چلا کلاں، سردی کا طوفان ،کشمیر میں ندی نالے جم گئے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
اس سال چلا کلاں(سخت ترین سردی کے40 دن ) بھی عجب موسم میں شروع ہوا نہ برف باری نہ بارش نہ جاڑا، بے اثر دھوپ اور مدھم ہوائیں سردی کو تقویت دے رہی ہیں، جس سے رگوں میں خون اور ہڈیوں میں گودا منجمد ہونے کا خوف ہے۔ بوڑھوں اور کمزور بچوں کی زیادہ اموات اسی موسم میں ہوتی ہیں۔چلا کلاں شروع ہونے سے دو روز پہلے ایمرجنسی میں راولاکوٹ جانا ہوا تو بچپن کی یادوں کی برات منظر پر آئی۔ 50 سال پہلے ہم کتنے سخت جان تھے کہ تمبی کرتی میں بھی کچھ احساس نہ ہوتا کہ جاڑے کا موسم ہے اور اب بڑھاپے کے دن ہیں کہ راولاکوٹ میں رات گزارنا مشکل ہو گئی۔ ایک روز رات آٹھ بجے اور دوسرے روز رات ساڑھے نو بجے اسلام آباد بھاگنا پڑا اور اگلی صبح دس بجے پھر راولاکوٹ پہنچنا لازم ٹھرا۔ کتنے کپڑے پہنیں اور کتنے اوڑھیں، کپڑوں کا بوجھ ہی اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ دیگر ذمہ داریوں کا وزن اٹھانے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ یقین جانیں راولاکوٹ میں رات کے قیام سے اسلام آباد آنے جانے کی یہ مشقت ہمیں سہل لگی۔ اندازہ جو ہو گیا تھا کہ راولاکوٹ میں رات گزارنا جان جوکھوں کا کام ہے۔50 سال سمندر کے کنارے تپتی ریت پر گزارنے والے یہ طوفان سردی اور ٹھنڈی ہوائیں کیسے برداشت کریں ۔ ہم کراچی والے کوئٹہ سے آنے والی ہواؤں کو ہی موسم سرما سمجھ کر لینڈا بازار میں رش ڈال دیتے ہیں۔ کوئٹہ سے کراچی پہنچنے تک ان ہواؤں میں بھی کیا جان رہ جاتی ہو گئی، تاہم جو بھی ہے یہی کراچی کی سردی ہے اور اسی میں ہم گرم کپڑے پہننے کا شوق پورا کر لیتے ہیں۔
جسے سردی دیکھنی ہے وہ اس موسم میں کشمیر کے بلند پہاڑوں کی سیر کر آئے، تو معلوم ہو گا سردی کس بلا کا نام ہے۔ کچھ واقعات اور حادثات ایسے ہوتے ہیں کہ نہ چاتے ہوئے بھی ان سے گزرنا پڑتا ہے۔ جون بھائی کے شعر کا مصرع اس صورت حال پر صادق آتا ہے کہ " اور اس طرح خود اپنی سزا بن گیا ہوں میں " مبینہ طور پر راولاکوٹ اور اطراف میں خشک سردی کی شدت میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے جو بوڑھے اور بچوں کے لیے موت کا پروانہ ہے۔ ندی نالے منجمد ہو چکے حتی کہ سطح سمندر سے 6499 فٹ بلند بنجوسہ جھیل بھی منجمد ہے اور سیاحوں کا نام و نشان تک نہیں۔ منجمد جھیل کی ویڈیو اور فوٹو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جھیل کے ارد گرد کا علاقہ سیاحوں سے خالی پڑا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہی سری نگر جھیل ڈل کی تصویریں وارل ہوئی ہیں جہاں شکارے اور ہاوس بوٹ ساکت کھڑی ہیں اور نوجوان کرکٹ کھیل رہے ہیں۔۔ کشمیر کی شہرہ آفاق جھیل ڈل میں گزشتہ ایک صدی کے دوران دسمبر کی تیسری سرد ترین رات ریکارڈ کی گئی جب جھیل جم گئی ہے۔برف باری سری نگر میں بھی نہیں لیکن سردی ہے کہ کڑاکے نکال رہی ہے۔ لوگ بارش اور برف باری کے لیے دعائیں کر رہے ہیں تاکہ خشک سردی سے جان چھوٹے جو خالص بیماری اور موت کا خوف ہے۔
