دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبوضہ جموں و کشمیر کے نئے وزیر اعلی منگریو لال کی بازگشت
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابی مراحل مکمل ہو چکے اب 8 اکتوبر کو نتائج کا انتظار ہے۔ انتخابی گہماگہمی اور بھارتی فورسز پر تابڑ توڑ حملے ساتھ ساتھ جلتے رہے ۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ بھارتی فورسز اور مسلحہ آزادی پسندوں کے درمیان جڑپ نہ ہوئی ہو۔ اس کے باوجود انتخابی عمل میں عوام کی بھرپور شرکت سے اندازہ ہوا 1990ء کی طرح عسکریت پسند اور عوام ایک پیج پر نہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن بڑی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ انتخابی مہم میں ظلم، قید و بند، اظہار رائے پر قدغن، ناانصافی، انسانی حقوق کی پامالی، 370 کی بحالی اور مسئلہ کشمیر کے حل کی گونج سنائی دیتی رہی، جو کشمیریوں کے دل کی آواز ہے۔ عام حالات میں اس طرح کی باتوں پر مقدمات قائم ہوتے تھے۔ تہاڑ جیل سے ضمانت پر آئے انجینیئر رشید نے عوامی اتحاد پارٹی کے 30 سے زائد امیدواروں کی انتخابی مہم صرف نعروں پر چلائی۔ ان نعروں میں لکھن پور سے گلگت تک سارا کشمیر ہمارا ہے، ڈرامہ بازی بند کرو، مسلہ کشمیر حل کرو، ظلم کا بدلہ ووٹ سے، یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔

یہ تو قوم پرستوں کے نعرے ہیں اور لوگ ان نعروں کے درمیان انجینیئر رشید کے اطراف کھڑے ایک نئی امید کے ساتھ نئی روشنی دیکھ رہے تھے، بالکل اسی طرح جیسے 1990ء میں سید علی گیلانی نے، "ہم ہیں پاکستانی پاکستان ہمارا ہے" کا نعرہ لگایا اور عوام ان کے گرد جمع ہو گئے، اس کا جو بھی حشر ہوا اس پر کیا تبصرہ انجینیئر رشید کے نعروں کا کیا نتیجہ نکلتا ہے وقت بتائے گا۔۔۔۔ لیکن مین سٹریم قیادت کا تو یہی خیال ہے کہ انجینیئر رشید کے منہ میں یہ نعرے بھاجپا نے ڈالے۔ تہاڑ جیل کے دوسرے قید سرجان برکاتی عرف "آزادی چاچا" کی مہم اُن کی صاحبزادی صغریٰ برکاتی نے خوب چلائی۔ بے شک تہاڑ جیل کے یہ دونوں قیدی عوام میں بہت مقبول رہے۔۔ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی مہم کے مقابلے میں انجینیئر رشید اور صغریٰ بی بی کی مہم نے نہ صرف حلقے کے عوامی کی حمایت حاصل کی بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے اُن کی باتیں جموں و کشمیر کے قریہ قریہ پھیل گئیں۔

انتخابی میدان میں چار سیاسی قوتوں نے زورآزمائی کی۔ مودی جی کی بھاجپا، کانگریس، نیشنل کانفرنس گھٹ بندن، محبوبہ جی کی پی ڈی پی اور انجینیئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی اور اس کی اتحادی جماعت اسلامی جس نے حیران کن طور پر انتخابات سے تین روز پہلے اتحاد کیا ۔ جماعت اسلامی نے آخری بار 1987ء میں الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ اس کے بعد حریت میں شامل تمام ہی پارٹیز اور گروپ انتخابات کا بائی کاٹ کرتے اور اسے بھارت کا سفارتی ہتھیار قرار دیتے رہے۔ ان کے مطابق انتخابات کرانےکا مقصد اقوام متحدہ سمیت دنیا کو یہ بتانا ہے کہ کشمیر میں سب ٹھیک ہے اور مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادیں غیر موثر ہوچکی۔ لیکن اس مرتبہ تین عشروں بعد بھارتی جیلوں میں بند اور جیلوں سے باہر خاموش سابق حریت لیڈر بھی انتخابات میں کود پڑے۔ آزادی پسندوں میں یہ تبدیلی اچانک کیسے پیدا ہوئی اس پر تبصرہ یا تنقید بعد پر رکھ چھوڑتے ہیں، سردست آزادی کی پشت پناہی کرنے کے دعویداروں کو نوید ہو کہ آزادی کے لیے 33 برسوں تک قید و بند کی صعوبتیں
کاٹنے والے تہاڑ جیل میں قید سرکردہ حریت رہنما شبیر احمد شاہ کے قریبی ساتھی اور حریت لیڈر سید سلیم گیلانی نے محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کرلی۔

