حریت کا کامیاب دورہ کراچی، عامر غفار لون کا ظہرانہ اور اسٹریٹ پاور
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بے شک کراچی کی مٹی جمہوری اور آزادی کی تحریکوں کے لیے بہت زرخیز ہے۔ ہماری جوانی میں یہ شہر جہاں پاکستان میں جمہوریت اور انسانی آزادی کی تحریکوں کا مرکز تھا، وہاں آزادی کشمیر سمیت دنیا بھر میں چلنے والی آزادی اور انسانی حقوق کی تحریک کے لیے بھی سود مند تھا۔ کراچی یونیورسٹی میں فلسطین سمیت ایشیاء، افریکہ اور یورپ سے آئے ہوئے طلباء اپنے اپنے معاشرے کے مسائل اور حالات پر آواز بلند کرتے۔ ایوب خان کہ آمریت ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کا آغاز کراچی سے ہی ہوا۔ کراچی یونیورسٹی کے منتخب صدر کی للکار ملک بھر میں گونجتی تھی اور اسی باعث کشمیری رہنما بھی اکثر کراچی کا دورہ کرتے اور تحریک آزادی کشمیر سمیت آزاد کشمیر کی سیاست پر گھنٹوں خطاب کر کے عوام کو متحرک کرتے تھے۔
انسانی آزادی کے دشمنوں کو کراچی کا یہ کردار پسند نہیں آیا۔ شہر اچانک دہشت گردی اور را کے شکنجے میں چلا گیا۔ کئی کئی روز کی جبری ہڑتالوں، کرفیو، قتل و غارت گری کے خوف سے لوگ گھروں میں بند ہو گئے اور دیار غیر سے آنے والے طلباء شہر چھوڑ گئے۔ بدامنی اتنی بڑی کہ لوگوں کو جان بچانا مشکل ہو گیا، تحریکوں اور حقوق کی کس کو پڑی تھی جو کوئی بلا لالچ سڑکوں پر آتا۔ پھر آزاد کشمیر کے صف اول کے تینوں سیاست دان ایک ایک کر کے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ دوسرے درجے کی لیڈر شپ پاکستانی سیاسی اشرافیہ کے تابع آ گئی۔ اور آزاد کشمیر میں سیاسی فرنچائز کھولی گئیں۔" نَہ رَہے بانس نَہ بَجے بانسری" کے مصداق آزاد جموں و کشمیر کی سیاست اور قیادت ہی دفن ہو گئی تو کشمیر کی سیاست اور آزادی کی بات کون کرے۔ کبھی کسی نے کسی احتجاجی مظاہرے کی کوشش بھی کی تو چند کے سوائے کوئی نہیں آیا گویا کشمیری سیاست دان ہی نہیں کشمیری سیاسی کارکن حتی کہ عام فرد بھی کشمیر اور کشمیریت سے لا تعلق ہو چکا۔ جیسے مسئلہ کشمیر اس کا مسئلہ ہی نہ ہو۔ یہ سب منصوبہ بندی سے ہوا تاکہ من پسند فیصلہ کرنے میں سہولت اور آسانی ہو۔
تاہم چار عشروں بعد کراچی کی سڑکوں پر آزاد کشمیر کے جھنڈے لہراتے دیکھ کر اور کشمیری سیاست و آزادی پر تقریریں اور باتیں سن کر میری طرح کے نیم قوم پرستوں کے جذبہ حریت میں اک نیا پن اور تازگی پیدا ہوئی۔ 27 اکتوبر 2024ء کو یوم سیاہ کے موقع پر آل پارٹیز حریت کانفرنس جموں و کشمیر کے زیر اہتمام آرٹس کونسل کے صدر دروازے سے کراچی پریس کلب کے دروازے تک عظیم الشان ریلی اور پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ ہوا، جو کافی حد تک کامیاب رہا۔ بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ حریت کانفرنس نے اچھی خاصی اسٹریٹ پاور جمع کی اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ مسئلہ کشمیر ابھی زندہ اور تحریک آزادی کشمیر ابھی جاری ہے۔ عام قاری کو یہ سمجھنے میں دشواری ہو گی کہ ان دونوں اداروں کا انتخاب ہی کیوں کہ ایک کے دروازے سے دوسرے ادارے کے دروازے تک ریلی نکالی گئی۔ دراصل یہ دونوں ادارے نہ صرف کراچی بلکہ کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے کے حوالے سے بہت اہم تصور کئے جاتے ہیں۔
آرٹس کے 8 ہزار ممبران، فن و ثقافت اور ادب و علم سے متعلق اور منسلک ہیں جن کے فن کے ساتھ ہزاروں دیکر افراد جڑے ہوئے ہیں۔ آرٹس کونسل کا دروازہ کھٹکانے کا مقصد یہ کہ بیک وقت لاکھوں باشعور افراد تک اپنی بات پہنچانا ہے سو حریت کانفرنس کی قیادت اس میں کامیاب رہی ، جب کہ پریس کلب کے دروازے پر کھڑے ہو کر بات کرنے کا مقصد یہ کہ میڈیا پرسن کے تواسط سے ساری دنیا تک پیغام پہنچانا آسان ہے ۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کا یہ پروگرام کامیاب رہا کہ ریلی سے پہلے کنوئینر غلام محمد صفی نے آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار محمد یعقوب خان اور ایم کیو ایم کے رہنما آمین الحق کے ہمراہ آرٹس کونسل کے حسینہ معین ہال میں تصویروں کی نمائش کا معائنہ کیا جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے مظالم کے حوالے سے تھی۔ متاثر کن نمائش کے معائنہ کے بعد مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے نمائش کے انعقاد پر صدر محمد احمد شاہ کی ویژن کی تعریف کی، بعد ازاں آرٹس کونسل کے حاطے میں لوگ جمع ہوئے اور آزاد کشمیر کے جھنڈے کو بلند کر کے اس روز آرٹس کونسل میں بین الاقوامی تھیٹر فیسٹیول میں بھارت سمیت دنیا بھر کے 40 ممالک سے آئے ہوئے وفود کی توجہ حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی۔
غلام محمد صفی صاحب کی کنوئینر شپ کے دوران کراچی میں یہ دوسرا مظاہرہ تھا۔ سیکرٹری جنرل پرویز ایڈووکیٹ، سید اعجاز احمد، عبدالحمید لون اور شیخ عبدالماجد کے ہمراہ صفی صاحب نے ایک ہفتہ کراچی میں ڈیرہ ڈالے رکھا، پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق پر کام کرنے والی این جی اوز اور مختلف گروپوں سے ملاقاتیں کی اور مسئلہ کشمیر کے خدوخال سے آگاہ کیا۔ حریت قیادت کا یہ اقدام صرف اس لیے ہی احسن نہیں کہ کراچی پریس کلب کے باہر ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا جہاں ہزاروں افراد نے چار عشرے بعد پاکستان اور آزاد کشمیر کے جھنڈوں کی بہار دیکھی بلکہ تاریخ میں شاید یہ پہلے موقع ہو کہ حریت پاکستان چیپٹر کی قیادت ڈرائینگ روم سے نکل کر عوام میں پائی گئی۔ یوں تو سارے ہی پروگرام اور سرگرمیاں بہتر تھی جس سے حریت قیادت اور عوام کا آمنا سامنا اور ایک دوسرے کے ساتھ میل جول ہوا لیکن ممبر اسمبلی عامر غفار لون کی جانب سے حریت رہنماؤں کے اعزاز میں ظہرانہ بہت ہی مثالی تھا۔ جہاں خالصتا ان مہاجرین جموں و کشمیر کو مدعو کیا گیا تھا جو 1947ء اور 1990ء کے دوران مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔
کراچی میں کشمیری مہاجرین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا مشکل کام ہے اور یہ مشکل کام عامر غفار لون کی ہی سانجھے۔ جو اپنے حلقہ انتخاب کے ایک ایک ووٹر سے ذاتی رابطے میں رہتے ہیں۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس گزشتہ تین عشروں تک مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی آواز کے طور پر مانی جاتی رہی تاہم 5 اگست 2019ء کے بعد بھارتی حکومت کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی سخت گیر فیصلوں سے مقبوضہ کشمیر میں آواز بند کر دی گئی، تو حریت قیادت کو بھی پابند سلاسل کر دیا گیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اب آزادی اور اظہار رائے پر مکمل پابندی ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے آواز دنیا تک پہنچانے کے لیے یہی موثر ادارہ ہے۔ غلام محمد صفی بزرگ اور تجربہ کار سیاست دان ہیں تاہم ان کے ساتھ سیکرٹری جنرل پرویز ایڈووکیٹ متحرک جاندیدہ اور معاملہ فہم شخصیت کی موجودگی ان کو عوام تک رسائی میں خاصی مدد ملے گی ۔ موجودہ ٹیم کا عوام تک رسائی کا فیصلہ خوش آئند ہے اگر اس سلسلے کو دراز کرتے اور اپنے اندر اعتماد پیدا کر کے پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہیں تو اس کے بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔ تاہم 77 سالہ پارٹنر شپ اور اسٹیٹس کو، کے باعث جموں و کشمیر کی آزادی کا پلان ناکام اور موجودہ بیانیہ دنیا نے قبول نہیں کیا۔ اس پارٹنر شپ اور اسٹیٹس کو توڑنے کے لیے پاکستان کی سول سوسائٹی سیاسی کارکنوں، وکلاء اور میڈیا پرسن کے درمیان ایک وسیع ڈہلاک کی ضرورت ہے۔ تاکہ پلان بی پر اتفاق رائے ہو سکے۔،آل پارٹیز حریت کانفرنس اپنے بانی قائد سید علی گیلانی کے آخری خط اور وصعیت کے مطابق اس طرف توجہ دیتی ہے کہ مکھی پر مکھی بیٹھانے کے عمل کو جاری رکھتی ہے، وقت ہی بتائے گا۔
Facebook
واپس کریں