دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سینیٹ آف جموں و کشمیر کا قیام آزاد کشمیر حکومت کا متبادل ہے؟
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
جموں و کشمیر کے قوم پرستوں کا ایک گروپ 2025ء کی پہلی سہ ماہی کے اختتام سے قبل ریاست کے تمام خطوں، وادی کشمیر، جموں، لداخ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے مساوی نمائندگی کی بنیاد پر ایک ایسے سیاسی ادارے کا اعلان کرنے کی تیاری کر رہا ہے، جو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو بین الاقوامی سطح پر متحرک و متعارف کرانے کی ذمہ داری انجام دے گا۔ یہ ادارہ سیاسی، سماجی، مذہبی، سول سوسائٹی اور متحرک افراد کا انتخاب سے عمل میں آئے گا جس کو "سینیٹ آف جموں و کشمیر" کا نام دیا جائے گا۔ یہ آزادی کشمیر کے بیس کیمپ آزاد کشمیر حکومت کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام طویل جدوجہد اور لا زوال قربانیوں کے باوجود تسلیم شدہ حق خودارادیت نہ ملنے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم و انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے باوجود بین الاقوامی برادری کی خاموشی پر مایوسی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر ان کے مقدمے کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا گیا لہذا اب ان کو خود ہی کچھ کرنا ہو گا۔ آزادی پسندوں نے آزادی کے لیے پہلے سے جاری حکمت عملی کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے خیال میں ریاست کی واحدت کی بحالی، کشمیریوں کو نسل کشی سے بچانے اور ان کو دہائیوں پر مشتمل جبر سے نکالنے کا راستہ انہیں خود ہی تلاش کرنا ہے۔ جو صرف بات چیت، پرامن طریقوں اور بہترین سفارت کاری سے ہی ممکن ہے۔ جس کے لیے مضبوط متحرک اور مدبر قیادت کی ضرورت ہے، جو اپنے عوام کے اعتماد کے ساتھ دنیا سے بات کر سکے۔ اس گروپ کا خیال ہے کہ غزوہ ہند، مسلحہ جدوجہد یا وکیل کے تواسط سے سفارت کاری سے اب مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں رہا۔ موجودہ پالیسی کے مطابق کشمیریوں کو آزادی کبھی نہیں مل سکتی۔ جب کہ مسلہ کشمیر کا باعزت حل بہت ضروری ہے تاکہ جموں و کشمیر کے عوام برصغیر کی دیگر اقوام کے شانہ بشانہ، قدم بہ قدم ترقی کر سکیں اور ان ہی کی طرح اپنی شناخت کے ساتھ زندہ بھی رہ سکیں۔

اس پس منظر میں امریکہ میں قائم کشمیر گلوبل کونسل کئی سال سے غور و فکر کر رہی ہے۔ مبینہ طور پر اس حوالے سے کئی خفیہ اور اعلانیہ اجلاسوں کے انعقاد کے بعد فیصلہ ہوا کہ 2025ء کی پہلی سہ ماہی کے اختتام سے قبل امریکہ اور کینیڈا کے سرحدی شہر نیاگرا فال میں جموں و کشمیر کے ہر خطے سے نمائندہ افراد کے کنونشن کے انعقاد میں ایک ایسے سیاسی ادارے کے قیام کی منظوری لی جائے جو جموں و کشمیر کے ہر خطے کی نمائندگی کرے ۔ وادی کشمیر، جموں، لداخ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے مساوی نمائندگی اور ڈائس پورا سے کچھ ماہرین پر مشتمل سینیٹ آف جموں و کشمیر بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کا منتخب ادارہ اپنے اندر سے قیادت کا انتخاب کرے گا۔ اور وہی قیادت بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کی نمائندگی کا حق دار ہو گی۔ یہی جلا وطن حکومت دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر اور اس حوالے سے سفارت کاری کرے گی۔ باالفاظ دیگر یہ جموں و کشمیر کی متوازی جلاوطن حکومت ہو گی جو ریاست پر قائم چار حکومتوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، مقبوضہ کشمیر اور لداخ کی اتھارٹیز کو مسترد اور متعلقہ فریقین کے مابین گفتگو شروع کرے گی۔

