دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عوامی ایکشن کمیٹی پر بھارتی فنڈنگ کا الزام، فیصلہ کون کرے گا؟
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
وزیراعظم چوہدری انوارالحق کے بیان کو سچ مان لیا جائے کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آزاد جموں و کشمیر بھارتی فنڈڈ اور گزشتہ ڈیڑھ دو سال کے دوران یک بعد دیگرے عوامی حقوق تحریکوں نے جو زور پکڑا وہ افراتفری پھیلانے کی بھارتی سازش تھی تو پھر وزیراعظم سے یہ سوال بنتا ہے کہ سرکار کو کیا پڑی تھی کہ ان را کے ایجنٹوں کے ساتھ مذاکرات اور معاہدات کرتی۔ غیر ملکی ایجنٹوں اور ملک دشمن عناصر کو تو ریاستی طاقت سے کچلا جاتا ہے جب کہ انوارالحق سرکار ان کے ساتھ معاہدات کرتی رہی۔ جب یہ خبر گردش کرنے لگی کہ انوارالحق کو لانے والے اب انہیں نکال رہے ہیں تو کابینہ کی فوج ظفر موج کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بیٹھ کر یہ فرمایا کہ شوکت نواز میر اور سردار عمر نذیر کشمیری سے پوچھا جائے کہ ان کے پیچھے کون ہے۔

ہم اس پر ہاں یا نا میں کوئی دو ٹوک رائے نہیں دے سکتے کہ آزاد جموں و کشمیر میں حالیہ بے چینی خالصتا سوک مسائل میں دبے عوام کا غم و غصہ تھا یا اس کے پیچھے کسی سطح پر بھارتی مداخلت بھی ہے۔ اس کی تصدیق یا تردید کے لیے حکومتی رپورٹ کے علاوہ دوسرے آزاد ذرائع نہیں۔ حکومت نے تو بآواز بلند اس کا اعلان کر دیا لیکن ثبوت کی فراہمی کسی اور موقع کے لیے یہ کہہ کر موخر کر دی کہ اس طرح کے ثبوت پریس کانفرنس میں نہیں دئیے جا سکتے۔۔ جب کہ جو رکیک الزام آزاد کشمیر کے عوام پر لگائے گئے، یہ جموں و کشمیر کے دو کروڑ عوام پر عدم اعتماد ہے جو بھارتی فوج کی جانب سے سخت زخم خوردہ ہیں۔ ثبوت کے بغیر لوگ ان الزامات کو کیسے تسلیم کریں گے جن کو بقول وزیراعظم اس افراتفری میں تاریخ کا بڑا فائدہ ہوا۔ وزیراعظم کے بیان پر عوام کا اعتبار نہ کرنے کی معقول وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کا یہ وطیر رہا ہے کہ وہ اپنے مخالفین یا اپوزیشن پر اس طرح کے الزامات لگاتے رہے ہیں، جس کی شروعات محترمہ فاطمہ جناح سے ہوئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے بعد سندھیوں پر یہ الزام لگا جو بٹھو کے ساتھ زیادتی و ظلم کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کر رہے تھے۔ کراچی کے عوام پر یہ الزام صرف اس لیے لگا کہ انہوں نے بلدیاتی اختیارات اور کوٹہ سسٹم کی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ بلوچوں نے مقامی وسائل پر حق مانگا تو وہ بھی بھارتی ایجنٹ ٹھرائے گے اور ابھی تک جنگ و جدل جاری ہے۔ اب تو پٹھان بھی اسی زمرے میں شامل ہو گئے جو ہمیشہ سے پاکستان کی حفاظت کے ہر اول دستے کے سپاہی رہے ہیں کیوں کہ وہ گڈ طالبان سے بیڈ طالبان ہو گئے۔

