دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر ،کشمیریوں کے شادیانے ، ہمارا شکوہ
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
اقوام متحدہ صہیونی اور عالمی بدمعاشوں کا مرکز اور جنرل اسمبلی ان کا باہمی اشتراک کا کلب ہے، جہاں وہ اپنی مرضی کے فیصلے کی تائید کراتے ہیں۔ تاہم جنرل اسمبلی اجلاس کے نام پر دنیا بھر کے ممالک کے سربراہان سال میں ایک مرتبہ نیویارک میں جمع ہوتے ہیں، سرکاری خرچ پر ان کو سَیْر سَپاٹا کے تو وسیع موقعے ملتے ہی ہیں لیکن ان حکمرانوں کی ذاتی پبلک ریلیشنز پر بھی کچھ کام ہوتا ہے اور اسی دوران مجمع میں پرانا سکرپٹ بھی پڑا جاتا ہے ۔ دنیا میں کوئی ایک ملک یا قوم نہیں جو یہ تسلیم کرے کہ اقوام متحدہ کی اس اسمبلی کی تاریخ میں ان اسکرپٹ کے پڑھنے پر اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا مسلہ بھی حل ہوا ہو۔ اگر کوئی مثال ہے بھی تو اس کو صرف اقوام متحدہ کے نام لگایا گیا اس کا سارا کام، سائٹ پر ہوا اور اس میں صہیونی دلچسپی، عالمی سامراج کا مفاد اور مرضی شامل رہی ۔ جن خطوں یا مسلوں میں صیہونی مفاد اور سامراجی دلچسپی نہیں ان پر تو کوئی صحیح طریقے سے یہاں بات بھی نہیں کرسکتا کہ کچھ ریکارڈ پر ہی آ جائے۔

مسلم دنیا، خاص طور پر فلسطینیوں اور کشمیریوں کی بھی یہی صورت حال ہے کہ اس قحط الرجال میں کوئی بھولے بسرے ان خطوں کے حوالے سے پرانے اسکرپٹ میں نئے انداز میں نام ہی لے لے تو وہاں کے ناعاقِبَت اَنْدِیش لیڈر شادیانے بجانے لگتے ہیں۔۔ حالاں کہ ان کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ کی گئی گفتگو اتنی واجبی سی ہوتی ہے کہ اس سے ان کے مسئلے میں نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ اس کا کچھ حاصل حصول۔۔ بدقسمتی ہے کہ سامراج اور صہیونیوں کی ان دونوں مسلوں میں دل چسپی نہیں بلکہ علانیہ ان کے حل میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں۔ فلسطین کے مسئلے میں تو صہیونی براہ راست ملوث ہیں جب کہ کشمیر کے مسئلے میں بھارت جو اپنے قیام کے وقت روشن خیال سیکولر ملک کے طور پر نمایاں ہوا تھا، آج دائیں بازو کا سب سے بڑا جنونی اور انتہاء پسند صہیونی ایجنٹ بن چکا۔

اس صورت حال میں کشمیریوں کی نہ کوئی قیادت ہے نہ ہی کوئی حکمت عملی ہے نہ سمت کا تعین اور نہ ہی ان کے پاس کوئی پلان ہے جو بین الاقوامی سطح پر بیان کر سکیں۔ وہ جانی مالی، ثقافتی اور اقتصادی قربانیاں دیتے جا رہے ہیں۔ جب کہ بھارت میں دائیں بازو کی انتہاء پسند حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے،۔ لیکن صہیونی عدم دلچسپی کا یہ عالم کہ اب دنیا کا کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں رہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ریکارڈ پر لانے کے لیے کسی فورم پر واجبی سی بات بھی کرے۔ ایک بڑے سفارت کار نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایکس پر اس صورت حال پر تبصرہ کیا کہ " ایسا کیا ہو گیا ہے کہ اب دنیا میں صرف ایک ملک کے سوائے کوئی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا نام لینے میں کتراتا ہے"۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ وادی پیر پنجال کا سکہ بند پہاڑی اور آسودہ حال ہونے کے باوجود ٹین ایج سے ہی ان کلچرڈ اور سولائزڈ کشمیریوں کے بارے میں فکر مند رہا جن کی قبل مسیح کی تاریخ اور دنیا میں قدیم، مضبوط زبان و ہنر اور فن ہے۔ گزرتے زمانے کے ساتھ ساتھ ان کے کئی جھنڈے رہے، جو قوموں کی شناخت ہوتے ہیں۔ لیکن آج قید میں ہیں ان کا ہنر ثافت زبان حتی کہ ان کے ویلیوز کو تباہ کیا جا رہا۔ ان کا نشان، ان کی شناخت بھی ان سے چھین لی گئی، جو ہم سے برداشت نہیں ہوتا اور کبھی کبھار جذباتی ہو جاتا ہوں۔۔۔ مجھے پرینکا اور راہول میں تو کئی نہ کئی کشمیریت جھلکتے نظر آتی ہے، جن کے اجداد صدیوں پہلے کشمیری تھے۔ لیکن ان کشمیریوں میں حس اور ہمیت نظر نہیں آتی جو 1947ء یا اس سے کچھ عرصہ پہلے ان علاقوں میں آکر آباد ہوئے جہاں پاکستان قائم ہوا یا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں آباد ہیں حتی کہ ڈائس پورا میں آباد کشمیریوں نے بھی وطن کی مٹی کا حق ادا نہیں کیا۔ پاکستان میں آباد کشمیریوں کی اکثریت تو اپنی پشت بھول کر نظام میں ایسی ڈبکیاں لگا رہی ہے جیسے،
" جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈُوبے اِدھر نکلے"

