دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کا مسئلہ کشمیر پہ نئی پالیسی کی تشکیل کے لئے آئندہ ماہ آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان
No image مظفرآباد( پ ر)آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے مرکزی راہنما راجہ فاروق حیدر خان نے مسئلہ کشمیر پر نئی قومی پالیسی کی تشکیل،مشاورت اور تجاویز کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ کانفرنس ماہ فروری میں اسلام آباد میں ہوگی جس میں آزادکشمیر کی جملہ سیاسی قیادت، حریت کانفرنس کے ذمہ داران،سابق سفارتکار اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم اداروں اور شخصیات کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے گی۔دارالحکومت مظفرآباد میں منگل کو میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ 5اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اٹھائے گئے یکطرفہ اقدامات کے خلاف سفارتی سطح پر ہماری طرف سے جو کچھ ہونا چاہیے تھا نہیں ہو،اس وقت بدقسمتی سے کشمیر پر جامع قومی پالیسی موجود ہی نہیں،کشمیری کمیونٹی نے آزادکشمیر اوربیرون ملک اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کیا مگر جتنا ہونا چاہیے تھا نہیں کرسکے۔6 سال گزرنے کے باوجود کشمیر پالیسی کے حوالے سے سرد مہری نے مایوسی پیدا کی ہے،اگرچہ آزادی کی تحریکوں میں قوموں کے لیے اس طرح کے حالات آتے رہتے ہیں،ایسے حالات میں حکمت عملی اور موثر پالیسی کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔تحریک آزادی کشمیر کے تسلسل کو منظم ومربوط اورکامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کافیصلہ کیا ہے،چونکہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ کشمیر پر پرانی پالیسی میں دم خم باقی نہیں رہا اور نہ ہی اس کی گنجائش رہی ہے،ہمیں اس پالیسی سے باہر نکلنا پڑے گا۔مسئلہ کشمیر صرف آزادکشمیر حکومت کی پراپرٹی نہیں یہ سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے،آل پارٹیز کانفرنس میں مسئلہ کشمیر پر مربوط اورجامع پالیسی تشکیل دینے کے لیے کشمیری قیادت اور سابق سفارتکاروں سے مشاورت حاصل کر کے تجاویز مرتب کریں گے۔
سابق وزیر اعظم آزاد کشمیرراجہ فاروق حیدر خان نے کہاکہ 5 اگست 2019 کے بعد وزیراعظم پاکستان (وقت) مظفرآباد آئے تھے اور ہماری تجاویز پر وزارت خارجہ میں کشمیر ڈیسک قائم کیا گیا تھا جس کے ابتدائی اجلاسوں کے بعد اجلاس ہی نہیں ہوسکے بعد ازاں سیاسی عدم استحکام اور عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھا،سیاسی حالات،غیر یقینی کے باعث کشمیر کے مسئلہ کو نظر انداز کیا گیا،پاکستان میں پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو کشمیر پر خاموشی رہی،نگران دور حکومت میں بھی کچھ نہیں ہوا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔قومی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی قابل ذکر پیشرفت نظر نہیں آتی،یہ صورتحال کشمیریوں کے اندر مایوسی پیدا کررہی ہے،ہماری ذمہ داری ہے کہ مایوسی سے باہر نکلنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں،اگرچہ آزادکشمیر کے ا ندر بھی سیاسی حالات بہتر نہیں ہیں،بدقسمتی سے ہم اصل کام کو چھوڑ کر کسی اور طرف جارہے ہیں یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ٹھوس کشمیرپالیسی وضع کرنے کے لیے ذاتی حیثیت میں جو ممکن ہوسکتا ہے وہ کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔اس وقت پاکستان اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں 2سال کے لیے بحیثیت ممبر ذمہ داریاں سنبھال چکا ہے، یہ موقع بہتر انداز میں استعمال کیا جانا چاہیے،بین الاقوامی سطح پر پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے،ہماری کوشش ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کے لیے کشمیریوں کو موقع دینے کی تجویز پرعملدرآمد کروائیں۔غزہ میں قتل عام کے خلاف جنوبی افریقہ کی قرارداد کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کوسخت سبکیکاسامنا کرنا پڑا،ہمیں بھی اگر او آئی سی میں مبصر کی حیثیت سے نمائندگی ملے تو کشمیری برطانیہ،یورپ،سعودی عرب اوریو اے ای میں اپنی بات بہترانداز میں کرسکتے ہیں۔کشمیر پر منظور کی جانے والی قراردادوں کے حوالے سے کئی ممالک اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرچکے ہیں۔
