آزاد کشمیر میں اس وقت حکومت اور اپوزیشن 'پی ٹی آئی ' کی ہے، بھر پور مزاحمت کریں گے۔ راجہ فاروق حیدر خان سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر
کوٹلی/مظفرآباد(خصوصی خبرنگار)سابق وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے آزادکشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال کے خلاف بھرپور مزاحمت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزادکشمیر کا وزیراعظم انوارالحق آج بھی عمران خان کا حمایتی ہے،اس نے نہ تو 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی اور نہ ہی عمران خان کے خلاف کوئی بیان دیا،اس وقت حکومت اور اپوزیشن سب پی ٹی آئی کی ہے،نائیٹ کوچ وزیراعظم رات کو اجلاس بلاتے ہیں،عدالتی صورتحال بھی ٹھیک نہیں،ان سے کہتا ہوں کہ اپنے اپنے اداروں کو بچائیں،جو کوئی میرے خلاف ریفرنس دائر کرنا چاہتا ہے کل کے بجائے آج کرے،اطمینان رکھیں سال اندر رہوں یا دو سال ضمانت کی درخواست نہیں دوں گا،سیل دیکھ آیا ہوں جو جیسا کرے گا اس کو جواب بھی ویسا ہی ملے گا۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے گزارش ہے کہ جنرل باجوہ جو کچھ دبئی مذاکرات کے ذریعے طے کر گئے ہیں اس کی تفصیلات سے کشمیریوں کو آگاہ کریں۔
سابق وزیراعظم سردار سکندر حیات خان کی تیسری برسی کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے راجہ فاروق حیدر خان کا کہنا تھا کہ یہ نظام نہیں چل سکتا،تنویر الیاس کو سازش کے ذریعے ٹریپ کیا گیا وہ نااہل ہوگئے جب نئے عہدیدار بنے تھے تب ہی کہہ دیا تھا کہ یہاں سے بیٹھ کر فیصلے کریں جب باہر جائیں گے تو یہی حالات ہوں گے،جو لوگ آج کل میرے بارے میں قیادت کو چغلیاں لگارہے ہیں میرے پاس بھی تو بہت کچھ ہے،کچھ سامان موجود ہے اگر بتایا تو کچھ لوگوں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان کے میری ذات پر بے شمار احسانات ہیں،اس بات کا شدید دکھ ہے کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے ہم سے ہمارا یہ سرمایہ چھینا،میں ساری غلطیاں اپنے سر لیتا ہوں،میری سیاسی تربیت سردار سکندر حیات خان نے کی،سردار قیوم اور سردار سکندر حیات کے مابین رابطہ میرے ذریعے ہی ہوتا تھا،مسلم لیگ ن میں کچھ لوگ قیادت کے درمیان لڑائی کروانا چاہتے ہوں ان کو وارننگ دیتا ہوں کہ باز آجائیں ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔آزادکشمیر میں دو وزیراعظم اسٹیبلشمنٹ کے بغیر بنے پہلے سردار سکندر حیات خان تھے اس کے بعد میں وزیراعظم بنا،سردار سکندر حیات خان کو جماعت نے وزیراعظم بنایا تھا اور مجھے قائد مسلم لیگ ن میاں نواز شریف نے منتخب کیا۔راجہ فاروق حیدر خان کا مزید کہنا تھا کہ سردارسکندر حیات خان نے سیاست میں بہت محنت کی،سفید پوشی کی حالت میں جدوجہد کی،مگر کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا،ہمیشہ اپنے عقائد اور نظریات پر قائم رہے،میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ آپ کا سگا بھائی آپ کو چھوڑ سکتا ہے مگر میں نہیں چھوڑوں گا اور یہ بات میں نے عملا ثابت کی،اگر ہم سودے بازی کرتے تو 2021 کے الیکشن کے بعد بھی ہماری حکومت ہوتی،صرف تیرہویں ترمیم واپس کرنی تھی۔راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ میں موجودہ سیاسی صورتحال کے خلاف بھرپور مزاحمت کا اعلان کرتا ہوں لیکن یاد رکھیں کہ سارا ٹھیکہ میں نے نہیں اٹھایا باقی سب کو بھی اپنے حصے کا کام کرنا پڑے گا۔