ہمیں مسلم لیگیوں سے کبھی شکایت نہیں رہی۔ کیوں کہ قرارداد لاہور میں کشمیر شامل تھا نہ 1946ء کی قرارداد دہلی میں۔ ممکن ہے اسی باعث لیاقت علی خان نے بڑے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ ان پہاڑیوں کا کیا کرنا، ہمیں حیدرآباد دکن چاہیے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی طرح اس کی بھی حیدرآباد دکن کے ساتھ قلبی لگاو ہوا ہو گا تب ہی پڑوس پر چھوڑ کر موصوف بھارت کے اندرون پاکستان کی سرحد قائم کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے جہاں مسلمانوں کی تعداد ہی محدود تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ "نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے " لیکن مسلم لیگ ن سے روز اول سے شکایت رہی کہ اس کی قیادت میں اکثریت کشمیریوں کی رہی اور آج بھی ہے، لیکن ان میں وہ چمک کبھی دیکھنے میں نہیں آئی جو ماں مٹی کا حق ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر وزیراعظم شہباز شریف سے ہمارا شکوہ جائز ہے کہ آپ نے جنرل اسمبلی میں مٹی کا حق ادا نہیں کیا اور نہ قید و بند میں مجبور و بے کس انسانوں کی داد رسی کے لیے کوئی معنی فل بات کی جس سے بھارت کا منہ کالا ہوتا اور کچھ ریکارڈ بھی مرتب ہوتا۔ حالاں کہ اسلام آبادی حریت کانفرنس سمیت آزاد کشمیر کے چاپلوسوں اور مفادات کے آرزوؤں مند زمین آسمان کے کلابے اور تعریفوں کے پل باند رہے ہیں کہ شہباز شریف نے اقوام متحدہ میں کمال کر دی مسئلہ کشمیر اٹھا دیا۔

مجھے کشمیریوں کی حالت زار اور سوچ پر افسوس ہوتا ہے کہ کس بات کے تعریفی بیانات اور کالم و مضمون لکھے جا رہے ہیں صرف کشمیر کا نام لینے پر۔ جب کہ اس کے فوری بعد بھارت کے سیکرٹری خارجہ نے جب یہ کہا کہ پاکستان کشمیر جیسے پرامن خطے میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے تو سب کچھ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا۔ الٹا حریت تحریک اور مزاحمت کاروں پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں ہوا۔ چاپلوس جتنے بھی بیانات اور کالم لکھیں ہمیں اپنے کشمیری نژاد وزیر اعظم شہباز شریف سے شکوہ ہے کہ جنرل اسمبلی کے 79 ویں اجلاس میں، جموں و کشمیر کے عوام کے دکھ درد اور مقدمہ کشمیر کا تذکرہ کمزور اور واجبی سے بھی کمزور اور کم تر تھا۔ میرے نزدیک جناب وزیر اعظم ایک لفظ بھی ایسا نہیں کہا گیا جو مضبوط حوالے اور دلائل کے ساتھ ہوتا جس سے اقوام متحدہ کی اس مسئلے کے بارے میں کارکردگی یا عدم دلچسپی سامنے آتی اور بھارت کے کرتوتوں سے پردہ اٹھتا۔ اقوام متحدہ جواب کے لیے مجبور ہوتا اور بھارت دہشت گردی کا لزام لگا کر دنیا کی آنکھوں میں دھول نہ جونک سکتا۔

