کشمیرسیاسی،سفارتی اور حربی مد و جزر سےمستقبل کی حکمت عملی تک-
جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
کسی نے یہ بات درست کہی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے - وہ اس لئے کہ گورنر جنرل ہندوستان لارڈ مونٹ بیٹن نے “ مہاراجہ کشمیری ہری سنگھ کے الحاق نامہ مورخہ 26 اکتوبر 1947 کو صرف اس حد تک تسلیم کیا تھا کہ لوگوں کی جان ،مال ،عزت کی حفاظت کے لئے ہندوستانی فوج بھیجی جاتی ہے لیکن کشمیر کے ہندوستان یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کے زریعہ ہی ہوگا “- یہی سلامتی کونسل نے بھی کہا اور یہی دنیا بھر کے درجنوں تھنک ٹینکس اور سیاسی فلاسفروں نے بھی ، لیکن کچھ نہیں ہوا - پھر تین مکمل اور ایک ضمنی جنگ کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر سمیت تمام متنازعہ امور طے کرنے کے لئے تین بڑے معاہدے بھی ہوئے ، اس کا بھی کچھ نہیں ہوا - مشرف واجپائ اور من موہن سنگھ کی حکومتوں کے دوران جنگ بندی لائن کے زریعہ ریاست کے دو حصوں کے درمیان محدود مدت ہی صحیح ، مقامی انتظامیہ کے زریعہ آمد و رفت اور باہم تجارت کا دور شروع ہوا جو بچھڑے خاندانوں کے زخموں پر بڑی حد تک مرہم کا باعث بنا تھا جس سے امیدیں بند ہیں تھیں لیکن یہ بیل بھی منڈے نہ چڑھ سکی -
ہندوستان کے حیلوں بہانوں سے 26 اکتوبر 1947 والے معاہدے کو ریاستی اسمبلی کے زریعہ حتمی کرا نے کے بعد اگست 2019 میں ریاست کو اپنے آئین کے زریعہ بتدرییج ضم کرنے کے عمل کو حتمی صورت دیتے ہوئے ہندوستانی آئین کی دفعہ 370/35A کو بھی ختم کر کے اس مو ہوم سی امید کو بھی ختم کردیا جو سلامتی کونسل کی قراردادوں یا باہم بات چیت سے اس مسئلہ کے حل کے لئے موجود تھی - ریاست کے اپنے زیر انتظام حصے کو مکمل طور ضم کرتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام حصوں پر بھی اپنا تقاضا نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس مطالبے پر شدت بھی آگئ اور ہر ہندوستانی وزیر ہر جگہ اس کا مطالبہ کرتا ہے -
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستان کے زیر انتظام ریاست کا مسئلہ حل ہوگیا یا پاکستان کے زیر انتظام ریاست پر پاکستان کا استحقاق ختم ہوگیا - مسئلہ اس ریاست اور اس میں بسنے والے لوگوں کا اور دنیا بھر کے امن کا ہے، آئینی دفعات کے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں - ہر کا لو نئیل طاقت اپنے زیر قبضہ ملکوں کو اپنی آئینی دستاویزات کے تحت اپنا حصہ اور اٹوٹ انگ بناتی رہی ہے لیکن پھر چھو ڑنا بھی پڑتا رہا ، جیسے بر طانیہ کو امریکہ اور ہندوستان سمیت متعدد ممالک کو چھوڑنا پڑا ، اسی طرح فرانس اور روس کو بھی کیونکہ قومیں اپنی شناخت کو منواکے چھوڑتی ہیں - اس شناخت کو مٹانے کے لئے ہندوستان نے کشمیر میں لاکھوں فوجیں جھونک دی ہیں اور ہزاروں قانون بدل ڈالے لیکن یہ ممکن نہیں ہورہا-
