دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دہشت گردی کا تسلسل اور حکمت عملی کا فقدان
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
کیا ہمارے ہیلی کاپٹر صرف دہشت گردوں کے ہاتھوں بیگناہ مارے جانے والوں کی لاشیں ڈھونے کے لئیے ہی رہ گئے ہیں ، کیا بلوچستان کے پہاڑوں میں دہشت گردوں کے قائم کردہ فراری کیمپوں کا سراغ لگا کر ان کو گھیر کر تباہ کرنے کے کام نہیں آ سکتے ؟ بلوچستان کے سنگلاخ اور بے آب وگیاہ پہاڑ کون سے کوہ ہمالیہ ہیں جہاں ان دہشت گردوں کے قائم کئیے اڈوں کو ڈھونڈا اور تباہ نہیں کیا جا سکتا ۔ صرف چند اچھے سرویلنس ڈرون ، اور چند گن شپ ہیلی کاپٹر یہ کام اسانی سے بغیر کسی نقصان کے پورا کر سکتے ہیں ۔

جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مری قبیلے کی بغاوت ہوئی اور وہ لوگ بھی ان ہی پہاڑوں پر جا بیٹھے تھے تو ایران سے ہیلی کاپٹر لے کر ان کے خلاف موثر آپریشن کیا گیا تھا جس سے کچھ باغی ہلاک ہوئے ، کافی تعداد نے ہتھیار ڈال دئیے اور کچھ افغانستان فرار ہونے پر مجبور ہو گئے ، جو کچھ عرصے کے بعد "صلح" کر کے واپس آ گئے تھے ۔ آج تو ہمارے پاس اس وقت کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقت ہے ، تو اج ہم ان قاتل اور خونی دہشت گردوں کے خلاف ایسی موثر کاروائیاں کیوں عمل میں نہیں لا سکتے ، ہم کیوں مختلف مقامات پر جامد پوزیشن میں بیٹھے ان دہشت گردوں کی اگلی کسی ایسی ہی کاروائی کا انتظار کرتے ہیں ، تاکہ اس کی مذمت میں چند بیانات جاری کر کے ، دہشت گردوں کی طرف سے ان کی کسی اور ایسی ہی کاروائی کا انتظار کیا جا سکے ۔

تربت ، پنجگور اور دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کا ہولڈ ہے ، تو فوری طور پر ان علاقوں کو کیوں فوری اور موثر کاروائیوں کے زریعے کلئیر نہیں کیا جاتا ، فوجی اپریشن میں دو بنیادی اصطلاحات ہوتی ہیں ایک " سویپ جس میں کسی علاقے کو جھاڑو لگانے کی طرح ایک طرف سے پیش قدمی کرتے ہوے دشمن کو پیچھے ہٹنے اور پسپا ہونے پر مجبور کر کے علاقہ کلئیر کیا جاتا ہے۔ لیکن اندرون ملک اس طریقے کی نقصانات اس کے ظاہری فوائد سے بہت زیادہ ہوتے ہیں جس کی ایک مثال ہمیں سوات آپریشن کے دوران دکھائی دی جہاں دہشت گرد آپریشن شروع ہوتے ہی ہزاروں کی تعداد میں پسپا ہو کر صحیح سلامت کئی سو کلو میٹر دور افغانستان جا پہنچے تھے۔ دوسرا طریقہ " سرائونڈ یعنی گھیرا ہوتا ہے جو اندرون ملک آپریشن میں موثر اور کارگر ترین نتیجہ خیز کاروائی کا طریقہ ہے ۔جس میں دہشت گردوں کی موجودگی کے مقامات فراری کیمپوں کا ڈرون اور لینڈ ریکلولینس اور سرویلینس کے ذریعے پتہ چلایا جاتا ہے اور پھر ان کے بھاگنے کے ممکنہ راستوں پر مناسب و مضبوط بلاک لگا کر ان پر ایک طرف یا دو طرف سے حملہ کیا جاتا ہے۔جب وہ اس اچانک حملے سے بچنے کے لئیے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ان منتظر بلاکس میں پھنس جاتے ہیں تب ان کے پاس ہتھیار ڈالنے یا ہلاک ہونے کے بغیر کوئی آپشن نہیں بچتا ۔

