دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
غزہ جنگ نے سلامتی کونسل کی ناکامی کو بے نقاب کر دیا ، سلامتی کونسل کی مستقل نشستیں بڑھانے سے تنازعات کا حل مزید مشکل ہوجائے گا،اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں پاکستان کا بیان
No image اقوام متحدہ۔12نومبر (اے پی پی)پاکستان نے قوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو بتایا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ نے سلامتی کونسل کی اپنے پانچ مستقل ارکان کے درمیان تقسیم کی وجہ سے تنازعات کو مثر طریقے سے حل کرنے میں ناکامی کو بے نقاب کر دیا ہے، مستقل نشستوں کی تعداد میں اضافے سے سلامتی کونسل تنازعات کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو سکتی ہے، غزہ میں جنگ بندی میں ناکامی کے بعد یہ اب پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو گیا ہے کہ سلامتی کونسل کی تنازعات اور امن و سلامتی کو لاحق خطرات کا موثر جواب دینے میں ناکامی کی بنیادی وجہ اس کے مستقل ارکان کا کسی فیصلہ کن کارروائی پر متفق نہ ہونا ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے 193 رکنی اسمبلی کے سالانہ مباحثے میں کہا کہ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ توسیع شدہ سلامتی کونسل میں نئے مستقل ارکان کو شامل کرنے سے اس کی ناکامی کے امکانات میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ منیر اکرم نے کہا کہ بہت سے دوسرے رکن ممالک کی طرح پاکستان سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں میں اضافے کی کسی بھی تجویز کے خلاف ہے ،اقوام متحدہ کے اندر استحقاق کے نئے مراکز کے قیام کا کوئی جواز نہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں اصلاحات پر بین الحکومتی مذاکرات( آئی جی این)فروری 2009 میں شروع ہوئے تھے جن کا مقصد اقوام متحدہ کو مزید موثر، نمائندہ اور جوابدہ بنانا تھا لیکن وہ تعطل کا شکار ہیں۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ آئی جی این کا عمل پانچ کلیدی شعبوں سے متعلق ہے جن میں رکنیت کا زمرہ، ویٹو کا سوال، علاقائی نمائندگی، توسیع شدہ سلامتی کونسل کا حجم اور کونسل کے کام کرنے کے طریقے اور جنرل اسمبلی کے ساتھ اس کے تعلقات شامل ہیں،اقوام متحدہ کے اصلاحاتی عمل کے حصے کے طور پر کونسل کو وسعت دینے پر ایک عمومی معاہدے کے باوجود رکن ممالک تفصیلات پر منقسم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جی 4 ممالک (جو کونسل میں اپنے لئے مستقل نشستیں چاہتے ہیں)نے کونسل میں مستقل نشستوں کو بڑھا کر 10 تک کرنے کے لئے اپنی مہم میں کوئی لچک نہیں دکھائی ۔دوسری طرف اٹلی اور پاکستان کی قیادت میں اتحاد برائے اتفاق رائے ( یو ایف سی) گروپ (جو کہ اضافی مستقل اراکین کی سختی سے مخالفت کرتا ہے)نے اراکین کی ایک نئی کیٹیگری تجویز کی ہے جو مستقل ممبران نہیں ہوں گے۔
منتخب سلامتی کونسل اس وقت پانچ مستقل ارکان ( برطانیہ،چین،فرانس،روس ، امریکا)اور 10 غیر مستقل ارکان پر مشتمل ہے جو دو سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ منیر اکرم نے کہا کہ اسمبلی کے موجودہ اجلاس میں بات چیت کے دوران ہم آہنگی وسیع ہو گئی تھی اور پانچ اہم کلسٹرز میں اختلاف کم ہو گیا تھا،تاہم ہر کلسٹر کے اندر کئی کلیدی مسائل پر وسیع اختلاف باقی ہے۔پاکستانی ایلچی نے کہا کہ 2 سالہ غیر مستقل نشستوں کی تعداد بڑھانے پر اتفاق ہوا لیکن نئے مستقل ارکان کی تشکیل پر کوئی اتفاق نہیں ہوا ۔
منیر اکرم نے کہا کہ ان مباحثوں میں صرف دو نہیں بلکہ رکنیت کے کئی زمرے شامل تھے جن میں 2 سالہ غیر مستقل نشستیں، طویل مدتی غیر مستقل نشستیں ،دوبارہ قابل انتخاب غیر مستقل نشستیں، علاقوں کی نمائندگی کرنے والی مستقل نشستیں اور ویٹو کے ساتھ یا اس کے بغیر مستقل رکنیت شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویٹو کی ممانعت پر تجاویز تھیں جن میں اس کی پابندی، معطلی یا توسیع (نئے مستقل اراکین تک) اور اس کے التوا کی شق بھی شامل تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایک ابھرتا ہوا اتفاق رائے ہے کہ علاقائی نقطہ نظر سلامتی کونسل میں اصلاحات کے معاہدے کے لیے بہترین امکان پیش کرتا ہے۔
علاقائی نمائندگی بارے انہوں نے کہا کہ افریقا کے ساتھ ساتھ ایشیا، لاطینی امریکا،چھوٹے جزیروں کے ترقی پذیر ممالک ، عرب گروپ اور اسلامی تعاون تنظیم( او آئی سی)کے ساتھ ہونے والی تاریخی ناانصافی کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یو ایف سی کی جانب سے 11-12 نئے غیر مستقل ارکان کو شامل کرنے کی تجویز چھوٹی اور درمیانی ریاستوں کی اکثریت کو زیادہ نمائندگی فراہم کرے گی جن میں سے 59 نے سلامتی کونسل میں کبھی بھی خدمات انجام نہیں دیں۔انہوں نے کہاکہ مساوات سے جغرافیائی سیاسی نمائندگی کو یقینی بنانے کے علاوہ غیر مستقل اراکین کی ایک بڑی تعداد 5 مستقل اراکین کے غیر معمولی اثر و رسوخ کو متوازن ، احتساب کو یقینی اور کونسل کی جمہوریت کو فروغ دے سکتی ہے،دوسری جانب 4 یا 6 نئے مستقل اراکین کے اضافے سے باقی 182 رکن ممالک کی نمائندگی کے امکانات اعدادوشمار کے مطابق کم ہوں گے ۔
واپس کریں