جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
کشمیر ، پاکستان اور دنیا بھر میں آباد ریاستی باشندے ہر سال 5 جنوری کو یو- این سلامتی کونسل کے زیر اھتمام یوم قرار داد الحاق پاکستان کے طور مناتے ہیں جبکہ یہ قرارداد سلامتی کونسل نے نہیں ، بلکہ “سیکیورٹی کونسل کے قائم کردہ کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان “ نے پاس کی تھی جو غلط العوام کے طور یواین سیکیورٹی کونسل کی کشمیریو ں کے لئے حق خود ارادیت دینے کے دن کے طور تذک و احتشام سے منائ جاتی ہے- واقع اس سے ملتا جلتا ہے لیکن ویسا بلکل نہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہم رسمی طور یہ دن ایک تہوار کے طور مناتے ہیں اس کے پس منظر کا علم نہیں رکھتے - اس کا قانونی اور سفارتی پس منظر ہندوستانی حکومت کے یکم جنوری 1948 کی وہ شکایت ہے جو ہندوستان نے سلامتی کونسل میں پاکستان کے خلاف پیش کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستان کی فوج نے قبائل کے زریعہ اس کی ریاست جموں و کشمیر میں 22/24 اکتوبر 1947 کو مداخلت کر کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ ریاست کا الحاق ہندوستان سے ہوچکا ہے - اس لئے پاکستان کو قبائل اور اپنی فوج نکالنے کا حکم دیا جائے جو بین الاقوامی امن کے لئے خطرہ بن چکا ہے - پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ الحاق غیر قانونی ہے اور ریاست کے لوگ اپنی ریاست کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ریاست کے ایک حصے میں ریاست کے لوگوں کی حکومت قائم ہو چکی ہے - اس پر سلامتی کونسل نے دونوں ملکوں کا موقف لیکر اپنی پہلی قرارد اد مورخہ 17 جنوری 1948 کے تحت ہندوستان اور پاکستان سے تقاضا کیا کہ دونوں ملک صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور کوئ بھی ایسا بیان دینے یا عمل کرنے سے باز رہیں جو صورت حال کو بھڑ کائے اور صورت حال میں کسی بھی تبدیلی سے اطلاع دیں اور اس سے مشورہ کریں-
سلامتی کونسل کی دوسری قرار داد 20 جنوری 1948 کے زریعہ ایک کمیشن قائم کیا گیا ( جو بعد ازاں یواین سیکیورٹی کونسل کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان کے نام سے جانا جاتا ہے UNCIP ) جس کو فوری طور موقع پر جاکر سیکیورٹی کونسل کی اتھارٹی اور ہدایات کے تحت کام کرنے اور صورت حال سے اس کو باخبر رکھنے کی ہدایت کی گئ - اس کو دو کام سونپے گئے کہ یو این چارٹر کے آرٹیکل 34 کے تحت واقعات کی چھان بین کرے گا اور مشکلات کو آسان کرنے کے لئے مصالحتی اثر و رسوخ استعمال کرے تاکہ کونسل کی ہدایات پر ہندوستان کی شکایت مورخہ یکم جنوری اور پاکستان کی وزارت خارجہ کے مکتوب مورخہ 15 جنوری 1948 کی روشنی میں کام کرکے کونسل کو رپورٹ کرے گا- سیکیورٹی کونسل نے اپنی تیسری قرار داد مورخہ 6 فروری 1948 کو قرار دیا کہ “ جموں و کشمیر کا الحاق کے زریعہ پر امن حل جموں و کشمیر ، ہندوستان اور پاکستان کے مفاد میں ہے -“ اسی قرارداد کے دوسرے پیرا میں قرار دیا گیا کہ” ریاست جموں و کشمیر میں تشدد اور دشمنی کو روک کر رائے شماری کے جمہوری عمل سے یہ فیصلہ کیا جائے کہ یہ ریاست ہندوستان سے الحاق کرنا چاھتی ہے یا پاکستان سے”- یہ قرار داد دونوں ملکوں کی رضامندی سے پاس کی گئ جس میں “کسی تھرڈ آپشن کی کوئ گنجائش نہیں ہے -“ ریاست کے لوگوں کو “ حق خود ارادیت کے زریعہ الحاق کے حق کا فیصلہ سلامتی کونسل نے خود اس قرار داد کے زریعہ کیا ، نہ کہ اس کے کمیشن نے 5 جنوری کی قرار داد کے زریعہ” جو عام معصوم لوگوں کے زہن میں بٹھا یا گیا ہے -
