جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں برطانیہ کے سرکاری میڈیا ادارے '' بی بی سی'' کے ہوشربا انکشافات
لندن (کشیر رپورٹ) برطانیہ کے سرکاری میڈیا ادارے '' بی بی سی'' نے 1947کے وقت جموں میں انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں قتل عام کے حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی ہے۔برطانیہ کے سرکاری میڈیا ادارے کی اس رپورٹ میں مسلمانوں کے قتل عام کے ان واقعات کے حوالے سے ہوشربا انکشافات کئے گئے ہیں اور برطانیہ کی طرف سے شائع یہ رپورٹ جموں کے قتل عام کے حوالے سے ایک عالمی سطح کی مستند رپورٹ کی حامل ہے۔'' بی بی سی'' کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ
'' 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت بنگال اور پنجاب جیسی خون ریزی کی بازگشت وادیِ کشمیر میں سنائی نہیں دی۔ اگرچہ وادی کشمیر کی 93.7 فیصد آبادی مسلمان تھی مگر مجموعی طور پر یہاں حالات کنٹرول میں رہے تاہم صوبہ جموں میں حالات وادی کشمیر سے یکسر مختلف تھے۔ 2015 میں وفات پانے والے جموں کے سیاسی کارکن اور روزنامہ کشمیر ٹائمز کے بانی اور ایڈیٹر وید بھسین تب اٹھارہ سال کے تھے۔ستمبر 2003 میں جموں یونیورسٹی کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب میں ایک مقالہ تقسیم کے تجربات: جموں 1947 پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مانٹ بیٹن کے (تقسیم کے) منصوبہ کے اعلان کے فورا بعد ہی جموں میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھنے لگی تھی۔پونچھ میں مہاراجا ہری سنگھ کی انتظامیہ کے سابقہ جاگیر کو اپنے براہ راست کنٹرول میں لینے اور کچھ ٹیکس لگانے کے خلاف ایک مقبول غیر فرقہ وارانہ تحریک کی ابتدا ہوئی۔ اس احتجاج سے غلط طریق سے نمٹنے اور مہاراجا کی انتظامیہ کی طرف سے وحشیانہ طاقت کے استعمال نے جذبات کو بھڑکا دیا اور اس غیر فرقہ وارانہ جدوجہد کو فرقہ وارانہ لڑائی میں بدل دیا۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ مہاراجا کی انتظامیہ نے نہ صرف تمام مسلمانوں سے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا بلکہ ڈوگرا فوج میں بڑی تعداد میں مسلمان فوجیوں اور مسلمان پولیس افسروں کو، جن کی وفاداری پر انھیں شبہ تھا، غیرفعال کر دیا۔بھسین کے مطابق فرقہ وارانہ آگ جموں میں سب سے زیادہ بھڑکی۔ مسلمانوں کے خود کو مسلح کرنیاور بعد میں ہونے والے فرقہ وارانہ قتل عام کو جواز فراہم کرنے کے لیے ہندوں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی افواہیں پھیلائی گئیں۔ستمبر کے آخر تک، بشنہ، آر ایس پورہ، اکھنور وغیرہ کے سرحدی علاقوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے علاقہ سیالکوٹ کی طرف نقل مکانی کر گئی۔ پڑوسی پنجاب میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے سرحدی علاقوں میں مکمل خوف و ہراس پھیل گیا۔