ذرائع کے مطابق اس منصوبے پر کام کرنے والا گروپ سمجھتا ہے کہ جموں و کشمیر سینٹ کا قیام کشمیریوں کی نوجوان نسل کے ان احساسات اور جذبات کا اظہار ہے جو وہ اپنی خود مختاری، سیاسی نظام اور سفارت کاری کی باگ ڈور خود سنبھالنے کا عزم رکھتے ہیں، اور مادرے وطن کی آزادی کے لیے عشروں سے لڑ رہے ہیں، لازوال جانی و مالی قربانیوں کے باوجود مثالی سفارت کاری نہ ہونے کے باعث دنیا ان کی طرف توجہ نہیں دے رہی۔ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ مسلہ سرد خانے میں جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سینیٹ اور اس کے بطن سے نکلنے والی جلاوطن حکومت دنیا سے مطالبہ کرے گی کہ اسے کشمیریوں کی نمائندہ تسلیم کیا جائے۔ غیر مصدقہ ابتدائی معلومات کے مطابق کشمیر گلوبل کونسل کی قیادت کشمیر نواز اعلامیہ پر کام کر رہی ہے جو نیاگرا فال میں منعقد عالمی اجلاس اور سینیٹ آف کشمیر کے باضابطہ قیام کے بعد جاری کیا جائے گا۔ "نیاگرا فال ڈیکلریشن" کشمیر کی تاریخ کا اہم ترین اعلامیہ ہوگا جس کو تقریباً چار سو مندوبین کی تفصیلی گفتگو اور ورکنگ میٹنگز کے بعد حتمی شکل دی جائے گی۔ نیاگرا فال کنونشن میں امریکی کانگریس کے نمائندے، بھارت، پاکستان کینیڈا اور یورپی یونین کے پارلیمنٹیرین کے علاوہ چینی کمیونسٹ پارٹی (CCP) کے نمائندے بھی نگران، ماڈریٹر اور مانیٹر کے طور پر شامل ہوں گے۔ جب کہ برطانیہ، فن لینڈ، ناروے، سویڈن، بلجیئم، جرمنی، جاپان، جنوبی افریقہ کے نمائندے بھی شرکت کریں گے۔ یہ کانفرنس بھارت، پاکستان یا چین کے بیانیہ کو چیلنج کرنے کے بجائے کشمیری عوام کے لیے ایک راستہ کا تعین کرنا ہے تاکہ وہ جنوبی ایشیا کی 21ویں صدی کی ترقی کا حصہ بن سکیں، بشرطِ کہ کشمیریوں کو آزادی اور خطے میں امن کی حالت قائم ہو۔ گروپ سمجھتا ہے کہ ماضی میں خطہ کے تین بڑے ممالک بھارت، پاکستان اور چین جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے مستحکم پیش رفت نہیں کر پائے، جو باہمی مذاکرات میں مشغول تو رہے لیکن ان میں ہر ایک کے ذاتی خواہش آور مفاد غالب تھے۔ اس کے نتیجے میں خطے کے عوام کو کوئی نمایاں فائدہ نہیں ہوا خاص طور پر جموں و کشمیر جو برصغیر کا چوتھا ملک ہے کے عوام کے بنیادی حقوق حق خودارادیت کا مسئلہ 76 برس سے التواء کا شکار ہے۔

ان ممالک کے کشمیر کے مسئلے کے حل کے حوالے سے اپنا اپنا سخت موقف کے باعث خطے کے ممالک کے درمیان مذاکرات اور اشتراک میں تعطل کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے جس میں اب تبدیلی کی امید بہت کم ہے۔ اس صورت حال میں کشمیری عوام نے امن کی عدم موجودگی میں مشکلات کا سامنا کیا ہے اور لاکھوں شہریوں کی قربانیاں دیں۔ زیر غور علامیہ دراصل وہ قرارداد ہو گی جو اس نمائندہ اجلاس میں منظور کی جائے گی ۔ جو تمام اکائیوں، نسلی اور مذہبی معاشروں پر مشتمل جموں و کشمیر کے عوام کا واحد اور ناقابل تردید نمائندہ کردار بن جائے گا۔ ذرائع کے مطابق کشمیر گلوبل کونسل اس اجلاس کے لیے مندوبین کی فہرست تیار کر رہی ہے۔ فی الحال اس اجلاس کو "آل پارٹیز پیپلز کنونشن" کا نام دیا گیا ہے جس میں شرکت کے لیے مندوبین و متعلقین کو خطوط بھی روانہ کئے جا رہے ہیں۔ امریکہ اور کینیڈا سے کچھ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ یہ کنونشن خود مختار کشمیر کی جانب عملی طور پر پہلا قدم ہو گا، جہاں دنیا میں راج الوقت جمہوری طریقے سے جموں و کشمیر کے دو کروڑ سے زائد عوام کی قیادت کا چناو ہو گا اور عالمی کانفرنس میں کشمیر سینٹ کے قیام کا اعلان متوقع ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کنونشن 28 مارچ کو منعقد ہو گا، جس میں پوری دنیا کے کشمیری مندوبین شرکت کریں گے جہاں بھارت اور پاکستان سے مکمل آزادی کا اعلان بھی متوقع ہے۔ اور یہی اس کنونشن کی قرارداد مقاصد ہو گی۔ جو سینیٹ کے قیام کے بعد علامیہ کے طور پر جاری کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق کشمیر گلوبل کونسل مختلف مذہبی، فرقہ وارانہ، نسلی، لسانی اور سیاسی نظریات کے حامل نامور افراد سے باضابطہ گفتگو کر کے کشمیر کے سماجی، تعلیمی، سائنس، سیاسی ماہرین اور صحافیوں کو سینیٹ آف جموں و کشمیر میں شامل کرنے کے لیے کام کر رہی ہے، تاکہ اتفاق رائے تک پہنچا جا سکے۔ یہ سینیٹ کشمیری دانشوروں، ماہرین تعلیم، صحافیوں اور سیاستدانوں کو ایک ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع دینے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتے کشمیر گلوبل کانفرنس کی ترجمان اور امریکہ میں پرڈیو یونیورسٹی کی پروفیسر حمیرہ گوہر کے مطابق ” اب تک کشمیریوں کو جنوبی ایشیا کے دو ملکوں کے درمیان ایک علاقائی مسئلہ کی طرح دیکھا جاتا رہا ہے جس میں جموں و کشمیر کے باسیوں کو ثانوی حیثیت حاصل رہی ہے، لیکن وقت آ گیا ہے کہ کشمیری اپنے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل خود حل کریں۔ ہماری آزادی کی تحریک کوئی تیسرا فریق نہیں چلاسکتا، یہ جدوجہد ہمیں خود ہی کرنی ہوگی۔“ کانفرنس کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کشمیری رہنما راجہ مظفر نے کہا کہ ”جان بوجھ کر تاریخی حقیقتوں سے انحراف کرتے ہوئے کبھی کشمیر کو صوفیوں اور کبھی اسے شیو کی سرزمین سے منسوب کیا گیا۔ آدھے سچ پر مبنی اس بیانئے کا مقصد جموں و کشمیر پر بیرونی تسلط کو مستحکم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ علاقے کے باشندوں کے حقوق، حق خودارادیت اور مکمل آزادی کی با ت چیت کا آغاز کیاجائے۔“ کشمیر گلوبل کونسل کے صدر فاروق صدیقی کی صدارت میں منعقد اجلاس میں پاکستان، بھارت اور چین سے تعاون کی اپیل کی گئی ہے۔ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ جموں کشمیر سمیت دنیا بھر میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے کے مطابق کشمیری عوام کو بھی ایک قدم آٓگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت، پاکستان اور کشمیری خطے میں آزادی، امن، جمہوریت اور سلامتی کے مشترکہ وژن میں اپنا کردار ادا کریں، جو گزشتہ 76 سالوں سے کشمیر کے حل طلب مسئلے کی وجہ سے ہم سب سے دور ہے۔

