یوم انسانی حقوق، کشمیر کی صورت حال۔ کشمیریوں کا احتجاج
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
10 دسمبر کو عالمی سطح پر یوم انسانی حقوق منایا گیا۔ گویا دنیا کے حکمران اور طاقتور گروہ نے اس دن یہ عہد کیا کہ وہ اپنی حدود میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں کریں گے۔ لیکن بھارت 11 دسمبر کو یہ عہد توڑ دیتا ہے جب کہ اس سے دنیا کی کوئی طاقت پوچھ بھی نہیں رہی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ۔ سب سے بڑا ظلم اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہو رہی ہیں جہاں لاکھوں بے گناہ افراد کا قتل عام اور ہزاروں کو جیلوں میں بند کر رکھا ہے جن کو علاج معالجے کا حق بھی نہیں دیا جا رہا۔۔ سالوں سے بند ان گرفتار کشمیری رہنماوں کی اکثریت پر ابھی تک فرد جرم بھی آئید نہیں کیا گیا ۔ جن کی چارج شیٹ داخل کیے گئی ان کے مقدمات سالوں سے عدالتوں میں شروع ہی نہیں ہوئے۔ 3.79 لاکھ سے زائد مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ بھارتی آئین کے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد ہزاروں کشمیریوں کی نظربندی سے اس میں مزید سنگینی آئی ہے۔ یہ معلومات منظر پر نہیں آ رہی کہ اس دوران مذید کتنے مقدمات رجسٹر ہوئے ہیں۔۔ تاہم 5 اگست 2019ء کے بعد زیر التواء مقدمات کے بحران میں مذید اضافہ ہو گیا جب ہزاروں سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور عام نوجوانوں کو متنازعہ کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس صورت حال نے عدلیہ پر غیر معمولی بوجھ ڈالا ہے اور اکثر مقدمات کی سماعت شروع ہی نہیں ہوئی۔۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیر مملکت برائے قانون و انصاف ارجن رام میگھوال نے لوگ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ 30 نومبر 2024ء تک بھارت کے نیشنل جوڈیشل ڈیٹا گرڈ کے اعداد و شمار کے مطابق جموں کشمیر کی ضلعی اور ماتحت عدالتوں میں 3,32,802 جب کہ ہائی کورٹ میں 45,464 مقدمات التوا میں پڑے ہیں۔ لداخ جس کو جموں و کشمیر سے الگ کر دیا گیا ہےکی عدالتوں میں 1,456 مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، شائد ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب کوئی شہری ہلاک یا گرفتار نہ کیا جاتا ہو، جب کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی نے کئی مسائل پیدا کر دئے ہیں۔ جموں کشمیر ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی (جے کے ڈی ایف پی) نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس اور اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل حسین براہیم طحہ سمیت عالمی رہنماؤں کے نام جاری خط میں مطالبہ کیا ہے کہ بھارتی جیلوں میں غیر قانونی اور غیر اخلاقی قید کشمیری سیاسی قائدین کے ساتھ ریاستی ناانصافیوں، ناروا سلوک اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی وجہ سے بگڑتی صورت حال پر فوری توجہ دیں۔ دونوں تنظیموں اور عالمی رہنماؤں کو بھیجے گئے خطوط میں جے کے ڈی ایف پی کے قائم مقام چیئرمین اور آل پارٹیز حریت کانفرنس جموں و کشمیر کے سابق کنوئینر محمود احمد ساغر نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے پہلے اور بعد میں ہزاروں کشمیریوں کو سخت اور کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا ہے۔ ان کے ساتھ شدید بدسلوکی اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کی جا رہی ہے، جن میں تشدد، قید تنہائی، ادویات کی فراہمی سے انکار، اور جنسی طور پر ہراساں کرنا شامل ہیں۔ شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، آسیہ اندرابی اور خرم پرویز جیسی اہم اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سیاسی رہنماؤں کی صحت طویل عرصے سے خراب ہے۔ تہاڑ جیل میں قیدیوں کے لیے فون اور الیکٹرانک میٹنگ کے استحقاق سے انکار جیسی حالیہ پابندیوں سے صورتحال مزید ابتر ہو گئی ہے۔ محمود ساغر نے کہا کہ بی جے پی کی حکومت سیاسی اختلاف کی آوازوں کو خاموش کرنے اور کشمیری عوام کی حق خودارادیت کے لیے سیاسی اور جائز جدوجہد کو دبانے کے لیے قید و بند آبروریزی قتل و غارت، نوجوانوں کے چہروں کو داغدار کرنے کے لیے پلیٹ گن کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ خط میں بین الاقوامی حکمرانوں کی توجہ دلائی گئی کہ بھارت جنیوا کنونشن کے چارٹر کی پاسداری کا ذمہ دار ہونے کے باوجود ان کی خلاف ورزی کر رہا ہے جو باعث تشویش ہے۔ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کو پابند کرے کہ وہ نظربندوں کے ساتھ انسانی سلوک کو یقینی بنائے، جیل قوانین کے تحت ان کو پوری سہولیات مہیا کرے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی تحقیقات کراے اور بے گناہ گرفتار سیاسی قیدیوں کو رہا کرے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ اور او آئی سی فعال کردار ادا کریں۔ ادھر انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر مقبوضہ جموں کشمیر کے مختلف علاقوں میں پوسٹرز چسپاں کیے گئے ہیں جن میں عالمی برادری کی توجہ بھارتی فورسز کی جانب سے جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی طرف مبذول کرائی گئی ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس، جموں کشمیر پیپلز ریزسٹنس پارٹی، جموں و کشمیر پولیٹیکل ریزسٹنس موومنٹ، جموں و کشمیر ڈیموکریٹک موومنٹ اور دیگر تنظیموں کی طرف سے چسپاں کئے گئے پوسٹروں میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے جاری مظالم کی مذمت کی گئی۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ ، شبیر احمد شاہ ، آسیہ اندرابی یاسین ملک اور دیگر نظربند رہنماؤں کی تصاویر والے پوسٹروں میں کہاگیا ہے کہ بھارت نے کشمیری عوام کو حق خودارادیت سمیت بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔پوسٹروں میں بے گناہ کشمیریوں بالخصوص نوجوانوں کو جعلی مقابلوں اور محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران شہید کرنے اور میتوں کو ورثاء کے حوالے نہ کرنے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ جموں و کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت مانگنے اور اس کے لیے سیاسی جدوجہد کرنے پر گزشتہ 77 برس سے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے جو 10 دسمبر 1948ء کو جاری ہوا میں درج 30 بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک بھی حاصل نہیں ہے ۔ پرامن اور سیاسی طریقے سے حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر کشمیریوں کو ظالمانہ طریقے سے قتل، گرفتار، ہراساں، تشدد اور تذلیل کا نشانہ بنانے کے علاوہ انکی املاک ضبط کی جا رہی ہے ۔ بھارتی فورسز نے ریاستی دہشت گردی اور ظلم و بربریت کی کارروائیوں کے دوران جنوری 1989ء سے اب تک 96 ہزار 383 کشمیریوں کو شہید کیا ہے جن میں سے 7 ہزار 370 کو دورانِ حراست یا جعلی مقابلوں میں شہید کیا گیا ہے۔ ان شہادتوں کی وجہ سے 22 ہزار 980 خواتین بیوہ اور ایک لاکھ 7 ہزار 974 بچے یتیم ہوئے۔ 11 ہزار 265 خواتین کی جنگی ہتھیار کے طور پر بے حرمتی کی گئی۔ 6000 آدھی بیوائیاں سہاگ کے انتظار میں عالمی برادری کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ پیلٹ گنز سے ہزاروں عام شہریوں کا نشانہ بنایا گیا جن میں کثیر تعداد طلبہ و طالبات کی ہے جن میں 19 ماہ کی حبہ بے بی ، 10 سالہ آصف احمد شیخ ، 16 سالہ عاقب ظہور اور شیخ احمد وانی ، 17 سالہ الفت حمید اور بلال احمد بٹ ، انشاء مشتاق ، 19 سالہ طارق احمد گجر اور فیضان اشرف تانترے ، عابد حسین ، فردوس احمد ڈار اور تنویر حسین بٹ سمیت درجنوں بچے اپنی بصارت سے جزوی یا مکمل طورپر محروم ہو گئے ہیں۔ کشمیریوں کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے لیے 400 ہزار ملین ڈالر کا نقصان ہو چکا۔ ایک لاکھ 10 ہزار 521 رہائشی مکانات ، دکانوں اور دیگر عمارتوں کو مکمل یا جزوی تباہ کر کے ناکارہ بنا دیا گیا۔ جامع مسجد سرینگر اور عیدگاہ میں محرم الحرام اور عید میلاد النبی ۖ کے جلوسوں اور نمازِ عید کے اجتماعات، جمعة الوداع ، مغرب ، عشاء کی نمازیں ادا کرنے پر پابندی ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، آسیہ اندرابی، نعیم احمد خان، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، ایاز محمد اکبر، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام، فاروق احمد ڈار، سید شاہد یوسف، سید شکیل یوسف ، غلام محمد بٹ، خرم پرویز ، ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، مشتاق الاسلام، مولوی بشیر احمد، بلال صدیقی، ظفر اکبر بٹ، محمد یوسف فلاحی، محمد رفیق گنائی، حیات احمد بٹ، فیروز احمد خان، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو ، غلام محمد بٹ، ایڈووکیٹ میاں عبدالقیوم، ایڈووکیٹ نذیر احمد رونگا، ایڈووکیٹ محمد اشرف بٹ، ایڈووکیٹ مظفر قیوم، امیر حمزہ، ڈاکٹر حمید فیاض، عبدالاحمد پرہ، نور محمد فیاض، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، غلام قادر بٹ، ظہور احمد بٹ، عمر عادل ڈار، محمد یاسین بٹ، فیاض حسین جعفری، عادل سراج زرگر، دائود زرگر، آفرینہ گنانی، نگینہ منظور، منیرہ بیگم، صفیقہ بیگم اور عشرت رسول سمیت 5 ہزار سے زائد حریت رہنماء ، کارکن، نوجوان، صحافی اور علمائے کرام جھوٹے مقدمات میں مسلسل نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل سمیت بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔10 دسمبر کو کشمیریوں نےعالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ مقبوضہ جموں کشمیر میں اپنی ریاستی دہشت گردی اور کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خودارادیت کے مطالبے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے ۔
واپس کریں