دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ماہرنگ اور پس منظر کا اصل رنگ
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
ایک ممتاز مضمون نگار نے ماہرنگ بلوچ کی سیاسی حرکیات، ، مقاصد اور اقدامات کو مکمل نظرانداز فرماتے ہوئے صرف ان کی شخصیت کے خوبصورت نسائی پہلو اور تحرک کو فیمینزم کے پہلو سے اجاگر کرتے ہوئے سول سوسائٹی میں ”فروخت یعنی مقبول“ کرنے اور ان کی توجہ صرف ان ”خوشگوار اور خوبصورت پہلووں“ کی طرف مبذول کروانے کی پر اثر کوشش فرمائی ہے، جس پر راقم نے بھی اپنی رائے اور تجزیے کے مطابق رائے دی ہے جو من و عن قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔

ماہرنگ اور اس کے ساتھ کی دیگر سرگرم خواتین کا بیانیہ دیگر امور سے زیادہ بنیادی طور پر ”علیحدگی پسندی“ اور نفرت انگیزی ہے، جس کے لیے ان کے مختلف سطحوں پر ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کی طرف سے واضح طور پر ہر دستیاب ”ایڈوانٹیج“ استعمال اور اجاگر کیے جانے کی واضح کوششیں کی جا رہی ہیں، حیرت ہے ان باشعور اصحاب پر جو اس لاقانونیت اور دہشت گردی کی سہولت کاری اور سیاسی ترجمانی میں کچھ ”مثبت اور خوبصورت پہلو“ دیکھنے اور دکھانے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ اور وہ محترمہ ماہرنگ کے دہشت گردوں کی نمائندگی اور وکالت کے سفاک پہلو سے نظریں چراتے ہوئے، ان کی عمومی نسائی خصوصیات کے قدرتی خوشگوار پہلو کو ہی اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی محترمہ جب گمشدہ افراد کے لیے دیگر خواتین و اصحاب کے ہمراہ اسلام آباد میں دھرنے پر آ بیٹھی تھیں، تو ان کا یہاں سول سوسائٹی کی طرف سے واضح طور پر خیر مقدم کیا گیا، بلکہ بہت سے خواتین و حضرات تو ان سے یک جہتی کے اظہار کے لیے ان کے ساتھ جا بیٹھے۔

ان کو ذرائع ابلاغ میں بہترین اور جامع کوریج ملنے لگی لیکن جب ایک چینل کی خاتون انٹرویور نے ان سے بلوچستان میں دہشت گردوں کی طرف سے بے گناہ پنجابی مزدوروں کے قتل کے مسلسل واقعات کے بارے میں سوال کیا کہ کیا آپ ان بے گناہ افراد کے قتل کی بھی مذمت کرتی ہیں تو ان محترمہ نے واضح طور پر ان بے گناہ غریب مزدوروں کے قتل کے واقعات کی مذمت کے بجائے، وہی اپنا نفرت آمیز اور متعصب بیانیہ ہی دھرایا، اور انٹرویو لینے والی خاتون کی مسلسل اور بار بار کوشش کے باوجود بھی ان بے گناہ مزدوروں کے بہیمانہ قتل کی وارداتوں کی رسمی مذمت کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

یہ لوگ اسلام آباد دھرنے میں بیٹھے ہی تھے کہ ان ہی دنوں ایران کی سرحد کے اندر بلوچستان میں سرگرم دہشت گردوں کے ایک کیمپ پر پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے حملہ کیا جس میں چند سرگرم دہشت گرد ہلاک ہو گئے، اس پر ماہرنگ کے منہ سے نکل گیا کہ ان ہلاک شدگان میں سے کچھ کے لواحقین اس دھرنے میں موجود ہیں، یہ کہہ دینے کے بعد انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ وہ کیا کہہ گئی ہیں کیونکہ یہاں تو ان افراد کو سرکاری فورسز کی طرف سے گمشدہ قرار دیتے ہوئے ان کے لواحقین ان کی تصاویر اٹھائے دھرنے میں موجود تھے۔