ایک سوال پر راجہ فاروق حیدر خان کا کہناتھا کہ آزادکشمیر کا یہ خطہ بھی تحریک آزادی کا مرہون منت ہے لہذا تمام ترتوانائیاں تحریک آزادی کشمیر کے لیے وقف ہونی چاہئیں،کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور اس تحریک کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا،ہم جن معاملات میں الجھ گئے ہیں یہ کسی صورت درست نہیں،اب وقت ہے کہ آگے بڑھ کرکشمیر کے معاملے پر متفقہ پالیسی کی تشکیل کے لیے از سر نو صورتحال کا جائزہ لیا جائے کیونکہ بین الاقوامی حالات کے تناظر میں پرانی کشمیر پالیسی کی گنجائش نہیں رہی اور نہ ہی اس کے ذریعے مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔اگر حکومت پاکستان کشمیریوں کی پشت پر کھڑی ہو تو بیرون ملک ہم آسانی کے ساتھ یہ تاثر ختم کرسکتے ہیں کہ مسئلہ کشمیرمقامی تنازعہ نہیں یہ اقوام متحدہ کے ایجنڈہ پر متنازعہ حیثیت میں موجود ہے،یہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حق خود ارادیت کا معاملہ ہے،کشمیری اس مسئلہ کے بنیادی فریق ہیں،نعرے بازی سے کچھ حاصل نہیں ہوگایہ ہماری مزید تقسیم کا باعث ثابت ہورہے ہیں،ہمارا مطالبہ رائے شماری کا ہے جس پر سب متفق ہیں،کیونکہ آخری فیصلہ رائے شماری کے ذریعے ہی ہونا ہے۔الحاق،خود مختاری اورتقسیم سمیت کشمیر پر کوئی بھی فیصلہ کرنے کا حق اور اختیار صرف کشمیری عوام کو حاصل ہے۔یہاں ایک ریاستی ڈھانچہ موجود ہے،پاکستان کے لیے عالمی سطح پر مسائل ہیں جن میں کمزور معیشت بنیادی معاملہ ہے،وزیراعظم پاکستان نے اڑان پاکستان پروگرامکے ذریعے معاشی بحالی کا منصوبہ دیا ہے جب تک معاشی استحکام آتا ہے درمیانی عرصہ میں عالمی سطح پر کشمیریوں کو آگے آنے کا موقع ملنا چاہیے۔
تحریک آزادی کشمیر 5اگست 2019 کے واقعات اور بنیادی حقوق کے لیے حالیہ تحریک میں سیاسی قیادت کے کردار سے متعلق سوال پر راجہ فاروق حیدر خان کا کہنا تھا کہ حکومت سے زیادہ سیاسی جماعتوں اور خود کو اس صورتحال کا ذمہ دار سمجھتا ہوں،ہندوستان آزادکشمیر میں انتشار پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،اس کا واحد مقصد مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو پاکستان سے بدظن کرنا ہے،ہمارے ہاں کچھ لوگ جذبات میں ایسی باتیں کرجاتے ہیں جن سے ناراضگی کی جھلک سامنے آتی ہے،حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی کشمیری پاکستان کے خلاف نہیں۔اسلام آباد میں آل پارٹیز کشمیر کانفرنس میں مشاورت اور تجاویز پر اتفاق رائے کے بعد عوام رابطہ مہم شروع کریں گے اور تمام اضلاع میں اس حوالے سے عوام کے ساتھ رابطوں کا آغاز کریں گے۔اسلام آباد میں کانفرنس کے انعقاد کا مقصد شرکا کے لیے آسانی کو مد نظر رکھ کر کیا گیا۔ایک اور سوال پر راجہ فاروق حیدر خان کاکہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سابق سفارتکاروں میں بھی پریشانی دیکھی ہے،امریکہ میں قائم ہونے والی نئی حکومت ہمارے لیے کوئی خیر کا پیغام نہیں ہے،اگر پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں تو کشمیری بھی متاثر ہوں گے،سانحہ5اگست 2019 نومنتخب امریکی صدر کے ذریعے ہی عمل میں لایا گیا تھا۔اسی صورتحال کو مد نظر رکھ کر ہمیں مستقبل کے لیے ایک واضح پالیسی ترتیب دینی چاہیے،،ہمارے ارد گرد رونما ہونے والی تبدیلیوں کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔فاروق حیدر کا مزید کہنا تھا کہ پانچ اگست 1968 کو آزادکشمیر کی اس وقت کی قیادت کے ایچ خورشید،سردار محمد عبدالقیوم خان اور سردار ابراہیم خان نے متفقہ طورپر آزادکشمیر کی حکومت کو مہاراجہ ہری سنگھ کی جانشین حکومت تسلیم کرنے کی تجویز دی تھی جس پر حکومت پاکستان کو غور کرنا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے پاکستان میں عدم استحکام کے باعث اس حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔
واپس کریں