ادھر پاکستان کے زیر انتظام 1947 والی ریاست جموں کشمیر کے آزاد ہونے والے حصوں کی 24 اکتوبر 1947 کواپنی حکومت بنانے والے حصوں ، آزاد کشمیر و گلگت بلتستان نے ، 4 اپریل 1949 کے معاہدہ کراچی کے تحت پاکستان کے ساتھ اسی طرز کے معاہدہ الحاق اور گلگت بلتستان میں شامل ہونے والے راجوں اور ملکوں کے الگ الگ الحاق کے معاہدوں کے باوجود پاکستان نے اس وقت تک ان سب کو معرض التوا ء میں رکھا ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بے کار ہیں ان کو کسی بھی وقت منظور کیا جا سکتا ہے اور ان حصوں کو بھی وہ مقام دیا جا سکتا ہے جو پاکستان کے دوسرے صوبوں کا ہے - ان حصوں میں بسنے والے لوگ بغیر کسی اجتناب کے پاکستان سے محبت اور وابستگی کے ہر مرحلہ اور ہر طریقے سے اظہار کرتے ہیں لیکن مقامی حقوق اور مطالبے کا بھر پور مظاہرہ اور تقاضا کرتے بھی ہیں اور لیتے بھی ہیں - اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پاکستان کے مخالف ہیں - لیکن باقی انتظامی یو نٹس کی طرح آئین پاکستان کے تحت یکسان آئینی سٹیٹس نہ ہونے کی وجہ سے حقوق کے مطالبات کبھی شدت بھی اختیار کر لیتے ہیں جیسے گذشتہ ایک سال سے آزاد کشمیر بھر کے لوگوں نے عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر دو بار کیا جن کے مطالبات جائز مان کے تسلیم بھی کئے گئے -
ہندوستان اور پاکستان میں ان علاقوں کو ساتھ چلانے کی حکمت عملی مختلف ہے- ہندوستان ابتداء میں اپنے زیر قبضہ علاقوں کو متنازعہ مانتا رہا، سلامتی کونسل کے ساتھ بھی ایک خاص حد تک تعاون بھی کرتا رہا لیکن ان علاقوں کے نظم و نسق کے لئے اپنے آئین کے تحت حکمت عملی بنا کے چلاتا رہا اور ان کو ہندوستانی آئین کے تحت باقی ریاستوں کی طرح سٹریم لائین بھی کرتا رہا جس وجہ سے اگست 2019 کی واردات کرنے میں سہولت ہوئ -
جبکہ پاکستان ریاست کے ان دونوں علاقوں کو صوبہ بنائے بغیر ان کی آئینی دستاویزات کے تحت ہی صوبائی طرز کے طور چلا رہا ہے لیکن پاکستان کے آئین کے تحت ان علاقوں کی حکومتوں اور لوگوں کا کوئ مقام یا حیثیت نہیں ہے - یہ جمہوری اور آئینی خلاء سوالات کو جنم دیتا ہے جن کا جواب دینے کے لئے اقتدار کی سیاست کرنے والی جماعتیں کشمیر اور پاکستان کے تعلقات کو جذباتی اور مذہبی رنگ دے کے پیش کرتی ہیں جن میں جلسے جلوس، مباحثے ، تقریریں ، کشمیر میں ہونے والے مظالم ، کشمیر کے مسلم کلچر کو آلودہ کرنا، ہندوستانی وعدہ خلافیوں کی مذمت شامل ہے - لیکن زمینی حقائق کو پیش کرنے ان کا ہم رنگ زمین حل تلاش کرنے کی کوئ شعوری کوشش نہیں ہورہی - یہ طرز عمل ان مسائل کا حل نہیں ہے -
مذہب کے نام پر جذباتی نعرہ بازی سے یہ بات نہیں بھولنا چاھئے کہ کشمیر پر 5/6 سو سالہ مسلمانوں کی بادشاہت کے بر عکس ہندوستان نے اب ہندوؤں اور بدھوؤں کی مسلمانوں سے پہلے کی ہزاروں سالہ بادشاہت اور ان کی عبادت گا ہوں اور گاؤں گاؤں ہندو اور بدھ تہذیب کے نشانات کی دھائ دیکر اسی فیصد ہندو آبادی کو کشمیر کے لئے ہندؤں کی تہذیب، مذہب اور ہندوستان کے لئے “ پاکستانی شاہ رگ “ کی متوازی علامت بنا کے جذباتی بنا دیا ہے - دفعہ 370 منسوخ کر کے لاعلم ہندوؤں کو یہ باور کرادیا ہے کہ جیسے اس کے منسوخ ہونے سے اس کو آزاد کرا کے اپنے قبضہ میں لیا ہے جس کے ثبوت کے طور دہلی سے سرینگر ریل سروس کے زریعہ فوج اور جنوبی ہندؤوں کو سرعت سے سرینگر پہنچایا جارہا ہے - ہندوستانی آئین سے لفظ “ سیکولر ازم “ ختم کر کے “ ہندو راشٹریا” درج کرنے کی ترکیب زیر عمل ہے - اب دو قوموں کے بجائے دو مذاہب کی تہذیبی جنگ کا آغاز رو بہ عمل ہے جس کا میدان کشمیر میں سجایا جا رہا ہے -
