دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ریاست، سیاست اور غلطیوں کی معافی
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پشاور میں سیاسی لیڈروں سے باتیں کرتے ہوئے یوں تو دہشت گردی کے خلاف قومی یک جہتی پر زور دیا اور واضح کیا کہ دہشت گردی پر آمادہ گروہوں پر قابو پانے کے لیے پوری قوم کو ایک آواز ہونا پڑے گا۔ انہوں تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان کے ساتھ نزاع کی واحد وجہ بھی قرار دیا۔ تاہم اس گفتگو میں انہوں نے ریاست، سیاست اور فوج کے خلاف جھوٹے بیانیہ کا خاص طور سے ذکر کیا۔پاک فوج کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’ریاست ہے تو سیاست ہے۔ خدا نخواستہ ریاست نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ہم سب کو بلا تفریق اور تعصب، دہشت گردی کے خلاف یک جا ہو کر کھڑا ہونا ہو گا‘ ۔ بظاہر یہ جملے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف رائے عامہ تیار کرنے کے لیے ادا کیے گئے ہیں لیکن اسی گفتگو میں انہوں نے فوج کے خلاف بیرون ملک سے تیار کیے جانے والے بیانیہ کا ذکر کر کے اس فقروں کو ملکی سیاسی صورت حال کے تناظر میں سمجھنے کی طرف بھی اشارہ دیا ہے۔ جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ ’عوام اور فوج کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے۔ اس رشتے میں کسی خلیج کا جھوٹا بیانیہ بنیادی طور پر بیرون ملک سے ایک مخصوص ایجنڈے کے ذریعے چلایا جاتا ہے‘ ۔ یہ سمجھنا دشوار نہیں ہونا چاہیے کہ فوج کے سربراہ کس بیانیے اور کن سیاسی عناصر کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ خاص طور اس موقع پر خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور بھی موجود تھے۔ اس طرح اس بیان کی اہمیت اور پیغام کی ضرورت کو سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

پاک فوج اور اس کے زیر اثر ملکی حکومت مسلسل یہ دعویٰ کرتی رہی ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹا بیانیہ پھیلا کر عوام اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی بات جنرل عاصم منیر نے سیاسی لیڈروں سے اپنی ملاقات میں دہرائی ہے۔ فوج کی خواہش کے مطابق حکومت نے سوشل میڈیا پر کنٹرول کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ میڈیا پر نت نئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن نشریات کی حد تک یہ کوشش کی گئی ہے کہ کوئی ایسی بات شائع یا نشر نہ ہو جس سے فوج کی عزت پر حرف آنے کا اندیشہ ہو۔ تاہم حکومت کا بنیادی مسئلہ ادارتی کنٹرول سے باہر ایسی نشریات ہیں جنہیں یوٹیوب کے ذریعے عام کیا جاتا ہے اور جن پر نشر ہونے والے مواد کی کوئی پڑتال ہونا ممکن نہیں۔ ایسی نشریات کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے قانون سازی بھی کی ہے اور ایف آئی اے کے ذریعے کسی بھی بے اعتدالی میں ملوث والے عناصر کی گرفت کرنے بھی کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ایف آئی اے کی کارروائیوں کے بارے بسا اوقات شبہات بھی پیدا ہوتے ہیں اور احتجاج بھی سامنے آتا ہے۔ خاص طور سے جب ایف آئی اے عدم ثبوت کی بنیاد پر عدالتوں میں لوگوں کے خلاف اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہتی ہے تو خاص طور سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔

تاہم حکومت نے اپنی حد تک ایف آئی اے و دیگر سرکاری اداروں کے ذریعے اظہار رائے کے مختلف طریقوں کو کنٹرول کرنے کا طریقہ جاری رکھا ہوا ہے۔ جیسا کہ سانحہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے بارے میں بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتی ادارے بلا دریغ ایک خاص سیاسی گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو حراست میں لیتے اور ان کے خلاف مقدمات قائم کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اکثر لوگوں کو مختصر عدالتی کارروائی کے بعد ہی رہائی مل جاتی ہے۔ البتہ جن لوگوں کو مسلسل قید رکھنا مطلوب ہوتا ہے، انہیں کسی نئے الزام اور نئے مقدمہ میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا رہتا ہے۔ یعنی حکومتی ادارے ایسے بے بنیاد الزامات کو ثابت تو نہیں کر پاتے لیکن جن لوگوں کو ریاستی اور بعض صورتوں میں حکومتی مفاد کے خلاف کسی سرگرمی میں ملوث سمجھتے ہیں، انہیں ناجائز طور سے ہی سہی لیکن طویل مدت تک جیلوں میں بند ضرور رکھا جاتا ہے۔ سانحہ 9 مئی میں ملوث تحریک انصاف کے سینکڑوں کارکنوں کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا گیا ہے۔

