دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
حیات افغانیہ کی حقیقت " کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں؟
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
داغ دہلوی نے کہا تھا کہ
خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں
کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں"
اب خط کا زمانہ نہیں رہا لیکن ہفتہ رفتہ میرے کالم " پونچھ کے قبائل کے درمیان رنجش تحریک آزادی کشمیر کا نقصان ہے" واٹس اپ پر قیامت کے نامے میرے نام آئے۔ جب کہ کچھ دوستوں نے کالم سے اپنے مطلب کے کٹ پیس نکال کر مرچ مصالحے کے ساتھ فیس بک وال پر لگائے، اور رنجش کے سارے کلام بھی ہمارے حصے میں آئے۔ چند سطروں سے ہزار ڈیڑھ ہزار الفاظ کے کالم کی وضاحت نہیں ہو سکتی، اور نہ ہی پورا پڑھے بغیر مفہوم سمجھ میں آ سکتا ہے۔ اس کالم میں کسی کا نام نہیں لکھا گیا اور نہ ہی کسی فرد واحد کی طرف اشارہ تھا بلکہ عام بات تھی جو ہمارے معاشرے میں رچ بس گئی اور اب تیزی سے پھیل رہی ہے کہ دوسرے شعبہ کے افراد نے تحقیق و تاریخ کا کام شروع کر دیا جس کے باعث تاریخ میں حقائق سے زیادہ جذبات شامل ہو گئے ہیں۔

ماضی قریب میں ایک صاحب جو اکاؤنٹ کے طالب علم تھے اور زندگی بھر فنانشل انسٹیٹیوٹ میں خدمات سرانجام دیتے رہے، آخری عمر میں ایک کتاب اپنے نام کی اور مورخ کہلانے لگے۔ کتاب کا ہر صفحہ دوسرے سے متضاد ہے، اس کی نشاندہی بعد میں لکھنے والے بہت سارے لکھاریوں نے کی۔ لیکن جو لوگ تحقیق میں محنت کرتے ہیں ان کے اچھے نتائج بھی آ سکتے ہیں۔ بہترین جج تو قارئین ہی ہیں کیا اچھا اور کیا برا یہ فیصلہ قارئین کے کرنے کا ہے۔ میرا کالم کسی کو نیچا دیکھانے اور کسی کو اونچا اڑانے کے لئے نہیں تھا اور نہ ہی کسی کی حمایت یا کسی کے خلاف تھا۔ بلکہ دونوں جانب کے پر جوش نوجوانوں کو بے مقصد بحث مباحثہ سے باہر نکلنے، غیر شائستہ گفتگو و تحریروں سے پریز کرنے اور کشیدگی کو کم کرنے کا مشورہ تھا۔ یہ بتانا مقصد تھا کہ جموں و کشمیر کے شہری غلامی کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، ریاست ٹکڑوں میں تقسیم ہے اور مودی جی ٹکڑوں پر ٹکڑے کرتے جا رہے ہیں۔ اس سیلاب کے آگئیں بند باندھنے کی کوشش ہونا چاہئے نہ کہ آپس کے اختلافات کو بڑھایا جائے۔ ریاست کے ہر حصے کے افراد کو ریاست کی یکجہتی اور آزادی کی خاطر نظریاتی، اور عملی طور پر قریب لایا جائے نہ کہ دوریاں پیدا کی جائیں ۔

