دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کی کشمیرپرحکممت عملی ISSRA— میں روڈ میپ
جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
پاکستان انسٹیچیوٹ برائے سٹریٹیجک سٹڈیز ، ریسرچ و انالسسز (ISSRA) جو نیشنل ڈیفنس یو نیورسٹی اسلام آباد کا ایک ادارہ ہے نے جناب جمال عزیز ایڈووکیٹ جو Research society of International Law (RSIL) کے ایکزیکٹیو ڈائیریکٹر ہیں کے پاکستان کی کشمیر پر حکمت عملی پر ایک تحقیقی مقالہ شائع کرکے ، پاکستان کے دفاعی اداروں سے منسلک ایک شعبہ نے پہلی بار کشمیر جیسے پیچیدہ قومی مسئلہ پر ایک “ شعوری “ کوشش کی ہے جو یقینآ ہر لحاظ سے قابل تحسین ہے - گوکہ ISSRA نے بڑے جلی حروف سے لکھا ہے کہ “ اس تزویراتی مقالے میں درج رائے قطعی طور مصنف کی اپنی ہے ادارے کی نہیں “ -
یہ صیح ہوگا، لیکن یہ غلط نہیں کہ کسی فوجی ادارے نے پہلی بار اپنے پلیٹ فارم سے کسی کو اس موضوع پر متبادل رائے دینے کی دعوت فکر دی - اگر سال 1965 سے پہلے ایسا کیا گیا ہوتا تو ممکن ہے کہ 1965 سمیت 1999 تک کی جنگیں نہ ہوئ ہوتیں اور کشمیر کا مسئلہ بھی عوامی کچہری میں آنے کی وجہ سے کسی طور حل بھی ہو گیا ہوتا ، کم از کم پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی کی حدت کی یہ حد نہ ہوتی جو ہے- اس کی کلاسیکل مثال سال 1948 سے 1953 ہے جب گیند عوامی کورٹ میں تھی تو کشمیر پر ہاری ہوئی جنگ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی وجہ سے جیت لی گئ - شملہ میں عوامی لیڈر کے ہاتھوں میدان میں ہاری ہوئ جنگ ٹیبل پر جیت لی گئ - تیسری بار 2001 سے 2016 تک ان دو متحارب ملکوں کے عوام کی سامنے آئ تو کشمیر پر بات چیت حکومتوں سے نکل کر عوام کے پاس آئ جس سے کر گل کی ہزیمت کو عوامی تعلقات سے ہرا دیا گیا - کشمیر کے دونوں حصوں کے لیڈر اور لوگ آر پار آئے گئے ،، کاروبار بھی چلتا رہا ، حالانکہ ممبئ اور پلوامہ جیسے مہلک ترین حادثے بھی ہوئے -

قومی مسائل قومی زمہ داریاں ہوتی ہیں جو عوامی طاقت سے ادا ہو سکتی ہیں ، صرف حکومتی اداروں کے زریعہ سے نہیں - بہر حال دیر آید درست آید - اس سلسلے کو اس رپورٹ کے پس منظر میں جاری رہنا چاھیے اور وسیع البنیاد ہونا چاھئے —اس مقالے میں کشمیر پر ہندوستان اور پاکستان کی جنگوں ، سلامتی کونسل کی قراردادوں ، باہمی معاہدوں ، دونوں ملکوں کے کشمیر پر قانونی ، سیاسی اور سفارتی مواقف ، اکستان کی سیاسی اور اقتصادی کمزوری سے ہندوستان کی بر تری کی وجہ سے دفعہ 379/35 کو منسوخ کر کے معا ملات پیچیدہ بنانے کے علاوہ آزاد کشمیر پر قبضہ کے تکرار کو بڑی کشادہ دلی سے زیر بحث لایا گیا ہے - مصنف جمال عزیز اس مقالے میں کشمیر پر ہندوستان کے مقاصد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ وہ کشمیر کے متنازعہ کردار کا تاثر ختم کرنے ، پاکستان کو نظر انداز کرنے، کشمیر کے تنازعہ کے حل کے لئے ہر مسلمہ اصول کو ختم کرنے، اپنے قبضے کو قانونی طور مستحکم کرنے، پاکستان کے زیر انتظام ریاست کے حصوں کے ہر حیلوں بہانوں سے لینے ، پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام ریاست کے حصوں پر فوجی، سیاسی، سفارتی دباؤ بڑھانے ، اپنے مقبوضہ حصے کو ہر لحاظ سے ترقی یافتہ ظاہر کرنے، امریکہ اور چین کو کشمیر پر پاکستان کی مدد کرنے سے روکنے اور ہندوستان کی شرائط پر اس کے حل کے کوشش کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے -

مصنف کشمیر پر پاکستان کی تزویراتی تر جیحات کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پاکستان کو کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ہر فورم پر قائم ر کھنا چاھئے، مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی پاکستان کے ساتھ وابستگی کو مستحکم رکھنے کے لئے کوشش جاری رکھنے جس کے لئے آزاد کشمیر کے بیس کیمپ کے تاثر کو مضبوط کرنے اور گلگت بلتستان کو کشمیر کے تنازعہ سے الگ کر کے پاکستان میں ضم کرنے ، موجودہ حآلات مسئلہ کے حل کے لئے ساز گار نہیں ہیں جس کے لئے پاکستان کی بیرونی کامیابی کے لئے اندرونی سیاسی ، اقتصادی اور انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنے کے لئے اقدامات کرنے ، اس کی خاطر ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے ماحول کو آمد و رفت اور کاروبار کے زریعہ مستحکم کرنے اور “ All or nothing “ کی اپروچ سے ھٹنے ، ہندوستان کے پاکستان کو دھشت گردی کے منترا کے جواب میں ہندوستان کی کشمیر ، پاکستان اور دنیا بھر میں دھشت گردی کے حوالے سے دیوار سے لگا کر امن ، خوشحالی اور استحکام کا پیغام دینے، کشمیر کے مسئلے کے حتمی حل کے لئے امریکہ اور چین کے خصوصی کردار کو محل نظر رکھنے کے علاوہ بین الاقوامی مسائل کے حل کے لئے چین کی پالیسی کو مشعل راہ بنانا اور چین اور ہندوستان کے درمیان سرحدی معاہدہ کے حل پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے -

ان تزویراتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے مصنف نے آزاد کشمیر کو سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کرنے کے بجائے مقامی سیاسی لیڈر شپ کے زریعہ سیاسی تحریک کو چلانے ، مکالمہ کا راستہ کھولنے کے لئے آزاد کشمیر کو با اختیار بنانے اور ہر سطح پر اصلاحات کرنے اور اس کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جبکہ گلگت بلتستان کو کشمیر کے تنازعہ سے الگ کر کے پاکستان کا صوبہ بنانے کی ضرورت ہے جس سے پاکستان اس دفاعی خطہ میں مضبوط حیثیت حاصل کرے گا ، پاکستان کو کشمیر پر اپنا قانونی ، سیاسی اور سفارتی بیانیئے کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے ، کشمیر میں ہندوتا کی بڑھتی ہوئی یلغار کے مقابلے میں کشمیر کی غالب تاریخی مسلم اکثریت کی تہذیب ، شناخت ، اکثریتی آبادی کو در پیش دیگر مشکلات کو ایکسپلائیٹ کرنے کی ضرورت ہے -

پاکستان کے خلاف ہندوستان کی اسرائیل کی طرز پر پاکستان کے اندر ، کشمیر ، یورپ اور امریکہ میں دہشت گردی کے الزامات کو اجاگرکرنے کی ضرورت ہے ، امریکہ کے 9/11 کی دہشت گردی کی واردات کی چھتری میں چھپنے کے بجائے ہندوستان کو یواین چارٹر کے تحت کشمیر میں آزادی اور حق خود ارادی کی جنگ لڑنے کے حق کو اجاگر اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ، ہندوستان کے لئے کشمیر پر قابض رہنے کی قیمت بڑھا کر اس کے کنٹرول کو کمزور کرنے کی ضرورت ہے ، روائیتی بیانیہ اور الزامات کے علاوہ بین الاقوامی قانون کے تحت چارہ جوئیںاں کرنے کی ضرورت ہے ، ہندوستان کو پاکستان کے اندر سے راہداری ، ٹرانزٹ اور انرجی کو ریڈورز سے اقتصادی فوائد کا احساس دلاکر کشمیر کے مسئلے کے حل پر آمادہ کیا جا سکتا ہے جس کا پاکستانی لوگوں کو بھی ادراک نہیں ، پاکستان کو بھی لچکدار پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس سے ہندوستان پر بھی زور بڑھے گا ، پاکستان ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں عوامی تحریک کے زریعہ پر امید طریقے سے مسئلہ کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے،کشمیر پر پائیدار حکمت عملی کی تشکیل کے لئے باقی دنیا کی طرح مستقل ادارے کی قیام ، پہلے سے موجود اداروں کو فعال بنانے ، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو بہ یک زبان ہم قدم ہونا چاھئے ۔ وغیرہ وغیرہ-