خشک سردی کے باعث موسمی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ ہماری امی جان بھی جو خیر سے 8ویں دہائی عبور کر رہی ہیں، اچانک سی ایم ایچ کے آئی سی یو وارڈ میں پہنچی اور ان کی آل اولاد کی دوڑیں لگ گئی۔ ہم بھی بھاگم بھاگ راولاکوٹ پہنچے تو غمی کی دوسری خبر پیارے بھائی خورشید خان کے انتقال کی ملی۔ خورشید بھائی سے پیار کا بڑا گہرا رشتہ تھا لیکن گزشتہ کئی برسوں سے وہ جس تکلیف میں تھے وہ بھی قابل برداشت نہیں تھی۔ خورشید بھائی ہمارے ماموں زاد تھے مگر ہماری پرورش، ترقی خوش حالی میں بھائی خورشید کی دعائیں اور عملی تعاون شامل رہا۔ باغ کی تحصیل ریڑھ کی ہائی اسکول جو اب ڈگری کالج بن چکا کے گراؤنڈ میں ان کی نماز جنازہ ہوئی جہاں سے اس ہونہار طالب علم نے میٹرک اعزازی نمبروں سے پاس کیا تھا جب میٹرک کا امتحان لاہور بورڈ سے ہوتا تھا۔ ہزاروں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی جو یقینا خورشید صاحب کے ہم عصر کلاس فیلوز یا ان کی اولاد میں سے تھے۔ ریڑھ جانے کے لیے تولی پیر کا راستہ اختیار کیا گیا جو کشمیر کی بلند ترین پہاڑی ہے۔ تولی پیر کے دامن سے نکالی جانے والی سڑک اپنی مثال آپ ہے۔ نواز شریف صاحب نے بطور وزیراعظم اس سڑک کی منظوری دی تھی جب انہوں نے فارورڈ کہوٹہ میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران اعلان کیا تھا۔ میں نے اپنے کسی کالم میں تجویز کیا تھا کہ اس سڑک کا نام " شاہراہ نواز شریف " رکھا جائے لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت نے بادل نخواستہ اس کو مکمل تو کیا لیکن تختی لگانا بھول گئے۔ راجہ فاروق حیدر خان کو کام شروع کرنے اور چوہدری انوارالحق کو تکمیل کا کریڈٹ جاتا ہے۔اس سڑک کی تعمیر سے حویلی کے عوام کو بہت سہولت ہو گئی ہے۔
ریڑھ گرم ترین جگہ ہے، جو کپڑے ہم راولاکوٹ سے پہن کر گئے وہاں پسینے چھوٹ گئے۔ بھائی خورشید کو دعاوں میں اسی گراونڈ سے الوداع کیا جہاں 55 سال پہلے ان کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ اس دور میں والد صاحب ریڑھ میں ایک ہوٹل کے مالک اور ہم ہائی اسکول ریڑھ کے طالب علم تھا جہاں بھائی خورشید نامور طالب علموں میں شمار ہوتے تھے۔ ماں جی کی وجہ سے جلد راولاکوٹ پہنچنا پڑا، معلوم ہوا تمام لیبارٹری رپورٹ اور ایکسرے جوانوں جیسے، یا رب پھر یہ معاجرہ کیا ہے بتایا گیا کہ راولاکوٹ کی فضاء میں آکسیجن کم ہو گئی ہے۔ بلکہ ایکسیجن منجمد ہو چکی۔ اکثر افراد آکسیجن کی کمی کے باعث پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا ہیں جن میں عمر رسیدہ افراد کی اکثریت ہے۔ ہفتہ بھر میں سات آٹھ اینٹی بائیوٹک انجیکشن نما ڈرپ اور مصنوعی ایکسیجن نے تندرس و توانا ماں جی کو لاغر کر دیا اور پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ ماں جی بڑھاپے کو چھونے لگی ورنہ جوانوں سے بھی جوان تھی۔ ڈاکٹر نے وارڈ میں منتقل کرنے کا اعلان کیا،کیا ہمیں بھاگنے کا موقع مل گیا۔ اب اسلام آباد میں آکسیجن کا مسلہ تو باقی نہیں رہا لیکن کمزوری اتنی زیادہ ہو گئی کہ صورت حال ٹھیک نہیں۔ فیس بک وال پر دوستوں کی کثیر تعداد نے ماں جی کی صحت یابی کے لیے دعائیں کی۔ بڑی تعداد اسپتال پہنچی اور ٹیلی فون پر خریت دریافت کی۔ یقینا دوست احباب کی دعاوں سے ہی ماں جی آئی سی یو وارڈ سے واپس گھر منتقل ہوئیں ۔ ان تمام دوستوں کا شکریہ ابھی بھی آپ کی دعاوں کی ضرورت ہے۔
