دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مسئلہ کشمیر کے حل اور پاکستان و ہندوستان کے درمیان مزاکرات کے امکانات۔ '' را'' کے سابق سربراہ اے ایس دلت کا نیا انٹرویو
No image اسلام آباد( کشیر رپورٹ)ہندوستان کی انٹیلی جنس ایجنسی '' را'' کے سابق سربراہ اے ایس دلت نے JKٹی وی کے واحد کاشر اور پاکستان کے معروف صحافی افضل بٹ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ
آزاد کشمیر کے بارے میں ہمیں زیادہ علم نہیں ہے،پاکستان کی کمزوری ہے کہ ہمارے ہاں( مقبوضہ کشمیر) میں جو ہوتا ہے وہ پاکستان کو بھی نہیں معلوم، یہ ضرور ہوتا ہے کہ ہمارا کشمیر اچھا ہے یا آپ کا کشمیر اچھا ہے، ہمارا کشمیر آپ کے کشمیر سے بہت بہتر ہے،میں کشمیری ہوں نہیں لیکن ہمارے ہاں کشمیری بھی یہی کہتے ہیں،تو کوئی مقابلہ نہیں ہے، جوگئے بھی ہیں پار آپ کے ہاں،وہ بھی واپس آ کر کہتے ہیں کہ ہمارے کشمیر کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، جو ویلی ہے وہ ویلی ہے۔

واجپائی کے دور میں جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا ،وہاں سے دوبارہ سلسلہ شروع ہونے کے امکانات کے سوال کے جواب میں دلت نے کہا کہ بڑا مشکل ہے یہ کہنا کہ وہاں سے ہو سکتا ہے یانہیں ہو سکتا ہے، کیونکہ پچھلے آٹھ دس سالوںمیں ہندوستان بہت بدل گیا ہے، اس لئے اب واجپائی جی کی بات چلے گی یا نہیں چلے گی،مشکل ہے کہنا کہ آگے کیا ہونے والا ہے، یہ ضرور ہے کہ جب واجپائی کی بات چل رہی تھی تو کشمیری خوش تھے،بات چیت سے خوش تھے، ڈائیلاگ سے خوش تھے، اور مار دھاڑ کم ہو گئی تھی، اور کشمیری سمجھتا تھا کہ بات آگے چلے گی، پر یہ جو کچھ ہوتا ہے ناں ، یہ ایک ترتیب نہیں ہے، اس میں کشمیریوں کا بھی رول ہے،پاکستان کا بھی رول ہے، میں آپ سے بات کرتا ہوں،2001،2002،2003،پانچ ،چھ ، سات تک کی، میں پاکستانی دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ اب بات آگے چل رہی ہے اس کو چلنے دیں، آپ اگر مدد کریں کہیں کچھ ہو سکتا ہے، لیکن بات وہیں آ جاتی ہے کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت چالاکی دکھا رہا ہے، تو بات وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے، اگر سب مل کر چلتے جب واجپائی صاحب تھے انہوں نے کشمیریوں کو ایک موقع دیا تھا،پاکستان کو بھی ، آپ کو یاد ہے کہ وہ بس لے کر لاہور گئے تھے،وہ چیز کچھ معنی رکھتی تھی،اس کے بعد کہیں کچھ ہوا، کرگل ہوا،ہماری پارلیمنٹ پہ اٹیک ہوا، لیکن واجپائی صاحب ہمت نہیں ہارے، انہوں نے کہا کہ میں پھر بھی بات کروں گا پاکستان سے، اور 2004میں وہ پھر پاکستان گئے اسلام آباد سارک سمٹ میں، لیکن بات وہیں آ جاتی ہے کہ جب تک نا سب مل کر چلیں گے،تو بات آگے چلنے والی ہے نہیں، اور اب ماحول کچھ ایسا ہے کہ اب لگتا بھی نہیں کہ کوئی مل کر چلے گا، اب کسی کو وہ ضرورت بھی نہیں لگتی، جس کی میں آپ سے بات کر رہا ہوں،اب کیا ضرورت ہے۔