علاقائی اور برادری ازم کے اختلافات کو اتنی ہوا نہیں دینا چاہئے کہ فساد برپا ہو اور قوم جو پہلے ہی تقسیم ہے مزید ٹکڑے ہو جائے۔ اگر کشمیر آزاد ہو گا یا مسلہ کشمیر زندہ رہے گا تو اس میں پونچھ کے قبائل کا بڑا کردار ہو گا۔ یہ میں نہیں کہہ رہا، سیاسی دانشوروں اور مدبرانہ سوچ کے حامل افراد کی رائے ہے۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ اگر 1947ء میں پونچھ کے قبائل کھڑے نہ ہوتے تو حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کی طرح جموں و کشمیر بھی نقشے سے غائب ہوتا۔ اور بھارت کہوٹہ سے 30 اور اسلام آباد سے 55 کلومیٹر کے فاصلے پر بیٹھا ہوتا۔ یہ پونچھ کے قبائل کی ہی کمال ہے کہ بھارت کو پاکستان کی سرحد سے دور دھکیلا اور مسئلہ کشمیر اور ریاست جموں و کشمیر کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ پونچھ کے سارے قبائل کی اجتماعی کوشش کا ثمر ہے کسی ایک قبیلے یا کسی شخصیت کا نہیں۔ آزاد کشمیر کے عوام اور خاص طور پر پونچھ کے قبائل کی ذمہ داری اور کام ختم نہیں ہو گیا بلکہ مسئلہ کشمیر کے منطقی انجام کو پہنچنے تک وہ اس کے چوکیدار ہیں کہ کوئی قزاق اس کو اغواء نہ کر لے۔۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام اور خاص طور پر پونچھ کے قبائل میں نظریاتی ہم آہنگی ہو۔ کسی علمی، ادبی، سیاسی اور تاریخی اختلاف پر گالم گلوچ کے بجائے دلال و دلیل سے بات ہونا چاہئے ۔

نوجوانوں کا شکریہ میری تجویز پر خاموشی اختیار کی اور مسلے کو کافی حد تک ٹھنڈا کیا۔ وہ جو بحث تنازعہ میں بدل رہی تھی وہ تھم گئی اور اکثریت جوش کے سمندر سے نکل کر ہوش کے میدان کی طرف محو سفر ہوئی۔ اسی دوران ایک ساتھی نے " حیات افغانیہ " کا ایک نسخہ بھیجا جس کے مطالعے کا موقع ملا۔ کتاب کا متعدد بار مطالعہ کیا۔ محمد صادق درالوی صاحب کی یہ کوشش، 356 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں 8 باب اور 55 ذیلی ہیں۔ اخباری کاغذ کے باعث کتاب قاری کی دسترس میں ہے جس کی قیمت 750 روپے مقرر کی گئی۔ آج کے زمانے میں اچھے یا آفسٹ کاغذ پر شائع کتاب اس قیمت میں وارہ نہیں کھاتی۔ آزاد بک ڈپو لاہور نے گنج شکر پرنٹرز لاہور سے چھپوا کر شائع کی۔ جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں لہذا ہم کتاب سے کسی جست کو نہیں اٹھا رہے۔ گو کہ شروعات میں کچھ باب قدیم تاریخ پر ہیں لیکن بنیادی طور پر کتاب کا مہور پونچھ کا سدھن قبیلہ ہے جس کی تاریخ، شخصیات، کارناموں اور بود و باش رہن سہن اور طرز زندگی پر موواد جمع کیا گیا ہے۔ کتاب میں مصنف کے مقابلے میں مولف کا کام زیادہ ہے۔ درجنوں کتابوں کے حوالے اور ان کے اقتباسات درج کئے گئے جن میں سے اکثریت پچھلی صدی اور کچھ اس سے بھی پچھلی صدی میں شائع ہوئیں اور کسی نا کسی جگہ آج بھی موجود ہیں۔

