سید مجاہد علی
پاکستان کے وزیر خارجہ محمد اورنگ زیب نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا ہے کہ پاکستان، ملک کے طور پر اپنا اعتماد و بھروسا کھو چکا ہے۔ اسے واپس پانے کے لیے ہمیں فوری اقتصادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ماحولیات کی سینیٹ کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ ایشین بنک اور آئی ایم ایف کی طرف سے جلد ہی ڈیڑھ ارب ڈالر ماحولیات کی بہتری کے لیے ملنے کی توقع ہے۔تاہم وزیر خزانہ کا واضح پیغام یہی تھا کہ اگر پاکستان کو دنیا میں وقار سے آگے بڑھنا ہے اور بطور قوم نہ صرف یہ کہ سربلند ہونا ہے اور اپنے عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے قابل ہونا ہے تو اسے اپنی قومی آمدنی میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پہلے سے جو شعبے ٹیکس ادا کر رہے ہیں، ان پر مزید بوجھ ڈالنے سے معیشت بہتر نہیں ہو سکتی بلکہ نئے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا۔ اس حوالے سے انہوں نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا استعمال شروع کرنے کا اشارہ بھی دیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومتی اقدامات سے اگرچہ معیشت بہتر ہوئی ہے۔ کرنسی کی شرح مبادلہ مستحکم ہو چکی ہے۔ مہنگائی اور شرح سود میں قابل ذکر کمی ہوئی ہے اور عالمی سرمایہ کار پاکستان کو ایک ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔ تاہم حکومتی آمدنی میں اضافہ کیے بغیر معاشی بہتری کا منصوبہ پورا نہیں ہو سکتا ۔ اس مقصد کے لیے تمام کاروبار اور معاشی سرگرمیوں کو دستاویزی شکل دینا ہوگی۔
عالمی منڈیوں میں پاکستان کا اعتماد کم ہونے کی بات تو وزیر خزانہ نے سینیٹ کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی تاہم اس موقع پر انہوں نے اس بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں۔ البتہ ریٹیل بزنس کونسل کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی کانفرنس میں انہوں نے تفصیل سے پاکستان میں ہونے والی معاشی بہتری اور درپیش چیلنجز کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے ریٹیل سیکٹر کا قومی پیداوار میں 19 فیصد حصہ ہے جو قابل قدر ہے لیکن یہ شعبہ ٹیکس کی مد میں صرف ایک فیصد ادا کرتا ہے جو پریشان کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پیداواری اور سروس شعبے اور تنخواہ دار طبقے پر غیر ضروری طور سے ٹیکس کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔ اس طریقے سے معاشی احیا کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا ۔ ہمیں زراعت، رئیل اسٹیٹ اور ہول سیل کے کاروبار کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا ہو گا۔ اسی لیے حکومت نے ریٹیل شعبہ سے بار بار درخواست کی ہے کہ وہ اپنا کاروبار دستاویزی کریں تاکہ ٹیکس میں ان کا حصہ بڑھ سکے۔ کانفرنس میں انہوں نے بتایا کہ ملک میں 9400 ارب روپے گردش میں ہیں۔ اس دولت کو باقاعدہ معیشت کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ اگرچہ یہ کام پلک جھپکتے تو نہیں ہو سکتا لیکن اسے نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جتنی جلد سب شعبے اپنی اپنی ذمہ داری قبول کریں گے، اتنی ہی تیزی سے قومی سطح پر نتائج دیکھے جا سکیں گے۔وزیر خزانہ کی باتیں پروفیشنل حد تک تو درست ہیں لیکن وہ اس تبدیلی کے لیے سیاسی و انتظامی اقدامات کے بارے میں کوئی واضح منصوبہ پیش نہیں کرسکے۔ اس میں سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ زراعت، رئیل اسٹیٹ اور ٹریڈنگ کے شعبے کیوں ابھی تک قومی خزانے میں اپنے حجم اور آمدنی کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرپائے۔ اس کی بنیادی وجہ مختلف سیاسی پارٹیوں کا مختلف شعبوں کے بارے میں ہمدردانہ رویہ ہے یا یہ کہ متعدد سیاست دان خود ان شعبوں میں سرمایہ کاری کے سبب غیرقانونی آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران قومی احتساب بیورو نے سیاست دانوں کا احتساب کرنے کے لیے آمدنی سے زیادہ طرز زندگی کے الزام میں مقدمات بنائے تھے اور گرفتاریاں بھی ڈالی گئی تھیں۔ یہ مقدمے تو خیر حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی ختم ہو گئے لیکن حکومت اور معاشرے کو طے کرنا چاہیے کہ اس اصول کو قومی ماٹو کے طور پر اختیار کیا جائے۔اس میں تو شبہ نہیں ہے کہ ملک کی ایک چوتھائی آبادی خط غربت سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کو بنیادی ضروریات زندگی حاصل کرنے کی استطاعت حاصل نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک میں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ مالی طور سے ایسی پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں جسے جائز یا دستاویزی آمدنی سے حاصل نہیں کیا گیا۔ وزیر خزانہ کو تاجروں سے دردمندانہ اپیلیں کرنے کے ساتھ ہی کسی ایسے میکنزم پر بھی کام کرنا چاہیے جس کے تحت حکومت کوئی ایسا معیار مقرر کرسکے کہ کوئی شخص اگر ایسی زندگی گزار رہا ہے یا اس کے پاس ایسے مالی وسائل موجود ہیں جو مصدقہ آمدنی سے ثابت نہیں ہوسکتے تو ایسے لوگوں سے کیسے نمٹا جائے اور انہیں غیر قانونی آمدنی کا حساب دینے اور اس پر ٹیکس ادا کرنے کا کیسے پابند کیا جائے۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، معاشی مسائل کی کہانی بھی کسی لوک داستان کی طرح مسلسل اس قوم کے گوش گزار کی جاتی ہے۔ لیکن اس کی اصلاح کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں ہوتا۔ سیاسی طور سے ایک دوسرے کو چور اور معاشی طور سے بدعنوان قرار دینے کے باوجود ملک میں کوئی ایسا انتظامی ڈھانچہ استوار نہیں کیا جا سکا جو غیر قانونی ذرائع آمدنی والوں کا سراغ لگا سکے اور اپنی جائز آمدنی پر جائز ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ افزائی کرسکے۔ ہر حکومت چونکہ کسی بھی طرح وقت گزارنے کی جد و جہد میں ہوتی ہے اور اسے اقتدار میں رہنے کے لیے بہر حال ایسے عناصر کی مدد درکار ہوتی ہے جن کا طرز زندگی ان کی آمدنی کے مطابق نہیں ہوتا، اس لیے عام طور سے اسے نظر انداز کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بدنصیبی سے اس اصول کے علاوہ کرپشن کے خلاف جنگ کا کل فوکس اپوزیشن کے سیاست دانوں پر رکھا جاتا ہے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے لیڈر بڑھ چڑھ کر عمران خان یا ان کے ساتھیوں کو بدعنوان قرار دے کر ان کی کردار کشی کرنے میں سرگرم ہیں۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے بارے میں ایسے ہی الزامات عائد ہوتے تھے۔کسی بھی سیاست دان یا ملک کے شہری کو کلین چٹ دینا مقصود نہیں ہے لیکن یہ واضح ہونا چاہیے کہ جب تک ملک میں احتساب کا نظام شفاف نہیں ہو گا اور اس کا اطلاق محض سیاسی وابستگی کی بنیاد پر اپوزیشن سے متعلق لیڈروں پر کرنے کا طریقہ جاری رہے گا، ملک میں بدعنوانی کا کلچر ختم کرنے اور کالے دھن کو قومی معیشت کا حصہ بنانے کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا ۔ وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب ضرور نیک نیتی سے قومی آمدنی کے علاوہ سرکاری خزانے میں اضافہ کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے جن انتظامی و سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے، ان کے بارے میں کسی سطح پر کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ ریٹیل بزنس کونسل کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی کانفرنس میں ہی انہوں نے بتایا کہ ملک میں درآمدات کو فیس لیس کسٹمز کے ذریعے کلیئر کرنے سے اب 80 فیصد درآمدات اٹھارہ سے انیس گھنٹے میں کلیئر ہوجاتی ہیں۔ جب کسٹم افسر یہی کام کرتے تھے تو اس پر 118 گھنٹے صرف ہوتے تھے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس طرح زیادہ قابل اعتبار ٹیکس اتھارٹی قائم ہو سکی ہے۔ یعنی کسٹمز میں کام کرنے والے عملہ کی دسترس محدود کرنے سے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ سوال ہے کہ کیا کوئی ایسا معاشرہ ترقی کا خواب دیکھ سکتا ہے جو اپنے ہی شہریوں پر اعتبار نہ کر سکتا ہو اور دیانت دارانہ ٹیکس وصولی کے لیے اسے مشینوں پر انحصار کرنا پڑے؟ پھر تو یہ محض وقت کی بات ہے۔ جن لوگوں کو مشینوں کے ذریعے بے اختیار کیا جائے گا وہ آہستہ آہستہ مشینوں پر اپنا اختیار بحال کرنے کا کوئی طریقہ تلاش کر لیں گے۔دنیا بھر میں دولت کمانے والے ٹیکس بچانا یا معروف معنوں میں چوری کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن حکومتیں ٹیکس وصولی کا نظام اس حد تک شفاف، آسان اور اس پر کنٹرول سہل کرتی ہیں کہ کسی کو غیر ضروری طور سے اپنی آمدنی چھپانے اور اس پر ٹیکس بچانے یا چرانے کا موقع نہیں ملتا۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے لیکن نیچے سے اوپر تک بدانتظامی، غلط ترجیحات اور تہ دار دشوار قواعد و ضوابط کی وجہ سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا ۔ اس حوالے سے بعض بنیادی اقدامات اہم ہیں۔ اوسط آمدنی اور زندگی کے مصارف میں معقول توازن پیدا کرنا اہم ہے۔ اس کی ایک کوشش حل ہی میں قومی اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافہ کر کے کی گئی ہے۔ اب قومی اسمبلی کے رکن کو 5 لاکھ 19 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملے گی جبکہ اس سے پہلے یہ تنخواہ پونے دو لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس بارے میں نکتہ چینی ضرور سننے میں آئی لیکن اصولی طور سے یہ درست اقدام ہے۔ رکن اسمبلی کی اتنی آمدنی ضرور ہونی چاہیے جس سے وہ اپنے روز مرہ اخراجات پورے کرسکے تاکہ اسے اپنی سیاسی حیثیت کو غلط استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔یہی اصول پورے معاشرے میں لاگو ہونا چاہیے۔ یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ پچاس ہزار یا لاکھ روپے تنخواہ لینے والا کوئی سرکاری اہلکار بڑھتے ہوئے اخراجات پورے کرنے کے لیے رشوت و بدعنوانی کا راستہ اختیار نہیں کرے گا۔ معمولی تنخواہ پر بے تحاشا اختیارات کے حامل عہدوں پر تقرریاں کر کے حکومت درحقیقت خود ہی معاشرے میں بدعنوانی کا راستہ ہموار کرتی ہے یا بالواسطہ طور سے اسے جائز مان لیا جاتا ہے۔ اسی لیے کسی کو حیرت نہیں ہوتی کہ ایک لاکھ روپے سے کم تنخواہ والا 17 گریڈ کا کوئی افسر اگر ایسی زندگی گزار رہا ہوتا ہے جو دس لاکھ روپے ماہانہ میں بھی فراہم نہیں ہو سکتی۔
معیشت میں بہتری کے لئے ملک کے انتظامی ڈھانچے میں اسٹرکچرل تبدیلیاں بے حد اہم ہیں۔ پھر نہ تو کوئی سرکاری ملازم یہ دعوی کرسکے گا کہ اس کی آمدنی اس کی ضرورتوں سے کم ہے اور نہ معاشرے میں ایسے لوگوں کے لیے قبولیت کی گنجائش رہے گی۔ سرکاری اختیارات کا غلط اور ناجائز استعمال بند ہونے سے تاجر تو کیا تمام اختیارات کے حامل اور اقتدار پر قابض سیاست دان بھی قانون کی پابندی کرنے پر مجبور ہوں گے۔ کیا وزیر خزانہ حکومت کو ایسی تبدیلیاں لانے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔
واپس کریں