تہاڑ جیل ہی میں ایک اور حریت رہنما نعیم خان کے بھائی منیر خان نے پارلیمنٹ الیکشن میں حصہ لیا اور اب اسمبلی کے انتخابات میں سرگرم ہیں۔ سید علی گیلانی کے قریبی ساتھی پیر سیف اللہ کے بھائی الطاف بٹ نے بھی کاغذات نامزدگی داخل کرائے۔کالعدم جماعت اسلامی کے کئی لیڈر جیل میں ہیں اور 9 آزاد اُمیدوار کے طور پر انتخابی میدان میں اترے۔ باقی جو باہر ہیں انہوں نے اپنے امیدواروں کی کھل کر حمایت اور حریت سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ ان لیڈروں میں جماعت کے سابق جنرل سیکریٹری غلام قادر لون نمایاں ہیں۔ زمین پر موجود جماعتی قیادت نے عوام سے کہا کہ ووٹنگ میں حصہ لیں۔ کپواڑہ میں غلام قادر لون اپنے صاحبزادے ڈاکٹر کلیم اللہ لون کی مہم میں سرگرم رہے۔۔ جماعت اسلامی اور عوامی اتحاد پارٹی کے اتحاد نے بڑی سیاسی جماعتوں کو 47 میں سے 40 سیٹوں پر چیلنج کیا۔ بھاجپا نے اس بار وادی کشمیر سے 19 اُمیدوار نامزد کئے تھے، جبکہ جموں کی کل 43 سیٹوں پر اُمیدوار موجود رہے۔ تاہم جموں میں کانگریس نے بھاجپا کو دبا دیا ہے جہاں پرینکا گاندھی باشعور اور مدبر سیاست دان کے طور پر عوام کے بڑے بڑے جلسوں میں چھوٹے چھوٹے مسائل پر سحر حاصل گفتگو کر کے عوام خاص طور پر غیر مسلموں کی آواز بن کر سامنے آئی۔ جموں میں بھاجپا ، کانگریس کا کانٹے دار اور ون آن ون مقابلہ ہوا، تاہم وادی کشمیر میں انجینیئر رشید کی لہر نے گھمسان کا سیاسی دھنگل برپا کئے رکھا۔ عمر عبد اللہ سمیت سبھی روایتی سیاست دان اُنہیں بی جے پی کی پراکسی کہتے رہے،اور وادی کے عوام کو خبر دار کرتے رہے کہ جیل کے قیدی اور جماعت اسلامی بھاجپا کا وزیر اعلی لانے کی راہ ہموار کر رہے ہیں جو کوئی ہندو بھی ہو سکتا ہے۔ عبداللہ اور مفتی خانوادوں کی بھوکلاٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جماعت اسلامی اور انجینیئر رشید کے اتحاد نے ان کی جیت کو مشکل بنا دیا ہے۔ جس کا تمام تر فائدہ بھاجپا کو ہی ہو گا۔

اکثر مبصرین کی بھی یہی رائے ہے کہ جس قدر کشمیر میں سیاسی قوتوں کے درمیان سخت مقابلے کی صورت حال بنی اُسی قدر بھاجپا کو جموں میں قدم جمانے میں مدد ملی۔ کانگریس نیشنل کانفرنس گھٹ بندن نے دونوں ریجن کو دونوں پارٹیوں کے درمیان تقسیم کیا رکھا۔ وادی نیشنل کانفرنس اور جموں کانگریس کے حوالے تھا، راہول گاندھی اور پرینکا دونوں بہن بھائی نے خوب محنت کی۔ بھاجپا کی غلطیوں کوتاہیوں کو جس طریقے سے یہ بیان کر رہے تھے اس طرح کوئی کشمیری جماعت یا لیڈر نہیں کر پایا۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں بہن بھائی نے کشمیریوں کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔۔ جموں و کشمیر میں انتخابی مہم کے دوران اندازہ ہوا کہ نہروں خاندان کے کشمیری پنڈت نسل ان دونوں بہن بھائی میں اتنی سیاسی سوج بوج ہے کہ مودی کے فاشزم کو منہ دے سکیں۔ نیشنل کانفرنس پورے جموں کشمیر میں 90 میں سے 51 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے جبکہ کانگریس 32 پر۔ دونوں کے درمیان انتخابی اتحاد کی سٹریٹجری یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس مسلم اکثریتی کشمیر سے کم از کم 30 سیٹوں پر برتری حاصل کرے اور کانگریس جموں کے ہندو اکثریتی حلقوں سے کم از کم 15 سیٹیں جیت جائے اسمبلی میں سادہ اکثریت کا نمبر 45 ہے۔ گھٹ بندن نے سادہ اکثریت حاصل کر لی تو کچھ آزاد امیدوار بھی شامل ہو کر حکومت تو قائم ہو سکتی ہے۔ انتخابات میں آزاد امیدواروں کی شرح 44 فیصد ہے کیونکہ عوامی اتحاد اور جماعت اسلامی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہیں لہذا ان کے امیدوار بھی آزاد ہی شمار ہوتے ہیں۔

