دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جموں و کشمیر کی آزادی، کشمیری 1586ء کی پوزیشن پر؟
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
کشمیر ایسا ملک ہے جس کی تاریخ نامعلوم دور سے شروع ہوتی ہے۔ نہ اس کی تسمیہ کی معقول وجوہات ملتی ہیں اور نہ اس دور کی تہذیب و تمدن کا کوئی ثبوت۔ سب سے زیادہ مستند تاریخ راج ترنگنی کے ابتدائی حصے میں بھی پرانے قصے کہانیوں، سینہ گزٹ اور ہندوں کی مذہبی کتابوں کی معلومات کا ہی سہارا لیا گیا ہے۔ تاہم پنڈت کلہن نے کشمیر کے پہلے باضابطہ حکمران کا نام رام چندر جی بتایا ہے۔ جس کے بعد 633 برس تک لگ بھگ 56 مقامی افراد نے کشمیر پر حکومت کی، جب کشمیر آزاد و خود مختار ملک تھا۔ یوسف شاہ چیک اس ملک کا آخری مقامی بااختیار حکمران رہا۔ جس کو ہندوستان کے بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے طاقت کے زور پر 1586ء میں کشمیر سے بے دخل کر کے اس خوب صورت ملک پر قبضہ کیا۔ مغلوں سے افغانیوں نے چھینا اور پھر پہنجاب کے سکھوں نے افغانیوں کو مار بھگا کر اس پر قبضہ کیا۔ جموں کے راجہ گلاب سنگھ نے 1846ء میں کشمیر اور کشمیریوں کو 75 لاکھ سکہ رآج الوقت میں خرید لیا۔ کشمیر اور اس کی ملحقہ ریاستوں پونچھ، راجوری اور دیگر کے لوگ راجہ گلاب سنگھ کو بھی مقامی نہیں قابض ہی مانتے رہے۔ تاہم اس نے جموں و کشمیر اقصائے تبت کے نام سے نئی ریاست قائم کی جو آج اقوام متحدہ کے چارٹر پر ہے۔ اس لیے اس کو جائز حکمران مانا جاتا ہے۔

تاریخ کے ان 1071 برسوں کے دوران 438 برس سے قابضین یہاں کے عوام کو ریوڑ کی طرح ہانگتے ہیں اور وہ بھی کیا سخت جان ہیں، اٹھتے ،گرتے ہانپتے کانپتے محو سفر ہیں۔ سفر ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا اور نہ حد نگاہ نشان منزل نظر آتا ہے۔ 1930ء کی دہائی میں بنیادی حقوق کی تحریکیں شروع ہوئیں تو 1934ء میں ان کو لولی لنگڑی اسمبلی ملی، جہاں عوام کے حقوق کی کچھ بات تو ہوتی تھی۔ برصغیر آزاد ہوا، جموں کشمیر تقسیم اور اس پر قبضہ ہو گیا۔ 24 اکتوبر 1947ء کو انقلابی حکومت کے بانی سردار محمد ابراہیم خان نے پڑوس کی دونوں حکومتوں سے اپیل کی کہ ہماری آزادی کا احترام کیا جائے۔ آزادی کا احترام اس طرح ہوا کہ ایک معاہدہ جموں ہوا اور دوسرا معاہدہ کراچی۔ جیسا بھی تھا معاہدہ کراچی آج بھی باقی ہے اور کسی حد تک اس پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔ جب کہ معاہدہ جموں قدم قدم پر روندا جاتا رہا۔ 1953ء میں ریاست کی ہیئت ہی تبدیل کر دی گئی۔ شیخ عبداللہ نے خود مختاری بھول کر 1953ء سے قبل کی پوزیشن کی بحالی کا مطالبہ کیا تو جیل میں ڈال دیا گیا۔ طویل قید و بند کے باوجود کچھ بس نہ چلا تو شیخ عبداللہ نے 370 کو بھاگتے چور کی لنگوٹی کے طور پر پکڑا۔ کشمیری شیخ عبداللہ سے ناراض ہو کر نیشنل کانفرنس سے کنارہ کش ہوئے۔ بلآخر 1989ء میں آزادی کی تحریک شروع کی تو باہر سے جہاد داخل ہوا اور نعرہ لگا کہ غزوہ ہند شروع ہو چکا۔