5اگست2019کے اقدام سے ہندوستان کی طرف سے کشمیر کے بھارت نواز سیاستدانوں سے بے وفائی کرنے کے سوال کے جواب میں دلت نے کہا کہ
ہاں کچھ حد تک ہوئی ہے،میں مانتا ہوں جو ان لیڈروں کے ساتھ ہوا وہ اچھا نہیں ہوا،کبھی نہیں ہونا چاہئے تھا،لیکن370میں جیسا کہ آپ خود کہہ رہے ہیں کہ کچھ بچا نہیں تھا،کھوکھلا ہی تھا،اور یہ مسئلہ1975میں شیخ صاحب نے طے کر دیا تھا،جب انہوں نے کہا تھا کہ الحاق ناقبل تنسیخ ہو گیا ہے،یہ اب حتمی ہے،اس لئے اس میں کوئی چیز بچی نہیں تھی، اسی لئے میں کہتا تھا کہ اس کو اس طرح کرنے کی ضرورت بھی نہیںتھی تاہم اس میں کچھ بچا نہیں تھا،اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ کشمیری اس بات کو مان جائے گا، اور پاکستان بھی مان جائے گا،اور لگا کہ ایسا ہی ہو رہا ہے، اور پھر بات وہیں آ کر رک جاتی ہے ، دو سال پہلے سیز فائر ہوا اور بڑا اچھا ہوا، باڈر( سیز فائر لائین، لائین آف کنٹرول) پہ جھگڑے بند ہوئے اور وہ سیز فائر ابھی تک چل رہا ہے،لیکن سیز فائر کے بعد جو باتیں ہونی چاہئیں تھی وہ نہیں ہوئی ہیں۔

تمام حریت رہنمائوں کے قید میں ہونے کی صورتحال میں ہندوستان کس سے بات کرے گا ، کے سوال کے جواب میں دلت نے کہا کہ صحیح ہے ،میر واعظ صاحب کو گھر کے اندر ہی قید میں دو تین سال ہو گئے،لیکن باقی تو سب لوگ کھلے ہیں،جہاں جانا چاہئیں، آنا چاہئیں اس میں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور اس میں آپ کی حریت والے بھی ہیں کچھ، جیسے پروفیسر صاحب ( پروفیسر عبدالغنی بٹ) ہیں،بلال صاحب ہیں،سارے بند نہیں ہیں، بات تو یہ ہے کہ بات آگے کیسے چلے، اب کشمیریوں کے ساتھ جو بات ہونی ہے ہوتی ہو گی میں سمجھتا ہوں،دلی اور کشمیر کی بات، لیکن دلی اور پاکستان کی بات بھی ضروری ہے، دلی اور اسلام آباد کی بات ضروری ہے، عمران صاحب جب وزیر اعظم تھے تو لگتا تھا کہ بات آگے چلے گی،لیکن پاکستان میں بدلائو آگیا ،اب جو وزیر اعظم ہیں، ان کی کیا سوچ ہے، وہ کتنا آگے چلنا چاہتے ہیں،کس چیز پہ آگے چلنا چاہتے ہیں، اور ان کے پاس کیا ہے،ہندوستان کے نقطہ نظر سے، ہمیں کیا ملنے والا ہے پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے سے، تو جب تک یہ چیزیں نہیں ہو ں گی تب تک بات وہیں رہ جائے گی، اور جب ہندوستان اور پاکستان کی بات ہوتی ہے تو لازمی ہے کہ کشمیر کی بات آ ہی جائے گی، حالانکہ ایک وہ بھی زمانہ تھا کہ عمران صاحب کہتے تھے کہ ہم کشمیر کو '' بیک برنر ''پر رکھ دیتے ہیں، اب ہم وہیں کے وہیں ہیں، میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کی بات ہونا بڑی ضروری ہے، کشمیریوں کے ساتھ تو بات ہوتی ہو گی ،وہ ہندوستان کا حصہ ہی ہے،تو یہ نہیں کہ ان کے ساتھ بات نہیں ہوتی، اب کس قسم کی بات ہوتی ہے۔دلت نے کہا کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے تو اس میں کوئی '' ڈائوٹ'' والی بات نہیں ہے، میں نے پہلے کہا تھا کہ ہم پاکستان والے کشمیر کو نہیں جانتے اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان ہمارے والے کشمیر کو نہیں جانتا، یہ میں اس لئے دہرا رہا ہوں کہ واپس 1947میں جانا ، یو این ریزولوشن پر جانا ، سیلف ڈیٹر میشن پہ جانا ، ان چیزوں کا جب ذکر ہوتا ہے توہمارے ہاں جب کشمیری ، جن میں سے کئیوں کو ہم علیحدگی پسند بھی کہتے ہیں،حریت والے بھی کہتے ہیں، وہ تو کہتے ہیں کہ پاکستان تو اس معاملے میں سیریس تو ہے ہی نہیں، یہ کون سے باتیں کر رہے ہو، وہ زمانہ تو کب کا بیت گیا، تو اس لئے اس میں کوئی ڈائوٹ نہیں ہے کہ کشمیر ہے ہندوستان کا حصہ، لیکن میں مانتا ہوں کہ یہ ایک اشو ہے،یہ ہندوستان پاکستان کے بیچ کا ایک اشو ہے، جس پہ جب بھی بات ہو ،بات ہونی چاہئے کشمیر پہ۔

