دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کرم امن معاہدہ اور حکومتی رٹ کا سوال
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
نئے سال کے آغاز پر کرم ایجنسی میں امن معاہدہ پاکستان سے آنے والی سب سے بڑی اور خوشی کے خبر ہے۔ دو متحارب قبائل کے درمیان جاری قتل و غارتگری کا سلسلہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صوبائی ایپکس کمیٹی نے اس معاہدے کے لیے خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو ٹاسک دیا تھا۔ ایپکس کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ صوبائی حکومت گرینڈ جرگہ کے ذریعے یہ تنازعہ حل کرائے گی جس میں دو سو کے لگ بھگ لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔جائیداد کے تنازعہ اور عقیدہ کے اختلاف کے سبب یوں تو یہ تنازعہ کافی عرصہ سے اس علاقے میں ہلاکتوں کا سبب بنا رہا ہے لیکن گزشتہ سال نومبر کے آخر میں نامعلوم مسلح افراد نے 200 گاڑیوں پر مشتمل ایک کانوائے پر حملہ کر کے 41 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ یہ قافلہ پولیس کی حفاظت میں اس سڑک سے گزر رہا تھا لیکن وہ بھی حملہ آوروں کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ بلکہ پولیس اہلکار فائرنگ شروع ہونے پر اپنی جان بچا کر موقع سے بھاگ گئے۔

اس سنگین صورت حال کی وجہ سے ایپکس کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق تین ہفتے قبل گرینڈ جرگہ نے صلح کے لیے کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ طویل بات چیت اور یقین دہانیوں کے بعد گرینڈ جرگہ فریقین میں امن معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوا ہے۔ فریقوں میں سے ایک کا تعلق اہل سنت سے ہے اور دوسرا گروہ اہل تشیع سے متعلق ہے۔ اب ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں جس سے حکومت بھی مطمئن ہے اور متاثرین بھی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس دوران علاقے میں مواصلت اور آمد و رفت کا سلسلہ بند رہا اور علاقے میں آباد عام شہریوں کو بنیادی ضرورت کی اشیا حاصل کرنے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ محصور ہونے والے باشندوں اور شہریوں کے حالات کے بارے میں کوئی زیادہ تفصیل سے تو خبریں سامنے نہیں آئیں لیکن جیسے حکومت نے فضائی امداد فراہم کی اور ایدھی جیسے امدادی مراکز متحرک ہوئے اور عوام کو خوراک وغیرہ پہنچانے کے لیے ہوائی کوریڈور بنانے کی کوشش کی گئی، اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ معاملہ کس حد تک سنگین اور خوفناک تھا۔ کیونکہ تمام سڑکیں اور مواصلت کے تمام راستے بند تھے۔

اس دوران امن قائم کرانے اور ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت کی کوشش ہوتی رہیں تاکہ علاقے میں سڑکیں کھولی جا سکیں اور عام لوگوں کے معمولات زندگی بحال ہو سکیں۔ اس دوران سامنے آنے والی خبروں سے بھی پتہ چلتا رہا کہ علاقے میں بنیادی ضرورت کی ہمہ قسم اشیا کی قلت تھی کیونکہ پہاڑی علاقوں میں ترسیل کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ اس لیے شاید حکومت اور دوسرے اداروں کو امدادی سامان فراہم کرنے کے لیے آگے آنا پڑا۔کرم میں متحارب فریقین کے درمیان امن معاہدہ ایک اچھی خبر ہے بشرطیکہ یہ اچھی خبر پائیدار خبر بھی ثابت ہو سکے۔ معاہدے کے تحت فریقین اس بات پہ راضی ہوئے ہیں کہ وہ غیر قانونی اسلحہ رکھنے سے گریز کریں گے اور ایک دوسرے پر حملے کرنے کے لیے بنائے گئے مورچے اور بنکر مسمار کیے جائیں گے۔ حکومتی اتھارٹی بحال کی جائے گی۔ لیکن اس دوران میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کراچی میں اہل شیعہ کی تنظیم وحدت المسلمین نے گزشتہ چند روز سے دھرنے دیے ہوئے ہیں۔ ان کا موقف رہا ہے کہ پارہ چنار کے راستے کھولے جائیں اور لوگوں کی امداد بحال کی جائے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ احتجاج پرامن ہے اور پاراچنار کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے دھرنے دیے گئے ہیں۔ سندھ حکومت نے واضح کیا تھا کہ سندھ کی صوبائی حکومت بھی اس افسوسناک صورتحال کو مسترد کرتی ہے۔ اور کرم کے لوگوں کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے لیکن پارہ چنار کے لوگوں کے لیے کراچی میں دھرنا دینا اور کراچی کے شہریوں کے زندگی اجیرن کر دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

