دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کراچی میں کشمیر مرکز نگاہ، فرزانہ یعقوب کا دورہ، یکجہتی اور کلچر
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
ماہ فروری 2025ء کراچی میں مسلہ کشمیر مرکز نگاہ رہا۔ اظہار یکجہتی تقریبات پورا ہفتہ چلتی رہیں۔ مظاہرے اور کانفرنسز ہوتی رہیں۔ چوں کہ سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کبھی بھی کوئی جامع پالیسی اور حکمت عملی نہیں رہی۔ یوم یکجہتی کبھی جوش جزبے سے منایا جاتا ہے اور کبھی وقت گزاری کے لیے۔ اس مسئلہ کشمیر، تحریک آزادی کشمیر میں اچانک جان پڑھ گئی اور جکجہتی کشمیر بھی پہلے کے مقابلے میں بھاری انداز میں منایا گیا۔ ان سارے پروگراموں میں اچھی اور قابل توجہ بات یہ رہی کہ آزاد جموں و کشمیر کے جھنڈے کو پذیرائی ملی۔ جھنڈے کے بھی کئی رنگ ہیں ہر پروگرام اور ریلی میں جیسے بہار آئی ہو۔ پاکستان پیپلز پارٹی کشمیر کراچی چپٹر کے صدر سردار ذوالفقار علی نے کراچی پریس کلب کے سامنے کامیاب پروگرام کیا جہاں گراچی ڈویژن کے صدر اور صوبائی وزیر سعید غنی سمیت وقار مہدی اور دیگر رہنماؤں نے جموں و کشمیر کی جدوجہد آزادی میں ان کے ساتھ سندھ کے عوام اور حکومت کی جانب سے اظہار یکجہتی کیا۔ جماعت اسلامی نے ادارہ نور حق میں اور طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک نے گلشن اقبال کے دفتر میں کانفرنس منعقد کی، جماعت اسلامی کی کانفرنس میں مذہبی جماعتوں کے مقامی قائدین اور مولویوں نے جہاد جہاد سے ماحول کو ایسا گرمایا کہ بلآخر ہمیں کہنا پڑا کہ ہماری ریاست اور لوگوں پر کچھ رحم کھائیں کیوں ہماری ریاست کو تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جموں ریجن اور لداخ کو چھوڑ کر ہم وادی کو کیا کریں گے جب کہ آل پارٹیز حریت کانفرنس اور پاکستان کی مذہبی جماعتیں جموں و لداخ کی بات ہی نہیں کرتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں جہاد کیسے ہو اکثریت غیر مسلموں کی ہے لیکن ہیں تو کشمیری۔ میں نے مولویوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس جہاد نے پہلے ہی ایک لاکھ نوجوانوں کو قتل کرایا اور فائدہ ٹکے کا نہیں ہوا۔ الٹا بھارت نے پنڈتوں کو وادی سے نکال کر ہماری جدوجہد اور تحریک کو دہشت گردی کا لیبل لگایا اور اس پر دنیا کو قائل بھی کر دیا۔ ہم اپنے سچ کو بھی صحیح طریقے سے دنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکے کہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی، تشدد اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ اب پھر اسی ڈگر پر چل پڑھنے سے فائدہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ لیکن اسی دوران ہمارے پرانے مہربان اور شفیق انسان، جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر مسلم پرویز جو میزبان تھے کی پرچی آگئی کہ مغرب کا وقت نزدیک ہے اور مقرر کافی ہیں۔ کفتگو جو پہلے ہی طویل ہو چکی تھی مختصر کرنا پڑی۔ ٹاون چئیرمین اور آرٹس کونسل آف پاکستان کے حلقہ گل رنگ میں بھی مشاعرے اور تقریبات منعقد ہوئیں۔ مرکزی مسلم لیگ کی جانب سے ہفتہ یکجہتی کشمیر منعقد کیا گیا۔ کراچی بار کی ذیلی کمیٹی نے بھی سٹی کورٹ کے جناح آڈیٹوریم میں کانفرنس اور مشاعرہ منعقد کیا۔ اس کانفرنس میں تین ہی مقرر تھے، سابق سیکرٹری بار ایسوسی ایشن نعیم قریشی، یاسین آزاد ایڈووکیٹ اور راقم الحروف۔ نعیم قریشی کی مختصر گفتگو کے بعد مجھے اور بعد ازاں یاسین آزاد ایڈووکیٹ کو مدعو کیا گیا۔ ہمارا تو وکلا سے یہی سوال تھا کہ کشمیر پاکستان نہیں بنتا تو کیا بھارت کے قبضے میں رہنے دیا جائے۔ میری رائے تھی کہ پالیسی ساز مسئلہ کشمیر کے حوالے سے قوم کو دھوکہ دیتے ہیں۔ کشمیر پاکستان بناتے بناتے بھارت نے قبضہ کر لیا۔ وہ بانیال کے سینے کو چیر کر ریل سری نگر لے آیا، اب دوسری سرنگ نکال کر دریا جہلم اور کشن گنگا کا پانی بھارت میں لے جائے گا جس سے پاکستان بنجر ہو جائے گا۔ اس پر عوامی سطح پر مباحثہ ہونا چاہئے کہ ہمارا بیانیہ دنیا نے مسترد کیوں کیا، اس میں صداقت نہیں ہے یا ہماری سفارت کاری میں جان نہیں ہے۔ ہمیں مسئلہ کشمیر پر نیا بیانیہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کو سفارتی شکست دی جا سکے۔ کشمیریوں نے خون دے کر بھارت کو شکست دی ہمارا وکیل جیتا ہوا مقدمہ ہار کیا یا سرے سے مقدمے کی پیروی ہی نہیں کی۔ ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کا احتجاجی مظاہرہ اور بعد ازاں گورنر ہاؤس میں سیمینار جس میں سول سوسائٹی کے علاوہ غیر ملکی سفارت کاروں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ انتظامیہ کی کوشش تھی کہ ہر مقرر پانچ منٹ بولے، پہلے مقرر کے طور پر میں نے تو کافی حد تک وقت پر بات ختم کرنے کی کوشش کی، مجھے یہ سہولت ملی کہ گورنر صاحب کی آمد سے پہلے آدھی تقریر کر چکا تھا۔ ہمارے بعد آنے والے مقررین سوائے بریگیڈیئر حارث کے کسی نے وقت کی پابندی نہیں کی تو سیمینار کا دورانیہ ڈبل ہو گیا۔ حریت رہنما یوسف نسیم، یاسین آزاد ایڈووکیٹ، ڈاکٹر خالدہ غوث، اور چئیرمین جمشید حسین نے مسئلہ کشمیر اور اس کی پیچیدگیوں پر اظہار خیال کیا۔ یوسف نسیم کے جذباتی خطاب کے بعد گورنر سندھ کامران خان ٹسوری نے انتہائی تعمل سے گفتگو کی اور کہا کہ کشمیریوں کو اس جنگ میں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ فروری میں ہی آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں کشمیر کلچر نائٹ کے نام سے دو پروگرام ہوئے۔ کلچر پروگراموں کے آرگنائزر کچھ آمدنی چاتے ہیں۔ جاڑے میں وادی نیلم سے کراچی پہنچتے ہیں۔ فروری میں کلچر نائٹ کرتے ہیں اور بیساکھ میں سوختہ سامان کے ساتھ وادی میں وارد ہوتے ہیں۔ جب کہ سرپرست مخلص ہونے کے باوجود فن و ثقافت میں ناتجربہ کار ہیں ناچ کانے کو ہی کلچر سمجھتے ہیں۔پہلا پروگرام جو 2 فروری کو تھا مسلم لیگ ن نے آرگنائز کیا ہمیں دعوت نہیں تھی اس لیے بن بلائے مہمان بننے کی کوشش نہیں کی۔ دوسرا پروگرام پیپلز پارٹی کے عہدیداروں نے آرگنائز کیا، دونوں پروگراموں میں شامل ہونے والوں کا کہنا تھا کہ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں تھا، سوائے اس کے کہ دوسرے پروگرام میں نامور گلوکارہ بانو رحمت نے وطن کے نغمے گاہ کر پروگرام میں رنگ بھر دیا۔ یہ پروگرام اس لحاظ سے اچھے ہیں کہ کشمیر کے نام پر لوگ تو جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو ممکن ہے آئندہ بہتر ہو جائے۔ اس سے قبل جنوری کے آخری عشرے میں فرزانہ یعقوب کا دورہ کراچی بھی خاصا اہم اور کامیاب رہا، جہاں کراچی پریس کلب اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں علیحدہ علیحدہ تقریبات منعقد ہوئیں۔ کراچی پریس کلب میں سنئیر صحافیوں، تجزیہ کاروں اور ایڈیٹران کے ساتھ ملاقات کے موقع پر انہوں نے برملا پاکستان کی کشمیر پالیسی کو آشکار کیا اور لگی لپٹی بغیر سنئیر صحافیوں کے سامنے مسئلہ کشمیر کے خدوخال کو واضع کیا۔ انہوں نےکہا " لاکھوں شہادتوں کے باوجود کشمیری اپنے موقف پر ڈے ہوئے ہیں کہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا۔ ہم پاکستان کا مقدمہ لڑ رہے ہیں لیکن پاکستان کا نوجوان مسئلہ کشمیر بھولتا اور اس کو بوجھ سمجھ رہا ہے۔۔۔ میڈیا نوجوانوں کی رہنمائی کرے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان پر بوجھ نہیں پاکستان کا اثاثہ ہے۔ فرزانہ یعقوب نے منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح جو اپنے تجربے اور مہارت سے دلائل دیتے ہوئے دوسرے کو اپنے موقف پر قائل کرتا ہے چوٹی کے صحافیوں کے سامنے اپنا مقدمہ رکھا اور چبتے ہوئے سوالات کی انتہائی مہارت سے جوابات بھی دئیے بعد ازاں میڈیا پرسن نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جموں و کشمیر کی نوجوان قیادت سیاسی سوجھ بوجھ اور اپنے مقدمے سے باخبر ہے۔ فرزانہ یعقوب نے پاکستان کے مین سٹریم میڈیا پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے چینلوں پر خصوصی وقت مختص کیا جائے۔ اگر نوجوانوں کی بروقت درست رہنمائی نہ کی گئی تو صرف کشمیریوں کا ہی نہیں پاکستان کا بھی نقصان ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری پاکستان کے پانیوں کے قیمتی اثاثے کے محافظ ہیں۔ بھارت کشمیریوں کی نسل کشی اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر رہا ہے لیکن کشمیری نہ تھکے ہیں نہ مایوس ہوئے ہیں یہ جنگ لمبی ہے اس کے لیے ہم ذہنی طور پر تیار ہیں۔ انہوں نےکہا کہ کشمیر کے ساتھ پاکستانی نوجوانوں کی دوری خوف ناک صورت حال ہے وہ دشمن جو آج دھمکیاں دے رہا ہے کشمیر پر قانونی قابض ہونے کے بعد کیا کرے گا اس کا اندازہ کشمیریوں کو خوب ہے۔ بھارت کشمیر پر تو قابض ہے لیکن کشمیریوں کو فتح نہیں کر سکا۔ اگر 5 اگست 2019ء کے بعد کشمیر کا مسلہ حل گیا تو کشمیر میں تعینات آدھی آرمی ہی نکال لے معلوم ہو جائے گا حالات کتنے قابو میں ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں فرزانہ یعقوب نے کہاکہ اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں سے کشمیریوں کے دل نہیں جیتے جا سکتے اس کے لیے رائے شماری ہی واحد حل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں دو آپشن ہیں تاہم اب لوگ تیسرے اپشن پر بھی سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ شمولیت نہیں تو تیسرا اپشن ہونا چاہئے۔ ان کا مقصد بھارت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ کشمیر کی دونوں جانب اس سوچ میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ایسا نہیں کہ یہ سوچ ناقابل واپسی تک پہنچ گئی۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کے حسینہ معین ہال میں کشمیر کی بیٹی مصائب و مزاحمت، سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فرزانہ یعقوب نے کہاکہ کشمیر کی خواتین آزادی کی تحریک میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں ۔ کشمیریوں میں امید باقی ہے کسی کو نا امیدی کی اجازت نہیں پاکستانیوں کی ہمدردی نہیں عملی اقدام چاہیے۔۔ بھارتی فوجیوں نے کشمیر میں ایک رات میں  سو خواتین کی آبروریزی کی، ان مظالم کے باوجود خواتین مزاحمت کر رہی ہیں۔ آزاد کشمیر کے عوام اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر آواز اٹھائے۔ ہمیں ان لوگوں کی آواز بننا ہے جو آواز نہیں اٹھا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کشمیریوں پر فخر ہے وہ آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ احتجاج اس لیے کرتے ہیں کہ ان کی جان اور مال پر بھارت نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے۔ پروینہ آہنگر ایک بہادر عورت تھیں جس سے ہندوستان کی فوج بھی ڈرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم کشمیری اپنا کام کر رہے ہیں۔آزاد کشمیر کی حکومت صرف اس جگہ بات کرتی ہے جس کا دروازہ پاکستان کھولتا ہے۔ ہم سے بہت غلطیاں ہوئی ہیں ۔ آزادی کی اس جدوجہد میں نوجوانوں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ فرزانہ یعقوب کے دورے پروگراموں اور وفود سے ملاقاتوں سے کراچی کی فضاؤں میں مقدمہ کشمیر کے حوالے سے خاصی حوصلہ افزائی ہوئی۔ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کشمیر اب ختم ہو گیا ان کی رائے تبدیل ہو رہی ہے ۔ کشمیری سیاسی قیادت کو کراچی کا دورہ کرنا چاہئے کراچی آج بھی بین الاقوامی اور اہل فکر کا شہر ہے۔ یہاں کے لوگ بات سنتے اور سمجھتے ہیں۔
واپس کریں