کشمیر خاموش ہے ، کے سوال کے جواب میں '' را'' کے سابق سربراہ نے کہا کہ خاموشی سی ہے، اور خاموشی تو کسی قسم کی اچھی نہیں ہوتی، بات چیت چلتی رہنی چاہئے، اور میں تو بہت بار کہہ چکا ہوںکہ اگر کشمیر کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ یہی ہے کہ Revival 0f the political and democratic process۔ کشمیر میں الیکشن ہونا چاہئے، کشمیر میں '' سٹیٹ ہڈ '' جو ہے،وہ واپس دینا چاہئے کشمیریوں کو ، یہ چیزیں ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں ہے، کئی حصے ہوتے ہیں،ہندوستان بڑا ملک ہے،وہاں پرابلم ہوتی ہیں صرف کشمیری نہیں ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ، آپ کو معلوم ہے کہ 1984کے بعد پنجاب میں بہت ہنگامہ ہوا،بلو سٹار( آپریشن) کے بعد، اور ایک ٹائم آیا کہ لوگ کہتے تھے کہ وہاں خالصتان بننے والا ہے، لیکن وہ خالصتانی جو تھے، وہ چھوٹے عناصر تھے، کچھ آپ کے ہاں بھی رہتے تھے، اور دل خالصہ کے لڑکے بھی آپ کے ہاں لاہور میں ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کشمیر،یا پنجاب یا نارتھ ایسٹ نکسل کے لوگ ہندوستان سے الگ ہو جائیں گے،ہمارے ہاں بھی لوگ سوچتے ہیں کہ آپ کو پرابلم ہوتی ہے بلوچستان میں تو بلوچستان الگ ہو جائے گا،میں یہ نہیں سمجھتا کہ کچھ الگ ہونے والا ہے، اور نہ ہی ہم چاہتے ہیں کہ کوئی الگ ہوپاکستان میں۔

جب واجپائی صاحب بس لے کر لاہور گئے تھے توانہوں نے وہاں لکھا بھی تھا کہ مضبوط مستحکم پاکستان انڈیا کی خواہش ہے، اب اس سے زیادہ ہندوستان کا وزیر اعظم کیا کہہ سکتا ہے، لاہور میں جب ان کا گورنر ہائوس مین بینکوٹ ہواتو واجپائی صاحب نے کہا کہ میں واپس جائوں گا تومیری پارٹی والے پوچھیں گے کہ آپ کو وہاں کیا پاکستان پہ اپنی مہر لگانی تھی کیا، تو واجپائی نے کہا کہ پاکستان کو ہماری مہر کی ضرورت نہیں ہے،پاکستان اپنی مہر پہ چلتا ہے تو ایسے ہی ہندوستان بھی اپنی ہی مہر پہ چلتا ہے، بات وہیں آ جاتی ہے کہ کس طرح یہ دونوں ملک اکٹھے ہو سکیں، اور اکٹھے نہ بھی ہو سکیں تو کم سے کم بات چیت تو کبھی بند نہیں ہونی چاہئے آپس میں۔

اے ایس دلت نے کہا کہ ایک ٹی وی پروگرام میں صلاح الدین صاحب بھی تھے،میں نے اس پروگرام میں بات چیت کے حوالے سے یہی کہا کہ بات چیت ہونی چاہئے اور میں نے کہا کہ اس میں صلاح الدین صاحب کا رول بھی بنتا ہے،صلاح الدین صاحب نے کہا کہ ہمارے لئے تو جگہ ہی نہیں ہے، تو میں نے کہا کہ آپ کے لئے بہت جگہ ہے، پھر کہنے لگے کہ ہمارے ساتھ تو کوئی بات نہیں کرتا ہے، میں نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کیسے بات کی جاتی ہے،تو یہ حدود کی باتیں ہیں۔