یہ اس اٹھانوے صفحات پر محیط رپورٹ کا انتہائ مختصر خلاصہ ہے جس کی رونمائ پاکستان میں بین الاقوامی قانون کے ماہر تھنک ٹینک RSIL نے افوج پاکستان کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے تھنک ٹینک ISSRA کے پلیٹ فارم سے یوم یکجہتی کشمیر سے ایک دن پہلے 4 فروری کو اسلام آباد میں کی گئ - اس ادارے کا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ متبادل سوچ قومی اور ملکی مفاد میں ہے - تنازعے قائم رہنے اور جنگ کی حو لناکیوں کو جتنا فوج سمجھتی ہے کوئ اور نہیں سمجھ سکتا - اس رپورٹ میں درج خیالات کا اظہار میں 1982 سے اخباری کالمز، کتابوں ، بیانات اور سیمنارس میں کرتا چلا آرہا ہوں - اس کے علاوہ ہمارے تھنک ٹینک ARJK نے 2012 اور 2014 میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستانی آئین میں بطور حصہ اور صوبہ پاکستان درج کئے بغیر مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو بحال رکھتے ہوئے دونوں حصوں کو مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک الگ الگ صوبے کی حیثیت دئے جانے کے لئے پاکستان اور ان دونوں علاقوں کے آئینی دستاویزات کی مجوزہ ترامیم کا مسودہ بھی شائع کیا ہے جو بشمول NDU اور دیگر قومی اداروں اور یونیورسٹیز کو بھی مہیا کی گیا ہے - اس کی ایک جھلک سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ میں دیکھنے کو ملی جس میں گلگت بلتستان کو صوبائی حقوق دینے کے لئے آئینی مسودہ ARJK کے کٹ پیسٹ جیسا لگا - رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ آزاد کشمیر کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے اس لئے دونوں کو Holistically دیکھا جانا مناسب ہوگا -

مجھے اس سیمنار میں شامل ہوکر اور اس رپورٹ کو پڑھ کر بہت خوشی ہوئ کہ اتنے بڑے پلیٹ فارم سے کشمیر پر متبادل اور لچکدار رویہ کی سفارش، ہندوستان کے ساتھ تجارتی ، سفارتی، سیاسی اور عوامی رابطے بڑھانے کی تجویز پیش کی گئ ہے - رابطوں کے بغیر دوسرا طریقہ جنگ ہی ہے جس کا کوئ متحمل نہیں ہو سکتا - آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں آئینی ، قانونی ، انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اچھی تجاویز بھی دی گئ ہیں - ان بد قسمت خطوں کے لوگ پاکستانی شہریت کے قانون کے تحت پاکستان کے شہری بھی نہیں - حکومت پاکستان ان کو صوبے کے مماثل چلا رہی ہے لیکن پاکستان کے کسی پالیسی سازی ، فیصلہ سازی، قانون سازی اور ان کے نفاذ میں شامل نہیں - ستئتر سال سے اسی حالت میں یرغمال بنے ہیں - آزاد کشمیر کے اندر بھی اسمبلی اور حکومت کے اندر 1/3 حصہ اور 25% ریاستی ملازمتیں غیر رہائشی لوگوں کو مہاجرین کشمیر کے نام پر مختص کی گئ ہیں جو پاکستان کے مختلف صوبوں میں مقامی پاکستانی حقوق کے ساتھ رہتے ہیں ایسے ہی وسیع جمہوری خلاء نے تو بنگلہ دیش کی چوڑیں ہلا دی ہیں -

