کیا کسی بھی جنگ میں انسانی نفسیات ہتھیاروں سے زیادہ اہم ہے؟
ڈاکٹر خالد سہیل
چینی دانشور سن زو کی تخلیق(THE ART OF WAR) وہ پہلی کتاب ہے جس میں پانچ سو قبل مسیح میں جنگ جیتنے کے راز بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب سے ہر صدی کے ماہرین نے جنگ کی نفسیات سمجھی اور حکمت عملی سیکھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کتاب کی اہمیت اور افادیت کو زیادہ سراہا گیا اور اس کے کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے۔ انگریزی زبان میں اس کتاب کا ترجمہ سیمول گرفتھ نے کیا۔
بیسویں صدی میں ماو ذے تنگ نے فرمایا کہ ان کے لیے چین میں گوریلا جنگ جیتنے میں اس کتاب نے اہم کردار کیا۔ ماو ذے تنگ نے اپنے پیروکاروں کو سمجھایا کہ اگر دشمن کے پاس دس ہزار فوجی ہیں اور آپ صرف اسی لوگ ہیں تو گوریلا جنگ لڑیں۔ اسی لوگوں کو چار حصوں میں بانٹ دیں اور دشمن کی فوج کے شمال جنوب مشرق اور مغرب میں بیس بیس لوگوں کا پڑاو ڈال کر چھپ جائیں۔ بیس لوگ شمال سے رات کی تاریکی میں دشمن پر حملہ کریں دشمن شمال کی طرف بڑھے تو جنوب سے شبخون ماریں۔ دشمن شمال اور جنوب کی طرف بڑھے تو مشرق سے شب خون ماریں دشمن شمال جنوب اور مشرق کی طرف بڑھے تو مغرب سے شب خون ماریں۔ دشمن کو اتنا حیران پریشان اور ہراساں کریں کہ وہ تھک ہار کر خود ہی پسپا ہو جائے۔دشمن کے ہتھیاروں کو اپنے ہتھیار سمجھیں اور انہیں حاصل کرنے کی کوش کریں۔جنگ کے فن کا کمال یہ ہے کہ جنگ لڑے بغیر جیت لی جائے۔ دشمن کواتنا تھکایا جائے کہ وہ ہمت ہار دے۔ یہ گوریلا جنگ کا راز تھا جو ماو ذے تنگ نے اس کتاب سے سیکھا۔
اس کتاب کے کئی باب ہیں اور ہر باب میں کئی راز رقم ہیں۔ میں ان میں سے صرف چالیس راز آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں تا کہ آپ بھی سن زو کے پیش کردہ دو ہزار سال پیشتر کی گوریلا جنگ جیتنے کے رازوں کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر سکیں اور سوچیں کہ یہ راز اکیسویں صدی میں بھی اہم ہیں اور کیا یہ راز میدان جنگ کے علاوہ زندگی کے کسی اور محاذ پر بھی کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔
سن زو نے فرمایا
1۔ دشمن نے آگے جال پھینکو اور جب وہ جال میں پھنس جائے تب حملہ کرو
2۔ دشمن کو غصہ دلاو تا کہ وہ پریشان ہو کر غلط فیصلے کرے
3۔ دشمن کو اتنا پریشان کرو کہ وہ تھک کر ہمت ہار جائے
4۔ جنگ جیتنے کے لیے دن کی روشنی کی بجائے رات کی تاریکی میں شب خون مارو
5۔ دشمنوں میں پھوٹ ڈالو تا کہ وہ آپس میں لڑنے لگیں اور تم جیت جاو
6۔ جنگ کو طول دو تا کہ دشمن تھکنا شروع ہو جائے اور اس کے وسائل ختم ہونے لگیں
7۔ جنگ آگ کی طرح ہے۔ اس سے قدرے فاصلہ رکھو کہیں تم بھی اس میں جل کر خاکستر نہ ہو جاو
8۔ کوشش کرو کہ دشمن کے ہتھیار حاصل کرو اور پھر اسی کے ہتھیاروں سے اس پر حملہ کرو
9۔ دشمن کو قتل کرنے کی بجائے اسے زندہ قید کر لو
10۔ قیدیوں سے اچھا سلوک کرو تا کہ وہ واپس جا کر تمہاری تعریف کریں۔
11۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ تم دشمن کے فلسفہ حیات پر حملہ کرو