ان واقعات سے ان سے ہمدردی رکھنے والی اور ان کے ساتھ دھرنے میں شامل سول سوسائٹی کے افراد و خواتین کو بھی کچھ احساس ہوا کہ معاملہ تو کچھ اور ہے اور ان احتجاجیوں کی نیت واضح اور شفاف نہیں، اس پر یہ لوگ کچھ پیچھے ہٹ گئے تو بات کھل جانے پر ماہرنگ جو کسی طرح بھی اپنا دھرنا ختم کرنے پر تیار نہیں تھی اپنے ساتھیوں سمیت بسوں میں بیٹھ کر واپس بلوچستان روانہ ہو گئیں۔ اس کے بعد بھی چند ماہ قبل جب ماہرنگ چند دیگر خواتین کے ہمراہ یورپ کے کئی ممالک کے دورے پر گئیں تو وہاں ان کے لیے پراسرار ذرائع سے بڑے بڑے مہنگے ہوٹلوں میں تقاریب منعقد کی گئیں، جن میں انہوں نے اپنے علیحدگی پسندی کے موقف کی ترجمانی کی، اور وہی روایتی موقف دھرایا کہ ہمارا استحصال ہو رہا ہے، ہمارے وسائل لوٹے جا رہے ہیں، ہمارے لوگوں کو ہلاک گرفتار اور غائب کیا جا رہا ہے، اس پر وہاں موجود ایک مغربی صحافی نے بھی بلوچستان میں غریب پنجابی مزدوروں اور بسوں سے اتار کر قتل کئیے جانے والے پنجابی مسافروں کے قتل کے واقعات کے بارے میں سوال کیا تو ماہرنگ اس سوال کا جواب دینے کے بجائے اپنی پریس کانفرنس ختم کر کے اٹھ گئیں۔

حال ہی میں صوبائی حکومت کی طرف سے بار بار کی اپیلوں، کہ یہ دھرنا یہاں سے قریب ہی کے ایک شہر تربت میں کر لیا جائے، لیکن ان اپیلوں کے باوجود محترمہ ماہرنگ نے گوادر میں جا کر دھرنا لگایا، کیونکہ گوادر کی ترقی کے متعدد منصوبوں کے آغاز اور منصوبہ بندی کے لیے کئی غیر ملکی وفود گوادر آنے والے تھے، یہاں مظاہرین کے تشدد سے فورسز کا ایک بلوچ جوان شہید بھی ہوا ایک نوجوان لیفٹیننٹ کی آنکھ ضائع ہوئی اور مظاہرین کے تشدد اور پتھراؤ سے فورسز کے درجنوں جوان زخمی ہوئے، لیکن پر وپیگنڈہ یہ کیا جاتا رہا ہے فورسز کی فائرنگ سے بہت سے احتجاجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں لیکن مظاہرین ایک شخص کی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت ثابت نہ کر سکے نہ ایک بھی مبینہ ہلاک شدہ فرد کی لاش سامنے لائی جا سکی، گوادر جیسے حساس علاقے میں یہ پرتشدد دھرنا، کراچی سے گوادر آنے والی شاہراہ کو حب چوکی کے مقام پر مظاہرین اور خواتین کے ذریعے بند کرنے کی کوشش سے واضح ہوتا ہے کہ مقصد گوادر کی ترقی بہتری اور وہاں کے عوام کو سہولیات کی فراہمی کے منصوبوں میں رکاوٹ ڈالنا ہے تاکہ پھر عوام کو ان معاملات پر گمراہ کرنے، بھڑکانے کا ، اور ریاست و حکومت کے خلاف منفی، جھوٹے پروپیگنڈے کا ، اور تعصب و نفرت پھیلانے کا موقع مل سکے۔

