بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
مجھے یہاں کیوں لایا، گولی مار دیتے تو اچھا تھا۔ آپ روز لوگوں کو قتل کرتے ہو، میرے بابا کو بھی آپ لوگوں نے بھری جوانی میں بلا قصور مار تھا، وہ آتنگ وادی تھوڑا ہی تھا۔ لال چوک پر مزدوری کرتا تھا سبزی کی دوکان پر۔۔ ایک روز آپ نے اسے بھی مار دیا تھا، مجھے بھی مار دو، میں بھی آتنگ بادی نہیں مزدور ہی ہوں موبائل کی دوکان پر۔۔۔ مگر آپ سے کس نے پوچھنا ہے کس کو، کیوں قتل کیا۔۔۔۔۔۔ کشمیر میں تو آپ آئے ہی انسانوں کو قتل کرنے کے لیے ہو۔ ٹارچر سیل کی کال کوٹھڑی میں بند شوپیاں کے قصبہ زین پورہ کے رہائشی اعجاز احمد نائیک ریاستی تشدد کے باعث زخموں سے چور ،نڈھال، زندگی سے بے زار، سیل کے سنتری سے پوچھ رہا تھا کہ، مجھے یہاں کیوں لایا ہے، اس بہتر تھا قتل کر دیتے ۔۔۔۔۔۔۔ میرا قصور کیا ہے؟ ۔۔۔۔ سنتری نے اسے ڈانٹ دیا اور خاموش رہنے کی سختی سے ہدایت کی کہ برابر والے کمرے میں صاحب لوگ آرام کر رہے ہیں۔۔ رات بھر کے جاگے اور تھکے ہوئے ہیں، اگر ان کی نید میں خلل پڑا تو تمارے لیے مصیبت آ جائے گی۔ خاموش بیٹھا رہے کیوں مصیبت کو دعوت دیتا ہے۔ پھر اسے رات کی تصویر آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ وہ حسرت بھری آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا کہ یہاں تو زبان بندی بھی ہے، لگتا ہے یہاں بولنے کی الگ سزا ہے۔
"ٹپک اے شمع، آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے۔
سراپا درد ہوں، حسرت بھری ہے داستاں میری"
پھر وہ خاموش چپ چاپ سیل میں مٹی کے ننگے فرش پر بیٹھا رہا یہ سوچتے ہوئے کہ شاید کشمیری پیدا ہی اسی لیے ہوتا ہے یا کشمیریوں کی قسمت میں یہ ہی لکھ دیا گیا ہے۔۔۔۔۔کل رات اعجاز احمد کو شوپیاں تھانے کے عقب میں تازہ تازہ قائم کردہ ٹارچر سیل میں چار ہٹے کٹے مدراسی مسٹنڈے باری باری اس سے تفتیش کرنے کے بہانے تشدد کرتے رہے کہ آتنگ بادیوں کے ٹھکانے بتاو۔۔۔۔۔ حال ہی میں کمانڈر روات نے مدراس سے دو سو سے زائد خوں خوار فربہ نوجوان کشمیر بلائے گئے تھے۔ ان کی قابلیت صرف یہی تھی کہ وہ انسانوں پر بے رحمانہ تشدد کرنے میں ماہر تھے۔۔ان کو وادی کے سارے تھانوں میں تعینات کر دیا گیا تھا ۔ اس ہدایت کے ساتھ کہ جو کشمیری ان کے حوالے کیا جائے اس سے بھر پور تفتیش کی جائے، جو ملزم کی ہڈی پسلی توڑے گا اس کو انعام و اکرم سے نوازا جائے گا۔ ملزم تفتیش کے دوران ہلاک بھی ہوتا ہے تو تفتیشی ذمہ دار نہیں۔ 8 ہزار سے زائد نوجوان انہی ٹارچر سیلوں میں تفتیش کے دوران ہلاک ہوئے جنہیں اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا اور گھر والوں کو خبر تک نہیں کہ ان کے لاپتہ بچے کہاں ہیں۔ انہی میں سے چھ ہزار کی بیویاں آج بھی جموں کشمیر میں آدھی بیوہ اپنے خاوندوں کی انتظار میں بیٹھی ہیں۔۔۔۔شوپیاں تھانے میں تعیناتی کا ان چاروں مدراسیوں کا آج پہلا دن تھا اور اتفاق سے اعجاز احمد پہلا شکار۔ انعام و کرام کی خاطر ایک سے بڑا کر ایک اپنی بہادری کا جوہر دیکھاتا رہا اور رات بھر اعجاز پر تشدد کرتے رہے۔اعجاز احمد کو کچھ خبر ہوتی تو بتاتا، بلا وہ یہ تشدد کیوں سہتا، کبھی اس کو خیال آتا کہ جھوٹ موٹ میں ہی بول دوں، پھر سوچتا کہ ثبوت دینا پڑے گا اگر آتنگ بادیوں کے ٹھکانے نہ ملے تو پھر ہو سکتا ہے اس سے سخت مار پڑے، سچ تو یہ تھا کہ اس کے فرشتوں کو بھی معلوم نہ تھا کہ آتنگ بادی کے ٹھکانے کہاں اور کدھر ہیں۔ پولیس والوں کو بھی خانہ پوری کرنا ہوتی ہے اوپر بتانے کے لیے کہ آج کتنے آتک بادی پکڑے۔۔۔۔ را چلتے روز کسی نہ کسی نوجوان کو پکڑ لاتے اور رات بھر تھانے میں تشدد اور پھر کال کوٹھڑی اس کا مقدر ہو جاتی۔ اعجاز احمد کی طرح کتنے نوجوان بے گناہ بھارتی جیلوں میں بند تھے جن کی خبر گیری کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔۔ خبر گیری تب ہوتی جب ان سے ملاقات کی اجازت ملتی۔۔۔۔۔ بھارتی سرکار نے طہ کر لیا تھا کہ کشمیری نہیں کشمیر چاہئے، لوگوں کا کیا ہے، ایک ارب چالیس کروڑ اس کے پاس موجود ہیں۔ اعحاز احمد جوں جوں لاعلمی ظاہر کرتا تشدد کرنے والوں کو اور غصہ آتا اور مار پیٹ پہلے سے زیادہ شدت سے ہوتی۔ مدراسیوں کو بھی کیا معلوم حقیقت کیا ہے جو کہا گیا وہ انہوں نے کیا۔۔مدراسیوں اور سنتری کو بتایا گیا تھا کہ یہ کشمیری آتنگ بادی ہیں، ملک دشمن ہیں بھارت ماتا کو توڑنے چاہتا ہیں اس سے دیگر آتنگ بادیوں کے ٹھکانے معلوم کرو۔ سو سنتری نے اعجاز کا قصور بتا دیا۔۔۔۔۔ آتنگ بادوں کا یہی علاج ہوتا ہے جو تمارا ہوا، ابھی مزید ہو گا جب تک تم پوری معلومات نہیں بتاتے کہ آتنگ بادیوں کے ٹھکانے کہاں، کہاں ہیں اور وہ ذین پورہ میں کس کس کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ سنتری نے تھوڑی دیر توقف کے بعد اعجاز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ان دنوں شوپیاں اور خاص طور پر ذین پورہ مسلح حملہ آوروں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ ذین پورہ سرحد کے قریب گھنے جنگلات میں گھیرا ہوا کشمیر کا ایک خوب صورت گاوں ہے، جہاں کے نوجوانوں کے بارے میں عام تاثر تھا کہ ان کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے حریت پسندوں سے ہے۔۔۔۔ اس علاقے میں علی گیلانی اور یاسین ملک کے تو بڑے بڑے جلسے ہو چکے جہاں ہزاروں نوجوانوں نے نعروں سے ماحول گرما دیا تھا۔ لکھن پور سے گلگت تک یہ کشمیر ہمارا ہے۔۔۔ سارے کا سارا ہے۔۔۔۔ اس پر حکومت ہم کریں گے۔۔۔۔ اس کی خاطر ہم مریں گے۔۔۔۔ سکورٹی ایجنسیوں کو اعجاز احمد بھی ان جلسوں میں کسی کونے پر کھڑا ویڈیو میں نظر آ گیا۔۔۔۔ خاص طور پر برہان وانی شہید کی نماز جنازہ جس کی صف بندی اعجاز احمد کی دوکان کے سامنے ہوئی۔ اس دن شوپیاں بازار بند رہا تھا اور سارے دوکان دار غائبانہ نماز جنازہ میں شامل ہوئے تھے۔ اعحاز احمد بھی اپنی دوکان کے باہر یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اسے کیا معلوم ایجنسیوں کے کیمرے کی آنکھ اسے دیکھ رہی ہے۔ اس رات تو سیکڑوں نوجوانوں کو اٹھایا گیا اور غائب کر دیا گیا۔ اس رات کشمیر کی نوجوان آدھی بیواوں میں درجنوں کا اضافہ ہوا۔ اعجاز احمد شادی شدہ تو نہیں لیکن اس کی ماں بیٹے کے لیے کسی سندر لڑکی کی تلاش میں تھی جو اعجاز احمد کا بھی خیال رکھے اور گھر داری بھی دیکھے۔۔۔ لیکن قسمت تو اعجاز کو ٹارچر سیل پہنچا چکی تھی۔۔۔۔ سنتری جس کا تازہ، تازہ ہریانہ سے سری نگر تبادلہ ہوا تھا، نے اعجاز کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔۔۔۔۔ لیکن اعجاز احمد کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ یہ آتنگ بادی کس بلا کا نام ہے.۔۔ وہ تو جیسے ہی جواں ہوا ماں کے سر کا بوجھ کم کرنے تعلیم چھوڑ کر کام پر لگ گیا تھا ۔۔۔۔۔ سنتری کا جواب سن کر اسے سخت غصہ آیا۔ لیکن کال کوٹھڑی میں قید اعجاز کیا کرسکتا تھا۔ ان دنوں وادی کشمیر میں ٹھٹھرتی سردی کا راج تھا۔ یہاں شوپیاں میں 10برسوں کے دوران سرد رات کا ریکارڈ ٹوٹا تھا۔ ہڈیوں کو پگھلانے والی ٹھنڈ نے اعجاز کی زخمی ہڈیوں میں اور زیادہ درد پیدا کر دیا ۔آج ہی رات جب سری نگر سمیت پوری وادی میں سردی کے باعث معمول کی زندگی بْری طرح متاثر تھی، ڈل جھیل سمیت آبی ذخائر منجمد تھے۔ سری نگر میں گرفیو نافظ تھا، ڈل جھیل پر منچلے کرکٹ کھلتے کسی گاڑی کے آنے کی آواز سن کر بھاگ جاتے ۔۔۔ اس روز لداخ کے قصبہ دارس میں درجہ حرارت کم سے کم منفی 29.0 ۔ گلمرگ میں 9.2۔پہلگام میں 9.5 ڈگری۔گیٹ وے آف کشمیر میں 5.9، کپوارہ میں منفی6.0 ڈگری، سری نگر میں منفی 6.6 ڈگری اور یہاں شوپیاں میں منفی 7۔6 ڈکری ریکارڈ کیا گیا ۔ چلا کلاں کا موسم عروج پر تھا اور محکمہ موسمیات نے کئی روز تک مذید سردی اور برف باری کی پیشن گوئی کی تھی۔ اس سرد ترین رات میں ٹارچر سیل میں تین چار غیر ملکی ہٹے کٹے مسٹنڈے ایک کے بعد ایک کئی گھنٹے تک اعجاز پر تشدد کرتے رہے۔ جب وہ تھک گئے تو دوسرے کمرے میں چلا گئے جہاں آتش چنار گہی رنگ بکھیر رہی تھی اور کمرہ گرم تھا۔۔۔۔جب وہ اہلکار کمرے کا دروازہ کھولتے تو اعجاز احمد کو گرم ہوا کا جھونکا لگتا اور اسے محسوس ہوتا جیسے زندگی میں حرارت ابھی باقی ہے۔ اہلکاروں میں سے ایک نے دوسرے سے سوال کیا۔ یار یہ کشمیریوں کی طرح یہاں کی آگ میں بھی کئی رنگ ہیں۔ دوسرے نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہاں، ایک رنگ جیے ہند کہنے والوں کا، ایک پاکستان زندہ باد کہنے والوں کا، ایک آزادی والوں کا اور ایک اس چھوکرے والوں کا جن کو معلوم ہی نہیں کہ ہم کیوں مرتے ہیں۔۔۔۔ تیسرے نے لقمہ دیا کہ ان کا اپنا بھی کوئی رنگ ہے۔ چوتھا بولا کہ ان کا اپنا رنگ تو بہت مضبوط ہے لیکن یہ اس رنگ کو چڑھاتے ہی نہیں۔ ایک مرتبہ چڑھ گیا تو کبھی نہیں اترے گا مگر بدقسمت ہیں ہمیں بھی پھنسایا ہوا ہے اور خود بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک نے کہا اس چھوکرے کو تو دیکھو مک مکاو ہو گیا یا ابھی کوئی رمق باقی ہے؟ ایک نے اقبال ساجد کا شعر پڑھا،
"سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا ۔۔۔۔۔۔ میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا " یہ کشمیری ہے سالا مر کر بھی زندہ رہے گا۔ مودی جی کو کون بتائے کہ ان کی میتیں بھی ان کو نہیں دینا چاہئے۔ برہان وہانی کے جنازے میں 6 لاکھ لوگ جمع ہوئے۔ میتیں دے کر مجمع لگائے کی ضرورت ہی کیا ہے۔۔۔۔۔ جب انہوں نے اعجاز احمد کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے دروازہ کھولا تھا تو اعجاز کو گرمی کا ایک جھونکا لگا۔ ایک لمحے کے لیے سکون ہوا مگر دروازہ زور سے بند ہونے کے بعد پھر سردی کی لپٹ میں آگیا اس کے پاس کوئی کپڑا بھی نہ تھا کہ زخمی بدن پر ڈالے۔ اسی کیفیت میں صبح ہوئی اور اس کی پہلی نظر سنتری پر پڑی ۔۔۔۔۔ ہاں، ہاں میرا بابا بھی آتنگ باد تھا ،اسے بھی مار دیا تھا آپ لوگوں نے مجھے بھی مار ڈالو ۔۔۔ اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ آتنگ باد کی سزا یہ نہیں، جو مجھے دی جا رہی ہے، بلکہ گولی ہے ۔۔۔۔ گرفتاری نہیں ۔۔۔۔ سنتری نے اپنے منہ پر انگلی رکھی جس کا مقصد خاموش رہنے کی ہدایت تھی اور پھر ماحول میں خاموشی چھا گئی ۔۔۔۔ اعجاز سوچوں میں گم ہو گیا۔ اگر انہوں نے زندہ چھوڑ بھی دیا تو اگلے چوک پر مار دیں گے۔۔۔۔۔۔ میں نہیں چاتا کہ ماں میری شادی کرائے۔۔۔۔۔ میں اگر رہا بھی ہوا تو، آتنگ بادی کے الزام میں قتل کیا جاوں گا۔ میرا بچہ یتیم رہے اور 20 سال بعد وہ بھی آتنگ بادی کے الزام میں قتل کیا جائے۔ پھر اس کا بھی بچہ یتیم رہ جائے گا ۔آخر یہ کھیل کب تک چلتا رہے گا۔ نہ کوئی انسانی حقوق کے ادارے پوچھتے ہیں نہ اقوام متحدہ نہ مسلمان ملک کشمیریوں کی اس حالت زار پر بولتے ہیں۔ نہ آزاد کشمیر والوں کے کانوں میں جوں رینگتی ہے۔۔۔۔۔ پاکستان کے حکمران ہیں کہ بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کے فروغ کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔۔۔۔ یہ بابا علی گیلانی کون سے اور کس لیے نعرے بازی کرتے ہیں اور ہمیں عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ نسل در نسل قتل ہونے سے بہتر یہی ہے کہ نسل ہی روک لی جائے۔ ایسی فصل تیار کرنے کا بھی کیا فائدہ جو وقت سے پہلے ہی کاٹ لی جائے ۔۔۔ شائد بھارت بھی یہی چاہتے ہیں ۔ اعجاز جب سے گرفتار ہوا، انہی خیالوں میں گم رہتا، کہ کشمیریوں کو زندہ رہنے کی بھی کیا ضرورت ہے۔۔۔۔ بھارت کو کشمیری نہیں کشمیر چاہئے۔۔ تو اس کو دے دینا ہی بہتر ہے، کوئی اس ظلم پر بول ہی نہیں رہا تو پھر ہم کیا کریں، ہم قتل ہوتے رہے اور دنیا تماشا دیکھتی رہے یہ کب تک چلے گا۔۔۔۔۔ اعجاز کا کنبہ کل تین افراد پر مشتمل ہے، جن میں بیوہ ماں کے علاوہ نفسیاتی مریض چھوٹا بھائی ثاقب عبداللہ نائیک شامل ہیں۔۔۔ اس مختصر اور نا مکمل کنبہ پر آنے والی افتاد کے باوجود اعجاز احمد نائک، نے ابھی بھی یہ گمان باندھا ہوا ہے کہ اس کی ماں کو اچھا وکیل نہیں مل رہا جو اسے بلا قصور بند کال کوٹھڑی سے نکالنے کے لیے مدد کرے۔ ہاں ماں جی کے پاس وکیل کی فیس دینے کے پیسے بھی تو نہیں ۔۔۔۔۔۔ ورنہ ابھی تک وہ رہا ہو چکا ہوتا۔۔۔اسے اپنی ماں کی بہادری پر اس لیے بھی اعتماد اور ناز ہے کہ 2000ء میں جب اس کے والد محمد عبد اللہ نائک کا پولیس کی فائرنگ سے انتقال ہوا تو دونوں بھائی چھوٹے اور نابالغ تھے۔ اس روز شوپیاں کے قصبہ زین پورا میں پولیس اور آزادی پسندوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلہ میں چار آزادی پسند اور تین بھارتی فوجی ہلاک جب کہ سات اہل کار شدید زخمی ہو گئے تھے۔ جنہیں ہلی کاپٹر کے ذریعے سری نگر بڑے اسپتال منتقل کیا گیا۔۔۔۔۔آزادی پسندوں کی لاشیں قبضہ میں لے کر انتظامیہ نے سخت کرفیو لگا رکھا تھا۔ محمد عبداللہ، چھوٹے بیٹے ثاقب عبداللہ نائک کے پیچھے بھاکا جو اچانک دروازہ کھول کر سڑک پر چلا گیا تھا۔۔ سامنے کھڑے فوجی نے بلا تاخیر فائر کھول دیا اور محمد عبداللہ کی لاش بھی قبضہ میں لے لی تھی ۔ اس صورت حال میں منیزہ بانو دونوں بچوں کو ساتھ لیے خاوند کی لاش کے پاس پہنچی اور بلا آخر کشمیر کے قابضین کے قبضہ سے لاش نکال لائی تھی۔ ثاقب جو بہت چھوٹا تھا، باپ کے ساتھ رونما ہونے والے واقعہ کا اس کے ذہن پر شدید اثر ہوا جو مناسب علاج کے باوجود ابھی تک مریض ہے۔۔ گو کہ اعجاز احمد نائک اس وقت کم عمر تو تھا لیکن اتنا بھی لا سمجھ نہیں کہ وہ واقعہ اسے یاد نہ ہو۔ اسے بھی ایک ایک قصہ یاد ہے لیکن اس کا کبھی اظہار نہیں کیا۔۔۔۔۔ ماں نے انہیں احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ یتیم ہیں ۔ اس نے اپنے دونوں بچوں کو ماں کی محبت اور پیار کے ساتھ باپ کی شفقت بھی دی تھی ورنہ زمانہ بیواؤں اور یتیموں کو کہاں زندہ رہنے دیتا ہے۔۔۔۔اعجاز کو گمان تھا کہ ماں اس کی گرفتاری پر بھی کوئی نہ کوئی دلیرانہ اقدام کرتے ہوئے رہائی کا کوئی راستہ نکال لے گی۔۔ ابھی تو گرفتاری کو چند ماہ ہی ہوئے ۔ جیلوں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جن کو 35 سال بیت گئے لیکن ضمانت تک نہیں ہوئی۔۔۔۔۔ لیکن اعجاز احمد نائک کو ماں سے بڑی انسیت بھی تھی اور مان بھی کہ ماں کی موجودگی میں وہ جیل کے ٹارچر سیل میں زیادہ دیر نہیں رہے گا ۔ لیکن رہائی کے حوالے سے اس کی سوچ اب تبدیل ہو چکی تھی۔ رہا ہو گیا تو ماں شادی کرائے گی ۔۔۔۔۔ گرفتاری سے چند دن پہلے ہی تو کہا تھا ماں نے،کہ 25 سال کا ہو گیا ہے تو، اب شادی کر لے۔۔۔۔ میرا اور کون ہے جو میں بار بار خوشیاں دیکھو گی ۔۔۔۔ ثاقب تو بیمار ہی ہے ۔۔۔بس تو ہی ہے۔۔۔۔سوچتی ہوں مرنے سے پہلے تماری خوشی دیکھ لو۔۔۔۔ کشمیر کے حالات کا بھی کوئی پتہ نہیں کس کو کس وقت قتل کر دیا جائے ۔ تمارے باپ کو بھی جوانی میں ہی بے گناہ مار دیا تھا ان بھارتی ظالموں نے ۔۔۔ وہ کہتا رہتا تھا اعجاز کو بڑا آدمی بناو گا۔۔۔۔ اعجاز نے اس وقت تو ماں کے کہنے پر ہاں بھر لی تھی لیکن اب اس کا ذہن تبدیل ہو چکا تھا۔۔۔۔ شادی کر کے نسل بڑھانے کا کیا فائدہ جسے بلآخر بھارتی فوج کی گولی کا نشانہ بننا ہے وہ اکثر یہ سوچتا کہ اگر کشمیری کو گولی نہیں تو ٹارچر سیل پکی۔۔ دونوں صورتوں میں بچہ یتیم ہی رہے گا ۔۔۔۔۔ جتن کر کے ماں اسے پال پوس کر بڑا کرے تو پھر اسے فوجی کی گولی سے مرنا یا ٹارچر سیل میں ہی رہنے ہے تو یہ سلسلہ ہی روک دینا چاہئے ۔۔۔۔ خیر رہائی کے بعد ہی اس سلسلے میں ماں سے بات کرو گا ممکن ہے مان جائے ۔۔۔۔۔ اعجاز احمد نائک کو 6 مئی 2019 کو بھارتی انٹیلیجنس ایجنسی نے گرفتار کیا تھا۔ شوپیاں کے زین پورہ بازار میں اس کی موبائل مرمت کی دکان ہے۔ اس پر الزام ہے کہ وہ آتنگ بادوں کے رابطہ میں تھا اور ان کے موبائل میں بیلنس بھرنے کے ساتھ ان کی سہولت کاری بھی کرتا تھا۔ گرفتاری کے بعد اسے ابتدائی تفتیش کے لیے کئی روز تک پولیس اسٹیشن شوپیاں یا اس سے ملحق ٹارچر سیل میں رکھا گیا تھا جہاں اس پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔ وہاں سے اسے بدنام زمانہ ٹارچر سیل پلوامہ جیل جموں منتقل کیا گیا۔ پلوامہ سے اسے سری نگر منتقل کیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد اسے سری نگر سے کٹھوعہ منتقل کیا گیا۔ بعد میں، کٹھوعہ سے اسے دوبارہ سری نگر منتقل کر دیا گیا، جہاں وہ فی الحال قید ہے ۔ اس سارے عرصے میں اس کی ماں منیزہ بانو نے اس کی رہائی کے لیے سخت جدوجہد کی۔ اس نے عدالتوں کے چکر لگائے۔ اپنے بیٹے کو جیل سے باہر دیکھنے کے لیے وکلاء سے ملاقاتیں کیں ۔ گھر کا سارا سامان اور مال مویشی فروخت کر کے بڑے اور نامور وکیلوں کی خدمات حاصل کی۔ اسے اس دوران معاشی طور پر مشکل کا سامنا رہا، اعجاز خاندان کا واحد کمانے والا تھا۔ جو جیل میں سڑ رہا تھا۔ منیزہ بانو کے لیے جیل و عدالت کے چکر اور وکیلوں کی فیس کی ادائیگی اضافی بوجھ تھا۔۔۔۔ اعجاز کی گرفتاری کے بعد، منیزہ کے لیے ثاقب کا خیال رکھنا اور دیکھ بھال مشکل ہو گیا جو ذہنی طور پر متاثر تھا۔ 5 اگست 2019ء کے بعد وادی میں سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا جب کہ کرونا لاک ڈاون کے بعد، حکام عالمی وبا کی وجہ سے کسی کو بھی قیدیوں سے ملنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اشرف صحرائی کے خاندان کو بھی ملنے کی اجازت نہیں دی تھی اسی دوران وہ جیل ہی میں انتقال کر گئے تو کشمیری معاشرے میں خوف و حراس پھیل گیا۔ بالآخر دو سال بعد منیزہ بانو اپنے بیٹے سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہوئی۔۔۔ جب اعجاز کو عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد آبائی گاؤں زین پورہ پولیس اسٹیشن لایا گیا۔۔ منیزہ بانو اعجاز کی حالت دیکھ کر بہت بلبلائی تھی لیکن اب خوش تھی کہ اس کا بیٹا گاوں آ چکا۔ ۔ کل صبح رہا کر دیا جائے گا اور گھر آئے گا ۔۔۔ اسے کیا خبر کہ کشمیری قیدیوں کے لیے جیل کے دروازے رہا ہونے کے لیے نہیں قید ہونے کے لیے کھلتے ہیں۔ تھانے کے حوالے گھر بھجنے کے لیے نہیں جیل بھجنے کے لیے ہوتے ہیں ۔ رات کو تھانے میں اعجاز پر ایک اور مقدمہ درج کر کے نئی گرفتاری ڈالی گئی اور صبح سویرے مجسٹریٹ کی عدالت نے دوبارہ سری نگر جیل بھیج دیا ۔۔ منیزہ بانو صبح تھانے پہنچی اور صورت حال کا علم ہوا۔ اب وہ مایوس ہو چکی تھی۔۔۔ 27 نومبر 2021 کو سری نگر گئی تھیں لیکن انہیں اپنے بیٹے سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جیلوں کا قانون قیدیوں کی ان کے رشتہ داروں سے پندرہ دن میں ایک ملاقات کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن کشمیریوں کے لیے یہ قانون خاموش ہے۔ منیزہ بانو کو کسی نے بتایا تھا کہ کچھ دن پہلے کوئی اعجاز سے ملا تھا اس کی حالت بہت خراب ہے وہ کمزور بھی ہو چکا۔۔ وہ کون تھا منیزہ بانو کو تو کچھ یاد بھی نہیں رہا تاکہ جا کر اس سے دوبارہ ملے اور بیٹے کی خریت معلوم کرے ۔۔۔۔۔ یہ سوچتے سوچتے منیزہ بانو کی طبیعت بگڑتی گئی اور وہ اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال کرنے لگی۔ وہ جو کچھ بولتی اور سوچتی وہ اس کا بیٹا اعجاز ہی تھا۔ جسے اس نے باپ کی شہادت کے بعد پانچ سال کی عمر میں باپ بن کر پال کر جوان کیا تھا۔ اعجاز کی بات کرتے ہوئے اکثر اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ وہ اکثر سب کو بتاتی تھی کہ اسے اپنے بیٹے سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسی اثنا منیزہ بانو کی طبیعت خراب ہوئی، اسے ہسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں پتہ چلا کہ اسے برین ہیمرج ہو گیا ہے، جیسے ہی اس کی بیماری کے بارے میں معلوم ہوا، اعجاز کے پیرول کے لیے درخواست دی گئی، تاکہ وہ اپنے بیٹے کو دیکھ سکے اور ماں بیٹے کی آخری ملاقات ہو سکے۔۔۔۔۔ مقامی پولیس کو اعتراض نہ ہونے کی تحریری اجازت کے باوجود پیرول کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔ عدالت نے انسانی بنیادوں پر بھی اس درخواست پر غور نہیں کیا۔ ہفتہ 11دسمبر 2021ءکو صبح 10 بجے عدالت نے اعجاز کو پے رول پر رہائی کے لیے ایک بار پھر انکار کر دیا۔ اسی روز دو پہر 2 بجے کے قریب منیزا بانو نے آخری سانس لی، اپنے بیٹے کو آخری بار دیکھنے کی حسرت دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئی ۔ کشمیر کا ہنستا بستہ خاندان اجڑ گیا ۔۔ کچھ عرصہ بعد عدالت نے مقدمہ ثابت نہ ہونے پراعجاز کو باعزت بری کر دیا۔۔۔ لیکن اب اس دنیا میں اعجاز کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔یہ کہانی صرف ایک خاندان کی نہیں بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے ہر گھر کی ہے۔۔ افسوس ہے کہ اس دنیا میں کشمیریوں کو کوئی پرسہ دینے والا بھی نہیں ہے۔ دنیا بھی کیا کرے آر پار کشمیریوں کا ایک طبقہ خوش حال زندگی، اعلی عہدے اور عیاشیوں میں مصروف ہے، غالب اکثریت انہی کے نقشے قدم پر ہے۔ محدود تعداد جو آزادی کی بات کرتی ہے قیادت سے محروم اور مصائب کا شکار ہے۔ قبرستان جوانوں سے اور گھر بیواؤں سے بھر گئے جو باقی بچے جیلوں میں ہیں۔۔۔۔۔ کبھی پلٹ کر دیکھتے ہیں سری نگر کے مین سٹریم اور مظفرآباد کے بیس کیمپ کو بھی کوئی فکر نہیں۔
واپس کریں