بھسین کے مطابق ضلع ادھم پور بالخصوص ادھم پور خاص، چنانی، رام نگر اور ریاسی علاقوں میں مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر قتل کیا گیا۔ یہاں تک کہ بھدرواہ (ادھم پور سے تقریبا 150 کلومیٹر دور) میں بھی بہت سے مسلمان فرقہ وارانہ غنڈوں کا شکار ہوئے۔بھسین کہتے ہیں کہ آر ایس ایس (راشٹریا سوایم سیوک سنگھ) نے ان ہلاکتوں میں کلیدی کردار ادا کیا اور ان کی مدد مسلح سکھ پناہ گزینوں نے کی جنھوں نے اپنی ننگی تلواروں سے جموں کی سڑکوں پر پریڈ بھی کی۔ادھم پور اور بھدرواہ میں فسادات کی قیادت کرنے والوں میں سے کچھ نے بعد میں نیشنل کانفرنس میں شمولیت اختیار کی اور کچھ وزیر بھی رہے۔ چھمب، دیوا بٹالا، منوسر اور اکھنور کے دیگر حصوں میں مسلمانوں، جن میں سے کئی دوسری طرف بھاگ گئے یا جموں چلے گئے، کے قتل عام کی اطلاعات موصول ہوئیں۔کٹھوا ضلع میں بھی مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر قتل اور خواتین کی عصمت دری اور اغوا کی خبریں سامنے آئیں۔ریاست کے رویہ پر بھسین کا کہنا تھا کہ اس فرقہ وارانہ قتل و غارت کو روکنے اور امن کے ماحول کو فروغ دینے کی بجائے مہاراجا کی انتظامیہ نے فرقہ وارانہ غنڈوں کی مدد کی اور انھیں مسلح کیا۔وہ آگے کہتے ہیں کہ مسلم اکثریتی علاقوں سے باہر رہنے والے بہت سے مسلمانوں کو ان فسادیوں نے بیدردی سے قتل کر دیا جو شہر میں سرکاری طور پر کرفیو کے باوجود اسلحہ اور گولہ بارود کے ساتھ گاڑیوں میں آزادانہ نقل و حرکت کر رہے تھے۔وہ کہتے ہیں یہ کرفیو صرف مسلمانوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے لگایا گیا تھا۔خوفناک قتل عام بعد میں اس وقت ہوا جب تالاب کھٹیکاں کے علاقہ میں مسلمانوں کو ہتھیار ڈالنے کو کہا گیا۔انھیں جوگی گیٹ پولیس لائنز منتقل کر دیا گیا، جہاں اب دہلی پبلک سکول واقع ہے۔ انتظامیہ نے انھیں سکیورٹی فراہم کرنے کے بجائے تحفظ کے لیے پاکستان جانے کی ترغیب دی۔ ان ہزاروں مسلمانوں کی پہلی کھیپ کو سیالکوٹ لے جانے کے لیے تقریبا ساٹھ لاریوں میں لادا گیا۔ان کے ساتھ کیا ہونے والا تھا اس سے بے خبر یہ خاندان بسوں میں سوار ہو گئے۔ گاڑیوں کو فوجیوں نے اپنی حفاظت میں لے لیا۔ لیکن جب وہ شہر کے مضافات میں جموں سیالکوٹ روڈ پر چٹھہ کے قریب پہنچے تو وہاں آر ایس ایس کے مسلح افراد اور سکھ پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ انھیں گاڑیوں سے باہر نکالا گیا اور بے رحمی سے مار دیا گیا۔سپاہی یا تو مارنے والوں میں شامل ہو گئے یا پھر تماشائی بن کر دیکھتے رہے۔ قتل عام کی خبر کو انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ اگلے دن ان مسلم خاندانوں کی ایک اور کھیپ اسی طرح گاڑیوں میں بٹھائی گئی اور ان کا بھی یہی انجام ہوا۔ جو کسی طرح قاتلوں کے قہر سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے وہ اپنی دکھ کی داستان سنانے سیالکوٹ پہنچ گئے۔
اس وقت ریاستی انتظامیہ نے انکار کیا تھا کہ قتل عام میں اس کا کوئی کردارہے۔ یہاں تک کہ اس نے جموں خطہ کی آبادی کو تبدیل کرنے کے کسی بھی منصوبے سے لاعلمی کا بھی دعوی کیا، لیکن بھسین کا موقف مختلف ہے۔انھوں نے انتظامیہ کے ایک اہلکار کے بارے میں بتایا کہ شائستہ ہونے کے باوجود، انھوں نے مجھے سنگین نتائج سے خبردار کیا ۔۔۔ انھوں نے سب سے پہلے مجھے یہ کہہ کر تنبیہ کی کہ 'میں آپ کو آپ کی مذموم حرکتوں کے لیے سلاخوں کے پیچھے ڈال سکتا تھا۔ لیکن چونکہ آپ بھی میری طرح کھتری ہیں اور میرے رشتہ دار بھی ہیں اس لیے میں آپ کو صرف مشورہ دے رہا ہوں۔ یہ وقت امن کمیٹیاں بنانے اور امن کے لیے کام کرنے کا نہیں بلکہ ہندوں اور سکھوں کو ان مسلم فرقہ پرستوں سے بچانے کا ہے جو انھیں قتل کرنے اور حالات کو غیر مستحکم کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ہم نے پہلے ہی ہندو سکھ ڈیفنس کمیٹی بنائی ہے۔ بہتر ہے آپ اور آپ کے ساتھی اس کی حمایت کریں۔پھر انھوں (اہلکار) نے مزید کہا کہ ہم ریہاڑی کے علاقہ میں ہندو اور سکھ لڑکوں کو مسلح تربیت دے رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی ایسی تربیت میں شامل ہوں۔ جب میں نے اگلے دن ایک ساتھی کو تربیتی کیمپ میں بھیجا تو اس نے دیکھا کہ آر ایس ایس کے کچھ نوجوانوں اور دیگر کو فوجیوں کی طرف سے 303 رائفلوں کے استعمال کی تربیت دی جا رہی تھی۔
دو ماہ تک جاری رہنے والی غارت گری میں ہلاکتوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے لیکن تخمینہ 20 ہزار سے دو لاکھ 37 ہزار تک کا ہے۔ اس دوران تقریبا پانچ لاکھ افراد سرحد پار پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر کے حصہ میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور اس پورے عمل کے دوران جموں کے صوبہ میں مسلمان آبادی کا تناسب بدل گیا۔بھسین کہتے ہیں کہ ایک واقعہ جو مجھے یاد ہے وہ مہر چند مہاجن (اس وقت کے ریاست کے وزیر اعظم) کا ہے جنھوں نے جموں پہنچنے پر محل میں ان سے ملنے والے ہندوں کے ایک وفد سے کہا تھا کہ اب جب اقتدار لوگوں کو منتقل کیا جا رہا ہے تو انھیں برابری کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ نیشنل کانفرنس سے وابستہ ان میں سے (ایک) نے پوچھا کہ جب آبادی کے تناسب میں اتنا فرق ہے تو وہ برابری کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں۔ نیچے رام نگررکھ (جنگل) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جہاں مسلمانوں کی کچھ لاشیں ابھی تک پڑی تھیں، انھوں نے کہا کہ آبادی کا تناسب بھی بدل سکتا ہے''۔
' بی بی سی' نے رپورٹ میں مزید لکھا کہ '' بھارتی صحافی سعید نقوی اپنی کتاب دوسرے ہونے کے ناتے: ہندوستان میں مسلمان میں لکھتے ہیں: 1941 کی مردم شماری کے مطابق جموں صوبہ کی مسلم آبادی 12 لاکھ سے زیادہ تھی جبکہ صوبے کی مجموعی آبادی 20 لاکھ تھی۔ ضلع جموں کی مجموعی آبادی 4.5 لاکھ تھی جس میں مسلمانوں کی آبادی 1.7 لاکھ تھی۔ دارالحکومت جموں کی آبادی صرف پچاس ہزار تھی جس میں مسلمان 16 ہزار تھے۔کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا جموال کا کہنا ہے کہ صوبہ جموں میں ہونے والے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ تقسیم کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ سنہ 1947 کے قتل عام سے صرف جموں ضلع کے کئی مسلم اکثریتی دیہات میں صرف ہندو یا سکھ آبادی باقی رہ گئی۔صرف جموں ضلع میں، جو صوبہ جموں کا ایک بڑا حصہ ہے، مسلمانوں کی تعداد 158,630 تھی اور سال 1941 میں ان کی تعداد 428,719 کی کل آبادی کا 37 فیصد تھی۔ سال 1961 میں یہاں کل آبادی 516,932 میں مسلمانوں کی تعداد صرف 51,693 تھی یعنی صرف 10 فیصد۔