بلوچستان میں انتہائی منظم اور منصوبہ بند دہشت گردی کئی سطح پر جاری ہے، دہشت گرد جدید ہتھیاروں سے مسلح ہو کر عوام کو قتل، اور فورسز پر حملے کرتے ہیں، دوسرے صوبوں سے آئے بے گناہ مزدوروں کو اغواء اور قتل کرتے ہیں، بسوں کو روک کر مسافروں کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان کو قطاروں میں کھڑے کر کے ہلاک کرتے ہیں بلکہ ایسے واقعات تک ہوئے ہیں، کہ تفریحی مقامات پر سیر کے لیے آئے افراد تک پر حملے کئیے گئے اور ان کو اغوا کیا گیا، تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر براہ راست حملے کئیے جاتے ہیں، جہاں عوام کی بہبود اور سہولت کے مقصد سے حکومت کی طرف سے کوئی منصوبہ شروع کیا جاتا ہے، وہاں کام کرنے والے عملے، مزدوروں اور تنصیبات پر حملے کیے جاتے ہیں، نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارت کے خفیہ اداروں سے تعلق رکھنے والے تربیت یافتہ قاتل اپنے ٹی وی اور سوشل میڈیا انٹرویوز میں فخریہ طور پر بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح بلوچستان میں قتل و غارت کی وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں، ان نام نہاد بلوچ علیحدگی پسندوں کی عوام میں پروجیکشن کے لیے بلوچی زبان میں ترانے تک براہ راست بھارت میں تیار کر کے بلوچستان میں پروپیگنڈے کے لیے پھیلائے جاتے ہیں، یہ دہشت گرد افغانستان کے اندر اپنے بیس بنائے ہوئے ہیں، جہاں ان کو طالبان حکومت کے کچھ عناصر کی سہولت کاری بھی میسر ہے، ان تنظیموں کے قائدین یورپی ممالک، بھارت اور افغانستان میں مقیم ہیں اور وہاں سے بیٹھ کر کچھ ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے پاکستان میں خصوصاً بلوچستان میں جاری دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بلوچستان میں شاہراوں پر ہر جگہ خواتین کو آگے رکھتے ہوئے راستے روکے جاتے ہیں، اور ان خواتین کی طرف سے فورسز کے جوانوں کے ساتھ انتہائی اشتعال انگیز اور توہین آمیز رویہ روا رکھا جاتا ہے، یہ خواتین کیمرہ اور سیل فون سے وڈیوز بنانے پر مامور افراد کے سامنے دوڑ دوڑ کر فورسز کے جوانوں پر حملے کرتی ہیں ان کو اشتعال دلانے کی کوششیں کرتی ہیں، ان کی واضح طور پر کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح فورسز کے جوانوں کو اشتعال دلا کر ، ان کی توہین کر کے، ان کو ان خواتین کے خلاف کارروائی پر مجبور کر دیا جائے اور پھر اس کارروائی کی تصاویر اور وڈیوز کو فورسز کے خلاف عوام میں نفرت پھیلانے اور پرواپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جا سکے، لیکن ابھی تک ان ہی کی بنائی وڈیوز جو سوشل میڈیا پر موجود ہیں، ان میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ فورسز کے جوان کس طرح انتہائی برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان خواتین کو جواب نہیں دیتے۔

فورسز صرف ان افراد کے خلاف کارروائی کرتی ہیں جو واضح طور پر دہشت گردی یا ان کی سہولت کاری میں ملوث ہوتے ہیں، ماہرنگ کا والد بھی ایک سرکاری ملازم ہوتے ہوئے“ بلوچ لبریشن آرمی ”جیسی دہشت گرد تنظیم کا کمانڈر تھا، اور دہشت گردی و قتل و غارت کی درجنوں وارداتوں میں ملوث رہا، اسے گرفتار کر کے ایک بار وارننگ دے کر چھوڑ دیا گیا، لیکن اس نے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھیں اور ایسی ہی ایک کارروائی میں خود بھی ہلاک ہو گیا، پچھلے ہی ماہ کچھ لوگ ایک نوجوان کی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، وہیں یہ معلوم ہوا کہ اس نوجوان کو پہلے بھی تین بار گرفتار کیا جا چکا ہے، اور ہر بار اس کو وارننگ دے کر اور سمجھا کر چھوڑ دیا گیا لیکن یہ نوجوان اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں اور رابطوں سے باز نہ آیا تو اس کو پھر گرفتار کر لیا گیا۔