اس بارے میں گزشتہ روز کچھ سختی بھی کی گئی تھی اور راستے کھلوانے کی کوشش کی گئی تھی۔ آج پھر صوبائی حکومت نے کوشش کی کہ مظاہرین کے ساتھ معاہدہ ہو جائے اور وہ کسی طرح سے راستے کھولنے اور دھرنے ختم کرنے پر آمادہ ہوجائیں تاکہ تصادم کی صورتحال پیدا نہ ہو۔ دوسری طرف وحدت المسلمین چونکہ اہل تشیع کی نمائندگی کرتی ہے اور اس حوالے سے اس نے پاراچنار میں سڑکیں کھلوانے کے لیے کراچی میں دھرنے دیے تو دوسری طرف سنیوں کی تنظیم اہل سنت والجماعت نے اپنے طور پر اعلان کیا کہ وہ کراچی کے ساٹھ مقامات پر احتجاج کرے گی اور اپنی موجودگی کا ثبوت فراہم کرے گی۔ وحدت المسلمین کا کہنا تو یہ تھا کہ وہ پاراچنار کے لوگوں کی ہمدردی اور انہیں سہولتوں کی فراہمی کے لیے دھرنے دے رہی ہے۔ البتہ اہل سنت الجماعت نے واضح نہیں کیا کہ کہ وہ کیوں سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ لیکن بظاہر یہ اقدام اہل تشیع کے خلاف اپنا وجود ثابت کرنے کے لیے کیا جا رہا تھا۔

امید کرنی چاہیے کہ کرم ایجنسی میں چونکہ فریقین متفق ہو گئے ہیں اور گرینڈ جرگہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے، اس لیے کراچی میں دھرنوں اور احتجاج کا سلسلہ بھی بند کیا جائے گا۔ اور پاراچنار کے لوگوں کی زندگیاں معمول پر آ سکیں گی اور ان کی تکلیفیں کم ہو سکیں گی۔ البتہ اس معاملہ میں امن معاہدے پر اتفاق رائے اصل موضوع نہیں اور نہ ہی اسے اس زاویے سے دیکھا جاسکتا ہے کہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے کیسے بڑے بحران پر قابو پایا ہے۔ اصل معاملہ یہ دیکھنا ہے کہ اس ملک میں کس کی حکومت ہے۔ کرم ایجنسی میں ہونے والے واقعات نے یہ بالکل واضح کر دیا ہے کہ گروہی طاقت اس وقت سرکاری اداروں اور حکومتوں پر بھاری پڑ رہی ہے۔

گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے مولانا فضل الرحمان اور دیگر علما کے زبردست دباؤ اور دھمکی آمیز بیانات کے بعد ان سے ملاقات بھی کی اور مدرسہ ایکٹ قبول کرنے کی منظوری بھی دی تھی۔ یہ اصولی طور پر کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمان چاہتے تھے کہ مدرسہ ایکٹ میں پرانے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کا آپشن باقی رکھا جائے تاکہ ان کی خود مختاری بحال رہے۔ جبکہ 2019 کے قانون کے مطابق محکمہ تعلیم کے تحت مدرسہ ڈائریکٹوریٹ بنایا گیا تھا اور تمام مذہبی اداروں کو اس کے ساتھ ہی رجسٹریشن کرانا پڑتی تھی۔ اس طریقے کا مقصد مدارس کے نظام میں شفافیت لاکر ان کے نصاب اور مالی معاملات کو کنٹرول کرنا تھا۔ مولانا فضل الرحمان کو یہ طریقہ منظور نہیں تھا۔ بالآخر مولانا کو خوش کرنے اور ان کی خود مختاری برقرار رکھنے کے لیے شہباز شریف اپنی اور حکومت کی خود مختاری قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے۔

اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی گروہ ملک میں پریشر گروپ بنا سکتا ہے تو اسی کی طاقت کام آتی ہے اور وہی اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ حکومت لاچار ایسے عناصر کے سامنے ہتھیار پھینکنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔ کرم ایجنسی معاہدے کو بھی اسی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت اپنے زیر نگین علاقے میں بدامنی اور قتل و غارت گری پر آمادہ لوگوں کا قلع قمع کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی بلکہ اس نے جرگہ کے نام پر سنگین جرائم میں ملوث قبائل کو امن معاہدے پر راضی کرنے کی کوشش کی۔ اسی لیے اس معاہدے کے تحت قائم ہونے والے امن کو مستقل نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ یہ کسی حکومتی اتھارٹی کے ذریعے قائم نہیں ہو رہا بلکہ فریقین خود ہی ’امن‘ قائم کرنے پر راضی ہو گئے۔ گویا طاقت مسلسل ان گروہوں کے ہاتھ میں ہے جو جب چاہیں کسی معمولی عذر پر ایک بار پھر خوں ریزی شروع کر دیں۔ امن معاہدہ کی ایسی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی جس سے پتہ چلتا ہو کہ ایک دوسرے کے لوگوں کو مارنے اور بسوں کے قافلے پر حملہ کرنے والے لوگوں کو عدالتی کٹہرے میں لایا جائے گا۔

یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ ملک کی کسی بھی حکومت کے پاس کسی بڑے پریشر گروپ کا سامنا کرنے اور اس کے ناجائز مطالبوں کو مسترد کر نے کی طاقت نہیں ہے۔ یہ صورت حال قانون کی عملداری اور حکومتوں کی کمزوری کی حقیقت عوام کے سامنے آشکار کر رہی ہے۔ ان حالات میں وفاق میں حکومتی پارٹیاں اسلام آباد میں تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا دور شروع کرنے والی ہیں۔ یہ مذاکرات 2 جنوری کو شروع ہوں گے۔ ملک کے تجزیہ نگار ان کی کامیابی کے بارے میں بہت زیادہ توقعات تو وابستہ نہیں کر رہے لیکن جزوی طور پر امید کی جا رہی ہے کہ سیاسی عناصر کے درمیان مفاہمانہ عمل سے حالات خوشگوار ہو سکیں گے۔ان مذاکرات کے لیے تحریک انصاف کے طرف سے جو بنیادی مطالبات پیش کیے جائیں گے ان میں عمران خان اور دیگر قیدیوں کی رہائی اور 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی عدالتی تحقیقات کرانے کا مطالبہ شامل ہے۔ ان دونوں مطالبات کے بارے میں فوج کے ترجمان نے گزشتہ سال کے اختتام پر منعقد کی جانے والی پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ تحریک انصاف کوئی ایسا گروہ نہیں ہے جس کے ساتھ بات چیت سے معاملات طے کیے جائیں۔ اس بیان کے بعد مطالبات کے حوالے سے حکومت کے پاس زیادہ سپیس باقی نہیں ہے۔ ایک طرف 9 مئی کے حوالے سے تحریک انصاف اپنی پوزیشن تبدیل کرنے پر تیار نہیں ہے اور نہ ہی فوج کسی رعایت کے موڈ میں ہے۔ ایسے میں بہتر سیاسی تعاون کے لیے شہباز شریف حکومت کتنی گنجائش پیدا کر سکتی ہے؟

اس ساری صورت حال میں یہ اضافہ کرنا اہم ہے کہ فوجی نمائندوں نے گزشتہ کچھ عرصہ سے ملک میں دہشت گردی اور امن و امان کی خراب صورتحال کو بیڈ گورننس کے ساتھ ملا کر پیش کیا ہے۔ فوج کا موقف ہے کہ فوجی جوان اور افسر اپنے خون سے ملک میں پائی جانے والی بری گورننس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ گویا ملک میں حکومتیں اپنی رٹ قائم کرانے اور اتھارٹی واضح کرنے میں ناکام ہیں۔ البتہ اس سوال کا جواب کوئی بھی دینے پر آمادہ نہیں ہے کہ حکومتی اتھارٹی کیسے بحال کی جائے؟

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں