دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شیخ خاندان 5 اگست 2019ء کے اقدام کی توثیق کر رہا ہے، اپوزیشن کی تنقید
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
شیخ خاندان اور نیشنل کانفرنس کے کارکنوں نے ریاست کی وحدت، اقتدار اعلٰی اور ریاستی شناخت کو بچانے کے لیے قبائلی حملہ آور سمیت بھارتی حکومت کے مختلف اقدامات کے خلاف طویل جدوجہد اور لا زوال قربانیاں دیں۔ لیکن مقبوضہ جموں و کشمیر کی تمام سیاسی پارٹیاں یک زبان ہیں کہ عمر عبداللہ حلف اٹھانے کے چند گھنٹوں بعد ہی اپنے انتخابی منشور سے منحرف ہو چکا، جس پر ریاستی عوام نے اس کو یکسو ہو کر بھاری اکثریت دی۔ اپوزیشن جماعتوں کے مطابق عمر عبداللہ حکومت کا آغاز ہی مودی کی چاپلوسی، خوش نودی حاصل کرنا اور بھارتی حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019ء کے اقدام کی توثیق کرنے کے مترادف ہے۔ گویا ریاست جموں و کشمیر کی خود مختاری اور بعد ازاں اندرونی خود مختاری کے لیے شیخ عبداللہ نے جو طویل جدوجہد اور قید و بند کی صوبتیں برداشت کی شیخ خاندان ان کو فراموش کر کے، ریاست کی اندرونی خود مختاری کے خاتمے اور جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے پر راضی ہو گیا ہے۔

اپوزیشن کے یہ الزام کچھ غلط بھی نہیں۔ عمر عبداللہ کی سربراہی میں جموں وکشمیر کی نو منتخب کابینہ نے حلف اٹھانے کے دوسری صبح اپنے پہلے اجلاس کی پہلی قرارداد میں جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی کی منظور دی جس میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور ریاستی آئینی شک 35 اے کی بحالی کا کوئی تذکرہ نہیں۔جس پر عمر عبداللہ کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔ بی جے پی سمیت تمام ہی سیاسی پارٹیوں نے اس عمل کو نیشنل کانفرنس کو دفعہ 370 کی بحالی کی جدو جہد سے انحراف کے مترادف قرار دیا۔ اسمبلی میں اور جموں ریجن کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی بھاجپا کی قیادت نے کہا کہ اس قرارداد کی سوائے سستی شہرت اور عوام کو دھوکہ دینے کے کوئی اہمیت نہیں۔ پردھان منتری مودی جی اور منتری امیت شاہ پہلے ہی اعلان کر چکے کہ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کیا جائے رہا ہے۔ پھر عمر عبداللہ نے اس قرارداد کو کس خاطر منظور کرایا۔ اس کو اپنے منشور کے مطابق 370 کی بحالی کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا جس پر اس نے لوگوں کو دھوکہ دے کر ووٹ لیا۔

پی ڈی پی کے لیڈر اور رکن اسمبلی وحید پرہ نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی حیثیت کی بحالی کی قرارداد دراصل 5 اگست 2019 کے فیصلے کی توثیق کے مترادف ہے۔ آرٹیکل 370 پر کوئی قرارداد نہ لانا اور اسے صرف ریاستی حیثیت تک محدود کرنا ایک سنگین دھچکہ ہے، خاص طور پر جب نیشنل کانفرنس نے انتخابی مہم کے دوران آرٹیکل 370 کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔ اس قرارداد میں دفعہ 370 سے متعلق کچھ بھی درج نہیں۔ جموں کشمیر پیپلز کانفرنس (پی سی) کے صدر اور رکن اسمبلی، سجاد غنی لون، نے بھی اس معاملے پر عمر عبداللہ پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کی جانب سے ریاستی حیثیت پر قرارداد پاس ہونے کی خبریں حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسی اہم قرارداد کو خفیہ رکھا گیا۔ انہوں نے کہا: ’’یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ اب ہر چیز کو معمولی بنا دیا گیا ہے۔ اگر یہ قرارداد اسمبلی میں پیش کی جاتی تو دیکھا جاتا کہ بی جے پی اور دیگر جماعتیں اس پر کیسے ووٹ دیتی ہیں، خاص طور پر جب بات آرٹیکل 370 اور ریاستی حیثیت کی ہو۔سجاد لون نے نیشنل کانفرنس کے 2024 کے انتخابی منشور کا بھی حوالہ دیا جس میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ’’آرٹیکل 370 اور 35A کو بحال کیا جائے گا اور جموں و کشمیر کو 5 اگست 2019 سے پہلے والی ریاستی حیثیت میں واپس لایا جائے گا۔‘‘ بطور اپوزیشن بیانات کی حد تک تو یہ بات درست ہے کہ عمر عبداللہ اور نیشنل کانفرنس نے انتخابی مہم کے دوران عوام کے ساتھ کچھ کہا اور انتخابات جیتے کے بعد عملی طور پر کچھ اور ہو رہا ہے لیکن مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورت حال ایسی نہیں کہ معاشرے کو حکومت اور اپوزیشن میں تقسیم کیا جائے اور نہ ہی وقت اور حالات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ تمام تر ذمہ داری عمر عبداللہ یا حکومت پر ڈالی جائے۔ بلکہ جموں و کشمیر کی شناخت کی بحالی کے لیے سب ہی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ 370 کے مسئلے پر یکجا ہوں اور اس کے لیے ان کے پاس گپکار ڈیکلریشن بہترین پلیٹ فارم تھا۔