آزاد کشمیر کے سیاست دان یہ کام کبھی نہیں کریں گے، یہ نا انصافی ان ہی کی پیدا کردہ ہیں - انہوں نے اپنی کشتی حالات کے رحم و کرم پر چھوڑی جو اس وقت کی حکومت میں شمولیت سے عیاں ہے - عوامی حقوق تحریک کے دوران اپنے ورکرز کو اپنی ساکھ بچانے کے لئے ان کے ساتھ شامل کردیا تھا اور خود حکومت کے ساتھ تھے جبکہ حکومت بے بس ہوگئ تھی - بد نامی پاکستان کی ہوئی -مقبوضہ کشمیر ضرور آزاد ہوکر پاکستان کا حصہ بننا چاھئے لیکن جو حصے پاکستان میں ہیں ان کو بھی حقوق کے حوالے سے پاکستان بنائیں جس کا ہندوستان اپنے آئین کے تحت دعویدار ہے - جلسے جلوسوں تقریروں کے زریعہ کشمیر نے آزاد نہیں ہونا لیکن جو حصہ آپ کے پاس ہے ان کو اقتصادی ترقی، جمہوری قدروں ، سیاسی حیثیت کے موجودہ پیمانوں کے زریعہ قابل رشک بناکر ہندوستان کی ترغیبات سے بچانا اور مقبوضہ حصے کے لئے ترجیح اول بنانا پڑے گا - اس وقت تک ان علاقو ں کی گرداوری میں قبضہ و کاشت تو یہاں کے لوگوں کا لکھا گیا ہے لیکن ملکیت کا خانہ خالی ہے ، ایسا نہ کریں - فارسی میں کہا جاتا ہے “ خانہ ویران را دیواں گیرند۔” ارباب اختیار کو یہ بات زہن میں رکھنا چاھیے کہ مقبوضہ کشمیر میں سرعت پزیر ترقی کے جال چانکیا پالیسی کے اصول کے مطابق مخالفوں کو ترغیب اور لالچ کے لئے ہے - انسان لالچی ہوتا ہے - آدم علیہ السلام نے اللہ کے منع کرنے کے باوجود لالچ کے مارے گندم کا دانہ کھا لیا تھا جس کی سزا اس کی اولاد بھکت رہی ہے -

گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر سے کاٹ کر پاکستان کا مکمل صوبہ بنانے اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو اس کی ملکیت دینے یا ملکیت میں لینے کے بجائے اسی آئینی ، قانونی اور انتظامی بد حالی میں رکھنا سمجھ سے بالا تر ہے - یہ دونوں حصے اس ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں جو 1846 سے 1947 تک یکجا تھے اور اسی ریاست کے مستقبل کا حل سلامتی کونسل نے آزادانہ رائے شماری کے زریعہ کرانے کا فیصلہ ہندوستان اور پاکستان کے تسلیم کرنے پر کیا تھا- یہی نہیں بلکہ پاکستان نے ڈکسن پلان کے مطابق ریجنل رائے شماری کی تجویز کو اس بناء پر مسترد کیا تھا کہ پوری ریاست ایک یونٹ ہے اور رائے شماری پوری ریاست کے اندر ہونا چاھئے حصے بخرے کر کے نہیں - اٹارنی جنرل پاکستان نے آزاد کشمیر سپریم کورٹ میں ایک کیس میں حکومت پاکستان کی طرف سے تحریری جواب داخل کیا تھا کہ گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے -

آزاد کشمیر میں سال 2021 سے یہ شوشے سننے میں آرہے ہیں ، جب سے دونوں ملکوں کے درمیان مکمل جنگ بندی چلی آرہی ہے، کہ کسی نہ کسی سطح پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان موجودہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سر حد بنانے پہ اتفاق ہوگیا ہے جس کے تسلسل میں آزاد کشمیر کو سرحدی صوبوں کے پی اور پنجاب میں ضم کیا جا ئے گا - شوشے حقیقت نہیں ہوتے لیکن خدشات عوام کو گمراہ کر دیتے ہیں - گزشتہ سال سے آزاد کشمیر میں عوامی حقوق کی تحریک میں چپہ چپہ سے جس جوش و جذبہ سے لوگوں نے یکجان ہوکر حکومت آزاد کشمیر اور پاکستان کو ہلا کے رکھ دیا اس کے بعد لوگوں کی مرضی کے بغیر یا اس کے خلاف کسی بھی رد عمل کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے - لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ یا باہمی افہام و تفہیم کی بنیاد پر ہندوستان اور پاکستان ریاستی عوامی لیڈر شپ کو اعتماد میں لے کر کشمیر کے حل کے کسی فارمولے پر پہنچ جاتے ہیں تو اس میں کوئ مخل ہو سکتا ہے - یہ صرف کشمیر کا حل نئہیں بلکہ عالمی امن کی بقا کے لئے حل ہے جو عالمی اسٹیبلشمنٹ منوا لے گی جس طرح اس نے جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائین میں تبدیل کر کے اس کو Sacrosanct ) “مقدس اور ناقابل خلاف ورزی” بنوا دیا ہے اور آج تک ساری جنگوں کے بعد فوجوں کو ان ہی لائینوں پر جانا پڑتا رہا -

کشمیر کے مسئلہ کا حل کشمیر یا ہندوستان و پاکستان کی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ زمینی حالات کے مطابق ہی ہونا ہے اور ضرور ہونا ہے ، لیکن جس طرح نہ قائد اعظم محمد علی جناح کو وہ پاکستان ملا جو وہ مانگتے تھے اور نہ ہی مہاتما گاندھی بٹوارے کو روک سکے ، اسی طرح کشمیر کا بھی ہونا ہے - استصواب رائے جن حالات میں اس کا حل تھا اب وہ حالات نہیں ہیں ، اب حق خود ارادیت کے حصول کے دیگر طریقوں سے ہی بات آگے بڑھ سکتی ہے - یہ بھی وادی کشمیر کی حد تک مشرف فارمولے سے ملتا جلتا قابل قبول حل تلاش کرنا پڑے گا ، باقی سب Fait accompli ہے - تاہم یہ بھی پاکستان میں سیاسی ، انتظامی اور اقتصادی استحکام کے بغیر ممکن نہیں ، اس کے بغیر صرف اس وقت کشمیر کے مسئلے کا حل ممکن ہوگا جب دنیا کی اسٹیبلشمنٹ نے جنگ عظیم اول اور دوئم کی طرح موجودہ دنیا کی بندر بانٹ کی یا ان سے نئے ملک بنائے گئے - دنیا اس وقت جس نہج پہ پہنچ گئ ہے وہ وقت بھی دور نہیں لگتا-

اس رپورٹ کے پس منظر میں یہ لکھنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر کسی سطح پر کوئ مفاہمت ہوئ ہے تو اس کی روح کے مطابق ریاست کے ان دونوں حصوں کوکسی بندر بانٹ کے بغیر دو الگ الگ یو نٹس میں مستقل صوبے کے طور استوار کیا جائے- اگر ایسا نہیں ہے تو کام چلاؤ کے لئے پاکستانی آئین کی دفع۔ 257 میں مناسب ترمیم کرتے ہوئے ریاست کے حتمی حل تک ان کو اسی طرح عارضی صوبہ بنایا جائے جیسے 1963 کے چین پاکستان معاہدے کے تحت ریاست کا اکسائے چن کا حصہ چین کو اس شرط کے ساتھ دیا گیا ہے کہ ریاست کے حتمی حل کے بعد جس ملک کے پاس یہ حصہ جائے گا چین اس کے حتمی حل کے لئے اس سے بات کرے گا اور اگر یہ پاکستان کے پاس گیا تو یہی معاہدہ حتمی حل سمجھا جائے گا - مجھے امید ہے کہ ISSRA اور RSIL اس رپورٹ کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے ریاست جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کے ، لوگوں کے عمومی رجحان ، زمینی حالات ، اور پاکستانی مفاد کو گہری سوچ کے ساتھ سامنے رکھ کے اس خطے میں چلنے والی ماضی کی تحریکوں اور مستقبل کے عالمی حالات کا ادراک کر کے قابل عمل ایک یا ایک سے زیادہ حل تجویز کریں گے جن میں سے جو بھی اس ملک اور خطے کے لئے سب سے زیادہ سود مند ہوگا اس کو عوامی رائے سے نافذ کیئے جانے میں دیر نہیں کرنا چاھئے-
واپس کریں