اکسفورڈ یونیورسٹی یونین کی قرار داد جموں کشمیر خود مختار ریاست
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
تحریک آزادی جموں و کشمیر کی نہ گفتہ بہ صورت حال دیکھ کر مایوسی ہونے لگتی ہے کہ کام تمام ہوا، لیکن بعض اوقات بین الاقوامی سطح پر اچانک ایسی خبریں آتی ہیں جن سے حوصلہ ملتا ہے ! وقتِ فُرصت ہے کہاں،کام ابھی باقی ہے۔نُورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے۔بہت ہی حوصلہ افزا خبر گزشتہ ہفتے برطانیہ سے آئی۔ اکسفورڈ یونیورسٹی یونین کے زیر اہتمام 14 نومبر 2024ء کو مسئلہ جموں و کشمیر پر ایک مباحثہ منعقد ہوا۔ بعد ازاں رائے شماری ہوئی تو قرارداد کو 107 کے مقابلے میں 208 کی عددی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ قرارداد کی موافقت میں دیگر کے علاوہ قائد ایوان برطانیہ کے شہر لوٹن میں مقیم کشمیری نژاد پروفیسر راجہ ظفر خان نے دلائل دیئے کہ جموں کشمیر کی آزاد و خود مختار ریاست مسئلے کے حل کے لیے ایک قابل عمل آپشن ہے۔ پروفیسر ظفر خان نے جموں کشمیر کے منصفانہ، مستقل، جمہوری اور پرامن حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ اس وقت منقسم ریاست جموں کشمیر کی کھوئی ہوئی آزادی اور خودمختاری کی بحالی کے بعد دوبارہ اتحاد ہی واحد قابل عمل اور باعزت حل ہے۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر، تقریبا 85000 مربع کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل کثیر مذہبی، لسانی اور کثیر النسل آبادی کا ایک ملک ہے جس کی 5000 سال سے زیادہ پرانی تحریری تاریخ موجود ہے وہ کسی دوسرے ملک میں کیسے ضم ہو سکتا ہے۔ جسے اکسفورڈ یونیورسٹی کے صاحب الرائے دانشوروں اور عالموں نے تسلیم کیا۔ جب کہ اس کی مخالفت میں بھارت سے آئے ہوئے مقررین حاضرین جن میں آکسفورڈ کے طلباء اور اساتذہ شامل تھے کو اپنے دلائل کے ذریعے قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔۔ جے کے ایل ایف کے بیان کے مطابق " پروفیسر راجہ ظفر خان نے مباحثے میں اپنی شاندار پریزنٹیشن کے دوران مسئلہ کشمیر کے تاریخی پس منظر کے ساتھ قرارداد کا بھرپور دفاع کیا۔ جس میں ریاست میں جاری قومی آزادی کی جدوجہد کے بارے میں ناقابل تردید حقائق موجود تھے۔
پینل میں شامل دیگر مقررین جنہوں نے قرارداد کے حق میں بات کی، ڈاکٹر مزمل ایوب ٹھاکر صابر گل اور یونیورسٹی کے طالب علم رضا نذر تھے۔ مقررین نے اپنے منطقی، عقلی اور حقائق پر مبنی دلائل کے ساتھ قرارداد کا خوب دفاع کیا جن کا سامنا مخالف مقررین کو کمزور اور غیر معقول دلائل کے ساتھ کرنا پڑا۔ قائد ایوان پروفیسر راجہ ظفر خان نے قرارداد پیش کی کہ " یہ ایوان کشمیر کی آزاد ریاست پر یقین رکھتا ہے" جب کہ قرارداد کی مخالفت میں بھارت کے ایک سابق وزیر اعظم کے میڈیا ایڈوائزر پریم شنکر، ہندوستان ٹائمز کے یوسف کنڈگول اور دانشور سدھانت ناگراتھ نے دلائل دیئے جو اکسفورڈ یونیورسٹی کے طلباء اور اساتذہ کو قائل نہیں کر سکے۔۔ بھارت نے خاموش سفارت کاری کے تحت اس مباحثے کو ملتوی کرانے کی حتی المکان کوشش کی ۔ بھارت سے نامور فلمساز ویوک رانجن آگنی ہوتری، معروف صحافی ادیتیا راج کول اورمیجر (ریٹائرڈ)گوریو آریا پر مشتمل وفد نے مباحثے میں شریک ہونا تھا لیکن عین وقت پر بلا جواز بہانہ بنا کر مباحثے میں شریک ہونے سے انکار کر دیا۔
اکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم بھارتی طلباء نے اس مباحثے کے خلاف کیمپس میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ برطانیہ میں موجود ایک ہندو گروپ INSIGHT UK نے باضابطہ طور پر اس بحث پر تحریری اعتراض کیا۔ ایکس پر ایک بیان میں، تنظیم نے لکھا، “ہم نے آکسفورڈ یونین کو ایک رسمی خط بھیجا ہے جس میں اس مباحثے کی میزبانی کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ کشمیری عسکریت پسندوں سے روابط رکھنے والے مقررین کی دعوت تشویشناک ہے" یہ اشارہ ڈاکٹر مزمل ایوب ٹھاکر کی جانب تھا جس کا بہانہ بنا کر بھارتی وفد نے شرکت نہیں کی۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ بھارت کو معلوم تھا کہ وہ کمزور پوزیشن پر ہے۔۔۔ مباحثے کا یہ اثر ہوا کہ آکسفورڈ یونین نے انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا، “کشمیر کا سوال، برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کا ایک جداگانہ تحفہ ہے، جس نے برصغیر کو 1947 سے پریشان کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں متعدد جنگیں ہوئیں۔ کشمیریوں نے آزادی کے لیے جاری جدوجہد کو برقرار رکھا ہے، جس کی جڑیں مضبوط ہیں"۔
یہ مباحثہ ایک غیر معمولی ایونٹ ہے کیوں کہ اکسفورڈ یونیورسٹی یونین کا اثر دنیا بھر کے حکمرانوں پر ہے جب کہ اکسفورڈ سے نکلنے والی آواز دنیا بھر میں پھیلتی ہے جس کا گہرا اثر ہوتا ہے ۔ دنیاکی سرفہرست یونیورسٹیوں میں آکسفورڈ پہلے یا دوسرے نمبر پر ہے اور دروجہ بندی کے اتار چڑھائو میں ہمیشہ ٹاپ 10 میں سے ایک رہتی ہے۔ دریائے آکس کے کنارے، انگلستان کے شہر اکسفورڈ میں یہ عظیم درسگاہ کب قائم ہوئی اس کی حتمی تاریخ تو موجود نہیں تاہم یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد قدیم زمانے میں رکھی گئی تھی۔ لیکن منظم تدریس کا آغاز 1133ء سے ہوا جب پیرس کے رابرٹ پولین نے یہاں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ 1163ء میں اس درسگاہ نے یونیورسٹی کی صورت اختیار کی۔ اس میں اقامت گاہوں کے ساتھ 38 مختلف تعلیمی ادارے ہیں۔ لیکن تدریس تمام کالجوں کے مشترکہ لیکچرز کی صورت میں ہوتی ہے۔ دنیا کے اکثر حکمران آکسفورڈ کے فارغ التحصیل ہیں۔ خود برطانیہ کے27 وزرائے اعظم نے آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی جن میں مارگریٹ تھیچر، ٹونی بلیئر ، ڈیویڈ کیمرون اور موجودہ پرائم منسٹر تھریسامے بھی شامل ہیں ۔پاکستان کے سابق وزرائے اعظم میں لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، فیروز خان نون، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور عمران خان بھی اکسفورڈ کے ممتاز طالب علموں میں شمار ہوتے ہیں۔ اکسفورڈ یونیورسٹی صرف ایک درسگاہ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں آزادی اور انسانی حقوق کی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی یہاں سے آواز بلند ہوتی ہے جو دنیا پھر میں پھیلے کروڑ سابق طلباء تک پہنچتی ہے جو مختلف اہم ترین آسامیوں پر براجمان ہیں۔
اسی لیے جموں و کشمیر کے حوالے سے اس مباحثے اور قرارداد کی منظوری کی بڑی اہمیت ہے کہ دنیا میں آج کے حکمرانوں تک کشمیریوں کا مسئلہ اور ان کی آواز پہلی مرتبہ پہنچی جو درست اور حقیقت پر مبنی ہے۔ اس سے قبل دونوں ملک اس مسئلے کو صرف سرحدی تنازعہ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ دنیا نے دیکھا کہ کشمیریوں نے بغیر کسی سفارتی مدد کے بھارت کو اتنے بڑے فورم پر شکست دی ہے۔ اس کی وجہ تو یہ ہے کہ مدمقابل کشمیر کے اصل وارث ہیں جو دلائل کے ساتھ بات کرنے سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جو دلائل اپنے مقدمے پر کشمیری دے سکتے ہیں وہ دوسرا نہیں دے سکتا۔۔ بھارت کے پاس کشمیر پر قبضہ کرنے یا جبرا اپنے اندر ضم کرنے کا کوئی اخلاقی اور قانون جواز نہیں ہے لیکن اس کی اس کمزوری کو دلائل کے ساتھ کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔
مباحثے نے اس سوچ کو بھی سچ ثابت کیا جو کے ایچ خورشید نے 1962ء میں پیش کی تھی کہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے کشمیریوں اور پاکستان کی مشترکہ کوششیں ہونا چاہیں۔ جموں و کشمیر کے عوام کو خود سفارت کاری کا اختیار دیا جائے، اور ایک قوم کی آزادی کو دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ نہ بنایا جائے۔ وقت نے ثابت کیا کہ ہمارا بیانیہ گزرتے وقت کے ساتھ کمزور ہوتا گیا اور نوبت یہاں تک آئی کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی قبضہ کر لیا۔ اب تو پاکستان کی حکومت اس قدر دفاعی پوزیشن پر کھڑی ہے کہ بھارت لداخ میں چمپین ٹرافی لے جائے تو کوئی حرج نہیں۔ پاکستان گلگت اور آزاد کشمیر میں نہیں لے جا سکتا کہ وہ متنازعہ علاقے ہیں۔ اس صورت حال میں برطانیہ میں مقیم کشمیریوں اور خاص طور پر جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کی کوشش کو تحسین کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے اور امید کی جانی چاہئے کہ ڈائس پورا میں باشندگان جموں و کشمیر مشترکہ طور پر اس طرح کے ایونٹ عوامی سطح پر بھی منعقد کریں گے۔
واپس کریں