ساری جماعتیں 4 اگست 2019ء کے گپکار ڈیکلریشن کے تحت انتخابات لڑتی یا سارے کے سارے بائی کاٹ کرتے تو بڑی کامیابی ہو سکتی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاسی قائدین کبھی بھی ریاستی مفاد میں ایک پلیٹ فارم پر نہیں ٹھہرے اور اب بھی وہ ایک نہیں ہیں۔ خود حریت کانفرنس میں 37 جماعتیں تھی جن میں سے بعض کے تو صرف لیٹر پیڈ ہی تھے۔ مودی سرکار نے جب ریاستی درجہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کی خبر سری نگر پہنچی۔ 4 اگست 2019ء کو سری نگر میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ گپکار پر ہند نواز سیاسی جماعتوں کا اجلاس بلایا گیا ۔ یہ 70 سالہ تاریخ میں ہند نواز سیاسی جماعتوں کا پہلا مشترکہ اجلاس تھا، جس میں سوائے بھارتیہ جنتا پارٹی کے جموں و کشمیر میں وجود رکھنے والی سبھی سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ اس اجلاس میں سات سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 18 قد آور سیاسی رہنما شریک ہوئے۔ اجلاس کے آخر میں اتفاق رائے سے تین نکات کو حتمی شکل دی گئی ان میں اول: ریاست میں وجود رکھنے والی سب سیاسی جماعتیں ریاست کی خصوصی پہچان، خود مختاری اور ریاست کو حاصل خصوصی درجے کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کے خلاف یکجا ہیں۔ دوئم: دفعہ 370 و 35 اے کو کسی صورت بھی منسوخ نہیں کیا جاسکتا اور مزید یہ کہ ریاست کسی بھی تقسیم کی متحمل نہیں ہو سکتی اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ جموں و کشمیر اور لداخ کے عوام پر چڑھائی کے مترادف ہوگا۔ سوئم: صدر ہند و وزیراعظم ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کو ریاستی و مرکزی آئین کے تحت حاصل کردہ حقوق کی پاسداری یقینی بنائیں۔ اس کا اعلامیہ جاری ہوا جس کو گپکار ڈیکلریشن کا نام دیا گیا۔

چوں کہ مودی سرکار کشمیر کی داخلی خود مختاری کے خاتمے کا فیصلہ کر چکی تھی سو دوسرے ہی روز 5 اگست کو یہ ہو گیا تاہم گپکار ڈیکلریشن کے نقطہ نمبر 2 کو جواز بنا کر مقبوضہ جموں و کشمیر کے تمام ہی سیاسی رہنماؤں کو گھروں میں یا جیلوں میں نظر بند کیا گیا۔ تقریبا ایک سال بعد ان کو رہائی ملنا شروع ہوئی تو 22 اگست 2020 کو ان جماعتوں نے ایک بار پھر گپکار ڈیکلریشن پر عمل کرنے کا عزم کیا۔ لیکن اس وقت بھی یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ ان جماعتوں میں ایک بھی ایسی نہیں جو گپکار ڈیکلریشن پر کھڑی رہ سکے، سو ایسا ہی ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ جماعتیں اپنے اصل پر پہنچ چکی۔ اس وقت بھارت پر مقبوضہ جموں کشمیر میں انتخابات کے حوالے سے بین الاقوامی دباو بھی تھا اور سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی انتخابات کرانے مودی سرکار کی مجبوری بن چکی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کی یہ سیاسی قائدین جو آج عمر عبداللہ پر تنقید کر رہے ہیں، عمر عبداللہ سمیت سب مل کر گپکار ڈیکلریشن کو اپنا مضبوط سیاسی بیانیہ بنا لیتے تو قوم ان کے ساتھ دیوار کی طرح کھڑی ہو جاتی۔ حتی کے جموں ریجن کی کثیر تعداد بھی 5 اگست 2019ء کے اقدام سے نا خوش ہے۔ ابتداء میں جموں میں لوگوں نے 370 کی منسوخی پر بھنگڑے ڈالے تھے لیکن اب ان کو بھی اس بات کا ادراک ہو چکا کہ یہ ان کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہوا ہے۔

خصوصی پوزیشن کا خاتمہ اگر یوں ہی برقرار رہا تو سب سے زیادہ اس سے جموں ریجن ہی متاثر ہوگا۔ جموں میں جموں و کشمیر پنھترس پارٹی کھلے عام اس کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ نئی دہلی میں بی جے پی کی مرکزی حکومت کی طرف سے جموں اور کشمیر کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرنے کے باوجود جموں والے اس کو سمجھ چکے ہیں۔ لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر دیا تھا، وہاں بھی بے چینی ہے۔ شیخ خاندان اگر کانگریس کے بجائے اپنے ہی گھر پر قائم ہونے والے گپکار اتحاد کو مضبوط بنانے اور گپکار ڈیکلریشن پر قائم رہتا اور محبوبہ مفتی، سجاد غنی لون سمیت سارے ہی قائدین ان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تو بھارت سرکار 5 اگست 2019ء کے اقدام کو واپس لینے پر مجبور ہو جاتی۔ لیکن اب کشمیریوں نے وقت ضائع کر دیا۔ سیاستی درجے کی بحالی سے زیادہ ان کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ البتہ میری رائے ہے کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی دفن نہیں ہو سکتی یہ کسی اور شکل میں سامنے آئے گی اور اس میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سمیت جموں و کشمیر کے ہر خطے کے نوجوان شامل ہوں گے۔ جو خالصتا سیاسی و سفارتی تحریک ہو گی۔ جو بھارت کے لیے سفارتی محاذ پر خاصی پریشان کن ثابت ہو گی۔

واپس کریں