کتاب کو متعدد بار پڑھنے کے باوجود ایسا موواد نہیں ملا جس کو قابل گرفت سمجھا جائے۔ صدیوں پہلے لکھے ہوئے مواد پر کیسا اعتراض کیا جا سکتا ہے جو کسی ایک کتاب میں جمع کیا گیا ہو۔ البتہ باغ کی آزادی کی روائیداد ، سدھن قبیلہ باغ میں ایک نظر" اور کچھ بزرگوں کے انٹرویو یا تاثرات بھی شائع کئے گئے ہیں لیکن ان کے مطالعے سے بھی قابل اعتراض کوئی سطر یا جملہ نظر سے نہیں گزرا تاہم اس کے مدوجزر اور صحیح یا غلط ہونے کا جواب تو صادق صاحب خود ہی دے سکتے ہیں۔ لہذا اس کتاب میں قابل اعتراض کوئی بات بظاہر سمجھ نہیں آتی جس پر اعتراض اور شور و غوغا کیا جائے۔ اس کے باوجود بشری تقاضے ہیں کہ کسی جگہ بھول چوک ہو سکتی ہے۔ اس کتاب کے مخالفین کو چاہیے کہ لعن طعن کرنے کے بجائے وہ جست اور پہرے اٹھا کر سوشل میڈیا یا مین میڈیا پر لگائیں اور ان میں غلطیوں کی نشاندہی کریں کہ اس پر اعتراض ہے۔۔ ایسی تحریر جو پہلے کسی کتاب میں شائع نہیں ہوئی یا جس کا حوالہ غلط ہے، یا کسی گروہ یا شخصیت کی توہین کے زمرے میں آتی ہو جس سے کسی کی دلعزاری ہوئی ہے تو اس پر غور کیا جا سکتا ہے۔

البتہ محترم صدیق چغتائی کی کتاب پر دلچسپ تبصرہ بھی اس کتاب میں شامل ہے لیکن اس میں صدیق چغتائی صاحب کی ذات کو ہدف تنقید نہیں بنایا گیا کتاب کی خامیوں کو صفحات کے حوالے کے ساتھ نشاندہی کی گئی ہے۔ حالاں کہ خود صدیق چغتائی صاحب نے محاصر لکھاریوں پر جو تبرہے بیھجے وہ کتاب میں دیکھے جا سکتے ہیں لیکن ان کی رائے سمجھ کر کسی نے ان کے خلاف مہم نہیں چلائی۔ اس کا ہر گز یہ مقصد نہیں تھا کہ لوگ ان سے خوف زدہ تھے۔ بلکہ شائستہ اور معزز طریقہ یہی ہے کہ کسی تحریر کا جواب ڈنڈے یا بدتہذیبی کے بجائے تحریر سے دیا جائے۔ صادق درالوی کی کتاب کے بعد بھی کتابیں لکھی جائیں گی، یہی معزز طریقہ ہے کہ کوئی کسی نئی کتاب کی تیاری کرے جس میں صادق صاحب کی تالیف کی نفی ہو لیکن روئے زمین سے منگ کو کہاں غائب کیا جائے جہاں 19ویں صدی میں پہنجاب کے سکھوں، ڈوگرہ حکمرانوں اور مقامی قبائل کے درمیان بڑا معرکہ ہوا۔ رانجیت سنگھ کا چیف آف آرمی سٹاف بھاری بھرگم مسلحہ افواج کے ساتھ خود حملہ آور ہوا مدمقابل اگر ایک ڈسپلن فورس نہیں تھی تو سکھ اور ڈوگرے بے وقوف تو نہیں تھے کہ لاو لشکر کے ساتھ منگ پر چڑھ دوڑے۔ ظاہر ہے ڈوگروں اور سکھوں کے مدمقابل ایک قوت سامنے کھڑی تھی، جس کی قیادت بھی موجود تھی۔ بس یہی بات سمجھنے کی ہے۔۔ فوجیں قیادت کے بغیر تو نہیں لڑتی، وہ زمانہ قدیم ہو یا جدید لڑائی میں فوج کا کوئی سربراہ تو ہوتا ہے۔ اس کی نفی کیسے کی جا سکتی ہے۔۔سردست کتاب " حیات افغانیہ " مولف کی ایک اچھی کوشش ہے کہ تحقیق کرنے والوں کو درجنوں کتابوں کا موواد حوالے کے ساتھ ایک ہی کتاب میں مل جائے گا۔

واپس کریں