اسی قرار داد کے زریعہ چند اصول بھی دونوں ملکوں کی رضا مندی کے زریعہ وضع کئے گئے جن میں تشدد اور دشمنی کا خاتمہ ، دونوں ملک ریاست میں داخل ہونےوالےمسلح لوگوں کو نکالیں اور امن عامہ کو بحال رکھنے کے لئے حکومت اس وقت تک فوج کو یہ زمہ داری دے جب تک رائے شماری کے زریعہ الحاق کا فیصلہ نہیں ہوتا اور جب امن عامہ بحال ہوگیا تو فوجیں نکال دی جائینگی ، جن لوگوں نے فساد کی وجہ سے ریاست چھوڑی ہے ان کو واپس آنے کا کہا جائیگا اور سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جا ئے گا وغیرہ- چوتھی قرارداد مورخہ 21 اپریل 1848 کے زریعہ سلامتی کونسل نے پہلی قراردادوں کی توثیق کرتے ہوئے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ دونوں ملکوں کی خواہش ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آزادانہ رائے شماری کے زریعہ ہونا چاھیے - اس قرارداد کے زریعہ کمیشن کے ممبران کی تعداد تین سے بڑھا کے پانچ کی گئ اور اس کو ہدایت کی گئ کہ وہ فورآ بر صغیر جاکر مصالحت کے لئے اپنی خدمات دو ملکوں کی حکومت کو پیش کر کے ان سے رائے شماری کے انعقاد کے لئے ایک دوسرے اور کمیشن سے تعاون کرنے کا تقاضا کرے - اس قرار داد کے تین الگ الگ حصوں میں امن عامہ کی بحالی ، پاکستان ریاست سے قبائل کے انخلاء کے بعد ہندوستان مرحلہ وار اپنی فوجیوں کو نکال کر صرف اس حد تک رکھے گا جو سول انتظامیہ کو رائے شماری کے لئے امن بحال رکھنے کی ضرورت ہو - دوسرے حصے میں ناظم رائے شماری کے تقرر اور اس کے فرائض کی ادائیگی کی سہولت کے لئے ہندوستان کو اہم صلاح اور اقدامات کے مشورے ، ناظم رائے شماری کو اپنے فرائض اور اختیار استعمال کرنے کے لئے اہم ہدایات دی گئیں جو آزادانہ اور شفاف حق رائے دہی کے لئے ضروری تھے اور تیسرے حصے میں ہندوستان اور پاکستان کو کمیشن کے ساتھ اپنے نمائندے شامل کرنے کی دعوت دینا، کمیشن کو ریاست کے اندر رائے شماری کے دوران اوبزرور مقرر کرنے اور کام کرنے کی ہدایت دی گئ تھی-
سیکیورٹی کونسل نے 3 جون 1948 کے ایک اور مختصر قرارداد کے زریعہ کمیشن کو دوبارہ بغیر کسی طوالت کے متنازعہ علاقوں میں پہنچنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے وزیر خارجہ کے مکتوب مورخہ 25 جنوری 1948 کو پڑھ کر اس میں اٹھائے گئے امور پر رپورٹ کرے- اس قرار داد کے بعد سیکیورٹی کونسل کے مقرر کردہ کمیشن نے مورخہ 13 اگست 1948 کو پہلی قرار داد جو تین حصوں پر مشتعمل تھی پاس کی جس کا پہلا حصہ جنگ بندی سے متعلق تھا جبکہ دوسرا حصہ truce agreement یعنی فریقین کے درمیان جنگ بندی کے عرصہ میں افہام و تفیہم کے اصولوں پر مبنی تھا جبکہ تیسرا حصہ کشمیر کا ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا رائے شماری کے زریعہ حل کے لئے کمیشن کے ساتھ آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کے خاطر مشاورت میں شریک ہونے سے متعلق تھا - سیکیورٹی کونسل کے کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان (UNCIP) کی دوسری اور آخری قرارداد مورخہ 5 جنوری 1949 کی تھی جس کو ہمارے لوگ سب سے زیادہ فوقیت اور اہمیت دیتے ہوئے اس کو حق خود ارادیت کی بنیادی قرار داد سمجھتے ہیں - یہ قرارداد در اصل سلامتی کونسل کی قراردادوں کے اختیار کے تحت اس کے مقرر کردہ کمیشن کی اس کی تعمیل میں شروع کردہ کاروائ سے متعلق ہے جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کمیشن نے کام کی ابتداء کی - اس قرارداد کے زریعہ کمیشن نے حکومت ہندوستان و پاکستان کی جانب سے مکتوبات مورخہ 23 و 25 دسمبر 1948 کے تحت قرار داد میں درج اصولوں کو تسلیم کیا جو کمشن کی قرار داد مورخہ 13 اگست 1948 کا حصہ قرار پائیں - یہ دس نکات پر مشتعل ہیں -