اس اصول سے اتفاق کرنے کے باوجود کہ کسی شخص کو خواہ اس کی سیاسی و سماجی حیثیت کچھ بھی ہو، قانون شکنی کی صورت میں لازمی جواب دہ ہونا چاہیے۔ لیکن اگر اس اصول کو محض سیاسی انتقام لینے، ایک پارٹی کے کارکنوں کو ہراساں کرنے اور مقدموں کے فیصلے کرانے کی بجائے انہیں طول دے کر کسی شخص کو عاجز کرنے کا طریقہ اختیار کیا جائے گا تو حکومت کے ارادوں کے بارے میں شبہات بھی پیدا ہوں گے اور عوام میں جمہوری حق، آزادی رائے اور سیاسی حقوق کے حوالے سے بے چینی بھی پیدا ہوگی۔ پاکستانی نظام انصاف میں اگر کوئی عام شخص گرفتار ہو کر مقدمے کا سامنا کرتا ہے تو اس سے وہ اکیلا ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ پورا گھرانا معاشی اور سماجی پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے۔ سیاسی لیڈر تو اپنے بے پایاں وسائل اور میڈیا تک دسترس کی وجہ سے اپنی گرفتاری یا جرم کو بھی گلوری فائی کرلیتے ہیں لیکن عام کارکن جس کی کسی پارٹی کے ساتھ ہمدردی تو ہو لیکن اس کی قیادت یا اس کے فنڈز تک رسائی نہ ہو، اس صورت حال میں شدید پریشانی کا شکار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے فوجی قیادت کے خلاف ’جھوٹ‘ پھیلانے یا ملک میں تشدد کی سیاست کے الزامات کے تحت یہی لوگ اصل نشانہ بنتے ہیں مگر انہی کی بات کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

آرمی چیف نے ایک بار پھر یہ الزام دہرایا ہے کہ بیرون ملک بیٹھ کر کچھ عناصر پاکستان میں ایسا بیانیہ عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو فوج اور عوام کے درمیان قائم ایک مقدس اور اٹوٹ بندھن کو نقصان پہنچاتا ہے۔ آرمی چیف کا کہنا ہے کہ یہ بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے۔ اس بیان کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس حد تک تو یہ بات درست ہے کہ بیرون ملک سے تحریک انصاف کے بہت سے حامی یوٹیوب وی لاگز کے ذریعے جھوٹ نشر کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ حکومت ان لوگوں پر گرفت کرنے کی سکت نہیں رکھتی لیکن ایسی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ اس جھوٹ کو پاکستانی عوام تک پہنچنے سے روکا جائے۔ ٹیکنالوجی کی موجودہ صورت حال میں ایسی ہر کوشش ناکام ہوتی ہے۔ اور جن سرکاری اداروں کو ایسے عناصر کی سرکوبی کا کام سونپا گیا ہے، وہ اصل قصور وار کو تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن سرکار کے سامنے کارروائی ڈالنے کے لیے ایسے لوگوں کے خلاف ضرور متحرک ہو جاتے ہیں جو کسی نہ کسی صورت ایسے مواد کو عام کرنے میں ملوث ہوں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا ایسا جھوٹ ہے جو عوام سننے کے بعد ماننے پر تیار ہو جاتے ہیں اور اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فوج اور سیاسی انتظام کے درمیان تعلق و رشتہ کی وضاحت نہیں ہو پا رہی۔ عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر ہائبرڈ نظام مسلط کیا گیا ہے۔ یعنی ایک ایسا انتظام جس میں عسکری اداروں نے انتخابات کو مینیج کیا تاکہ مطلوبہ افراد کو اقتدار تک پہنچایا جا سکے۔ اس کے علاوہ جعلی یا دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے یہ حکومت قائم ہو گئی تو سرکاری اداروں کو عوام کے ’حقیقی نمائندوں‘ کے خلاف متحرک و مستعد کر دیا گیا۔ یہ الزام روزانہ کی بنیاد پر سامنے آتا ہے۔ پھر اس بیان میں جھوٹ اور سنسنی خیزی کی ملاوٹ کر کے یوٹیوب چینلز کے ذریعے اس کی مزید تشہیر کی جاتی ہے۔ فوج اگر اس صورت حال کو تبدیل کرنا چاہتی ہے تو اسے یہ باور کرانا ہو گا کہ ملک کے سیاسی انتظام کے ساتھ فوج کے تعلق و رشتہ کی وضاحت ہو جائے۔ آرمی چیف یا عسکری قیادت کسی بھی طریقے سے یہ واضح کریں کہ ملکی سیاسی معاملات کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور فوج سختی سے حکومت کے ساتھ صرف آئینی بنیاد پر پر ربط و تعلق رکھتی ہے۔