یوں تو 2014 سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اس وقت تعلقات میں تعطل پیدا ہونے کی ابتدا پیدا ہوگی تھی جب ہندوستان میں نریندرا مودی کی قیادت میں حکومت بنی تھی لیکن اس کی انتہا اگست 2019 میں ہوئی جب اس حکومت نے ہندوستانی آئین میں کشمیر کی خصوصی کی حامل دفعات 370/35A کو منسوخ کیا - 2021 میں دو ملکوں کی فوجیوں کے درمیان کسی سمجھوتے کی وجہ سے جنگ بندی لائین پر مکمل جنگ بندی دیکھنے میں آرہی ہے لیکن یہ سلامتی کونسل یا کمپوزٹ ڈائیلاگ کے تحت گفتگو کا متبادل نہیں اور ہندوستان نہ صرف کشمیر پر بلکہ پاکستان کے ساتھ کسی اور معاملہ میں بھی بات کرنے پر آمادہ ہے - یہ غرور اس کی اقتصادی طاقت ہونے کی وجہ سے سفارتی بالا دستی اور پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی بحران کی وجہ سے عالمی سطح پر عملی طور تنہائ کی وجہ سے ہے -
اس کا مطلب یہ نہیں کہ کشمیر جیسے بڑے مسئلے کو ہندوستان اور پاکستان بھلا سکتے ہیں جس کے حل کے لئے سلامتی کونسل کی کئ قرار دادیں اور عالمی امن کے لئے اس کے حل کی بلند و بانگ آوازیں موجود ہیں - نہ معلوم کیوں، لیکن میرا گمان ہے کہ ریاست جموں کشمیر کو عالمی اسٹیبلشمنٹ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دائمی تنازعہ کا باعث بنانے کے لئے ایسا ہی رکھنا چاھتی ہے - اس کے لئے میری دلیل یہ ہے دو درجن کے قریب سلامتی کونسل اور اس کے کمشن کی قراردادوں میں سے صرف ایک کو پزیرائ مل سکی جس کے تحت 1949 جولائ میں جنگ بندی لائن کھینچ کر اس کو یہ تقدس بخشا گیا کہ کوئ بھی ملک اس کی خلاف ورزی نہیں کرے گا اور اس کا شملہ معاہدہ کے تحت حتمیت تک پہنچا دیا جس کے بعد لاھور ڈیکلریشن ، کمپوز ٹ ڈائلاگ اور تازہ ترین 2021 کی فوجی ڈائیریکٹر جنرلز کے درمیان اس کی تجدید اس کا منہ بولتا ثبوت ہے - یہی نہیں میں سلامتی کونسل کے مقرر کردہ ناظم رائے شماری ڈکسن Dickson کی متعدد اچھی سفارشات میں سے ایک یہ بھی سامنے لانا چاھتا ہوں جس میں اس نے لکھا تھا کہ “” چونکہ دونوں ملک کچھ ماننے کو تیار نہیں اس لئے اسی لائین کو حتمی قرار دیا جائے “” ، جبکہ سلامتی کونسل کے نمائیندے فرینک گراہم نے اپنی کئ سفارشات میں سے ایک یہ بھی دی کہ “” چونکہ یہ ملک کسی تجویز سے اتفاق نہیں کرتے اس لئے یہ معاملہ ان پر ہی چھوڑ دیں یہ خود حل کریں “” - میرے خیال میں یہ 1949 کی جنگ بندی لائن کو ہی حتمی کوشش ہے اور یہ تجویز ہی Bilateral منترا کی ابتداء بھی بنی ہے -
ان حالات میں اس تنازعہ کے حل کے لئے متبادل طریقوں کی تالاش کی ضرورت ہے جن سے اس قضیے سے متاثر ہونے والے تینوں فریقین کو اس حقیقت کا ادراک کرانے کی ضرورت ہے کہ اس آزادی کا کیا مقصد جس کے بعد ایک ہی برصغیر کے دو ملک صرف جنگ لڑنے کے لئے آزاد ہو ئے ؟
تنازعات کے حل کی ابتداء بات چیت سے ہوتی ہے اور انجام جنگ ہوتی ہے، یہاں تو ابتداء بھی جنگ سے ہوئی - جنگ میں بھی ہار جیت کے باوجود اس کے اچھے برے ثمرات مکالمے اور سیاسی عمل سے ہی حل ہوتے ہیں - جیسے ہمارے ہاں تاشقند اور شملہ معاہدے دو جنگوں کے بعد ہوئے - شملہ معاہدہ اس وقت تک کامیابی سے چل رہا ہے - سندھ طاس معاہدہ جنگوں اور 1990 سے آج تک شدید مخاصمت کے باوجود چل رہا ہے - یورپی ملکوں کے جنگ و جدل کی عبرت ناک تاریخ ہمارے سامنے ہے لیکن عقل آنے پر وہ باہم بات چیت سے ان کا شیر و شکر ہوکر باہمی اشتراک سے ترقی،خوش حالی اور بین الاقوامی اثر و رسوخ میں دنیا پر حاوی ہیں -
بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں نے بات چیت کا راستہ بھی کھلا چھوڑا ہے - یو این چارٹر کے تحت Negotiations- Mediation- Arbitration - Judicial settlement-سفارتی اور سیاسی سطح پر با اثر تھنک ٹینکس ہیں ، بین الاقوامی تنظیمیں جیسے او، آئ،سی- گلف اتحاد کونسل - سارک - افریقی یو نئین ، یورپی یو نئین، ہندوستان پاکستان کے قریب ترین تجارتی پارٹنر ، یو اے ای، سعودی عرب ہیں - ان پرہندوستان بہت بہت بھروسہ کرتا ہے ان سے کام لیا جا سکتا ہے -
کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے اور حل ہونے تک حل طلب رہے گا جس کے لئے ہندوستان اور پاکستان مسلسل حالت جنگ میں ہیں - - دنیا پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں جو یورپ میں یوکرائن ، مشرق وسطی میں فلسطین پر برس رہے ہیں جبکہ سارک ریجن میں افغانستان اس صدی میں دو بار میدان جنگ بنا رہا - بین الاقوامی قوانین کو کوئ بڑی طاقت نہیں مانتی - پاکستان میں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بلا شک و شبہ ہندوستان کی مدد اور اعانت سے جنگی تشدد کی کاروائیاں جاری ہیں جن کی جڑیں کشمیر سے جڑی ہیں اس کے حل ہونے سے ہی ان دو ملکوں کے درمیان امن بحال ہو سکتا ہے - دونوں ملکوں کو اس کا ادراک کرنا چاھئے - ہندوستان اور پاکستان کی اس صدی کی نسل اور ارباب اختیار کو ان ملکوں کی تاریخ سے یہ سبق بھی حاصل کرنا چاھئے کہ ہندوستان کے سب سے بڑے لیڈر مہاتما گاندھی کو نہ چا ہنے کے باوجود ہندوستان کی تقسیم قبول کرنا پڑی اور پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنی چاھت اور خوابوں کا پاکستان نہ مل سکا اور جو ملا تھا وہ بھی اکٹھا نہیں رہ سکا - اسی طرح دونوں ملکو کو ساری کی ساری ریاست جموں کشمیر نہیں مل سکتی اور نہ اپنی شناخت اور تشخص کی جنگ لڑنے والوں کو اس سے محروم کیا جا سکتا ہے - ہمیں انفرادی اور قومی زندگی میں خوابوں کے بجائے دنیا اور د نیا میں بھی امکان کی دنیا میں زمینی حقائق کے مطابق حل نکالنے کی ضرورت ہے جس کےئے مکالمہ چاھئے، سیاسی فضاء چاھئے، عام لوگوں کی شمولیت چاھئے اور عوام کی اونر شپ ہونا چاھیے ، سر کاروں کو صرف سہولت کاری کرنا چاھئے اس سے ممکنہ حل کو عوامی طاقت حاصل ہوگی جو دیر پا ہوگا --
ریاست کے ہر خطے کی زمینی حقائق اور امنگیں بھی مختلف ہیں جن کا ادراک کرتے ہوئے حل نکالنا پڑے گا اور ہندوستان اور پاکستان کو اس کے ساتھ باقی مسائل کو بھی ایک سیاسی، معاشی اور سفارتی “ پیکیج کے طور حل کرنا پڑے گا جس کے اندر مستقبل میں بھی کسی کشیدگی یا تنازعہ پیدا ہونے والے مسائل کا سندھ طاس معاہدے کی طرز پر خود کار نظام ہونا چاھئے - یہ سب کچھ خطے کے دوست ممالک اور اداروں کی مدد سے ممکن ہو سکتا ہے تاہم پاکستان کو اس کے لئے ملک کے اندر قابل اعتماد سیاسی استحکام ، نظام اور اقتصادی ترقی کے لئے شبانہ روز محنت کی ضرورت ہے - -
واپس کریں