موسمیات والے بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ اگلے کئی روز تک بارش برفباری کا کوئی امکان نہیں البتہ خشک سردی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔21 دسمبر سے چلا کلاں شروع ہو چکا، جو 31 جنوری تک جاری رہے گا۔ سری نگر سمیت جموں و کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں یہ40 دن سخت سردی کے ہوتے ہیں جس کا اثر خوب محسوس کیا جاتا ہے۔ سری نگر ہزاروں سال پرانہ تہذیبی اور ثقافتی شہر ہے، جہاں کے روایتی کھانے، مشروب(کشمیری چائے) اور لباس (پھیرن) سردی کی روک تھام کے لیے کافی حد تک مدد گار ہے تاہم بلند و بالا اور پہاڑی علاقوں کے لوگوں کے لیے یہ عذاب سے کم نہیں۔ جہاں کشمیری چائے اور پھیرن استعمال کی روایت نہیں ہے۔
راولاکوٹ یا وادی پرل نے آزادی کے بعد ترقی کر کے شہر کی صورت اختیار کی۔ شہر کی اس جدت پسندی نے پرانی روایات اور طور طریقوں کو یکسر ختم کر دیا لہذا موسم گرما تو خوب سے خوب طر رہتا ہے تاہم سردیوں کا کچھ بھی انتظام نہیں جدید طرز کے بنگلوں میں لکڑی جلانے اور سردی روکنے کا مناسب بندوبست نہ ہونے کے باعث لوگ شدید پریشانی میں ہیں۔ ان دنوں راولاکوٹ سردی کی شدت لپیٹ میں ہے۔جو سری نگر سے بھی 100 فٹ بلندی پر ہے۔ سطح سمندر سے راولاکوٹ کی بلندی 5300 فٹ جب کہ سری نگر 5200 فٹ ہے۔ ہیں تو دونوں وادیاں ہی البتہ سری نگر میں سردی راولاکوٹ سے زیادہ پڑتی ہے جس رات ہم راولاکوٹ سے بھاگ کر اسلام آباد پہنچے راولاکوٹ کا درجہ حرارت 1 اور سری نگر کا 4۔ تھا۔راولاکوٹ پہنچنے پر اندازہ ہوا کہ لوگ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ کیوں چپکے ہوئے ہیں اور کیوں ان کی ایک کال پر مرنے مارنے پر تلے ہوتے ہیں۔ انہیں سستی بجلی کی جو سہولت مل گئی ہے وہ پاکستان کے کسی دوسرے علاقے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی روز آزاد جموں و کشمیر کے سیکرٹری برقیات کا بیان دیکھا جس میں انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ بجلی کم استعمال کریں 144 فیڈر یا پی ایم ٹی جل چکی۔ ظاہر ہے اس سردی میں لوگ ہیٹر بھی استعمال نہ کریں تو بوڑھے اور بچے کیسے محفوظ رہیں گے۔حکومت کو چاہیے کہ بجلی تنصیبات کی مضبوطی اور محفوظ بنانے پر زور دیں۔ نہ کہ لوگوں سے یہ کہا جائے کہ سردی میں ٹھٹھر کر مرتے رہیں لیکن بجلی استعمال نہ کریں کیا مظفرآباد کے ایوان صدر اور وزیراعظم ہاوس میں ہیٹر جلانے پر پابندی ہے۔ وزیروں اور بیوروکریٹوں کے گھروں پر بجلی کنٹرول میں استعمال ہوتی ہے۔ راولاکوٹ میں کمیشنر، ڈپٹی کمشنر سمیت دیگر افسران کے دفاتر اور گھروں میں بجلی کے ہیٹر استعمال نہیں کئے جاتے جن کا بل بھی وہ لوگ ادا نہیں کرتے تو پھر اس سخت سرد موسم میں عوام کو یہ کہنا کہ بجلی استعمال نہ کریں گڈ گورنس نہیں ہے۔
واپس کریں