چونکہ یہ صورت حال واضح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، اسی لیے اس غیر واضح صورت حال میں جھوٹ پھیلانے کی خواہش رکھنے والے اپنی خواہشات کو حقیقی صورت حال بنا کر پیش کرتے ہیں اور سادہ لوح عوام کی بڑی اکثریت اسے ماننے بھی لگتی ہے۔ آرمی چیف کی اس خواہش کا تو احترام ہونا چاہیے کہ دہشت گردی کی موجودہ صورت حال میں عوام میں یک جہتی پیدا کی جائے اور فوج پر لوگوں کے بھروسا و اعتبار کر کمزور نہ کیا جائے۔ لیکن اس کے لیے محض دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے کچھ عملی اقدامات کی ضرورت بھی ہوگی۔ جب ملک کا وزیر اعظم، آرمی چیف کے بارے میں مبالغہ آمیز خوشامدانہ گفتگو کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا اور فوجی قیادت بھی اسے ایک ’خوشگوار طریقہ‘ مانتی رہے گی تو یہ شبہ تقویت پکڑتا رہے گا کہ حکومت درحقیقت فوج کی نامزد کردہ ہے۔ اس صورت حال کو پھر مخالف سیاسی لیڈر وزیر اعظم کو آرمی چیف کا اردلی یا چپراسی کہہ کر یا حکومت کو کٹھ پتلی پکار کر اپنے حق میں رائے ہموار کرتے رہیں گے۔

جنرل عاصم منیر نے ریاست اور سیاست کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ بات اصولی طور سے درست ہونے کے باوجود اپنے پیچھے یہ سوال چھوڑ جاتی ہے کہ کس آئین یا قانون نے فوج کو ریاست پاکستان کا ’ذمہ دار‘ بنایا ہے۔ فوج کی طرف سے ریاست کی حفاظت کے اصرار سے یہ تاثر قوی ہوتا ہے کہ ریاست کی حفاظت کے نام پر عوامی خواہشات کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر یہی بیان آرمی چیف کی بجائے ملکی پارلیمنٹ میں تواتر سے زیر بحث لایا جائے اور ملکی سیاسی لیڈر اس کی اونر شپ لینے کے قابل ہو سکیں تو ریاست اور سیاست کے درمیان تعلق کے حوالے سے متوازن اور میرٹ کی بنیاد پر بحث کا آغاز ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر افتراق و اختلاف کی خلیج فوج کے ارادوں و کردار کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کا سبب بنتی رہے گی۔

آرمی چیف نے اس گفتگو میں غلطیوں اور انہیں تسلیم کر کے آگے بڑھنے کی بات بھی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سب غلطیاں کرتے ہیں لیکن ان غلطیوں کو نہ ماننا اور ان سے سبق نہ سیکھنا، اُس سے بھی بڑی غلطی ہے‘ ۔ اس جملے کو ملکی سیاسی حالات کے وسیع تر تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ ممکنہ طور پر آرمی چیف تنازعات کو ختم کرنے کے لیے غلطیوں کو مان کر آگے بڑھنے کی بات کر رہے ہوں۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ہونے والے مذاکرات اس حوالے سے ایک اہم پلیٹ فارم ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہو گا کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی غلطی کا اعتراف کرنے پر آمادہ ہوں اور دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے کا ظرف دکھایا جائے۔ ایسے ماحول میں ماضی میں فوج کی غلطیوں کو بھی معاف کیا جا سکے گا تاکہ ریاست سب سے بالادست ہو اور سیاست اس کے احترام کے دائرے کے اندر رہ کر ہی کی جائے۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں