دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس، خطے میں امن کی باتیں، کشمیر غائب
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
علامیہ میں مسئلہ کشمیر کو درگزر کرنے، ون روڑ ون بلٹ سے انکار اور پاکستان کا نام لیے بغیر بھارتی وزیر خارجہ کا اشاروں کنایوں میں دہشت گردی کے حوالے سے بڑا الزام لگانے کے باوجود اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا اجلاس پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔ روس، چین اور بھارت کے سربراہ بھی شامل ہوتے تو، کانفرنس کو چار چاند لگ جاتے لیکن ان حالات میں دوسرے درجے کی قیادت کا ہی اسلام آباد آنا غنیمت ہے۔ کئی روز تک اسلام آباد دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کا مرکز رہا اور ملک کے لیے بد خواہوں کے منفی پروپیگنڈے پر اوس پڑ گئی۔ اس کامیابی پر حکومت پاکستان اور ادارے مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے غیر ملکی مہمانوں کی میزبانی اور سیکورٹی کے اچھے انتظامات کئے۔ جاری ہونے والےعلامیہ کو مشترکہ نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی خطےکےتمام مسائل کا احاطہ کرتاہے۔

بھارت نے ون روڑ ون بلٹ اور عوامی وفود کے تبادلوں سمیت متعدد نقاط پر اتفاق نہیں کیا جب کہ اجلاس میں خطہ میں امن اور بھائی چارے کی باتیں کی جاتی رہی جن کو علامیہ میں بھی شامل کیا گیا ہے تاہم جنوبی ایشیا میں بدامنی کا سب سے بڑے مسئلے جموں و کشمیر کا تذکرہ بھی نہیں ہوا اور نہ ہی علامیہ میں اس کا ذکر ہے۔ گویا شنگھائی تعاون تنظیم کے نزدیک مسئلہ کشمیر کوئی اہم نہیں اگر ماضی میں تھا بھی تو اب ختم ہو گیا۔ اس کا کیا مطلب لیا جائے گا پاکستان سمیت دنیا نے مودی کے 5 اگست 2019ء کے اقدام کو درست مان لیا ۔ پاکستانی قیادت کو کسی نہ کسی حوالے سے مسئلہ کشمیر کو ریکارڈ پر لانا چائیے تھا چائیے بھارت اس سے لاتعلقی کا اظہار ہی کرتا اس نے ون روڑ ون بلٹ اور عوام سے عوام کے رابطے سے بھی تو اتفاق نہیں کیا۔ لیکن افسوس کہ صورت حال ہے کہ مسلم لیگ ن مسئلہ کشمیر کو پھلانگ کر بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کی روش سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ نواز شریف مسلمانوں کے قاتل اور گجرات کے قصائی مودی کے لیے اب بھی بے چین نظر آئے۔ بھارتی وزیر خارجہ کی تقریر بھی الزامات سے پر تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت، پاکستان اور چین کی مخالفت کی پالیسی پر ابھی بھی عمل پہرا ہے، اور خطے کے بڑے اور طاقتور ملکوں کے درمیان رنجشوں میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی۔

اس صورت حال میں اجلاس کی کامیابی اور خطہ میں امن اور ترقی کے لیے مشترکہ کوششوں کی بہت زیادہ امید رکھنا قبل از وقت ہے۔ اس کے باوجود تجزیہ نگار اس اجلاس کو علاقائی امن، ترقی اور رکن ممالک کے درمیان ہم آہنگی پہلے سے زیادہ قربت اور تعاون کو فروغ دینے میں مدد کا بہترین موقع کہہ رہے ہیں۔ خاص طور پر طویل عرصے بعد بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد اور خوش گوار واپسی کو بھارتی میڈیا نے دونوں ملکوں کے درمیان برف پگلنے سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ شروعات ہیں، اگلے ماہ COP29 اجلاس کے موقع پر دونوں وزرائے اعظم کا بھی آمنے سامنے آنے کا امکان ہے۔۔ تجزیہ نگار جے شنکر کی واپسی پر وزیر اعظم، اور ہم منصب کا شکریہ ادا کرنے کو خطے میں امن کی طرف اچھی پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ تاہم کشمیری اس پیغام کو کس تناظر میں دیکھیں، شنکر جی نے یہ شکریہ بہترین میزبانی اور خوش اخلاقی کا ادا کیا یا کشمیر پر قبضہ جمانے میں تعاون کا۔ برحال شکریہ بے معنی نہیں ہوتا، شنکر جی نے اسلام آباد کے لیے روانگی سے قبل ہی کہہ دیا تھا کہ ہمارے دورے کے اثرات اسلام آباد کے رویے پر ہوں گے۔ گویا شنکر جی اسلام آباد کے رویہ سے خوش ہیں، سو وہ کانفرنس کے دوران کا رویہ تھا یا ماضی کا۔

