دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کا آزاد کشمیر اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے اہم خطاب
No image مظفرآباد( کشیر رپورٹ)سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے نے کہا ہے کہ 5اگست 2019کے بعد کشمیر کے دونوں اطراف مایوسی پھیلی اور کشمیریوں کے تحفظات کا کوئی مداوا نہیں کیا گیا،جب عمران خان بحیثیت وزیراعظم آزادکشمیر تشریف آئے تو اس کے بعد آزادکشمیر کی ساری سیاسی قیادت کی جانب سے مستقبل کا مشترکہ لائحہ عمل وزارت خارجہ میں دیا گیا، آج تک نہ ان تجاویز کا کوئی پتا چلا اور نہ ہی کوئی اجلاس ہوا،پاکستان میں کشمیر کمیٹی میں سب سے غیر معروف لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے،یہ سیاسی جماعتوں کی ترجیح ہونی چاہیے۔میں اڑھائی سالوں سے ملکی سلامتی کے اداروں کو یہ بتاتا رہا کہ وقت آرہا ہے لوگ اس کوشش میں ہیں کہ پاکستان کے عوام اور کشمیریوں کے درمیان دراڑیں،دوریاں ڈالی جائیں اور اس کے لیے منظم انداز میں کام جاری ہے کسی نے میری بات پر توجہ نہ دی،میں نے وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف کو بھی چند ماہ قبل خط لکھ کر مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے اپنے خطرات سے آگاہ کیا تھا مگر اس کا کوئی جواب نہ ملا،ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب مرض لاعلاج ہوجاتا ہے،کینسر سٹیج 4 پر پہنچ جاتا ہے تب ہم اس کا علاج شروع کرتے ہیں۔گرین ٹورازم والا کھیل کسی صورت قبول نہیں،موجودہ حکومت کے وزیراعظم نے بھی چلے جانا ہے یہاں کوئی بھی مستقل نہیں۔
قانون ساز اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے تفصیلی خطاب میں سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے ماضی،حال اور مستقبل کے حوالے سے تفصیلی بات کی،فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ یہ کسی حکومت ہے جس میں کابینہ کا اجلاس نہیں ہوتا،بائے سرکولیشن منظوریاں ہوتی ہیں،بجٹ اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی یہ بھی بائے سرکولیشن کرلیتے،اس حکومت کی کوئی ترجیحات ہیں اور نہ کوئی اہداف،جب حکومت بنتی ہے تو اس کے اہداف ہوتے ہیں،مجھ سمیت تمام ممبران اسمبلی زبردستی نظام میں شامل ہیں۔ہم نے اپنے دور حکومت میں تحریک آزادی کشمیر،گڈگورننس اور پائیدار ترقی کے اہداف رکھے تھے،2016 سے 2021 کے دوران ہماری کارکردگی کا اعتراف اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP)کی رپورٹ میں بھی تفصیل سے کیا گیا اور آج میں اس ایوان کے سامنے اپنی پانچ سالہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتا ہوں تاکہ آنے والوں کو پتا چلے کہ حکومتیں کیسے کی جاتی ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن میں فرق نہیں،ہمیں اس حوالے سے مل کر مشترکہ پالیسی اختیار کرنی چاہیے،مودی کی پالیسیاں ہمارے سامنے ہیں،اسے انتخابات میں اکثریت نہیں ملی وہ کوئی ایڈونچر کرسکتا ہے، آزادکشمیر کے اندر پاکستان کا جھنڈا کسی نے نہیں اتارا،آزادکشمیر کے لوگ اس پرچم اور پاکستان کے لوگوں سے بہت پیار کرتے ہیں،جنہو ں نے ہر مشکل میں ہماری بے مثال مدد کی،چند لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن غالب اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ پاکستان ہمارا مددگار حامی اور مستقبل ہے۔
راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا کہ ذمہ دار لوگ حالات اور واقعات کا نوٹس لیں،احتجاج کے دوران یہاں تین آدمیوں کی جان گئی،کوئی ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی،کسی کا پوسٹم مارٹم نہیں ہوا بھی انسان تھے مگر ان واقعات کو سیاسی مقاصد کے لیے کسی نے استعمال نہیں کیا،یہ یہاں کی سیاسی قیادت کی ذمہ داری کا ثبوت ہے۔ سول انتظامیہ کے کام میں جب غیر متعلقہ ادارے مداخلت کریں گے تو وہ کیسے کارکردگی دکھائیں گے،انہیں کھل کر کام کرنے دیا جاتا تو یہ حالات پیدا نہ ہوتے،ان کے تقرر اور تبادلوں میں غیر متعلقہ لوگوں کا ٹانگ اڑانا کسی صورت درست نہیں۔حکومت نے اپنا اختیار سرینڈر کردیااب ان کے اختیار میں کچھ نہیں،وزیر داخلہ پھر سے وردی پہن لیں،آزادکشمیر پولیس کے اندر الانسز کے حوالے سے تفاوت کو ختم کیا جائے اور ان پر اعتماد کیا جائے۔یہ بات میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ رینجرز فوج کا حصہ نہیں ہے یہ سول آرمڈ فورسز ہیں جو پولیس کے ساتھ معاونت کے لیے ہوتی ہیں،جو رینجرز کی نئی تعیناتی ہوئی اس پر وضاحت آگئی اسی طرح پہلے بھی اگر معاملے کو بہتر طریقے سے ہنڈل کیا جاتا تو یہ حالات پیدا نہ ہوتے۔پونچھ کے لوگ ایف سی اور پی سی کو گالی سمجھتے ہیں،آزادکشمیر سے فوجیں نکالنے کے نعرے لگانے والے بتائیں کہ اگر پاک فوج یہاں سے گئی تو ہندوستان کی فوج یہاں آکر کیا کچھ نہیں کرے گی فوج کا مقابلہ فوج ہی کرسکتی ہے،پاکستان کی فوج ہماری محافظ جبکہ ہندوستانی قابض فوج ہے۔پاکستان کو ہندوستان کے برابر کسی صورت نہیں رکھا جاسکتا۔سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ اور کردار کشی بالکل آسان ہوگئی ہے،موبائل فون شیطانی آلہ ہے،خود مختار کشمیر قابل عمل حل نہیں،پی ٹی آئی آزادکشمیر میں کس قسم کی آزادی چاہتی ہے،عمران خان اور اس کے ساتھ سات فٹ قد کے حامل جرنیل نے جتنا کشمیر کو نقصان پہنچایا اتنا کوئی دشمن بھی نہیں پہنچاسکتا۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ رائے شماری کے معاملے پر لوگوں کو بالخصوص خود مختار کشمیر والوں کو کیا تکلیف ہے،یہ واحد حل ہے کہ جس پر سارے نظریات کے لوگ متفق ہوسکتے ہیں۔
