دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بلدیاتی نظام 2013ء بلدیہ کراچی کو مفلوج کرنے کا قانون
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
یوں تو بلدیہ عظمی کراچی میں مئیر ڈپٹی مئیر، سمیت پوری کونسل، 27 بلدیاتی ٹاون اور سیکڑوں یونین کونسلوں میں مقامی منتخب نمائندوں کی پوری فوج موجود ہے، اسی باعث کہا جاتا ہے کہ شہر میں بنیادی سطح کے بلدیاتی ادارے بحال اور عوامی نمائندے ان کے سربراہ ہیں، لیکن انتخابات کے کافی عرصہ بعد بھی شہری مسائل کے حوالے سے تبدیلی نظر نہیں آئی ۔ نہ زمین پر اس کا اثر نمایاں ہوا ہے نہ صحت صفائی اور شہری مسائل میں کوئی کمی واقع ہوئی۔ کراچی کا کوئی بھی علاقہ وہ ترقی یافتہ ہو یا کچی آبادی سڑک سے گزرتے ہوئے کسی صورت بھی نہیں لگتا کہ یہ بین الاقوامی شہر اور پاکستان کا معاشی حب ہے۔ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کبھی اس شہر کو ملکہ مشرق کہا جاتا ہوگا، یا یہ کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا۔ کراچی کے لیے مشہور تھا کہ اس شہر پر نید کا غلبہ نہیں آتا۔ اس کا پیہ کبھی رکتا نہیں، وہ پیہ گاڑی کا ہو یا فکٹری کا، معشیت کا ہو یا تجارت کا۔ ہاں کراچی آج بھی جاگتا ہے لیکن جاگنے کی ترجیحات تبدیل ہو گئیں۔ شہریوں کی اکثریت کوئٹہ وال کے ہوٹل پر بیٹھ کر جاگتی ہے کہ اس کے پاس تفریح طبع کے لیے کوئی اور معقول ذرائع نہیں۔ کوئی مثالی پارک نہیں، کوئی تفریح مقام نہیں۔ سمندر تو ہے لیکن تین کروڑ افراد کے سیوریج نے اس کو کدلا کر دیا۔ انگریزوں نے جو ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے تھے وہ کب کے بند پڑے ہیں اور ان کی زمین کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہوا رہی ہے۔ سمندر اتنا کالا اور آلودہ ہے کہ جہاں جانے سے طبیعت نے کیا ہشاش بشاش ہونا، بیماریوں کا ہی ڈر رہتا ہے۔ کراچی کی کوئی بڑی چھوٹی سڑک ایسی نہیں جہاں گڑھے نہ ہوں یا سیوریج ملا پانی نہ بہہ رہا ہو۔ کوئی شبستاں نہیں جس کے مکیں آزادانہ گلی میں نکل سکیں۔ کوئی گلی، شاہراہ ایسی نہیں ہو گی جس پر قبضہ نہ ہوا اور وہ کسی بگڈنڈی ،جادہ کی تمثال نہ ہو۔ کراچی پریس کلب میں صحافیوں کے ایک گروپ میں یہ بحث چھڑی کہ کراچی میں تجاویزات ہٹانے پر کتنے اخراجات آتے ہیں اور لگوانے پر کتنے ارب کا دھندا ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے انسداد تجاوزات کے لیے بلدیہ عظمی کراچی اور دیگر اداروں میں الگ سے محکمے قائم ہیں جہاں اعلی افسران اور عملے کی کثیر تعداد تعینات ہے جو تنخواہوں کے ساتھ مرعات بھی انجوائے کرتے ہیں۔ یقینا ان پر کروڑوں روپے ہی خرچ ہو رہے ہیں لیکن تجاویزات ہیں کہ ان میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک سنئیر ترین صحافی نے اپنے ذرائع سے بتایا کہ تجاویزات ہٹانے پر معمور بلدیہ عظمی کراچی کے افسران تجاوزات قائم کرانے پر ساڑھے تین کروڑ روپے ہفتہ بھتہ لیتے ہیں۔ گویا صرف کے ایم سی کے افسران، شہر میں گلیوں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر پتھارے، ٹھیلے، کیبن وغیرہ لگوانے کے 14 کروڑ ماہانہ رشوت وصول کرتے ہیں۔ اس کام کو باقاعدہ منظم کر دیا گیا ہے، شہر کو زون میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ہر زون میں بارہ چودہ گریڈ کا انسپکٹر تعینات ہے جو کم از کم ساڑھے چار لاکھ ہفتہ دیتا ہے زیادہ جو بھی ڈیل ہو جائے۔ بھتے کی یہ رقم سالانہ ایک ارب 68 کروڑ روپے ہے۔ شہریوں کے پلاٹوں اور سرکاری آراضی پر قبضہ اس سے الگ ہے۔۔ یہ ساری رقم سسٹم میں تقسیم ہوتی ہے یا افسران خود ہڑپ کر جاتے ہیں اس کی مصدقہ اطلاعات نہیں لیکن یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اس ساری کرپشن کے پیچھے مضبوط سسٹم نہ ہو تو افسر کتنا بھی طاقت ور ہے وہ تن تنا شہر کی سڑکوں اور گلیوں کو اس دلیری کے ساتھ قبضے میں نہیں لے سکتا۔۔ جب کہ بلدیہ عظمی کراچی کے پاس تو ہے ہی 33 فیصد علاقے کا لینڈ کنٹرول۔ 67 فیصد رقبہ پر کتنے کا دھندا ہو رہا ہو گا وَاللہُ اَعلَمُ بِالصَّواب۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ترقی کر کے کارپویشن کیا بنی کہ واٹر ٹینکر کا نظام مافیا بن چکا۔ سردیوں کے موسم میں جب پانی کم استعمال ہوتا ہے پھر بھی کمی ہے۔ گرمیوں میں کیا عالم ہو گا۔
پچھلے دنوں اطلاع آئی کہ واٹر لائن میں شگاف ہونے سے دریا سندھ سے آنے والے پانی کی سپلائی معطل رہے گی۔ اس کو حادثہ سمجھ کر شہری صبر شکر کرنے لگے لیکن واٹر کارپویشن کے افسران نے کمال ہوشیاری سے اس تعطل کو طول دی۔ تین مرتبہ پائب لائن کی مرمت کی اور دو مرتبہ خامی رہ گئی، گویا 2 یا تین یوم کے کام کو 15 دن لٹکائے رکھا۔ بعد میں خبر گردش کرنے لگی کہ اس تاخیری میں ٹینکر مافیا نے 4 ارب کا دھندا کیا۔ اس کا کوئی معقول ثبوت نہیں سوائے اس کے کہ مرمت اور خرابی، پھر مرمت اور خرابی اور پھر مرمت، شہریوں کو پانی کی کمی اور وسائل کا ضائع ہونے کی کوئی انکوائری ہوئی نہ شہریوں کو بتایا گیا کہ ایسا ہونے کی کیا وجوہات تھیں۔ وہ انجینیئر نالائق اور نااہل تھا یا عملہ غیر پیشہ ورانہ تھا۔ اس صورت حال میں منفی پروپیگنڈہ بھی سچ لگتا ہے۔ شہر میں صفائی کی صورت حال بھی سامنے ہے، جب سے بلدیاتی اداروں سے صفائی کا کام لے کر حکومت سندھ نے اپنی طویل میں لیا، معلوم ہی نہیں چلتا کہ کہاں سے کچرا اٹھایا جاتا ہے اور کہاں پھینکا جاتا ہے۔ شہر کے خالی پلاٹ، ندی نالے ہی کیا، انتہائی ترقی یافتہ ماڈرن علاقوں میں بھی کچرے کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں جہاں کے مکیں کروڑ، اربوں کا ٹیکس ادا کرتے ہیں تو کچی آبادیوں کا کیا تذکرہ کریں۔ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے سسٹم کو بے پیرہن کر دیا۔ کوئی ایک سڑک نہیں جہاں ٹریفک جام نہ ہو، کسی سنگنل پر نہ کوئی روکتا ہے، نہ سنگنل بتیوں میں رنگ ہیں کی کوئی تبدیل ہونے کے انتظار میں کھڑا رہے، منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طہ ہوتا ہے اور اس دوران توتو، میں میں الگ۔ نان تربیت یافتہ ٹریفک پولیس کے جوان دور درخت کے کنارے کھڑے گرگوں کی طرح شکار کو تاک رہے ہوتے ہیں۔ وسائل کی کمی نہیں لیکن مسائل کا انبار لگا ہوا ہے۔ کسی نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہے۔ کراچی کے بلدیاتی افسران نہ نالائق ہیں اور نہ نااہل۔ انہی ملازمین اور افسران نے اس شہر کو ترقی کی منازل پر پہنچایا اور انہی اداروں نے اسے ملکہ مشرق اور روشنیوں کا شہر بنایا تھا۔ اس وقت اور آج میں فرق یہ ہے کہ اس وقت یہ ادارے اور ان میں تعینات اہلکار ریاستی اختیارات اور وسائل کے ساتھ میدان عمل میں موجود رہتے تھے ۔ آج بلدیاتی ادارے انتظامی اور مالی طور پر مفلوج ہیں جب کہ ملازمین کو دوسرے کام میں لگا دیا گیا ۔ ایسا سوچی سمجھی سوچ اور منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا جس کے باعث بنیادی سطح کے یہ جمہوری ادارے منتخب قیادت کے باوجود عوام کی خواہشات اور ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ یونین کونسل کی کیا بات شہر کا سب سے بڑا بلدیاتی ادارہ "بلدیہ عظمی کراچی " جو قیام پاکستان سے قبل برصغیر کے عظیم بلدیاتی اداروں میں نمایاں اور سب سے زیادہ موثر اور متحرک تھا آج مفلوج ہے اور تین کروڑ افراد کے اس عظیم شہر کے منتخب مئیر کے ماتحت، فائر بریگیڈ، کراچی چڑیا گھر اور سفاری پارک کے علاوہ کوئی محکمہ یا خدمات نہیں تو شہریوں کی خدمت کیا کرنی۔ اس کے پاس شہر کی مرمت و دیکھ بھال کے لیے نہ کوئی اختیار ہے اور نہ وسائل۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء بلدیاتی اداروں کو مفلوک الحال بنانے کا ایکٹ ہے جس نے کراچی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ہاتھی کو بلدیہ کراچی کی شکل میں چوہا بنا دیا۔ جب کہ وقتا فوقتا اس میں بھی ترمیم کر کے اس چوہے سے بھی جان نکال دی گئی۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں۔ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979ء تو بحالی کا اعلان ہوا جس کے تحت شہری حکومتیں اور ٹاؤنز ختم کر کے ضلع کونسل، تعلقہ کونسل اور یونین کونسل قائم کی گئیں جب کہ کراچی میں میٹرو پولیٹن کارپویشن اور پانچ ضلعی کونسل بحال ہوئیں۔ لیکن عملا سب کچھ صفر ہی ہے۔ پرویز مشرف کا بلدیاتی نظام دنیا میں جدید اور وقت کی ضرورت تھا جس کے تحت نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال نے الگ الگ سیاسی سوچ ہونے کے باوجود شہر کو یکساں ترقی دی۔ ان کے پاس وسائل تھے اور اختیارات بھی، اس کا ریونیو ڈیپارٹمنٹ کسی صوبائی حکومت جیسا لگتا تھا اور اسی طرح ورکس اینڈ سروسز اور میونسپل سروسز بھی۔ یہ شخصیات کی دیانت داری تو اپنی جگہ لیکن ان کے پاس اختیارات اور وسائل نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ کر پاتے۔ سیاسی جماعتوں کو یہ نظام کبھی نہیں بہایا۔ پہلے دن سے متنازع رہا اس نظام کے تحت انتخابات بھی لڑتی رہی اور مخالفت بھی۔ شہر کا سب سے بڑا نقصان اس کے وسائل پر قبضہ کر کے کیا گیا۔ اس کا آغاز نواز شریف نے کیا جس نے چند چنیوٹی تاجروں کی خوش نودی کے لیے اکٹرائے ٹیکس کو ختم کر دیا اور باقی مقامی ٹیکسز جو بلدیہ عظمی کراچی کی آمدنی کا معقول ذرائع تھے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اپنی طویل میں لے لیے۔ نواز شریف صاحب نے جب اکٹرائے ٹیکس ختم کیا تو اس وقت بلدیہ عظمی کراچی کو لگ بھگ ساڑھے چار ارب کی سالانہ آمدنی سے محروم ہونا پڑا۔ جو آج 26 سال بعد کم از کم 35 ارب ہوتی۔ اگر بلدیہ عظمی کی اس آمدنی پر بطور بازوں قبضہ نہ کیا ہوتا تو آج اس کی مجموعی طور پر آمدنی 50 ارب روپے سے زیادہ ہوتی۔ یہ رقم سالانہ شہر پر لگ رہی ہوتی تو کیا مسائل باقی رہتے اس کا اندازہ لگانا قارئین پر چھوڑتے ہیں ۔ وہ بلدیہ عظمی کراچی جو سندھ کے بلدیاتی اداروں کو مالی امداد اور قرض دیتی تھی اپنے ہی ریٹائرڈ ملازمین کے بقایاجات کی 12 ارب کی مقروض ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین بلدیہ عظمی کی تاریخی عمارت کے فرشی فلور پر اس طرح منڈالا رہے ہیں جیسے گڑ پر مکھیاں۔ کئی تو اسی آسرے میں دنیا سے رخصت ہو گئے کہ بقایاجات ملیں گے تو بیٹی کی شادی کراوں گا۔۔ کیا بے آواز لاٹھی کبھی حرکت میں نہیں آئے گی سسٹم میں مصروف لوگوں کو اس پر غور کرنا چاہئے۔ کیا معلوم نواز شریف کو انہی غریبوں کی آہ لگ گئی ہو۔ بلدیہ عظمی کراچی حکومت سندھ کی طرف دیکھتی رہتی ہے کہ کچھ رقم آئے تو تنخواہ اور پنشن ادا کی جائے۔ شہری مسائل پر کیا توجہ دی جائے گی۔ گزشتہ سال شہر میں ہونے والی بوندا باندی سے سڑکوں پر جو گڑھے پڑے تھے ان کو بھرنے کے لیے وزیر اعلی سندھ نے اربوں روپے کی رقم جاری کی جس سے شہر کی کچھ جگہوں پر تارکول کا چھڑکاؤ کیا گیا، بھاری گاڑیوں کے بوجھ تلے تارکول کا یہ کہگل دھول بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ اس میں افسوس کا مقام یہ ہے کہ جماعت اسلامی کئی ٹاون پر قابض ہونے کے باوجود اس صورت حال پر خاموش ہے۔ جماعت اسلامی کے ٹاون ناظمیں سیرت النبی کانفرنس کرا رہے ہیں یا مشاعروں کے انعقاد میں مصروف ہیں۔ جماعت اسلامی کے ٹاون ناظمین کے درمیان اس پر مقابلہ چل رہا ہے کہ کس کا مشاعرہ شاندار تھا اور کس کا پھس پھسا۔ کیا بلدیاتی اداروں کا یہی کام رہ گیا؟ جی ہاں یہی کام رہ گیا۔ اس لیے کہ صفائی اب ان کا کام نہیں رہا، واٹر اور سیوریج اب ان کی ذمہ داری نہیں، اسٹریٹ لائٹ اور گلیوں سڑکوں کی مرمت اور استرکاری کے لیے ان کے پاس وسائل نہیں تو پھر وہ کیا کریں۔ شہر کی سول سوسائٹی کو بھی اب دل چسپی نہیں رہی لیکن آنے والی گرمیوں میں کراچی کے شہری بہت کرب میں ہوں گے جس پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے۔ کوئی اس پر بولتا ہی نہیں، کوئی سوچتا ہی نہیں۔ جماعت اسلامی کے منتخب نمائندے کم از کم ٹوٹی سڑکوں اور سڑکوں اور گلیوں میں بہتے سیوریج پانی کی تصویریں تو سوشل میڈيا پر آپ لوڈ کر سکتے ہیں اور یہ کام عام شہری بھی کر سکتا ہے تاکہ اہل وطن ان خرابیوں اور اس جمہوریت سے تو واقف ہوں، لیکن لوگ یہ کام بھی نہیں کرتے تو پھر جھیلیں یہ سارا عذاب۔
واپس کریں