آزادکشمیر حکومت کی کارکردگی اور انداز حکمرانی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ کابینہ کے اجلاس بھی سرکولیشن کے ذریعے منعقد ہوتے ہیں،بجٹ بھی بائے سرکولیشن منظور کروایا جاتا ہے،وزیراعظم کہتا ہے کہ ماضی میں مافیا کی حکومت رہی بتائیں کہ مافیا کون تھا،سکندر حیات،سردار ابراہیم،کے ایچ خورشید،سردار قیوم،سردار عتیق،چوہدری مجید،قیوم نیازی،تنویر الیاس میں سے کون مافیا تھا،حقیقت میں یہ خود مافیا ہے دنیا جانتی ہے۔کرپشن پر محکمہ خوراک سے ایڈہاک ڈی ایف سی کے طورپر کس کو نکالا گیاسب کو پتا ہے،ذاتیات پر بات کروگے تو دوگنا جواب ملے گا تیار رہو،بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں نے اسے ووٹ دیا تھا تو رٹ کیوں دائر کی،سچ یہ ہے کہ ہمیں نہیں پتا تھا کہ اس نے سپیکر شپ سے استعفی نہیں دیا،اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہو تو سپیکر نیچے نہیں بیٹھ سکتا،استعفے میں بھی لکھا کہ سپیکر ہوں اور اجلاس بھی بحیثیت سپیکر ملتوی کیا،یہ نہیں ہوسکتا پہلے استعفی ہوتا ہے پھر دوسرے عہدے کے لیے الیکشن کا انعقاد کیا جاتا ہے۔سوچ رہا تھا کہ کوئی اور بھی بات کرے گا لیکن کوئی نہ کرے تو میں نے تو کرنی ہی ہے،آئندہ الیکشن میں ٹکٹ صرف اس کو ملے گا جس کے ساتھ کارکن ہوں گے،وزیراعظم کہتا ہے کہ میں نے سٹیٹس کو توڑا،در حقیقت اسے سٹیٹس کو والوں نے ہی تو وزیراعظم بنایا،پہلے بھی بات کی تھی پھر کہتا ہوں صدر جماعت کو میری بات سمجھ نہیں آئی،زبان کا استعمال سوچ سمجھ کر کیا کریں،ہمارے صدر ہیں ہم ان کو تسلیم کرتے ہیں احتیاط کیا کریں وہ ذمہ دار ہیں،ہم سب ایک جماعت ہیں،جماعت ہی طاقت ہوتی ہے۔
نکیال لائن آف کنٹرول پر واقع ہے،سانحہ لنجوٹ ہم نہیں بھول سکتے،مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے،ہندوستان کے قبضے کے خلاف مشکل ترین صورتحال میں وہ مزاحمت کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے گزارش ہے کہ جنرل باجوہ جو کچھ دبئی مذاکرات کے ذریعے طے کر گئے ہیں اس کی تفصیلات سے کشمیریوں کو آگاہ کریں،فوج کے ساتھ کشمیریوں کا قلبی تعلق ہے،فوج ہماری نگہبان ہے ہم بھی فوج کے پشت بان ہیں،جنرل باجوہ کی پالیسیوں سے کشمیریوں میں غصہ ہے،ہمیں موجودہ آرمی چیف پر مکمل یقین اور اعتماد ہے،پاکستان کے پانیوں کا منبع کشمیر میں ہے،اس پانی کے بغیر بقا ممکن نہیں،بھارتی جارحیت کے باوجود لائن آف کنٹرول پر بسنے والوں کے حوصلے بلند ہیں،افواج پاکستان کی قربانیوں کو ہر کشمیری دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرتا ہے اور دفاع وطن کے لیے پاک فوج کے شانہ بشانہ ہے۔پاک فوج کے ساتھ کشمیریوں کے تعلق پر کوئی حرف نہیں آنے دیں گے مگر سب کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی،اخلاص سے کام ہوگا،ماضی کی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے ان کا ازالہ بھی کرنا ہوگا۔
واپس کریں