کلکتہ سٹیٹس مین کے ایڈیٹر ایان سٹیفنز اپنی کتاب پاکستان میں لکھتے ہیں کہ اگست سے شروع ہونے والے 11 ہفتوں کی مدت کے اندر، منظم وحشیانہ کارروائیوں نے، جیسی کہ مشرقی پنجاب اور پٹیالہ اور کپورتھلا میں پہلے سے شروع کی گئی تھیں، عملا آبادی میں پورے مسلم عنصر کو ختم کر دیا، جس کی تعداد 50 ہزار تھی۔ تقریبا دو لاکھ لاپتہ ہو گئے، جن کا سراغ نہ لگایا جا سکا، انھیں ممکنہ طور پر قتل کر دیا گیا، یا وبائی امراض یا موسم کی سختی سے مر گئے۔ باقی بے سہارا مغربی پنجاب بھاگ گئے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق، میٹنگ نمبر 534، چھ مارچ، 1951: ہندوستان میں ہونے والی خوفناک قتل و غارت کے فورا بعد، جو کہ تقسیم کے ساتھ ہوئی، مہاراجا نے ایک ایسا عمل شروع کیا جس کے تحت (ٹائمز آف لندن کے خصوصی نامہ نگار کی 10 اکتوبر 1948 کے شمارے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق) بقیہ ڈوگرا علاقہ میں ڈوگرا ریاست کی تمام افواج نے جن کی سربراہی مہاراجا نے خودکی، ہندوں اور سکھوں کی مدد سے، 237,000 مسلمانوں کو منظم طریقے سے ختم کر دیا یا وہ سرحد کے ساتھ پاکستان کی طرف فرار ہو گئے۔اسی رپورٹ میں آگے لکھا ہے کہ یہ اکتوبر 1947 میں ہوا، پٹھانوں کے حملے سے پانچ دن پہلے اور مہاراجا کے ہندوستان سے الحاق سے نو دن پہلے۔ہوریس الیگزینڈر نے 16 جنوری 1948 کے دی سپیکٹیٹر میں جموں میں مارے جانے والے مسلمانوں کی تعداد دو لاکھ بتائی۔
وید بھسین کے مطابق جموں شہر میں تالاب کھاٹی اور کنک منڈی جیسے علاقوں میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی آباد تھی جبکہ دوسری طرف کے علاقے زیادہ تر ہندو تھے۔مہاراجا کی فوج نے ہندوں کے گھروں کے اندر پوزیشنیں سنبھالیں اور وہاں رہنے والے مسلمانوں پر گولیاں برسائیں۔ہندو انتہا پسندوں اور آر ایس ایس کے رضاکاروں نے بچوں اور عورتوں کو بھی نہیں بخشا۔ انھوں نے عورتوں کی عصمت دری کی اور مردوں اور بچوں کو قتل کیا۔ مسلمانوں کی صفوں میں کچھ تقسیم تھی۔ مسلمانوں کے ایک حصہ کو مہاراجا کی سرپرستی حاصل تھی اور اس لیے انھیں تحفظ حاصل تھا جبکہ غریب مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچایا گیا۔کشمیر ٹائمز کے ہندو ایڈیٹر جی کے ریڈی نے کراچی کے ایک اخبار ڈیلی گزٹ کے 28 اکتوبر 1947 کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ غیر مسلح مسلمانوں کے خلاف ڈوگرا تشدد کا پاگل ننگا ناچ کسی بھی انسان کو شرمندہ کر دے گا۔ میں نے سفاکوں اور فوجیوں کے مسلح گروہوں کو پاکستان کی طرف بڑھتے ہوئے بے بس مسلمان پناہ گزینوں کو گولی مارتے اور ٹکڑے ٹکڑے کرتے دیکھا۔۔۔ میں نے راستے میں ریاستی اہل کاروں کو ڈوگروں میں آزادانہ طور پر اسلحہ اور گولہ بارود تقسیم کرتے دیکھا۔۔۔ جموں میں ہوٹل کے کمرے سے جہاں مجھے حراست میں لیا گیا تھا، میں نے ایک رات میں جلنے والے چھبیس دیہات کو شمار کیا اور رات بھر خودکار ہتھیاروں کی گولیوں کی تڑتڑاہٹ آس پاس کے پناہ گزین کیمپوں سے سنی جا سکتی تھی۔
ایسی ہی بات برطانوی سفارت کار سی بی ڈیوک نے بھی کی۔ انھوں نے اکتوبر میں اس علاقہ کا دورہ کیا تھا۔مہاتما گاندھی نے 25 دسمبر 1947 کو جموں کی صورت حال پر تبصرہ کیا تھا۔ سعید نقوی نے اسے ان کی جمع شدہ تحریروں کی جلد 90 سے نقل کیا ہے: جموں کے ہندوں اور سکھوں اور باہر سے آنے والوں نے مسلمانوں کو قتل کیا۔ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار کشمیر کا مہاراجا ہے۔ مسلم خواتین کی بے حرمتی کی گئی ہے۔بھسین کے مطابق فرقہ وارانہ تشدد جس نے جموں کو اپنی لپیٹ میں لیا وہ یک طرفہ نہ رہا۔ خطہ کے کچھ حصوں بالخصوص راجوڑی، میرپور اور اب پاکستان کے زیرانتظام علاقوں میں ہندوں اور سکھوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی قتل کیا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاستی افواج کی طرف سے مسلمانوں کے قتل و غارت گری کی سرپرستی واضح اور زیادہ عیاں تھی۔ایمسٹرڈیم میں انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سوشل ہسٹری کے ایک فیلو ادریس کانتھ نے کشمیر کی 1940 کی دہائی کی تاریخ پر تحقیق کی ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ ڈوگرا حکومت کی جانب سے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک منظم کوشش کی گئی ہو گی کہ اس واقعہ کے ریکارڈ کو تباہ کر دیا جائے اور اسے تقسیم کا ایک غیر معروف قتل عام بنایا جائے۔
کشمیر تنازع کی تاریخی حقیقت کتاب کے مصنف پی جی رسول نے کہا کہ جب اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور کشمیری رہنما شیخ عبداللہ نے جموں میں مسلمانوں کے ایک وفد سے ملاقات کی اور انھیں افسوسناک واقعات کے بارے میں بتایا گیا لیکن انھوں نے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔انھوں نے سوچا ہو گا کہ اگر وہ کشمیر ہار بھی جائیں تو کم از کم جموں کو حاصل کر لینا چاہیے اور اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہندو اکثریت ہو۔بھسین کہتے ہیں مہاراجا کے بھمبر کے دورہ کے بعد پونچھ کے کچھ علاقوں جیسے پلندری، باغ اور سدھنوتی میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں جن کے بعد ایسے فوجیوں جنھوں نے برطانوی ہندوستانی فوج میں شمولیت اختیار کی تھی اور دوسری جنگ عظیم میں خدمات انجام دی تھیں نے مہاراجا کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کر دیا۔
ان ہلاکتوں نے واقعات کا ایک سلسلہ شروع کیا، جس میں بھارت اور پاکستان کی دو نئی آزاد اقوام کے درمیان جنگ بھی شامل ہے، جس نے تنازع کشمیر کو جنم دیا۔جموں ہلاکتوں کے پانچ دن بعد، پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ (اب خیبر پختونخوا) سے قبائلی ملیشیا، جہاں جموں کے بہت سے مسلمانوں کے خاندانی تعلقات تھے، نے کشمیر پر حملہ کر دیا۔ جیسے ہی قبائلیوں کی فوج کشمیر کی طرف بڑھی، ڈوگرا فوج جموں کی طرف بھاگ گئی۔ہری سنگھ نے نئی دہلی کے ساتھ الحاق کے دستاویز پر دستخط کیے، جس نے قبائلیوں سے لڑنے کے لیے اپنی فوج بھیجی۔ قبائلیوں اور بھارتی فوج کے درمیان کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی لڑائی بالآخر پہلی پاک بھارت جنگ کا باعث بنی۔ جب نئی دہلی اور اسلام آباد نے جنوری 1948 میں جنگ بندی پر اتفاق کیا تو ریاست جموں اور کشمیر دونوں ممالک کے درمیان تقسیم ہو گئی۔دونوں اطراف کے کشمیری ان ہلاکتوں کی یاد چھ نومبر کو مناتے ہیں''۔
واپس کریں