فاروق حیدر نے مزید کہا کہ پاکستان کی حکومتوں کے ساتھ ہمارے اختلافات ماضی میں بھی رہے،موجودبھی ہوسکتے ہیں اور مستقبل میں بھی مگر پاکستان کی ریاست اور عوام سے کوئی گلہ نہیں،انہوں نے ہمیشہ ہمارے ساتھ والہانہ محبت کا ثبوت دیا اور ہمارے لیے محبت اور پیار کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے۔ خدا کی قسم مجھے اپنے گھر سے زیادہ راولاکوٹ عزیز ہے،راولاکوٹ والوں کی ایک اپنی تاریخ ہے،یہاں کے لوگوں نے ووٹ کے حق کے لیے تحریک چلائی میرے والد بھی سردار ابراہیم کی قیادت میں چلنے والی اس تحریک کے دوران اسیر رہے،سردار خان بہادر خان،مولوی اقبال،غلام حیدر جنڈالوی،مولانایوسف،کیپٹن حسین خان،کرنل منشا،کرنل غلام رسول،کرنل ہدایت خان،مائی حسین بی بی سمیت دیگر نامور شخصیات کا تعلق اسی دھرتی سے ہے،سپائی مقبول حسین بھی اس دھرتی کا بیٹا تھا جس نے زبان کٹوادی مگر پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا۔اس زمین پر اگر ان اسلاف کی قربانیوں اور ان کے نظریات کے خلاف کوئی بات ہوگی تو مجھے سب سے زیادہ تکلیف ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ جائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اس ایوان کو بے خبر رکھا گیا،کیا مذاکرات ہوئے،ان کے ساتھ کیا طے پایا تھا کتنے ادوار ہوئے،کیا معاہدے ہوئے یہ اسمبلی میں پیش ہونا چاہیے تھا،یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں،کاش میری زندگی میں یہ واقعہ نہ ہوتا تو بہتر ہوتا۔وزیراعظم مائیکرو مینجمنٹ میں مصروف رہتے ہیں،کچی پنسل سے بیٹھ کر کانٹ چھانٹ میں لگے رہتے ہیں کسی کا مشورہ سننے کو تیار نہیں،یہ علامہ کہتے ہیں مجھ سے پہلے سب نے کچھ نہیں کیا ،یہ سردار عبدالقیوم،سردار ابراہیم،سردار سکندر حیات ودیگر اکابرین کی برابری نہیں کرسکتے۔میںکا لفظ انہیں استعمال نہیں کرنا چاہیے،میںکا صیغہ واحد ہے یہ اللہ کے لیے ہے،وزیر خزانہ نے بھی جناب وزیراعظم پر زور دیا جبکہ انہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ ہم نے کیا،حکومتیں حکومتوں کا تسلسل ہوتی ہیں یہ کہنا کہ میں ایک سال سے ہوں، ایک سال سے پہلے کا ذمہ دار نہیں ہوں،میں یہ کہتا ہوں کہ جب لبریشن لیگ بنی اس وقت کے بھی آپ ذمہ دار ہیں،اب حالات یہ ہیں کہ خاکروب بھرتی کی فائل بھی وزیراعظم کے پاس جائے گی،رولز آف بزنس کو خدارا تباہ نہ کریں،جب سیکرٹری کے دفتر کے باہر یہ لکھا جائے گا کہ ایم ایل اے کی سفارش کے بغیر تبادلے کی کوئی درخواست زیر کار نہیں لائی جائے گی تو پھر یہ بتائیں کہ لوگ کہاں جائیں گے۔آزادکشمیرکا نوجوان پریشان اور اپنے مستقبل کے حوالے سے شدید خوفزدہ ہے،جب اس پر میرٹ کے دروازے بند کردیئے جائیں گے،روزگار کا واحد ذریعہ ملازمتیں ہیں یہاں کوئی انڈسٹری نہیں ہے اور ساری ملازمتیں اگر سیاسی لوگوں کے کہنے پر دیں گے تو پھر معاشرے میں بگاڑ،ابتری اور انتشار،ناراضگی،غصہ پیدا ہوگاجو نفرت میں بدل کر تباہی مچائے گا۔
میں حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ خدارہ تھرڈ پارٹی ایکٹ کو تمام محکمہ جات میں پھر سے نافذ کریں اور ملازمت حاصل کرنے کا طریقہ صرف اور صرف میرٹ کی بنیادپر رکھیں۔