ریاست جموں و کشمیر اقصائے تبت جو جغرافیائی اور لسانی تقسیم کے ساتھ صدیوں سے قائم تھی، اس نعرے اور جہاد کے عمل سے نظریاتی تقسیم کی لکیر بھی خطرے ناک حد تک گہری ہو گئی۔ جموں ریجن اور لداخ کے غیر مسلموں کی اکثریت جو آزادی کی تحریک میں کسی حد تک شامل تھی، جہاد سے خود کو غیر محفوظ سمجھ کر مکمل طور پر الگ تھلگ ہو گئی ۔ اس کا یہ نقصان ہوا کہ آزادی کی جدوجہد وادی اور کسی حد تک پیر پنجال کی پٹی تک رہ گئی جہاں مسلم بیلٹ ہے، جموں اور وادی چناب اور لداخ اس جدوجہد سے ہی لا تعلق ہو گئے۔ وادی میں نوجوان گاجر مولی کی طرح کترے جانے لگے اور ان کے ہی ہم وطن تماشہ دیکھتے رہے۔ ریاست کے اصل وارث پنڈتوں کو ابواجداد کے وطن سے ہجرت کرنا پڑی، ریاست کے عوام میں بڑی اور نظریاتی تقسیم ہوئی جس سے تحریک آزادی کمزور ہونا شروع ہوئی۔ مودی سرکار کو ایک بھاری اکثریت کی بلا وجہ حمایت حاصل ہو گئی۔ وہ 1953ء کی پوزیشن سے ایک قدم آگئیں بڑا اور ریاست جموں و کشمیر اقصائے تبت کو بھارت میں ضم کر دیا۔ ہزاروں سال قبل مسیح کے دور سے بااختیار اور خود مختار ملک عملی طور پر ختم ہو گیا۔ اس کا جھنڈا، اس کا اختیار، اس کا اقتدار سب کچھ فوجی قوت کے زور پر دوسرے ملک میں ضم کر دیا گیا، جس کا قانونی اور اخلاقی جواز نہ تھا۔

یہ چند سطروں کی کہانی نہیں 438 برس کے قیافے ہیں۔ لیکن پونی صدی کے نوحے رلا دیتے ہیں۔ بندوقوں کی گن گرج، فائرنگ، آنسوؤں گیس، قتل ریپ، ظلم و ستم، جبری قبضہ بحال رکھنے کے لیے بھارت نے زیر قبضہ کشمیر میں کیا کیا ظلم نہیں کیا لیکن پڑوس اور دور پار سے کسی نے نہ اس ظلم کی کھل کر مذمت کی اور نہ کوئی کشمیریوں کی مدد کو آیا۔۔ اس طویل سفر میں کبھی لگتا تھا کہ منزل قریب ہے پھر ان کو واپس دھکیل دیا جاتا۔ جہاں سے سفر شروع کیا تھا کشمیری وہاں سے چند قدم پیچھے چلے گئے ۔ غزوہ ہند لڑتے لڑتے کشمیری نیم خود مختاری سے دوبارہ 1586ء کی پوزیشن پر پہنچ چکے۔ جب ہندوستان کے بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے کشمیر پر قبضہ کیا تھا۔ آج ہندوستان کا حاکم بااختیار نریندر مودی قبضہ مستحکم کر چکا۔

