سید مجاہد علی
سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئیندہ چار سال کے دوران امریکہ میں سرمایہ کاری اور تجارت میں 600 ارب ڈالر صرف کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ ولی عہد شہزادہ محد بن سلمان نے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر بات چیت میں اس بات کا عندیہ دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی متوقع اصلاحات ’بے مثال معاشی خوشحالی‘ پیدا کر سکتی ہیں۔ سعودی عرب بھی ان سے استفادہ کرنا چاہتا ہے۔اس کے بعد یہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ نئے امریکی صدر اس دور صدارت میں بھی اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لئے سعودی عرب ہی کا انتخاب کریں گے۔ ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر سعودی عرب امریکہ سے 500 ارب ڈالر کی خریداری کرنے کا ارادہ ظاہر کرے تو وہ اس بار بھی سب سے پہلے سعودی عرب ہی کا دورہ کریں گے۔ 2017 میں صدر بننے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ پہلے غیرملکی دورے میں سب سے پہلے سعودی عرب ہی گئے تھے ۔ اور سعودی عرب سمیت عرب ممالک سے تعلقات مستحکم کیے گئے تھے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے سعودیوں سے کہا تھا کہ اگر وہ 450 ارب ڈالر کی امریکی مصنوعات خریدیں گے تو وہ بھی اسے ترجیح دیں گے اور سعودی عرب کا فوری دورہ بھی کریں گے۔
ٹرمپ کے اعلان اور اب سعودی ولی عہد کی طرف سے امریکہ میں سرمایہ کاری کا وعدہ کرنے کے بیان میں دو بنیادی نکات سامنے آتے ہیں جو یہ واضح کرتے ہیں کہ دنیا کے لیے پریشانی کا سبب بننے والی نئے امریکی صدر سے معاملات کرنے کاسب سے بہتر اور تیر بہدف طریقہ کیا ہوسکتا ہے۔ لگتا ہے کہ سعودی ولی عہد نے نہایت زیرکی سے ٹرمپ کی نفسیات کو سمجھا اور وہی بات کی جو ٹرمپ سننا چاہتے ہیں۔ ’سب سے پہلے امریکہ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی امید کرتے ہیں تاکہ وہاں صنعتی فروغ ہو اور امریکی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے علاوہ عوام کو روزگار ملنا شروع ہو۔ اسی پالیسی کی وجہ سے وہ امریکہ کے قریب ترین حلیف یورپی ملکوں کی درآمدات پر بھی نیاٹیرف لگانا چاہتے ہیں تاکہ امریکہ میں درآمدات کی بجائے برآمدات میں اضافہ ہو۔ تاہم بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ خود پسند شخص ہیں اور انہیں اپنی تعریف کرنے والے لوگ اور میڈیا بہت پسند ہے۔ اس کے برعکس جو شخص بھی ان کے خیالات یا طریقوں پر تنقید کرتا ہے یا ان میں نقائص تلاش کرتا ہے تو وہ اسے اپنا ذاتی دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ سعودی میڈیا نے ولی عہد محمد بن سلمان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلی فون گفتگو کی جو معلومات دی ہیں، ان میں ایم بی ایس نے ان دونوں حساس پہلوؤں کو دھیان میں رکھا۔ انہو ں نے امریکہ کے ساتھ لین دین میں 600 ارب ڈالر کا اضافہ کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اس کا کریڈٹ خود لینے کی بجائے ٹرمپ کو دیا اور کہا کہ وہ جو معاشی اصلاحات لانے کا اردہ رکھتے ہیں، ان سے بے مثال معاشی خوشحالی پیدا ہوگی۔ یہی وہ بات ہے جو ٹرمپ جیسا خود پسند سن کر خوش ہوتا ہے اور ایسی بات کرنے والے کو اپنا سب سے اچھا دوست اور محسن ماننے میں دیر نہیں کرتا۔ حالانکہ ٹرمپ معاشی اصلاحات کے لیے جن اہم نکات کا اعلان کررہے ہیں، ان کے بارے میں ماہرین اور ناقدین تقریباً متفق دکھائی دیتے ہیں۔