وزیراعظم نے سیکرٹریٹ سے ملازمین سروسز میں منتقل کیے اب وہ تنخواہیں تو لے رہے ہیں لیکن اب ان کے کام کرنے اور بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں،انہوں نے قائد ایوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کو تکلیف دے کر خوش نہ ہوں،آپ چلے جائیں آپ نے بھی ہمیشہ نہیں رہنا،آزادکشمیر کے وزیراعظم نے 24 گھنٹے کام کرنا ہوتا ہے،لوگوں سے ملنا ہوتا ہے میٹنگ کرنی ہوتی ہے یہ کسی پر احسان نہیں،آپ اسی لیے اس منصب پر بیٹھے ہیں،آزادکشمیر میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے،سگریٹ ساز فیکٹریوں میں لوگوں کو روزگار بھی ملتا ہے،جعلی سگریٹ سب سے زیادہ کے پی کے میں بنتے ہیں،یہاں بھی جعل سازی رکنی چاہیے،بے روزگاری کا ماحول پیدا نہ کریں،سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو تحفظ ملنا چاہیے۔گرین ٹورازم والا معاملہ کسی صورت قابل قبول نہیں،لوگوں کو یہ موقع نہ دیں وہ آپپر بات کرسکیں،ذمہ دار لوگوں کو بھی دور رہنے کا کہا ہے،مرکزی شاہرات ممبران اسمبلی کے رحم وکرم پر نہ چھوڑیں،یہ اجتماعی ضرورت ہیں۔موجودہ احتساب بیورو اور ایکٹ میں کی گئی حالیہ ترامیم کی موجودگی میں نظام نہیں چل سکتا،جنرل باجوہ نے میرے ساتھ تسلیم کیا تھا کہ نیب اور ملک اکھٹے نہیں چل سکتے،انہوں نے ہماری احتساب ترامیم کی تعریف کی تھی۔
اس ایوان کو بتایا جانا چاہیے کہ وہ 4 ارب روپے کہاں گئے جن کی منظوری سابق حکومت نے دی،یہ اسکینڈل 75سالہ تاریخ کاسب سے بڑا اسکینڈل بن سکتا ہے،سابق حکومت نے منظوری دی اور موجودہ حکومت نے تسلیم نہیں کیے،پیسہ کہاں گیا بتایا جانا چاہیے۔بلاک پرویژن ختم کی جائے یہ اچھی روایت نہیں،ناانصافی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے،مظفرآباد میں شاہ سلطان پل کی وجہ سے ٹریفک کا بوجھ کم ہوا،سی ایم ایچ فلائی اوور کو رقم فراہم کی جائے،یہ بھی بتایا جائے کہ 2 ارب روپے الگ سے وزیراعظم کی صوابدید پر کیوں رکھے گئے،سارا بجٹ محکمہ انصافکو چلا گیا باقی محکمہ جات بھی ہیں۔3 روپے یونٹ والا نظام نہیں چل سکتا،اب پاکستان بھر میں آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں،واپڈا کے مطابق ہم 90ارب کے بجلی استعمال کر کے 6ارب روپے واپس کرتے ہیں،11 مئی کو جو کچھ آزادکشمیر میں ہوا وہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا،صورتحال کو اب ایک ایسی جگہ پر لاکر کھڑا کردیا گیا ہے اس کا مستقبل کیا ہوگا اور یہ نظام کیسے چلے گا؟مہنگی گندم خرید کر سستا آٹا کیسے دیں گے۔ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن 43ارب روپے پہنچ چکی ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 10سال بعد ساری گرانٹ پنشن پر خرچ ہوگی۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ جنگلات سے لکڑی کی نکاسی پر پابندی ختم کی جائے،حلقہ کھاوڑہ میں انتظامی سطح پر دو سب ڈویژن قائم کیے جائیں،سیکرٹریٹ ملازمین کے الانس بڑھائے
جائیں،بکروال کمیونٹی کے مسائل کو بھی مد نظر رکھا جائے،آزادکشمیر یونیورسٹی حکومت آزادکشمیر فنڈز فراہم کرے،کم از کم تنخواہ 37ہزار مقرر کر کے سب پر اس کا اطلاق کیا جائے،ایم این سی ایچ ملازمین اور محکمہ جنگلات کے بیلداران کو مستقل کیا جائے۔

واپس کریں