اس وقت بھی مغلوں نے کشمیریوں کو تعمیر و ترقی سڑکوں اور باغات کی تعمیر کا جھانسہ دیا تھا۔ آج بھی مودی، ریلوے، موٹروے، ٹینل اور تعمیر ترقی کے خواب دیکھا رہا ہے۔ اب تو عام شہری بھی یہی کہتا ہے کہ کشمیریوں کو قائد اعظم محمد علی جناح جیسا ویژنری لیڈر ملا اور نہ موہن داس کرم چند گاندھی جیسا مخلص رہنما جو برصغیر کی عوام کی طرح کشمیریوں کی نیا کو پار لگاتا۔ شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس نے کشمیریوں کو ہندوستان کی آزادی سے بہت پہلے زبان، نسل، مذہب اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم کر لیا تھا۔ سید علی گیلانی نے اس تقسیم میں نظریاتی رنگ بھر کر نمایاں کیا۔ بے شک قیادت کے فیصلے قوموں کو منزل تک پہنچاتے ہیں اور قیادت ہی کے فیصلے زوال کی طرف لے جاتے ہیں۔ کشمیری قیادت اگر ویژنری تھی بھی تو کبھی قومی نہیں رہی، علاقائی، لسانی اور مذہبی سوچ کی حامل تھی اور متعصب قیادت کشتی کو منجدھار سے نہیں نکال سکتی۔ یہ قیادت کی ہی ناکامی ہے کہ کشمیر میں آج بھی نظریاتی تقسیم گہری نظر آتی ہے۔ حتی کہ مسلم کانفرنس کو مذہبی جماعت کہہ کر قائم کی جانے والی نیشنل کانفرنس پر آج مذہب کی چھاپ لگ چکی۔کشمیریوں کا یہ 35 برسوں کا سفر بہت کھٹن رہا۔ وہ سنگلاخ راستوں پر سے گزر کر وہاں واپس پہنچے جہاں سے 1889ء میں سفر شروع کیا تھا تو منزل بہت دور اور 438 برس پیچھے پہنچ چکے ہیں ۔ سب کچھ لٹ چکا ہے۔ اب نہ ان کے پاس وہ جھنڈا باقی رہا جس کے وہ گیت گاتے تھے۔
لہرا اے کشمیر کے جھنڈے لہرا،
طفل و جواں و پیر کے جھنڈے،
بازوے بے شمشیر کے جھنڈے ،
ہر سو لہرا، ہر دم لہرا،
لہرا اے کشمیر کے جھنڈے لہرا۔

نہ وہ اسمبلی رہی کہ جس کی قرار داد کے بغیر کشمیر کے لیے لوگ سبھا کی قرارداد بھی بے معنی تھی۔ جس چناو کو انہوں نے 1988ء میں فراڈ کہہ کر مسترد کیا تھا، اس مرتبہ بے اختیار اسمبلی کے انتخابات میں دل کھول کر حصہ لیا کہ شائد یہاں سے ہی امید کی کوئی کرن پھوٹے۔ اس فراڈ میں سارے ہی شامل ہو گئے۔ وہ بھی جو اس کو روزی روٹی سمجھتے ہیں اور وہ بھی جو اس کو فراڈ کہتے تھی حتی کہ غزوہ ہند لڑنے والے اس فراڈ انتخابات میں صف اول پر کھڑے نظر آئے۔ معلوم نہیں ان کو اندازہ ہے کہ نہیں لیکن جموں و کشمیر کے عوام نے اپنا بہت نقصان کر لیا۔ عوام میں مذہبی اور نظریاتی تقسیم کو دیکھیں تو آگئیں کی تصویر دھندلی ہے۔ صورت حال دیکھ کر انسان ششدر رہ جاتا ہے کہ آج کی دنیا میں بھی کوئی قوم ایسی ہے جو قیادت سے بانچھ ہو جو 438 سال سے لڑ رہی ہے اور قدم بہ قدم پیچھے جا رہی ہے۔ اسی قوم نے تازہ فیصلہ دیا کہ جموں و کشمیر کے عوام ایک قوم نہیں، بلکہ دو قومیں ہیں۔ جموں ریجن میں ہندو قوم ہے، جب کہ وادی میں مسلمان قوم ہے۔ سری نگر شہر اور مضافات جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے کی 8 نشتوں میں سے 7 نیشنل کانفرنس اور ایک اس کے اتحادی کو ملی۔ بڈگام کی 5 نشستیں نیشنل کانفرنس، گاندربل کی 2 نشستیں نیشنل کانفرنس، بارہمولہ کی 7 نشستیں 6 نیشنل کانفرنس اور ایک اتحادی، بانڈی پورہ کی 3 نشستوں میں سے 2 نیشنل کانفرنس اور ایک اتحادی، کپواڑہ کی 6 میں سے 3 نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، سجاد غنی لون اور خورشید شیخ، انت ناگ کی 7 میں سے 5 نیشنل کانفرنس اور 2 اتحادی، کولگام کی 3 میں سے 2 نیشنل کانفرنس اور ایک یوسف تاریگامی، پلوامہ کی 4 میں سے دو نیشنل کانفرنس اور 2 پی ڈی پی، شوپیاں کی 2 میں سے ایک نیشنل کانفرنس اور ایک آزاد۔ جموں ریجن کو دیکھا جائے تو جموں شہر اور مضافات کی 11 نشستیں جہاں ہندوں کی اکثریت ہے پوری کی پوری بھارتیہ جنتا پارٹی لے اڑی، سانبہ کی 3 نشستیں بھاجپا، کشتواڑ کی 3 میں سے دو بی جی پی، ایک آزاد، ڈوڈہ 3 میں سے 2 بی جے پی ایک آزاد، رام بن جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے میں 2 نشستیں نیشنل کانفرنس، ریاسی میں 3 میں سے 2 بی جے پی اور ایک نیشنل کانفرنس، ادھم پور 4 نشستیں بی جے پی، کٹھوعہ، 6 نشستوں میں سے 5 بی جے پی اور ایک آزاد، راجوری 2 نیشنل کانفرنس ایک بی جے پی اور پونچھ 3 میں سے 2 نیشنل کانفرنس ایک آزاد۔