کئی ملک دشمن بیرونی طاقتوں کی مدد اور سرپرستی سے بلوچستان میں جاری یہ منظم دہشت گردی ایک طرح کی گوریلا جنگ کی صورت ہے جس کا جواب اور مقابلہ روایتی طریقوں سے دینا ممکن نہیں ہے۔ خطرناک اور مسلح دہشت گردی کا مقابلہ و جواب بذریعہ کورٹ نہیں دیا جا سکتا، اس کا جواب اسی معیاری طریقے سے دیا جانا چاہیے جیسے دنیا کے دیگر ممالک وہاں جاری علیحدگی پسندی کی تحریکوں کو دیتے ہیں۔ البتہ بلوچستان کے عوام کے وہ جائز مسائل جن کو اچھال کر منفی عناصر عوام میں ریاست کے خلاف نفرت پھیلانے اور دیگر صوبوں کے عوام کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، حکومت کو عوام کے ان جائز مسائل پر فوری طور پر توجہ دینی چاہیے اور ان کی ترقی اور بہتری کے منصوبوں میں وہاں کے عوام کی بھرپور شرکت اور نمائندگی کو ترجیع دی جانی چاہیے، اور ترقی کے ہر منصوبے کی منصوبہ بندی اس طرح کی جانی چاہیے کہ ان میں وہاں کے مقامی عوام کی شمولیت اور مفادات کو مقدم رکھا جائے، مقامی وسائل کا سب سے پہلے فائدہ مقامی عوام کو ہونا چاہیے، ان کی تعلیم صحت اور رسل و رسائل کی سہولتوں اور معیار زندگی میں اضافہ اور موجود سہولیات میں بہتری کی جانی چاہیے، ترقیاتی منصوبہ بندی کے ہر مرحلے میں عوام کو شامل اور ان کی مثبت مشاورت کو شامل و مقدم رکھا جانا چاہیے، تاکہ ملک دشمن عناصر کو ان علاقوں کے عوام کو ان ترقیاتی معاملات اور مقامی وسائل کے حوالے سے گمراہ کرنے ریاست اور دیگر صوبوں کے عوام کے خلاف جذبات اور تعصبات ابھارنے کا موقع نہ مل سکے۔

دنیا کے کسی بھی ملک میں علیحدگی پسندی کی کسی تحریک کی کبھی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ ایسے عناصر کو پوری سختی کے ساتھ ختم کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہمسائے میں واقع ملک، بھارت میں تو ایسی علیحدگی پسندی کی تحریکوں کے مقابلے کے لیے کئی لاکھ افراد پر مبنی اعلی تربیت یافتہ الگ فوج“ راشٹریہ رائفلز ”کے نام سے بنائی گئی ہے، اس کے علاوہ“ سی آر پی ایف ”کے نام سے بھی ایک بہت بڑی فورس بنائی گئی ہے جنھیں بھارتی حدود میں مختلف علاقوں مثلاً، آسام، ناگا لینڈ، جھاڑ کھنڈ، منی پور، اور خالصتان کی علیحدگی پسند تحریکوں کے خلاف ان کو کچلنے کے لیے دیگر حکومتی فورسز کے ساتھ یہی فورسز استعمال کی جاتی ہیں، بلکہ مقبوضہ کشمیر جو عالمی طور پر ایک تسلیم شدہ طور پر متنازعہ علاقہ ہے جس کے عوام کے حق خود ارادیت کے حق میں اقوام متحدہ کی قراردادیں تک موجود ہیں وہاں بھی بھارت کشمیریوں کی تحریک کو علیحدگی پسندی قرار دیتے ہوئے وہاں سوا لاکھ سے زائد کشمیری نوجوانوں کو شہید کر چکا ہے، سینکڑوں کشمیری تیس تیس سال سے بغیر کسی عملی جرم کے بھارتی جیلوں میں بند ہیں، ہزاروں کو بزور ہجرت کر جانے پر مجبور کر دیا گیا ہے، اس کے مقابلے میں یہاں بلوچستان اور“ کے پی کے ”کے کچھ علاقوں میں بیرونی طاقتوں کے اشاروں ہر چلائی جانے والی پرتشدد تحاریک کے خلاف ہمیں ویسے سخت اقدامات دکھائی نہیں دیتے جیسے ہونے چاہئیں۔

اس مدت، لحاظ اور نرمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ دہشت گرد معاشرے میں جھوٹے پروپیگنڈے، اور نفرت انگیزی کی مدد سے اپنے لیے جگہ بناتے جا رہے ہیں، ان کی کارروائیوں کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ ان کارروائیوں کو ہمیں امریکہ اور بھارت کی طرف سے سی پیک کے خلاف دیے گئے واضح بیانات سے ملا کر دیکھے جانے کی بھی ضرورت ہے یہ دہشت گرد بھی واضح طور پر پاکستان میں سی پیک کے منصوبے کی کھلی مخالفت کا اظہار کرتے ہیں لہذا اس موضوع پر امریکہ اور بھارت کے ساتھ اس موضوع پر ان دہشت گرد گروہوں کی موافقت بالکل واضح ہے۔اس تخریب کاری کی کئی تہیں ہیں، جن کے مقابلے اور خاتمے کے لیے ان کو ، ان کے سرپرستوں اور مددگاروں کو اچھی طرح سے پہچاننا ضروری ہے۔ دوسری طرف صوبہ خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں میں منظور پشتین کی بھی بلی تھیلے سے پوری طرح باہر آ چکی ہے، جس نے اپنے لیے سیاسی جگہ، اسپیس حاصل کرنے کے لیے چیک پوسٹوں، عملے کے روئیے اور“ آئینی حقوق ”جیسے امور و مطالبات سے آغاز کیا، اور شروع میں ہر فورم پر ہر انٹرویو میں یہی موقف استعمال کیا، لیکن قبائلی علاقے کے تازہ تازہ قومی دھارے میں شامل ہوئے نوجوانوں کی حمایت حاصل ہوتے ہی، شدید نسلی تعصب اور نفرت انگیزی کے ساتھ“ پختونستان ”کے مطالبے پر آ کر قیام کیا۔