جموں و کشمیر کے ہر خطے میں ووٹروں کا مزاج ایک جیسا ہے لوگ ہر پارٹی کے جلسے جلوس میں جاتے ہیں جب کہ ووٹ اپنے حساب سے دیتے ہیں۔اسی لیے سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں ریلیوں میں ہجوم الگ بات ہے اور اُس ہجوم کو ووٹوں میں تبدیل کرنا الگ بات۔ اس کے باوجود نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا اتحاد، انجینیئر رشید کی نئی لہر سے پریشان ہے۔ اگر کشمیر سے ایک درجن نئے چہرے منتخب ہوئے تو وہ گروپ کِنگ میکر بن سکتا ہے۔ اس نے بھاجپا کو ووٹ دیا تو یقینا اس کی حکومت بن جائے گی اور ممکن ہے کہ بھاجپا کشمیریوں کو نیا سرپرائزڈ دے کہ اب کے بار ہندو وزیر اعلی ہو۔ التجا مفتی نے تو نام بھی بتا دیا کہ بی جی پی کا دن کا خواب ہے کہ منگریو لال وزیر اعلی جموں و کشمیر ہو لیکن دن میں خواب دیکھنے اور ان کو خوش ہونے دیں بی جی پی جیتے گی تو وزیر اعلی نامزد کرے گی۔۔۔کشمیر میں ہندو وزیر اعلی بھاجپا کی پرانی خواہش ہے۔ نریندر مودی کے اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد سے بھاجپا اس آرزو کو دوہراتی رہی ہے کہ جموں کشمیر میں ان کی حکومت بنے گی اور وزیراعلیٰ ہندو ہوگا تاکہ جموں کشمیر کے اقتدار پر کشمیری مسلمانوں کی بالادستی کو ختم کیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ انتہاء پسند ہندوں کے لیے خوشی کا وہ وقت قریب ہے۔ اگر ایسا ہوا تو انجینیئر رشید اور جماعت اسلامی کا بھاجپا کو بڑا تعاون حاصل ہو گا۔ بھاجپا اس لیے بھی پرامید ہے کہ اپریل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو جموں ریجن کے29 اسمبلی حلقوں میں برتری حاصل ہوئی تھی جس کی وجہ سے پارٹی پرامید ہے کہ جموں سے وہ 43 میں سے کم سے کم 35 نشستیں جیتے گی جب کہ وادی سے اس کے 20 حمایتی جیتیں گے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے لیے ہندو ووٹروں کے ساتھ ساتھ جموں کی چناب ویلی (ڈوڈہ، کشتواڑ، رام بن) اور نیلم ویلی (راجوری پونچھ) کے مسلم ووٹرس کا اہم کردار ہوگا۔ جہاں انجینیئر رشید اور جماعت اسلامی سرگرم نہیں۔ نئی حد بندیوں کے باعث وادی چناب میں بی جے پی کو فائدہ ہو گا۔ جہاں چھ سیٹوں میں سے جن دو سیٹوں کے لیے ڈوڈہ ویسٹ اور پاڈر۔ناگ سینی حلقوں کا اضافہ کیا گیا، وہ دونوں سیٹیں ہندو اکثریتی علاقے ہیں اور حدبندی کی وجہ سے کشتواڑ سے چند حصہ کاٹ کر اسے بھی ہندو اکثریتی حلقے کے ساتھ لگایا گیا ہے جس کو بھاجپا اپنی سیٹ سمجھتی ہے۔ نریندر مودی نے انتخابی مہم کا آغاز بھی کشتواڑ سے کیا جہاں 2014ء میں بی جے پی نے چناب خطے میں چھ میں سے چار سیٹیں حاصل کی تھیں اور باقی دو کو بھی نئی حلقہ بندی سے محفوظ کر لیا گیا ہے۔

بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کا خیال ہے کہ موجودہ صورت حال میں کسی ہندو کا وزیر اعلی جموں و کشمیر تعیناتی تحریک آزادی کے لیے بہتر ہو گا۔۔ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کشمیر میں یہ دعویٰ کرتا پھرتا رہا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے مودی جی نے مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے دفن اور دہشت گردی کو ختم کر دیا۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران مودی جی ظلم ستم، بے رحمانہ تشدد اور کچھ ہماری غلط پالیسیوں کے باعث کشمیریوں کی زبان بندی میں تو کامیاب ہوا لیکن نہ کشمیریوں کے دل جیتنے میں کامیاب ہوا نہ آزادی کی تڑپ ختم ہوئی نہ حریت پر پوری طرح قابو پایا جا سکا، نہ ہی یہاں کی سیاست تبدیل ہوئی۔ اگر امن ہے تو قبرستان کا امن ہے۔اب تو بین الاقوامی میڈیا بھی یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر حل ہوگیا ہے تو انتخابی مہم کے دوران قیدیوں کی رہائی اور پاکستان سے مذاکرات کشمیر ہمارا ہے سارے کا سارا ہے جیسے نعرے کیوں بلند ہوتے رہے، اور پرینکا گاندھی جیسی ہندوستان کی صف اول کی رہنما کیوں یہ کہتی رہی کہ عسکریت پسندی اب بھی زندہ ہے۔ کچھ ہی عرصے میں فورسز پر ہونے والے 683 حملوں میں 260 اہلکار اور 170 عام شہری مارے گئے"۔

میرا کامل ایمان ہے کہ بھارت جو کچھ مقبوضہ جموں و کشمیر میں کر چکا اس کے بعد آزادی کا جذبہ ٹھنڈا نہیں ہو سکتا۔ سیاست اور جمہوریت کی بحال کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کشمیری بے نیاز ہو کر ووٹ ڈالتے رہیں آج جو انتخابی مہم میں مصروف رہے یہی یا ان کی اولادیں نئے رخ، نے انداز اور نئے جذبے کے ساتھ سامنے آئیں گی، یہ سستانے کا عبوری وقت ہے۔ برحال اس پیچیدہ سیاسی منظرنامے اور انتخابی دھنگل میں کسی ایک سیاسی قوت کی جیت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، لیکن کس نے کتنا بھی زور لگایا ان انتخابات کا نتیجہ معلق اسمبلی ہی ہے جو پہلے ہی بے اختیار ہے۔ سب سے زیادہ سیٹیں لینے والی جماعت یا اتحاد کو بھی مذید سیٹیں اکٹھا کرنے میں زور لگانا پڑسکتا ہے وہ سرمایہ کا زور ہو یا ریاستی طاقت کا۔ البتہ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے جو انتخابی مہم چلائی وہ کمال کی تھی پرینکا گاندھی نے جموں اور راہول گاندھی نے وادی کا مورچہ مکمل سنبھالئے رکھا اور عوام کے دلوں کی بات کہہ کر ان کو متاثر کرتے رہے جب کہ انجینیئر رشید جذباتی نعروں کے ساتھ ہجوم کو جمع کرنے میں کامیاب رہے، عمر عبداللہ کنفیوز اور التجا مفتی گھر گھر مہم چلانے کی حکمت عملی پر گامزن رہی۔ بھاجپا کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا، وفاقی وزراء اور خود مودی جی 370 کے خاتمے کا کریڈٹ اور ترقیاتی منصوبے گنتے رہے جس پر کم از کم مسلم اکثریتی علاقوں کی عوام اور خاص طور پر وادی کشمیر کے لوگ متاثر نہیں ہوئے۔ 9 اکتوبر کو حکومتی جوڑ توڑ شروع ہو گا۔ اس سے تحریک آزادی کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہے یہ الگ بحث اور مختلف نقطہ نظر ہے تاہم جموں و کشمیر کے عوام کو کئی سال بعد میل جول اور گفتگو کی آزادی ملی جس پر کئی برسوں سے پابندی تھی۔ اس سے کم از کم ان کے دل کا بوجھ تو ہلکا ہوا، پھر کی پھر دیکھی جائے گی۔

واپس کریں