برطانیہ کے سرکاری عالمی میڈیا ادارے'' بی بی سی'' نے کشمیر کے بارے میں بھارتی دعوے کو جھوٹ ثابت کرتے ہوئے عریاں کر دیا
لندن (کشیر رپورٹ)جموں وکشمیر میں بھارتی حکومت کے اس دعوے کہ وہاں امن ہو گیا ہے ، کے حوالے سے برطانیہ کے سرکاری میڈیا ادارے ' بی بی سی' نے ایک رپورٹ شائع کی ہے اور ایک اہم عالمی میڈیا ادارے کی اس رپورٹ نے کشمیر سے متعلق بھارت کے دعوے کو غلط ثابت کرتے ہوئے عریاں کر دیا ہے۔'بی بی سی ' نے سال کے آخری دن ،31 دسمبر 2022 کو اپنی اس رپورٹ میں بتایا ہے کہ
'' گھر پر بھی جب ہم بات کر رہے ہوتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں بات مت کرو۔ ہوسکتا ہے فون ٹیپ ہو رہا ہو۔ یہ سب نفسیاتی طور پر ہونے لگا ہے، راستے میں بھی لوگ دھیمی آواز میں بات کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہیں۔یہ کہنا تھا انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی سلطانہ (فرضی نام) کا جن سے بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کشمیر سے ان دنوں نہ احتجاج کی خبریں آ رہی ہیں نہ کسی قسم کی مزاحمت کی۔ کیا کشمیر میں واقعی سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے ؟ سلطانہ کا کہنا ہے کہ انڈین حکومت اب مختلف طریقے سے آوازوں کو دبا رہی ہے۔ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ احتجاج ہوں گے اور یہ تصور تھا کہ تشدد ہوگا، بندوقیں ہوں گی، راستوں پر جھڑپیں ہوں گی۔ لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے۔بہت ساری ویب سائٹس کشمیر کے بارے میں بات کرتی ہیں، (مگر) وہ کشمیر میں نہیں چلتیں۔ سوشل میڈیا اکانٹس معطل کر دیے جاتی ہیں۔میرے خیال میں ہم کسی کو مارے بغیر ایک قسم کا آن لائن احتجاج کر رہے ہیں۔ لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹ کریں تو کسی نہ کسی الزام کے تحت گرفتار کر لیا جاتا ہے، لوگوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور اس طرح تفتیش کرتے ہیں۔دھیرے دھیرے وہ ماحول بن رہا ہے، جہاں لوگوں کو لگ رہا ہے کہ اگر اپنی زندگی بچانی ہے تو پھر بات کم کرنی ہے۔
خوف کا ماحول: مختلف طریقوں سے ہراس کیا جاتا ہے۔عام کشمیریوں نے اس ماحول کے حوالے سے بی بی سی کو بتایا ہے۔ایک خاتون کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ خطے میں تشدد کو ڈاکومنٹ کرنے کی قیمت چکانی پڑے گی۔ کچھ لوگوں کو مثال بنا سب کو خاموش کر دیا گیا ہے۔ایک اور خاتون نے بتایا کہ لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ کوئی لکھے تو وہ گرفتار ہو جاتا ہے۔ صرف کشمیر کے باہر نہیں بلکہ کشمیر کے اندر بھی کوئی خبر نہیں۔ ہم جو سانس لیتے ہیں اس تک میں خوف ہے۔ایک نوجوان کشمیری مرد نے بتایا کہ صرف کشمیری ہی نہیں، مجھے لگتا ہے انڈیا بھی اس خاموشی پر الجھن میں ہے۔ پتا نہیں کشمیریوں کی خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھداری ہے یا پھر ناامیدی۔اگر سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاریوں کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو اس کی وجہ کچھ سمجھ آنے لگتی ہے۔
ایمنسٹی انٹر نیشنل کے مطابق پانچ اگست 2019 کے بعد سے انڈین حکام نے کم از کم 27 صحافیوں کو گرفتار کیا اور قید رکھا۔ اور اسی عرصے میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈان کے 60 واقعات رپورٹ ہوئے۔ایمنٹسی انٹرنیشنل کے مطابق 2022 تک تین برسوں میں اس غیر قانونی حراست کے خلاف دائر درخواستوں میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔ اور ان کیسز میں یو اے پی اے، اور پی ایس اے جیسے متنازع قوانین کے استعمال کے شواہد ملے ہیں۔اس کے علاوہ لوگوں کی نقل حرکت پر غیرقانونی اور غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ جیسے کہ پولیٹزر ایوارڈ جیتنے والی ثنا ارشاد مٹو کو ویزا اور ٹکٹ ہونے کے باوجود ملک سے باہر سفر کرنے سے روک دیا گیا۔ماہرین کہتے ہیں کہ اس نے ایک خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔
صحافی اور تجزیہ کار انورادھا بھسین کہتی ہے کہ حکومت کی جانب سے نگرانی کے ذریعے نمٹا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ خاموش ہوجاتے ہیں کہ ہم پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ کئی سوشل میڈیا صارفین کو بھی کئی بار اسی طرح سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے جس طرح پریس کو۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مختلف طریقوں سے ہراس کیا جاتا ہے۔ حراست میں لیا گیا، ان پر کریمنل کیسز ہوئے۔ کچھ کو فون کال پر ڈرایا گیا۔ اس کے سمن جاری ہوتے ہیں، تفتیش ہوتے ہی باقاعدہ ایک ڈر کا ماحول بنا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ کچھ نہیں بول پا رہے ہیں۔ کشمیر میں خوف اور غیریقینی کی ایک وجہ شاید بدلتے قوانیں بھی ہیں۔ سنہ 2019 کے بعد کشمیر میں سیاسی اور انتظامی طور پر غیر معمولی تبدیلیاں آئی ہیں۔تین اہم قوانین جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ وادی کا پورا نقشہ ہی بدل دیں گے۔
جائیداد کی خرو د فروخت: آرٹیکل 370 کے خاتمے سے پہلے صرف جموں و کشمیر کے رہائشی ریاست میں جائیداد کی خرید و فروخت کر سکتے تھے۔ لیکن اب کوئی بھی انڈین شہری یہاں جائیداد خرید سکتا ہے۔
ووٹنگ اور سیاسی امیدوار بننے کا حق: آرٹیکل 370 کی وجہ سے صرف مستقل رہائشی جموں کشمیر میں ووٹ ڈال سکتے تھے یا یہاں امیدوار بن سکتے تھے۔ اب یہ پابندی ختم ہو گئی ہے۔
ڈومیسائل کا حق: یہاں ڈومیسائل صرف مقامی لوگوں کو مل سکتا تھا۔ اب کوئی بھی شخص جو یہاں 15 سال سے ہو وہ یہاں کا ڈومیسائل حاصل کر سکتا ہے۔ مرکزی حکومت کے حکام اور ان کے بچوں کے لیے یہ حد 10 سال ہے۔ جبکہ ہائی سکول کے طالب عللموں کو ساتھ سال بعد ڈومیسائل مل سکتا ہے۔
مقامی لوگوں کو خدشہ ہے باہر کے لوگوں کو بڑی تعداد میں ڈومیسائل کا حق حاصل ہو جائے گا اور اس سے وادی کی شکل بدل دے گا۔انڈین حکومت کہتی ہے کہ یہ خدشات بے بنیاد ہیں اور آرٹیکل 370کے خاتمے سے دراصل کشمیریوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔جموں کشمیر میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کہتے ہیں کہ میں ذمہ داری سے ایک بات کہہ سکتا ہوں کہ اس مقصد کے لیے آرٹیکل 370 ہٹایا گیا تھا، ان تین برسوں میں وہ کافی حد تک پورا ہوا ہے۔ملک کی پارلیمان جو قانون بناتی تھی، کئی قوانین میں لکھا جاتا تھا کہ یہ قانون لاگو ہوں گے۔ جموں کشمیر کے علاوہ اور اس کا فائدہ کشمیری باشندوں کو نہیں ملتا تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک تو سیدھا فائدہ یہ ہوا کہ 890 کے آس پاس ایسے قانون ہیں مرکزی حکومت کے، جو جموں کشمیر میں لاگو ہو گئے ہیں۔
لیکن کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی اتحادی رہنے والی جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے رہنما موہت بھان، کا کہنا تھا کہ پانچ اگست 2005 کے بعد کے تین سال ایک خاموشی کا دور رہا۔ ہر حساب سے۔ لوگ صدمے میں ہیں۔ جس حساب سے قانون ختم ہوا اور جو مرکزی حکومت کی جانب سے فیصلہ لیے جا رہے ہیں، لوگ اس پر رد عمل ہی نہیں دے رہے۔ان کا مزید کہنا تھا لوگوں کی جمہوری نظام کے تئیں اس قدر غیر یقینی ہے کہ وہ یہ بھی ضروری نہیں سمجھتے کہ ہم اس پر کوئی بات کریں۔بھروسہ اس حد تک ٹوٹ چکا ہے۔ غصہ اتنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کے بات کرنے کا فائدہ نہیں۔ انھیں کچلنا ہے تو کچلنے دو۔
اس سب سے حکومت حاصل کیا کرنا چاہتی ہے؟اس بارے میں صحافی اور تجریہ کار انورادھا بھسین کہتی ہیں مودی یا آر ایس ایس سرکار کا ایجنڈا صرف علاقائی ہیئت بدلنا نہیں ہے بلکہ وہاں کی آبادی کو بے اختیار کرنا ہے۔جتنے بھی قانون بن رہے چاہے وہ ووٹ ڈالنے کے حق سے متعلق ہیں غیر ریاستی لوگوں کو ووٹ کا حق دے رہے ہیں یا انھیں ڈومیسائل دے رہے ہیں۔ یا جو مقامی پارٹیوں کو سائیڈ لائن کر رہے ہیں، ان کا مقام کم کیا جا رہا ہے تو ظاہر ہی لوگ خود نہیں ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ اب سوال یہ ہے کہ لوگ کیوں نہیں نکل رہے تو اس لیے نکل نہیں رہے کہ ڈر کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔ لوگوں کو مختلف طریقوں سے خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔
انڈین حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ کشمیر کی خاموشی در اصل امن ہے۔کشمیر میں لوگ بات کرتے کتراتے ضرور ہیں لیکن انڈین اور کشمیریوں کے درمیان جو بھروسے اور اعتماد کی کمی تھی وہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی ہے۔شناخت کے تحفظ کے پیش نظر بی بی سی نے کرداروں کے نام تبدیل کیے ہیں۔''
واپس کریں