یہ صورت حال بتاتی ہے کہ جموں و کشمیر دو ریجن جو مختلف لسان میں منقسم ہیں وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی نظریاتی تقسیم گہری ہو گئی۔ جموں ریجن کی اکثریت نے مودی کے اقدامات پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی جب کہ وادی کے عوام اس سوچ کے ساتھ نیشنل کانفرنس کی طرف پلٹے کہ شیخ عبداللہ کا پوتا بھاگتے چور کی لنگوٹی پکڑ لے۔ لیکن اب نہ چور ہے نہ لنگوٹی۔ چور کب کا مال متاح لے جا چکا اور اب کمبل اوڑ کر سو رہا ہے۔ جب تک نئی سوچ کے ساتھ نئی قیادت سامنے نہیں آتی، ریاست جموں و کشمیر اقصائے تبت کو یکجا کرنے کی اور آزادی کی اب کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ عمر عبداللہ نے وزیر اعلی کا حلف تو اٹھا لیا لیکن وہ جانتے ہیں کہ اپنے اسٹاف کے ساتھ میٹنگ کرنے کے لیے لیفٹیننٹ گورنر سے تحریری اجازت لینا ہو گی۔ اب وہ اندرونی خودمختاری کی نہیں ریاست کی بحالی کی بات کر رہا ہے۔ شیخ عبداللہ بھی بلآخر خود مختاری سے بھول کر اندرونی خودمختاری پر راضی ہو گیا تھا۔ اس کی اولاد اندرونی خودمختاری بھول کر ریاست پر راضی ہو رہی ہے۔ شیخ عبداللہ نے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا تھا۔ اس کے بیٹے فاروق عبداللہ نے وزیر اعلی کا حلف اٹھایا لیکن جموں و کشمیر کے آئین کے تحت، شیخ عبداللہ کے پوتے نے 16 اکتوبر کو وزیر اعلٰی کا حلف تو اٹھایا لیکن بھارت کے آئین کے تحت وفاق بھارت کی ایک ذیلی علاقے کا۔ گویا جموں و کشمیر بھارت کا باضابطہ علاقہ قرار پایا جس کو جموں و کشمیر کے عوام نے تسلیم کیا، مودی کو بھی اس پر اعتراض نہیں۔

واپس کریں