وہاں افغانستان میں مرکز بنائے ٹی ٹی پی کے عناصر کا بھی ایک خطرناک چیلینج درپیش ہے جو ان ہی پاکستان دشمن طاقتوں کی ایماء اور امداد سے دہشت گردانہ کارروائیوں کا دائرہ وسیع کرتے جا رہے ہیں۔ اسی ماڈل کو بالکل اسی طرح بلوچ علیحدگی پسند تحریک نے بھی اپنایا، جن کے عزائم کراچی تک جا کر چینی اساتذہ پر خود کش حملے کرنے سے واضح ہو چکے ہیں، لہذا ماہرنگ کے عورت ہونے یا اس کی تقریری صلاحیت و خوشگوار شخصیت سے متاثر ہونے اور دوسروں کو بھی اپنی توجہ اس کے اصل عزائم سے ہٹاتے ہوئے پاکستان کی سول سوسائٹی کی توجہ اس کے“ موقف ”اقدامات کی حرکیات اور مقاصد سے ہٹاتے ہوئے اس کی شخصیت اور فیمینزم کے پہلو کی طرف مبذول کروانے کی کوششیں بھی، وسیع تر تناظر میں اس کے اور اس کے گروہ کے اصل عزائم و اقدامات کے لیے“ کیموفلاج ”تشکیل دینے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ایک اسی طرح کی پراثر پوسٹ اس خاتون کی خوبصورت شخصیت کے بارے میں بھی لکھی جانی چاہیے جس نے خود اور اپنے تقریباً سارے عزیز و اقارب کے تعلیم یافتہ اور اچھے سرکاری عہدوں پر تعینات ہوتے ہوئے، دو چھوٹے بچوں کی ماں ہوتے ہوئے، کسی بھی قسم کے“ استحصال ”یا ظلم کا شکار نہ ہوتے ہوئے صرف“ بلوچ لبریشن آرمی ”سے تعلق رکھنے والے اپنے شوہر کی برین واشنگ کا شکار بن کر کراچی جا کر چینی اساتذہ کی وین پر جان لیوا خود کش حملہ کیا۔

جو خصوصیات“ ماہرنگ ”کی آپ تحریر فرما اور ان پر توجہ مرکوز و مبذول فرما رہے ہیں، یہی خوبصورت نسائی خصوصیات اس خود کش بمبار خاتون میں بھی موجود تھیں، لہذا جس طرح ماہرنگ کے کام پر توجہ نہ دیتے ہوئے اس کی شخصی نسائی خصوصیات کی طرف قارئین کا ایک خوشگوار تاثر تشکیل دینے کی شعوری کوشش کا واضح تاثر دکھائی دیتا ہے، اسی طرح اس خود کش خاتون کی شخصیت کے مثبت اور خوبصورت نسائی پہلو بھی آپ کی توجہ کے متقاضی ہیں تاکہ“ حق ادا ہو سکے ”۔ یہ کوشش بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی خطرناک زہریلے خوبصورت وائپر کے تیز، گوشت اور ہڈیوں کو تحلیل کر دینے والے زہر اور لمبے مڑے ہوئے زہریلے دانتوں سے توجہ ہٹا کر قارئین کی توجہ اس کی جلد کے شوخ رنگوں اور اس کے خوبصورت پیٹرن کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کی جائے، خصوصاً تب جب سامعین و قارئین اس زہریلے خوبصورت سانپ کے حملے کے دائرے اور زد میں ہوں۔
واپس کریں