستوں کی محفل ہو ، آواز آتی ، بات ہی کوئی نہیں ، جیپ دشوار گزار پہاڑی جنگل کی اندھیری سڑک پر چلے جاتی ، میں پھر ان کو کہتا ، یار لاہور کی فلاں نئی اداکارہ ڈانس بہت اچھا کرتی ہے ، میری طرف دیکھ کر مسکرا کر کہنے لگے ، بات ہی کوئی نہیں ، ہمیں دل ہی دل میں بہت ڈھارس سی محسوس ہوئی۔

اندھیرے میں گاڑی چلتی رہی یاد نہیں کتنے گھنٹے ، کتنے دن ، کتنے ماہ یا شاید کتنے سال چلتی رہی ، رات تین چوتھائی گزر چکی تھی جب کسی نے باہر سے جیب کا دروازہ کھولا ، دیکھا اسداللہ کا پرخلوص چہرہ سامنے تھا ، وہ اس وقت تک میرے پہنچنے کے انتظار میں جاگ رہا تھا ، سر آئیں ، کنڈل شاہی بازار رات کے اس پہر بالکل خاموش اور ویران تھا ، میں چلنے لگا تو پیچھے سے ٹھیکیدار صاحب نے آواز دی ، آپ کی جیب میں دو چار ہزار روپے ہوں گے ؟ جیپ والے کو دینے ہیں ، میں شاید اپنا پرس منیر کے ہوٹل پر ہی بھول آیا ہوں ۔۔۔ تو مجھے کچھ خیال سا آیا ، اور دل پر ہاتھ رکھ کر مسکرا کر ان سے کہا ، " بات ہی کوئی نہیں " ۔
واپس کریں