حقیقت تو یہی ہے کہ برصغیر ابھی کلونیل دور سے باہر نہیں نکلا۔ جو ہدایات بین الاقوامی بدمعاش کی وہ ان دونوں ملکوں کو تسلیم کرنا پڑتی ہیں۔ امریکہ نے فلسطین اور کشمیر کو ختم کرنے کی پالیسی اپنائی ہے تو کسی کی کیا جرائت کہ چوں چراں کرے۔ مودی سرکار کے آنے کے بعد بھارت نے ہمیشہ پاکستان سے حد فاصلہ رکھا سوائے شریفوں کی حکومت کے۔ اس میں مختلف عوامل اپنی جگہ لیکن بھاجپا کی بھارتی مسلمانوں کے بارے میں سوچ اور کشمیر پر موقف وہی ہے جو ڈاکٹر شیاما پرساد موکرجی اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کا تھا۔ ہم بھارتی مسلمانوں کے ساتھ بھاجپا کے سلوک پر اس کالم میں کچھ نہیں لکھتے، لیکن مسلہ کشمیر کے حوالے سے اب دو رائے نہیں رہی کہ مودی جی نے پرساد موکر جی کے ایجنڈے کی تکمیل کر لی۔ شیخ محمد عبداللہ نے پرساد موکر جی کو بغیر پرمنٹ ریاست میں داخل ہونے پر گرفتار کیا تھا۔ اس زمانے میں کشمیر میں غیر کشمیری کے داخلے کے لیے پرمنٹ کا ہونا ضروری تھا۔ حالات اس قدر تبدیل ہوئے کہ عبداللہ کا پوتا، اپنے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی موجودگی میں پرساد موکر جی کے نظریہ کے مطابق انڈین آئین کے تحت وفاداری کا حلف اٹھا چکا۔ مختصر کابینہ کے پہلے اجلاس کی پہلی قرارداد ریاستی درجے کی بحالی ہے تاہم اس میں 370 کا ذکر نہیں جو جموں و کشمیر کو جھنڈا اور اندرونی خودمختاری کی ضمانت تھی۔گویا مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام نے بھارت کے وفادار رہنے کا عہد کر لیا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس قدر قربانیوں کے باوجود کشمیریوں کو یہاں تک پہنچانے میں کس کا کتنا حصہ اور کردار ہے۔ اس صورت حال میں مسئلہ کشمیر کہاں رہا۔ یہی ڈاکٹر پرساد موکر جی کا خواب تھا جو مودی کو پاکستان کے ساتھ بات چیت سے روکتا تھا۔ اور یہی مودی کی مجبوری تھی جو پاکستان کے قریب آنے نہیں دیتی تھی۔ اب اس خواب کی بھی تعبیر نکل چکی اور مجبوری بھی ختم۔ دونوں ملکوں کے درمیان دوستی اور تجارت میں اب کوئی چیز حائل نہیں۔ حالات بھی یہی بتا رہے ہیں کہ دونوں ملک مرحلہ وار اسی طرف جا رہے ہیں۔ کانفرنس کے دوران بھی اس کی کچھ اندازہ ہوا کہ ماضی کی طرح گفتگو میں تپش اور آتش بازی نہیں ہوئی، یہ سرد مہری ہماری طرف سے رہی ورنہ جے شکر نے تو فائر ورک کا ماحول بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور بھارت کے پرانے موقف کو کھل کر بیان کیا۔ جے شنکر نے باڈی لینگویج سے بھی تاثر دیا کہ کھانے کے ٹیبل پر ہوں یا راہداریوں میں کانا پھونسی سے مذاکرات اور تعلقات بحال نہیں ہو سکتے۔ اس کا اظہار کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا اور دو ٹوک موقف اور واضح پیغام دیا۔ " اگر سرحد پار دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی جیسی سرگرمیاں جاری رہیں گی تو ایسے ماحول میں تجارت، توانائی اور باہمی رابطے کا فروغ ناممکن ہے"۔

بھارت اب اس پوزیشن میں پہنچ چکا کہ درپردہ مذاکرات کرے گا نہ خفیہ طریقے سے تعلقات کی بحالی۔ اب وہ پاکستان کے حکمرانوں سے اگلی شرط منوائے گا کہ مسئلہ کشمیر سے علانیہ دست برداری کی جائے۔ جے شنکر کی تقریر میں سرحد پار دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی جیسی سرگرمیاں کے الفاظ اسی تناظر میں تھے۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کشمیر کا نام لینا ہی چھوڑ دے عملا تو ایسا ہو چکا اب تو جماعت اسلامی بھی کشمیر کے مسلے پر ٹھنڈی پڑی ہے۔ لیکن باضابطہ اعلان ہونا باقی ہے۔ جموں و کشمیری کے عوام نے دونوں ملکوں کے درمیان بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کی کبھی مخالفت نہیں کی البتہ یہ بات پاکستان کے مفاد میں ہے کہ کشمیر سے جان چھوڑانے کے بجائے بیانیہ میں تبدیلی لائے اور بدلتے حالات کے پیش نظر کشمیریوں کو ہی سامنے رکھا جائے جو اپنے مسائل اور تحریک آزادی پر خود بات کریں اس سے بھارت پر بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ اور پاکستان پر کم ہو گا۔ کے ایچ خورشید کا نظریے پر عمل درآمد اس وقت بہترین حکمت عملی ہو گی جو پاکستان اور کشمیریوں دونوں کے مفاد میں ہے۔اس سے پاکستان کی بھارت کے ساتھ تعلقات بھی بحال ہوں گے اور کشمیر پر پرانے بیانیہ اور موقف میں بہت زیادہ تبدیلی بھی نہیں ہو گی۔
واپس کریں