اس قرار داد کا اختصار یوں ہے کہ “” ریاست جموں و کشمیر کے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا سوال کا فیصلہ جمہوری طریقہ سے آزاد انہ و غیر جانبدارانہ رائے شماری سے کرایا جائے گا ، ( یہ سلامتی کونسل کی 6 فروری 1948 کی قرارداد کا تقاضا ہے) رائے شماری اس وقت کرائ جائے گی جب جنگ بندی اور قرار داد مورخہ 13 اگست کے تحت انتظامات مکمل ہونگے ، جس کے بعد یو این کے سیکریٹری جنرل کمشن سے اتفاق کے ساتھ ناظم رائے شماری کی تقرری کریں گے جس کی رسمی تقرری ریاست جموں و کشمیر کرے گی ، رائے شماری کے آزادانہ اور منصفانہ کرانے کے لئے ناظم رائے شماری وہ سارے اختیارات حکومت جموں و کشمیر سے حاصل کرے گا جو ضروری ہوں ، ناظم رائے شماری کو اوبزرورس سمیت ضروری سٹاف کی تقرری کا اختیار حاصل ہوگا ، جب 13 اکست کی قرار داد کی شرائط پوری ہو جائینگی تو کمشن اور ناظم رائے شماری ہندوستانی اور ریاستی فوجوں کا ریاستی دفاع کا خیال رکھتے ہوئے ہندوستان کی مشاورت کے ساتھ انخلاء کا فیصلہ کریں گے ، جبکہ evacuated territories سے فوج کا انخلاء لوکل اتھارٹی کی مشاورت سے کیا جائے گا ، ( یعنی پاکستان کے زیر انتظام ریاستی علاقے) ، ریاست کے اندر ساری سول و ملٹری اتھارٹیز ناظم رائے شماری کے ساتھ تعاون کریں گی ، ریاست سے بے گھر ہونے والے ریاستی باشندے ریاست میں واپس آکے سارے حقوق کے حق دار ہونگے جن کی سہولت کے لئے ہندوستان اور پاکستان دو کمشن بنائیں گے جن کے ساتھ اس مقصد کے لئے سارے ریاستی ادارے تعاون کریں گے جبکہ ریاستی باشندوں کے علاوہ سوائے ان لوگوں کے جو قانونی طور داخل ہوئے ہوں کو ریاست چھوڑنے کا کہا جائے گا ، تمام ریاستی ادارے ناظم رائے شماری سے مل کر یہ یقینی بنائیں گے کہ کسی ریاستی باشندے کی آزادی اور اظہار رائے پر کوئ پابندی، دباؤ، لالچ نہیں ہوگی،سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، اقلیتوں کو تحفظ دیا جائے گا اور کوئ انتقامی کاروائی نہیں ہوگی ، ناظم رائے شماری کسی بھی مسئلے پر کمشن کی مدد طلب کر سکے گا اور کمشن ناظم کو اس کی جانب سے کوئ بھی زمہ داری ادا کرنے کے لئے کہہ سکے گا ، رائے شماری کے مکمل ہونے پر ناظم رائے شماری اس کے نتائج کمشن اور حکومت جموں و کشمیر کو رپورٹ کرے گا اور کمشن سیکیورٹی کونسل کو رپورٹ بھیجے گا کہ کیا رائے شماری آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ہوئی ہے یا نہیں ، کمشن حکومت ہندوستان اور پاکستان کو سفارش کرتا ہے کہ یکم جنوری 1949 سے ایک منٹ پہلے کمشن کے 13 اگست کی قرار داد کے مطابق جنگ بندی کا حکم دیں ، اس کے ساتھ ہی کمشن اعادہ کرتا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں واپس آ کر 13 اگست 1948 اور اس قرارداد کے مطابق اپنی زمہ داریاں ادا کنا شروع کرے گا -
5 جنوری 1949 کا یہ خلاصہ ہے - قارئین بلخصوص ریاست کے طلباء و نوجوانان سلامتی کونسل کی درج بالا قراردادوں کے پس منظر میں اس قرارداد کے پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ پائیں گے کہ یہ قرارداد حق رائے دہی کی بنیاد نہیں بلکہ سلامتی کونسل کی قرار دادیں، لخصوص تیسری 6 فروری 1948 کی تیسری قرارداد اس کی بنیاد ہے ، اور 5 جنوری کی قرارداد ان قرارداد ان کو عملی جامہ پہنانے کا دستور عمل ہے -
نوجوان یہ بھی نوٹ کریں گے ہندوستان اور پاکستان رائے شماری کرانے میں کمشن اور ناظم رائے شماری کے معاون ہوں گے - اصل کردار ناظم رائے شماری ، کمشن اور سلامتی کونسل ہونگے جبکہ حکومت ہندوستان اس سلسلے میں موثر سہولت کار ہوگی اور ناظم رائے شماری ہندوستان کے زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر سے وہ تمام اختیار لے گا جو وہ رائے شماری کے آزادانہ اور منصفانہ ہونے کو یقینی بنائیں - ریاست کے جو حصے اس وقت پاکستان کی زیر انتظام ہیں اور سلامتی کونسل اور کمشن کی قراردادوں میں evacuated territories کے طور درج ہیں سے فوجوں کے حتمی انخلاء کے لئے کمشن اور ناظم رائے شماری ان سے مل کے حتمی فیصلہ کریں گے- ریاستی باشندے بھلے 5 جنوری کو ہی علامتی طور یوم حق خود ارادیت کے طور منائیں ، لیکن اس کے قانونی اور سفارتی پہلؤں کے حوالے سے اپنا کانسپٹ کلیر رکھیں -
واپس کریں