دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
میں ایک کرپشن زدہ اور تعفن سے بھرپور نظام حکومت سے اس طرح ٹکرایا جس طرح دوگاڑیاں آپس میں ٹکراتی ہیں ،وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری انوار الحق
No image اسلام آباد( پی آئی ڈی) 21 /ستمبر 2024۔ وزیراعظم آزادحکومت ریاست جموں و کشمیر چودھری انوارالحق نے کہا ہے کہ مجھے گرانا اور میری جگہ پر بیٹھنا ہمارے بہت سارے دوستوں کی خواہش ہے،کارکردگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں،کسی کی ذاتی خواہشات کو قید نہیں کیا جاسکتا۔نجی ٹی وی کے اینکر خواجہ عبد المتین کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری انوار الحق کا کہنا تھا کہ مجھے گرانا اور خود بیٹھنا ہمارے چند دوستوں کا مختصر سا منشور ہے ۔ مخلوط حکومت سے متعلق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ ایک غیر فطری سیاسی اتحاد ہے ، سیاسی کارکنوں کو اطمینان صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب ان کی آنکھ بند ہوجائے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ایک کرپشن زدہ اور تعفن سے بھرپور نظام حکومت سے اس طرح ٹکرایا جس طرح دوگاڑیاں آپس میں ٹکراتی ہیں ، بیورو کریسی کے طور طریقے تبدیل کئے، پرانی گاڑیاں نیلام کیں اور نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی لگائی،اداروں کو مستحکم کیا، این ٹی ایس اور پبلک سروس کمیشن اس کی مثال ہے، پیسہ سوشل سیکٹر کی طرف لگایا ۔ انہوں نے کہا کہ میرے تین چار سپانسرڈ ناقدین کے علاوہ ریاست کے ہر شہری کو امید ہے کہ اگر یہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی تو واضح تبدیلی نظر آئے گی۔انہوں نے کہا کہ میری دو لاکھ تنخواہ ہے مگر میں نہ تنخواہ لیتا ہوں نہ پنشن،گریڈ21 اور 22 کے سیکرٹری کی تنخواہ کا پیکج مجھ سے زیادہ ہے جو پانچ لاکھ تک بنتا ہے، تنخواہ نہ لینے کی روایت جبری طور پر نافذ نہیں کی ، میں خدمت کے جذبے سے کام کر رہا ہوں،مجھے کوئی مالی لالچ نہیں،ریاست نے مجھے سب کچھ دیا ہے ،تمام آئینی عہدوں پر کام کرچکاہوں۔
ایک سوال کے جواب میں چودھری انوار الحق نے کہا کہ آزاد کشمیر میں زکو کی مد میں بینکوں نے 54 کروڑ روپے اکٹھے کئے جن میں 31 یا 32 کروڑ روپے مستحقین زکو اور عاملین زکو کی بجائے دوسرے لوگوں پر خرچ ہو رہے تھے اس لیے میں نے زکو کمیٹیوں میں شامل افراد کا اعزازیہ بند کیا۔ اسمبلی میں اس معاملے پر اختلافی نوٹ آیا تو حافظ حامد رضا کی نشاندہی پر اپوزیشن کو اپنا اختلافی نوٹ واپس لینا پڑا ،یہ آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا۔ اعزازیہ بند کرنے پر کسی نے ابھی تک اپنی ذمہ داریوں سے استعفی نہیں دیا کیونکہ ایسا فیصلہ سیاسی کارکن کی موت ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں سوشل پروٹیکشن فنڈ سے متعلق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ زلزلہ میں ہمارے ہزاروں لوگ معذور ہوگئے،کئی خاندانوں کیلئے خصوصی افراد کی پرورش ایک چیلنج بنا ہوا تھا ۔ میری سوچ یہ تھی کہ ایسے افراد کے مدد حکومتی سطح پر کی جائے ، اس مقصد کے لئے ہم نے پانچ طرح کے لوگوں کو شامل کیا جن میں خواجہ سرا بھی شامل تھے ۔ ڈیٹا جمع ہوگیا اب سکروٹنی کا عمل شروع ہوگا ،کسی نے غلط افراد کو شامل کیا ہو گا تو تصدیق کنندہ کے خلاف کارروائی ہوگی، سوشل پروٹیکشن فنڈ کے لئے 10 ارب روپے مختص کئے ہیں اور اس رقم کا غلط استعمال روکنے کے لئے اسمبلی سے ایک ایکٹ بھی منظور کروایا ہے ۔ کئی انٹرنیشنل این جی اوز اس کام میں حکومت کی شفافیت دیکھ رہی ہیں، مستقبل میں انڈیپنڈنٹ بورڈ کے ذریعے بھی اس کام کو جاری رکھا جاسکتاہے ، اس بورڈ میں ریٹائرڈججز، بیوروکریٹس ، جرنیلوں، سول سوسائٹی کے افراد اور سماجی کاموں میں زندگی گزارنے والے تجربہ کار افراد کو بھی شامل کیا جاسکتاہے۔
رٹھوعہ ہریام پل سے متعلق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ منگلہ اپریزنگ کا حصہ ہے،اسے واپڈا والوں نے بنانا تھا ،دھان گلی پل بھی واپڈا نے بنانا تھا۔2006 میں رٹھوعہ ہریام پل کا جو پی سی ون تیار کیا گیا اس کے مطابق یہاں ایسا کیبل برج بننا تھا جیسا مظفرآباد میں نلوچھی پل ہے مگر اس ڈیزائن پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور نظر ثانی شدہ ڈیزائن تیار کرتے ہوئے پوری طرح ہوم ورک بھی نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے 160 میٹر کا باقی ماندہ حصہ کرپشن کی ایک داستان بن گیا۔مجھے بتایا گیا کہ 160 میٹر حصہ سٹیل کے پل کے ذریعے مکمل کرنے کے لئے12 ارب روپے تک لاگت آئے گی تو یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ منصوبے کی اصل لاگت 4 ارب اور ایک سو ساٹھ میٹر حصے کی 12 ارب کیسے ہوسکتی ہے، میں نے ڈیپارٹمنٹ سے اپنے طورپر معلومات لیں تو مجھے ایک نوجوان پراجیکٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ پل کا باقی ماندہ حصہ بھی کنکریٹ سے بن سکتاہے جس کی لاگت 5 ارب روپے کے لگ بھگ ہوگی ۔ اس کے بعد ہم یہ معاملہ پلاننگ کمیشن میں لے کر گئے ۔ انوار الحق کا کہنا تھا کہ رٹھوعہ ہریام پل ایک بیمار منصوبہ تھا جس کے معالج کا انتخاب قدرت نے کیا۔ وفاقی حکومت کے سٹیک ہولڈرز کو اگر پہلے بھی منصوبے کے لئے درکار رقم اصل مقصد پر خرچ ہونے کا یقین ہوتا تو رقم پہلے بھی جاری ہوجاتی۔

واپس کریں