کشمیریوں کے لیے کہا جاتا تھا کہ وہ بغیر تنخواہ کے پاکستان کے سپاہی ہیں جنہوں نے بھارت کی دس لاکھ آرمی کو روکا ہوا ہے جو عددی لحاظ سے پاکستان کی آرمی سے بھی زیادہ ہے لیکن آزاد کشمیر کے عوام نے پالتوں سیاسی موروں کو کیا مسترد کیا بھارتی ایجنٹ ہو گئے۔ میں بڑے وثوق اور ہقین سے کہا سکتا ہوں کہ کسی بھی سطح پر ثابت ہو جائے کہ سوک حقوق کی جدوجہد کی اس تحریک میں بھارت ملوث تھا تو ایک کشمیری بھی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ کھڑا نہیں رہ سکتا۔ کشمیری پاکستان سے شکایت کے باوجود بھارت سے شدید نفرت کرتے ہیں دوستی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ بھارت نے جو ہماری عورتوں بچوں اور جوانوں کے ساتھ ظلم کیا اس کو کبھی نہیں بھولا جا سکتا۔ لہذا بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ شوکت نواز میر اور سردار عمر نذیر کشمیری کے پیچھے بھارت نہیں آزاد کشمیر کے عوام ہیں جنہوں نے آزاد جموں و کشمیر میں پاکستانی سیاسی فرنچائز کو یکسر مسترد کردیا۔

سیاست اور سیاست دانوں کو مسترد کرنے کے پیچھے ایک پوری داستان ہے جو ہر خاص و عام کو سمجھ آتی ہے کہ ماضی کی پونی صدی کے دوران ان سیاست دانوں نے اپنی آل اولاد کی ترقی کے علاوہ عوام کے لیے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ آج اگر آزاد کشمیر میں کوئی سڑک یا معیاری عمارت نظر آتی ہے تو یہ زلزلے کی تباہ کاری کے بعد بحالی کا شاخسانہ ہے جو بین الاقوامی برادری کی فراخدلانہ امداد سے ممکن ہوا۔ سیاست دانوں کا تو یہ کمال کہ فتح محمد خان کریلوی ہوں، سردار محمد ابراہیم خان یا سردار عبدالقیوم خان، راجہ حیدر خان ہوں یا چوہدری نور حسین یا ان کا ہم عصر کوئی دوسرا آج اس کی تیسری نسل برسراقتدار ہے ۔ خود چوہدری انوارالحق، چوہدری صحبت علی کے فرزند ارجمند ہیں جو آزاد کشمیر کے اقتدار کا حصہ رہے ہیں ۔ ان سب لوگوں کی لائف اسٹائل تبدیل اور اسلام آباد میں محلات ہیں لیکن بدقسمتی سے آزاد کشمیر کا اقتدار اعلی اپنے مقاصد سے پیچھے ہٹتے ہٹتے یہاں تک پہنچا کہ اب بھارت نے متنازع علاقہ جموں و کشمیر کو سرکاری طور پر بھارت میں ضم کر دیا اور بیس کیمپ کی حکومت میں شامل یہ خاندان کسی ایک سفارت خانہ میں بھی شکایت درج نہیں کرا سکے کہ بھارت نے جموں و کشمیر پر غیرقانونی قبضہ کیا ہے۔ اس دوران حکومت پاکستان نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا لیکن انہوں نے اس کو بھی ذمہ داری یاد نہیں دلائی بلکہ راجہ فاروق حیدر خان اس وقت عوام کو ڈرانے لگے کہ میں آزاد کشمیر کا آخری وزیر اعظم ہوں۔ گویا اس وقت کشمیر کی تقسیم کا فیصلہ ہو چکا تھا یا ہو رہا تھا تو بیرون ملک دورے پر جانے کے بجائے عوام کے پاس جاتے۔ چوں کہ وہ مسلم لیگی تھے اور پارٹی پالیسی پر انہیں خاموش ہونا پڑا۔

معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974ء کے تحت یہ سارے حکمران خاندان اور ان کے ساتھی پابند ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر خاموش رہیں چے جائے کہ بھارت کشمیر کو ہڑپ ہی کر دے۔ یہ معاہدات و قوانین بنانے والے یہ خاندان گونگے بہرے تھے، بول نہیں سکتے تھے کہ بھائی یہ ہمارا مسئلہ ہے، اس پر ہم بھی بات کریں گے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، ہم بھارت کو برا تو کہتے ہیں کہ اس نے جبرا قبضہ کیا ہے لیکن آزاد کشمیر کا نوجوان اب سمجھ رہا ہے کہ آزاد کشمیر کے سیاست دانوں نے نہ صرف مسئلہ کشمیر پر سودا بازی کی یا دانستہ مجرمانہ غفلت کی ہے۔ پہلے تو انہوں نے ریاستی سیاست کو ختم کر کے پاکستانی فرنچائز کھولیں تو آزاد کشمیر کے عوام سے فیصلہ سازی کے اختیارات چھین لیا گیا۔ زرداری نواز شریف یا عمران خان کشمیریوں کے مسائل سے کیوں سنجیدہ ہوں گے ان کو اپنے مسائل سے فرست نہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کا نوجوان سمجھتا ہے کہ یہ ہمارا مسئلہ ہے اور اس پر ہمیں ہی توجہ دینا چاہئے۔ آزاد جموں و کشمیر کے سیاست دان خاندانوں نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے قابل قدر فلاحی منصوبوں پر بھی توجہ نہیں دی حتی کہ کشمیر کونسل جو آزاد کشمیر کی متوازی حکومت ہے کے بارے میں بھی کبھی واضح موقف نہیں اپنایا۔ اس صورت حال میں تاجر رہنما ایک نعرہ لے کر میدان میں اترے اور آزاد کشمیر کا نوجوان ان کے ساتھ ہو گیا۔ اگر یہ حقیقی مسائل موجود ہی نہ ہوتے تو لوگوں کو اس طرح نکلنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

راجہ فاروق حیدر خان سمیت آزاد کشمیر کے سیاسی جغادری آج بھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے کے عوام ان سے متنفر ہو چکے۔ شوکت نواز میر اور سردار عمر نذیر کشمیری خود ہی بتا سکتے ہیں کہ ان کے پیچھے کون ہے لیکن یہ قیاس بھی کیا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے ان کے پیچھے وہ تمام لوگ ہوں جو جناب وزیر اعظم کو روز اول سے ہٹانے چاتے ہوں آپ نے تو ان کا حقہ پانی بند کر رکھا ہے۔ اب ان کا میزانیہ خسارے میں ہے جن کی کل آمدنی عوامی وسائل تھے۔ یہ کیسا سیاسی ڈسپلن ہے کہ ان پارٹیوں کے لوگ وزارت کے مزے لے رہے ہیں اور پارٹی کے مقامی سربراہ حکومت کے خلاف بیانی بازی بھی کر رہے ہیں۔ اس تحریک میں عمران خان کے ماننے والوں کی تو سمجھ آتی ہے کہ وہ دل کی بھڑاس نکالنے گئے تھے لیکن نواز شریف اور زرداری کے چانے والے کیا کر رہے تھے کیا بھارتی فنڈ سے کچھ حصہ وہاں بھی پہنچا ہو گا جو انہوں نے کارکنوں کو انتشاری اور افراتفری تحریک میں بھیج دیا۔

معلوم نہیں چوہدری انوارالحق کو کس صلے میں حکومت ملی لیکن مقابلاتا ان کی حکومت بیڈ گورنس نہیں تھی۔ سوشل ریفارم، صحت پیکیج سمیت ان کے حصے میں کچھ اچھے کام بھی ہیں ان میں مذید اضافہ کیجئے ان کو خراب کرنے کا کیا فائدہ۔ ہاں اگر اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی فنڈنگ ہوئی تو اس کو سارے ثبوتوں کے ساتھ عوام میں لائیں پھر عوام خود ہیں فیصلہ کر دیں گے۔ آپ کیوں پرامن لوگوں کو بھارت کا راستہ دیکھاتے ہیں ایسے بیانات حکومتوں پر لوگوں کا اعتماد اٹھاتے ہیں۔ ماضی میں جناح پور کا الزام بھی سامنے آیا تھا جس کے ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آئے، بلکہ الزام لگانے والے بعد میں ٹی وی پر بیٹھ کر وضاحتیں دیتے رہے۔۔ جناب وزیراعظم یہ کوئی ثبوت نہیں کہ اس تحریک کو بھارتی میڈیا نے کیوریج دی اس لیے بھارتی فنڈڈ ہے۔ کیوریج تو پاکستان کے علاوہ دنیا کے ہر میڈیا ہاوسز نے دی اس لیے کہ وہ ایونٹ ہی خبر والا تھا۔
واپس کریں