سینیٹ کی تشکیل کو بھارت، پاکستان اور چین کے لیے چیلنج نہیں سمجھا جانا چاہیے بلکہ یہ کشمیریوں کو نمائندہ کردار فراہم کرنا کا مقصد ہے. جنہیں اب تک جمہوری طریقے سے اپنی خواہشات کی آواز اٹھانے سے انکار کیا گیا ہے۔ فاروق صدیقی نے کہا کہ ہم بھارت اور پاکستان دونوں کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں لیکن عالمی برادری کے مطابق بھارت اور پاکستان کی خودمختاری کشمیر سے بالاتر ہے۔ سینیٹ آف کشمیر سب سے زیادہ غیر متنازع، جمہوری اور جامع ہوگی جس میں ریاست کے ہر علاقے سے بلا تفریق نمائندگی ہوگی۔ سینیٹ کا مقصد جانبدارانہ سیاست اور نقطہ نظر پر مبنی نہیں ہے۔ کشمیر کے حوالے سے کسی بھی وقت ہونے والی کسی بھی فیصلہ سازی اور بات چیت میں کشمیری عوام کو بااختیار بنانا ہو گا۔ لہذا مجھے امید ہے کہ بھارت، پاکستان اور چین سینیٹ آف کشمیر کی تشکیل کے لیے اپنا تعاون دیں گے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ یاسین ملک گروپ کے علاوہ جموں و کشمیر کی کسی سیاسی پارٹی نے ابھی تک اس پر اپنا ردعمل نہیں دیا تاہم سیاسی تجزیہ نگار اور خاص طور پر کشمیریات پر کام کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ جموں و کشمیر کی آزادی پسندوں نے ہر طرف سے مایوس ہو کر نئے اقدام کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں تو نیاگرا فال ڈیکلریشن کشمیری عوام کے لیے امن، مصالحت، حکمرانی کا ایک مقامی روڈ میپ فراہم کرنے کا مقصد رکھے گا، اور کشمیری عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہو گا۔ جب کہ موجودہ صورت حال میں کوئی ذمہ دار نہیں اور نہ کوئی ژوب دہ کہ لاکھوں شہریوں کی قربانیوں کے بعد بھی تحریک آزادی کشمیر ناکام کیوں ہے۔ کشمیریوں کے اس اقدام سے اقتصادی ترقی، اور کشمیری جنگلات، آبی ذخائر اور جنگلی حیات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے ان ممالک اور کشمیریوں کے درمیان گفتگو کا آغاز بھی ہوگا جو اس تنازعے کے فریق ہیں۔ یہ اعلامیہ ثقافتی ورثے کے تحفظ اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر بھی توجہ دے گا.جو کہ فی الحال موجود نہیں ہے۔

واپس کریں