12۔ دشمن کے شہروں اور شہریوں پر حملے سے احتراز کرو
13۔ اپنے دشمنوں کو ایک دوسرے سے نہ ملنے دو
14۔ کوشش کرو کہ دشمن میدان چھوڑ کر چلا جائے اور تم جنگ لڑے بغیر ہی جیت جاو
15۔ اپنے سپاہیوں کو خوش اور ترو تازہ رکھو
16۔ اخلاقیات ریاست چلانے کے لیے اہم اور جنگ لڑنے کے لیے غیر اہم ہے
17۔ جب کوئی فوج پریشان خیالی کا شکار ہو جائے تو اس سے دشمن فوج کو فائدہ ہوتا ہے
18۔ جو فوج اپنے اعلی مقاصد پر ایمان نہیں رکھتی وہ ہار جاتی ہے
19۔ وہ فوجی رہنما کامیاب ہوتا ہے جو جانتا ہے کہ کب لڑنا ہے اور کب نہیں لڑنا
20۔ جنگ کی کامیابی کے لیے خود کو ہی نہیں دشمن کو بھی جاننا اہم ہے۔
21۔ دشمن پر اس وقت حملہ کرو جب اسے اس کی بالکل توقع نہ ہو
22۔ اپنے مضبوط ترین مقام سے دشمن کے کمزور ترین مقام پر حملہ کرو
23۔ کامیاب فوجی رہنما وقت کی نزاکت سے واقف ہوتا ہے
24۔ اپنے سپاہیوں کو وہ ذمہ داری نہ دو جسے وہ پورا نہ کر سکیں۔
25۔ جنگ کے اصول حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔
26۔ میدان جنگ میں پہلے پہنچو تا کہ تمہیں میدان کارزار میں برتری حاصل ہو
27۔ خاموش رہو تا کہ دشمن تمہارے راز نہ جان سکے
28۔ دشمن کو خبر نہ دو کہ تم کب اور کہاں حملہ کرو گے
29۔ جس طرح پانی ایک حالت میں نہیں رہتا اسی طرح جنگ بھی اپنی حالت بدلتی رہتی ہے
30۔ اپنے علاقے کی وادیوں پہاڑوں اور جنگلوں کو جانو تا کہ وہ معلومات وقت آنے پر جنگ میں کام آ سکیں
31۔ جب دشمن مضبوط ہو تو فاصلہ رکھو جب دشمن کمزور ہو تو حملہ کرو
32۔ دشمن پر حملہ کرتے وقت اپنے بھاگنے کا راستہ بھی کھلا رکھو
33۔ جنگ جیتنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کس شہر میں داخل نہیں ہونا اور کس میدان میں نہیں اترنا
34۔ جنگ میں خود بلندی پر رہو اور پھر حملہ کرو دشمن پر نیچے سے حملہ نہ کرو
35۔ جب پرندے اونچائی کی طرف پرواز کریں تو جان لو کہ دشمن کہیں چھپا بیٹھا ہے
36۔ دشمن کو اس کی کوئی پسندیدہ چیز پیش کرو اور جب وہ اس جال میں پھنس جائے تب حملہ کرو
37 جب دشمن دریا سے گزر کر آ رہا ہو تو انتظار کرو۔ جب دشمن آدھا پانی میں ہو اور آدھا باہر ہو تب حملہ کرو
38۔ اپنے سپاہیوں کو زیادہ آزمائشوں میں مت ڈالو
39۔ ایک کامیاب جرنیل شہرت سے بے نیاز ہوتا ہے
40۔ جنگ میں جتنے کے لیے فوجیوں کی نفسیات ان کے ہتھیاروں سے زیادہ اہم ہے۔
سن زو کے 500 قبل مسیح کے خیالات و نظریات کے بارے میں مختلف عوام و خواص کے مختلف نظریات ہیں۔بعض کا خیال ہے کہ یہ اصول ماضی کے تھے جب زمینی جنگ لڑی جاتی تھی اب ان کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔بعض کا خیال ہے کہ یہ اصول صرف گوریلا جنگ کے لیے ہیں۔بعض کا خیال ہے کہ ہر صدی میں معروضی حالات اور اخلاقیات بدلنے کے ساتھ ساتھ جنگ کے اصول بھی بدلتے رہتے ہیں۔اور بعض کا خیال ہے حالات چاہے کتنے ہی بدلیں انسان کی نفسیات نہیں بدلتی۔آپ کا جنگ کے حوالے سے کیا موقف ہے؟ کیا آپ سن زو کے موقف کی تائید کرتے ہیں کہ زندگی کی کسی بھی جنگ میں انسانی نفسیات ہتھیاروں سے زیادہ اہم ہوتی ہے؟
( بشکریہ 'ہم سب ')
واپس کریں