نئی امریکی حکومت سب سے پہلے لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنا چاہتی ہے۔ ان میں سے بیشتر لوگ سال ہا سال سے امریکہ میں آباد ہیں اور امریکی معاشرہ ان کی صلاحیتوں کا دست نگر ہے۔ لیکن ٹرمپ امریکی معیشت کی بہتری اور مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی حکمت عملی کی وجہ سے جلد بازی میں ڈیپورٹیشن کے پروگرام پر عمل درآمد کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ عام خیال ہے کہ اگر اس پروگرام پر تیزی سے عمل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے امریکی حکومت کو بھاری مصارف برداشت کرنا پڑیں گے ۔ اس کے علاوہ متعدد معاشی شعبوں میں فوری طور سے ورک فورس کی قلت محسوس کی جائے گی۔ البتہ ٹرمپ ایسی تنقید سننا گوارا نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قیمت کا نہیں امریکہ کی خود مختاری کا سوال ہے۔ حالانکہ کسی باقاعدہ اور قانونی طریقہ کے بغیر جبری ملک بدری کے احکامات کو عدالتوں میں چیلنج کرنے کا قوی امکان ہے جس سے بے یقینی بھی پیدا ہوگی، ان لوگوں کو فوری طور سے ملک سے باہر بھی بھیجا نہیں جاسکے گا اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہ بھی متحرک ہوکر حکومت کی کوششوں کو ناکام بنانے کی کوشش کریں گے۔
اسی طرح ٹرمپ کا دوسرا اہم ترین معاشی اقدام ٹیکس مراعات دینا ہے تاکہ سرمایہ دار طبقے کو فائدہ ہو اور ملک میں معاشی تیزی دیکھنے میں آئے ۔ اس کے علاوہ سرمایہ دار دوسرے ملکوں میں پیداواری یونٹ لگانے کی بجائے، امریکہ ہی میں سرمایہ لگائیں اور روزگار پیدا کریں۔ البتہ یہ تصور جس قدر خوشنما دکھائی دیتا ہے، اس کے درپردہ اتنی ہی پیچیدگیاں اور مشکلات بھی موجود ہیں۔ سب سے بڑی مشکل تو یہ یہی ہوگی کہ ٹیکس آمدنی میں کمی کی وجہ سے جو پانچ سو ارب ڈالر سالانہ تک ہوسکتی ہے، امریکی حکومت کو اخراجات پورے کرنےکے لیے مزید قرض لینا پڑیں گے۔ یہ طریقہ بلاشبہ امریکی معیشت کو زیر بار کرے گا۔ اس نقص کو دور کرنے یا ٹیکس میں رعایت سے آمدنی میں ہونے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے ٹرمپ تمام غیر ملکی مصنوعات پر اضافی ٹیرف لگانا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح دو فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں۔ ایک تو ٹیکس رعایت سے ہونے والا نقصان پورا ہوجائے گا اور دوسرے ملک میں درآمدات میں کمی ہوگی اور ملکی صنعت پھل پھول سکے گی۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک تو اس کا اثر سب سے پہلے امریکی صارفین پر ہی پڑے گا کیوں کہ مہنگی درآمدات کو مہنگے داموں فروخت کرنے سے افراط زر میں اضافہ ہوگا۔ دوسرے جن ملکوں کی مصنوعات پر اضافی ٹیر ف لگایا جائے گا ، وہ بھی جواباً امریکی مصنوعات کی حوصلہ شکنی کے لیے ایسے ہی اقدامات کریں گے۔ اس طرح ایک تو بے یقینی پیدا ہوگی، دوسرے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے اور ان یک طرفہ اقدامات کی وجہ سے امریکہ کو عالمی طور سے تنہائی کا سامناکرنا پڑے گا۔
گزشتہ چند دہائیوں کے دوران تجارتی و معاشی لحاظ سے پوری دنیا ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگی ہے۔ علاقائی تعاون کوفروغ دینے کے لیے نئی گروہ بندی ہورہی ہے اور زیادہ سے زیادہ ممالک کو ان نئے گروہوں میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک دوسرے پر انحصارکی سب سے بڑی مثال گزشتہ دو سال کے دوران دیکھی جانے والی دو جنگیں ہیں۔ پہلے روس یوکرین کی جنگ نے اور اس کے بعد غزہ کی جنگ کے باعث دنیا بھر میں مہنگائی اور اشیائے صرف کی کمیابی کے مسائل دیکھنے میں آئے۔ اب غزہ میں جنگ بندی ہوچکی ہے لیکن روس اور یوکرین کے درمیان تنازعہ ختم ہونے کا کوئی فوری امکان موجود نہیں ہے۔ ان حالات نے ان ممالک کی معیشت کو بھی متاثر کیا ہے جن کا براہ راست ان خطوں یا ممالک سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی وہ ان علاقوں سے تجارت پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافے اور مواصلات میں مشکلات کی وجہ سے سارے ہی ممالک متاثر ہوئے اور مہنگائی کی صورت میں دنیا بھر کے لوگوں کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ ان حالات میں جدید گلوبل دنیا میں ایک دوسرے پر انحصار کی اہمیت و ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ڈونلڈ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اتنا بڑا اور اہم ملک ہے کہ دوسروں کو مسترد کرنے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ ایسا کہتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکہ کے اہم اور بڑا بننے میں دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات نے ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ خواہ امریکی سہولتوںو مصنوعات پر انحصار ہو یا امریکی صلاحیت میں اضافہ کے لیے دنیا بھر کے ذہین لوگوں کی امریکہ آمد ہو، ان سب سے یہی واضح ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک باقی سب کو مسترد کرکے اپنے طور پر آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
تاہم محمد بن سلمان نے ان پیچیدگیوں پر غور کرنے یا کسی طرح ان کی نشاندہی کرنے کی بجائے وہی بات کی جو ٹرمپ سننا چاہتے تھے ۔ اس کے علاوہ ان کی’ ذہانت اور بہتر حکمت عملی‘ کو سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ معاشی تعلقات کی اہم وجہ بتا کر انہوں نے اسی ٹرمپ کو رام کرلیا جس کے کہے الفاظ اور دیے گئے احکامات سے پوری دنیا بدحواسی کا شکار ہے۔ ٹرمپ کی کمزوری امریکہ میں سرمایہ کاری کا وعدہ اور اپنی توصیف تک محدود ہے۔ ایم بی ایس نے یہ دونوں باتیں ایک ہی ٹیلی فون گفتگو میں کرکے ٹرمپ کو سعودی عرب کی طرف مہربان ہونے پرمجبور کیا ہے۔ اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عربوں کو سفارت کاری یا کاروبار کرنا نہیں آتا۔ حالیہ برسوں میں سعودی عرب سمیت متعدد عرب لیڈروں نے نہایت عقلمندی سے اپنے تیل و گیس کی دولت کو دنیا بھر میں اپنی اہمیت تسلیم کرانے اور سفارتی جگہ بنانے کے لیے استعمال کیا ہے۔یہ سوال البتہ کیا جاتا رہے گا کہ امریکہ کے ساتھ مالی تعاون کے نتیجے میں حاصل ہونے والی سفارتی صلاحیت کو عرب لیڈر کیسے استعمال کرتے ہیں۔ خاص طور سے یہ سوال غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور فسلطینیوں کے علیحدہ وطن کے حصول میں رکاوٹوں کے حوالے سے اٹھایا جاتا ہے۔ عربوں کے کثیر وسائل امریکہ کی ضرورت اور ٹرمپ کی کمزوری ہیں۔ البتہ یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا عرب لیڈر بھی اس کے بدلے میں اہم عرب و علاقائی معاملات میں امریکی اعانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔
گزشتہ بار جب ٹرمپ صدر بنے تھے تو سعودی عرب سے قربت کی ایک وجہ ایران کے ساتھ سعودی عرب کا تنازعہ بھی تھا۔ اس دوران البتہ سعودی حکومت تہران کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کے علاوہ دو طرفہ تعلقات کو وسیع کرنے کے متعدد اقدامات کرچکی ہے۔ ماضی میں امریکہ نے سعودی ایران دشمنی کی بنیاد پر عربوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا تھا۔ اس بار وہ صورت حال موجود نہیں ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ اب سعودی عرب، امریکہ کو مشرق وسطی میں مستقل امن، فلسطینی مسئلہ کے حل اور وسیع تر استحکام میں معاونت پر راضی کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔
بشکریہ کاروان ناروے
واپس کریں