سیاسی مسائل کے صِرف سیاسی حل ہونے چاہئیں۔پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق
لاہور(کشیر رپورٹ) پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی چیئر پرسن حنا جیلانی کی طرف سے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران اور آئینی تعطل پر غور و خوض کے لیے منعقد ہونے والے ایک انتہائی اہم اجلاس کے اختتام پر، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی گورننگ کونسل اِس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جمہوری عمل کو برقرار رکھنا اور مستحکم کرنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ایچ آر سی پی کو شدید تشویش ہے کہ اِس بحران نے سیاسی میدان میں انتشار کی فضا پیدا کی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ صورتِ حال ان اقدامات کی وجہ سے پیدا ہوئی جو جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے اور پارلیمان کی افادیت اور قانونی حیثیت کو نقصان پہنچانے کے لیے کیے گئے تھے۔ ایک سیاسی جماعت نے پہلے قومی اسمبلی چھوڑی اور پھر دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ بعد ازاں، حزبِِ اختلاف نے قومی اسمبلی میں واپسی کی کوشش کی تو حکومت میں شامل کئی افراد نے اِس عمل کو ناکام بنانے کی کوشش کی اور رکاوٹیں پیدا کیں۔
ایچ آر سی پی کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کی تحلیل سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے کی گئی تھی، مگر ہمیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اِن اسمبلی انتخابات کو اکتوبر تک ملتوی کرنے کے فیصلے پر بھی تشویش ہے۔ ہم اِن جائز خدشات سے بھی آگاہ ہیں کہ اِس قسم کے فیصلے مستقبل میں جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے بطورِ نظیر استعمال ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ ایچ آر سی پی کا ماننا ہے کہ آئین ایسے حل فراہم کرتا ہے جو انتخابات میں تاخیر کو جائز قرار دے سکتے ہیں، لیکن اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایسی کوئی بھی تاخیر ممکنہ حد تک مختصر، ناگزیر اور تاخیر کے مقاصد کے حصول کی حد تک ہو۔ چنانچہ، تمام سیاسی جماعتوں اور فریقین کے درمیان اِس طرح کی تاخیر کے جواز پر اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔ انہیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے جسے کسی بھی صورت دہرانا نہیں چاہیے۔ انتخابی عمل کو بھی آزادانہ، منصفانہ، معتبر اور شفاف ہونا چاہیے اور نتائج تمام سیاسی فریقین کے لیے قابلِ قبول ہوں۔
ایچ آر سی پی کو یہ جان کر مایوسی ہوئی ہے کہ عدلیہ نے اختیارات کی تین اداروں میں تقسیم کے آئینی اصول کا احترام نہیں کیا۔ اِس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ عدالتِ عظمی آئین کی تشریح کرتے ہوئے اپنے اختیارات میں اضافہ کرتی ہے جس کے نتیجے میں دیگر جمہوری ادارے کمزور پڑ جاتے ہیں۔ عدلیہ کو اپنی خودمختاری، وقار اور ساکھ کو محفوظ کرنا چاہیے۔ اِسے دوسرے آئینی اداروں کے دائرہ کار میں مداخلت کی کسی بھی خواہش پر قابو پانا چاہیے اور اِس کے بجائے ایسے تمام اداروں کو موقع دینا چاہیے کہ وہ اپنے آئینی دائرہ کار میں آنے والے مسائل خود حل کر سکیں، اور یوں ان اداروں کے استحکام میں ان کی مدد کرے۔ ہم یہ بھی پختہ یقین رکھتے ہیں کہ کسی بھی جانب سے غیر جمہوری مداخلت کی دھمکیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ایچ آر سی پی نے سیاسی عناصر کی جانب سے پرتشدد اور غیر قانونی رویے کی شدید مذمت کی ہے۔ اِس قسم کے رویے کا مقصد اپنے سیاسی ایجنڈے کے فروغ کے لیے بدنظمی پیدا کرنا ہے۔ بیک وقت، ایچ آر سی پی سیاسی جبر کے ایک ذریعہ کے طور پر ریاستی دھونس و دھمکی اور طاقت کے غیر ضروری استعمال کی بھی مذمت کرتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر شدید تشویش ہے کہ اِس دوران بغاوت کے نوآبادیاتی قوانین کا سہارا لیا گیا، سیاسی مخالفین کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج ہوئے، لوگوں کو اٹھا کر لاپتا کیا گیا، اور پیمرا کی غلط تجاویز اور اقدامات کے نتیجے میں اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں لگیں۔آخری نکتہ یہ ہے کہ حالیہ بحران کی اصل نوعیت سیاسی ہے قانونی نہیں۔ حزبِ اِختلاف اور حزبِ اِقتدار کے پاس اِس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ پاکستان کے عوام کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اِس مسئلے کے حل کے لیے پارلیمان میں سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات کریں۔
واپس کریں