جناب وزیر اعظم آپ نے کشمیر پر جو کہا وہ اسی اسکرپٹ کے مندرجات تھے جو سر ظفر اللہ خان نے 1948ء میں بولے تھے، اور اس کے بعد ہر سال بولے جا رہے ہیں جب کہ مقبوضہ کشمیر میں اب بہت کچھ بلکہ سب کچھ بدل چکا۔ آج کے حالات اسکرپٹ میں کچھ نئے الفاظ کا تقاضا کرتے تھے اور کشمیریوں کو اسی بنیاد پر آپ سے امید بھی تھی کہ آپ ان کے دکھوں کا کچھ تو مداوا کریں گے۔۔۔ ممکن ہے سر ظفر اللہ خان اور لیاقت علی خان کے پاس کہنے کو کم مواد ہوا ہو، لیکن آج تو آپ کے پاس بتانے کو بہت کچھ تھا۔ کشمیریوں کو آزادی نہ سہی ان کے دکھ درد بیان کر دیتے۔ ایک لاکھ نوجوانوں کا قتل، ایک لاکھ 24 ہزار کم سن یتیم بچے، 23 ہزار بیوائیں، آپ کو نظر ہی نہیں آئیں۔ جناب وزیر اعظم کم از کم ان 13 ہزار ماںوں بہنوں کا تذکرہ ہی کر لیتے جن کو بھارتی فورسز نے جنگی ہتھیار کے طور پر اجتماعی ریپ کیا۔ عالمی بدمعاشوں اور صہیونی ایجنٹوں کے لیے ایک سوال ہی چھوڑ آتے کہ کنن پوش پورہ جیسا واقعہ دنیا کہ کس معزز معاشرے میں ہوتا ہے۔ جناب وزیر اعظم 6 ہزار آدھی بیوائیں سالوں سے اپنے سہاگ کے انتظار میں ہیں ان کی نظریں بھی آپ کی طرف تھی کہ ہماری بھی کوئی بات کرے گا، ہمارے قیافے اور دکھڑے بھی کوئی سنے سنائے گا۔۔ جیلوں میں بند ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے والوں کو چھوڑیں دنیا میں امن کے ٹھیکداروں سے یہ تو پوچھا ہوتا کہ ہماری بہن آسیہ اندرابی نے کیا قصور کیا، جناب وزیر اعظم بہنیں تو سانجھی ہوتی ہیں۔ ان کی کوئی بات ہونا چاہئے تھی۔ 5 اگست 2019ء کو کیا ہوا اور جموں و کشمیر میں اس کے بعد کیا ہو رہا ہے جنرل اسمبلی کے ہنڈلروں کو یہ تو بتایا ہوتا کہ بھارت سیکورٹی کونسل کی 611 ویں میٹنگ میں 23 دسمبر 1952ء کی خلاف ورزی کر رہا ہے ۔

پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپریل 1936ء میں شائع ہونے والی اپنی سوانح حیات میں لکھا " ہم کشمیری ہیں دو سو سال پہلے، اٹھارویں صدی کے اوائل میں، ہمارے آباؤ اجداد اس پہاڑی وادی سے نیچے کے امیر اور میدانی علاقوں میں شہرت اور قسمت کی تلاش میں اترے تھے۔" اس کو دو سو سال بعد بھی ابواجداد کی زمین سے پیار تھا اس نے ہم سے کشمیر چھین لیا۔ پرینکا اور بلاول اسی نسبت سے کشمیر آکر خوش ہوتے ہیں، جیسے کسی بچے کو کھلونا ہاتھ لگا ہو۔ میں کشمیر دیکھنے کیسے جاوں، میں تو پیر پنجال اور چناب بھی نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ دنیا کشمیریوں کو افسانوی انسان کہتی ہے جن کے اپنے نغمے، اپنی کہانیاں اور اپنی دنیا تھی۔ بظاہر کوئی ایسی وجہ نہیں کہ پاکستان کا وزیر اعظم وہ کشمیری النسل بھی ہو کشمیریوں کا مقدمہ بہتر انداز میں نہ پیش کر سکے لیکن ہمیں افسوس نہیں شکوہ ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ یہ مذاق، نئے نئے تجربے اور آزاد کشمیر میں کچھ ایجنٹ نظام لپٹنے کی دھمکی دے کر کب تک کشمیریوں کو ڈراتے رہیں گے۔ لیکن ہم امن پسند، پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ آپ جتنی بھی بیگانگی کریں ہماری جانب سے محبت کے یہ رشتے قائم و دائم رہیں گے۔ لیکن ہمارا شکوہ تو جائز ہے ہم آپ سے شکوے شکایت کرتے رہیں گے۔ اس لیے کہ آپ سے ہمارا کوئی تعلق ہے۔ ہم اپنی فریاد کس کو سنائیں۔ جناب وزیر اعظم مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں پر توجہ دیں۔ وہ آپ سے اسلحہ نہیں مانگتے۔ وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ ان کی جگہ جنگ لڑیں ان کو اخلاقی و سیاسی حمایت چاہیے ورنہ بھارت خطہ کو کھا جائے گا۔۔ بس آپ سے یہی شکایت اور یہی شکوہ ہے کہ 27 ستمبر کی جنرل اسمبلی کی تقریر میں ہم کشمیریوں کا ذکر، تو ہوا، لیکن یہ واجبی سا تھا۔ آپ نے کشمیریوں کی صحیح وکالت نہیں کی۔ اقوام متحدہ سے جاندار مطالبہ نہیں کیا اور نہ رکن ممالک کو ذمہ داری یاد دلائی۔ آپ پر دباؤ ہے تو جھوٹے بھائی کی طرح ہم پر اعتماد کیجئیے یہ اختیار ہمیں دیجئے ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے بھارت کو آپ کی سرحد سے دور دھکیل دیں گے۔

واپس کریں