یہ ہی طریقہ اندرون ملک اپریشنز کے لئیے زیادہ بہتر نتیجہ خیز اور موثر ہوا کرتا ہے۔ بھارتی فوج کا اندرون ملک ایسی کاروائیوں کے لئیے خصوصی تربیت یافتہ دستہ " راشٹریہ رائفلز " مقبوضہ کشمیر اور دیگر علاقوں میں یہی طریقہ استعمال کرتے ہیں ۔ ، بلوچستان میں یہ دہشت گرد عوام پر حملے کے لئیے موبائل حکمت عملی استعمال کرتے ہیں جن میں موٹر سائیکل سوار مسلح جتھے اپنے انتخاب کی جگہ پر حملے کر کے تیزی سے بکھر جاتے ہیں ۔ کچھ ہی عرصہ قبل بیلہ کیمپ پر ہوئے خود کش اور دہشت گرد حملے کے وقت وہاں کے مقامی شہریوں نے بتایا کہ شام سے ہی علاقے میں مسلح موٹر سائکل سوار جتھے گھومتے دیکھے جا رہے تھے بلکہ لوگوں کے مطابق اس حملے کا خود کش دھماکے کاآغاز کرنے والی لڑکی بھی فور بائی فور گاڑی خود چلاتی یہاں گھومتی دیکھی گئی تھی۔ لوگوں کے بقول ہم اسے ڈرائیونگ کرتے دیکھ کر حیران تھے کہ یہاں خواتین کا گاڑی چلانا رواج میں شامل نہیں ۔ فورسز میں سے کسی نے ان مسلح موٹر سائکل سوار دستوں اور اس گاڑی کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور صبح سویرے انہوں نے کیمپ پر دو اطراف سے حملہ کر دیا ۔ اگر ان کی یہ پراسرار اور غیر معمولی نقل و حرکت رات کو ہی چیک کر لی جاتی تو اتنے بڑے سانحے ، نقصان اور حادثے سے بچا جا سکتا تھا ۔

ان دہشت گردوں کے مسلح موٹر سائیل سوار جتھے کہاں سے آ کر شاہرات اور دیگر مقامات پر حملے اور قتل و غارت کرتے ہیں اور پھر اس وسیع کھلے علاقے میں کدھر کو غائب ہو جاتے ہیں کہ نہ تو ان کا فوری پیچھا کیا جا سکتا ہے نہ ان کو پھر ڈھونڈا جا سکتا ہے۔سرکردہ دہشت گردوں کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر دو دو کروڑ انعام رکھیں ، پھر دیکھیں کس طرح ان کے ساتھی ہی ان کو فورسز کے حوالے کریں گے ۔ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں واپس انے والوں کے لئیے راستے کھلے اور پرکشش ترغیبات رکھئیےْ عام دہشت گرد کی گرفتاری یا ہلاکت پر پچاس پچاس لاکھ انعام رکھیں۔ کچھ تو ایسی پالیسی اختیار کریں جو واضع طور پر عوام تک اور دہشت گردوں تک اپنے واضع مقاصد کا موثر ابلاغ کرتی ہو۔

ابھی تک تو عوام کے سامنے حکومتی حلقوں کی طرف سے دہشت گردوں کی مذمت میں روایتی گھسے پٹے جملے ، طنز و تشنیع اور طعنے تک ہی سننے میںآ رہے ہیں۔ فیلڈ میں ڈیپلائیڈ فورسز کے پاس موثر گشت اور سرویلینس کے لئیے وسائل اور آلات کی کمی بھی مشاہدے میں آ رہی ہے۔ شاید جامد پوزیشن میں دفاع پر بیٹھ رہنے کی وجہ بھی یہی ہو۔ ان تمام معاملات پر فوری طور پر توجہ کی ضرورت ہے ، ورنہ قوم اس نازک موقع پر اس پالیسی کو شدید غفلت ، بدنیتی بلکہ نااہلی سمجھنے میں پوری طرح حق بجانب ہو گی ۔کیا یہاں کسی " معجزے " کا انتظار ہو رہا ہے کہ وہ رونما ہو گا، تو سب ٹھیک ہو جائے گا؟ ایسے معاملہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ یا آگے بڑھ کر فتح حاصل کرنی ہے یاپھر خدانخواستہ مزید پسپائی اختیار کرنی ہے ، اور دہشت گردوں کی طرف سے نہتے عوام اور فورسز کے جوانوںکے مسلسل بہتے خون پر ہی سیاست کرنی ہے ، اور مذمتی بیانات جاری کرنے ہیں ، فیصلہ کر لیجئے۔
واپس کریں