وزیر اعظم انوار ہر ایک پہ شک کرتے ہیں،حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کر سکتے ہیں،31 اگست کی ہڑتال اور پرامن احتجاج کی حمایت کرتے ہیں، راجہ فاروق حیدر خان کی پریس کانفرنس
مظفرآباد( کشیر رپورٹ)سابق وزیراعظم آزادکشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا ہے مسلم لیگ ن موجودہ صورتحال میں حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کرسکتی ہے،صدر اور جنرل سیکرٹری کی آمد کے ساتھ ہی ملاقات ہوگی،میری رائے حکومت سے علیحدگی کے حق میں ہے۔سیاسی کارکن ہوں،عوام سے الگ نہیں رہ سکتا،ریاست میں طوائف الملوکی برداشت نہیں اور نہ ہی یہ خطہ ناسمجھوں کے سپرد کرسکتے ہیں، 31 اگست کی ہڑتال اور پرامن احتجاج کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں ،وزیراعظم آزادکشمیر انوارالحق ہر ایک پرشک کرتے ہیں۔اسامیوں کے نام پر نئے صوبوں کی بنیادیں نہ رکھیں،ڈویثنز میں پہلے ہی بہت تقسیم ہے وزیراعظم آڈیٹر نہ بنیں،یہ ان کے منصب کے شایان شان نہیں،وزیراعظم کا منصب بہت اعلی ہے،پونچھ کے لیے اعلان کردہ پیکیج سے بجلی کے بل کم نہیں ہوسکتے اور نہ ہی دیگر مسائل حل ہوں گے۔سول نافرمانی کا مطلب دفعہ 56کے استعمال کو دعوت دیناہے،جس کی کسی صورت حمایت نہیں کی جاسکتی معاہدہ کراچی در اصل معاہدہ 1935کی تجدید تھی جو صدارتی ایکٹ 1970 اور ایکٹ 74 کے بعد غیر متعلق ہوگیا،اسلام آباد میں ایسی سوچ موجود ہے جو آزادکشمیرکے اندر سپریم کورٹ اور صدر کی کیا ضرورت ہے جیسے سوال کرتے ہیں،5اگست 2019 کے واقعات باجوہ ڈاکٹرائن کا حصہ تھے،موجودہ فوجی قیادت نے باجوہ ڈاکٹرائن سے دوری اختیار کر کے کشمیریوں کے اندر اعتماد پیدا کیا۔
مرکزی ایوان صحافت میں بدھ کے روز ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ اس وقت آزادکشمیر میں بجلی کے بلات میں اضافے اور سستے آٹے کی عدم دستیابی پر عوام آزادکشمیر بھر میں سراپا احتجاج ہیں،وزیراعظم نے اگرچہ میٹنگز کیں مگر کوئی نتائج نظر نہیں آرہے، یہ مسئلہ حل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے،نیلم جہلم پراجیکٹ کی وجہ سے مظفرآباد میں پانی کی کمی کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے،ماحولیاتی مسائل بڑھنے سے مظفرآباد کے درجہ حرارت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ سیاسی کارکن ہوں جینا مرنا عوام کے ساتھ ہے وزارتوں،وزارت عظمی کی عوام کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں،لوگوں کی مشکلات،پریشانیاں جائز ہیں مطالبات درست ہیں جن کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔منگلا ڈیم افتتاح کے وقت اس وقت کے صدر آزادکشمیر کو دوسری لائن میں بٹھایا گیا تھا،آزادکشمیر میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز نہیں لیے جانے چاہئیں،ایک طرف ہمارے دریاں کا رخ موڑا جارہا ہے دوسری جانب ٹیکسز بڑھادیئے گئے ہیں۔نیلم جہلم پراجیکٹ کا جواز یہ دیا گیا کہ ہم نے نہ بنایا تو ہندوستان دریا کا رخ موڑ لے گا،نیلم جہلم ابتدائی ساڑھے چارسو میگاواٹ کا تھا اگر یہی رہتا تو آج مظفرآباد میں ماحولیات کا مسئلہ پیدا نہ ہوتااور پانی کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا۔نیلم ویلی دومیل سے شروع ہوتی ہے میرے دورحکومت میں نیلم جہلم کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا،وزیراعظم پاکستان وقت عمران خان کے پاس دو دفعہ گیا کہ ہمارے ماحولیاتی مسائل حل کریں۔
انہوں نے کہا کہ بجلی بلوں کے معاملے پر عوام کے ساتھ ہوں،عوام اتنے بھاری بل ادا نہیں کرسکتے،اضلاع میں انتظامی افسران کی تعیناتی سے مسائل حل نہیں ہونگے،نئے دفاتر قائم ہوئے تو کیا بجلی سستی ہوجائیگی،کسی انتظامی معاملے سے نمٹنے کے لیے یہ حکمت عملی کامیاب نہیں۔18 ارب روپے تنخواہوں میں اضافہ پر خرچ ہوں گے،آزادکشمیر کے لیے لوگوں نے قربانیاں دیں آزادکشمیر کے خطے کی تذلیل کرکہ پھر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں پھر وہی بات ہوگی کہ ہمارے سارے اضلاع کا رقبہ آزادکشمیر سے بھی کم ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیاپر جاری پروپیگنڈہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی حمایت کرنے والے 1لاکھ شہدا کے مجرم کی بھی حمایت کریں اور مقبوضہ کشمیر پر ناجائز قبضے کی بھی توجیح پیش کریں،لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کا نشانہ بننے والوں کے حوالے سے بھی پالیسی دیں۔چندریان پر خوشی کے شادیانے بجانے والوں کو کشمیر کی مائوں،بہنوں کی عصمت دری اور قتل عام یاد نہیں۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ گلگت کو زبردستی صوبہ بنانا چاہتا تھا ہم نے خود گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ قانون ختم کیا۔
ایک سوال پر راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ سول نافرمانی کی تحریک چلانے والے کیا آزادکشمیر میں دفعہ 56 لگوانا چاہتے ہیں؟ کیا مطلب جانتے ہیں اس کے نتائج کیا ہونگے؟ پھر بنیادی انسانی حقوق ہی ختم ہوجائیں گے آزادکشمیر کے موجودہ بلات قابل ادائیگی نہیں آزادکشمیر حکومت کو وفاقی ٹیکسز سے اس کے انکم ٹیکس کے طے شدہ اہداف کے مطابق ادائیگی کی جائے جو کہ 3.64ہے۔مظفرآباد اجڑ گیا ہے،پانی کی جھیلیں اور دارلحکومت کے لیے واٹر سپلائی سکیم دی جائے،یہاں کی اسامیوں پر مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے،،سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس سمیت ماحولیاتی مسائل حل کیے جائیں۔وزیراعظم مظفرآباد آئیں اور یہاں بیٹھ کر لوگوں سے بات کریں ان کی تلخ و شیریں باتیں سنیں،وزارت خارجہ میں نگران وزیر خارجہ سے ملاقات اچھی رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب پر راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ کا 14 ارب روپے اب تنخواہوں کے اضافے کے لیے خرچ ہوگا بجلی کے بلوں سے جو آمدن ہوتی ہے وہ بھی ضروری ادایئگیوں میں خرچ ہوجاتی ہے۔ایک اور سوال پر فاروق حیدر نے کہا کہ مقبول بٹ اور یاسین ملک ہمارے ہیرو ہین،مقبول بٹ کی برسی پر میں نے ہی چھٹی کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے عوض سردار قیوم خان سردار ابراہیم خان اور سکندر حیات کو گالیاں نہیں سن سکتے۔آزادکشمیر حکومت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ اس کا کوئی سر پیر ہی نہیں، پاکستان میں 16رکنی کابینہ ہے،ادھر 30وزرا کا کوئی جواز نہیں،،ہم حکومت گرانے کے حق میں نہیں،دراصل سیاسی جماعتوں کا کردار ختم ہوگیا،صدر جماعت اور سیکرٹری جنرل واپس آئیں تو فیصلہ کریں گے،میری تجویز ہے کہ حکومت سے علیحدگی اختیار کی جائے،کہا جاتا ہے کہ ایم ایل ایز کی حکومت ہے تو جماعت کدھر جائے گی،آزادکشمیر اور ہری پور میں فرق ہے یہ متنازعہ علاقہ ہے،2021 کے الیکشن خاص مقصد کے تحت کروائے گئے تھے،میں بھی ن ہٹا کر ب لگا کر دوبارہ وزیراعظم بن سکتا تھا لیکن نہیں کیا،آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے الیکشن چرائے گئے تھے ایک سازش کی تکمیل کے لیے ایسا کیا گیا،پورٹ فولیوز نا دینے سے مسائل پیدا ہوئے،محکمے نہ ملنے پر وزرا کو استعفے دے دینا چاہیے،آزادکشمیر میں طوائف المولکی برداشت نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ ریاست ناسمجھوں کے حوالے کی جاسکتی ہے،،اپوزیشن بھی حکومت میں ہے،یہ عجیب تماشا ہے،اس وقت اوقاف لبریشن سیل زکوات میڈیکل کالج والوں کو ابھی تنخواہ نہیں ملی،پاکستان کے عوام کو دور نا کریں سیاست دانوں کی غلطیاں ہوسکتی ہیں ان سے اختلاف بھی کریں لیکن مملکت پاکستان کی مخالفت قابل قبول نہیں،پاکستان کو گالی ناقابل قبول ہے۔پاکستانی عوام کی طاقت ہے کہ ان کے خوف سے آج تک کسی کو کشمیر پر سمجھوتے کی ہمت نہیں ہوئی۔راجہ فاروق حیدر خان نے آج کی عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے ہڑتال کی مکمل حمایت کا اعلان بھی کیا۔
واپس کریں