.اب ہم آتے ہیں یاسین ملک، جب یاسین جیل سے چھوٹ کر سرینگر آیاتو اس نے کہا کہ میں اب بندوق چھوڑ رہا ہوں، اب میں گاندھیت پہ چلوں گا، سچی بات ہے کہ اس کے بعد اس نے بندوق نہیں اٹھائی،میں اس پہ اسے پورے مارکس دیتا ہوں۔

گیلانی صاحب کی سوچ اور تھی، وہ جو بھی بات کرتے تھے زیادہ تر پاکستان کی ہی کرتے تھے، اورکی وجہ یہ تھی کہ گیلانی صاحب جانتے تھے کہ ، وہ ایک علیحدگی پسند لیڈر تھے،وہ جانتے تھے کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہو بھی گیا تو اس میں ان کا رول نہیں ہو گا، ان کو جگہ نہیں ملنے والی ہے۔ جب یہ حریت ٹوٹی2001کے بعد اور ان کے جھگڑے ہوئے اور میر واعظ صاحب جن کو ہم ماڈریٹ حریت کہتے تھے، وہ الگ ہو گئے، تو کسی جرنلسٹ نے جب میر واعظ صاحب سے گیلانی صاحب کے بارے میں پوچھا تو میر واعظ نے کہا کہ who is the hell is Gilani۔یہ کون بلا ہے، مشرف صاحب بھی ایک بار بہت خفا ہوئے تھے گیلانی صاحب سے،کہ جب مشرف چاہتے تھے کہ بات آگے چلے تو گیلانی صاحب نے اس میں کچھ اڑچن ڈالنے کی کوشش کی تو مشرف نے کہا کہ getout you old man ۔

دلت نے کہا کہ مشرف سے زیادہ ریزن ایبل پچھلے پچیس تیس سال میں کوئی پاکستانی لیڈر نہیں رہا ہے، جو بات انہوں نے کہی تھی جس کا چرچا ہوتا ہے ' فور پوائنٹ فارمولے ''کا ، میں اب فور پوائنٹ کی بات نہیں کرتا ہوں کیونکہ اب فور پوائنٹ میں سے ایک پوائنٹ بھی دونوں طرف سے منظور نہیں ہو گا،مشرف صاحب کشمیر کے بارے میں بار بار کہتے تھے کہ جو بھی کشمیری اور کشمیریوں کو منظور ہو ، وہ پاکستان کو منظور ہو گا۔سردار قیوم بھی دو بار ہمارے ہا ں آئے تھے اور انہوں نے تقریریوںمیں وہی الفاظ استعمال کر کے کہا کہ جس سے بھی کشمیری محفوظ رہ سکیں،ہم اس کی مکمل حمایت کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں دلت نے کہا کہ تحریک دب چکی یا نہیں دب چکی اور آگے کیا ہو گا، یہ کہنا بڑا مشکل ہے، ایک بات جو آپ نے دو تین بار کہا ہے بندوق کے حوالے سے،تو میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بندوق آپ کے ہاں سے ہی آئی تھی،بندوق آپ نے ہی بھیجی یہاں، اور یہ جو کشمیر میں بربادی ہوئی ہے،یہ بہت حد تک آپ ہی کی مہربانی ہے،اگر یہ بندوق نہ آتی۔ ہمارے ہاں سے جو بھی زیادتی ہوئی جو کچھ بھی ہوا،کبھی کوئی ٹارگٹڈ کلنگ نہیں ہوئی ہندوستان کی طرف سے،ہمارے بہت سارے کشمیری لیڈر ٹارگٹ کر کے مارے گئے،مولوی فاروق کو مارا گیا،سائوتھ میں ہمارا میر واعظ تھاقاضی نثار اس کو مارا گیا،ڈاکٹر گرو کو مارا گیا اور پھر لون صاحب کو مارا گیا،جب لون صاحب کو مارا گیا اور ان کی لاش گھر آئی تو سجاد اتنے غصے میںتھا کہ جب گیلانی صاحب وہاں افسوس کرنے آئے تو اس نے کہا کہ تم باہر نکلو۔ بندوق کے بارے مین آپ سے کہتا ہوں کہ بندوق سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے والا، اور اس کو آپ بھی جانتے ہیں، یہ کہنا کہ آزادی کی لڑائی پانچ سو سال بھی چلتی ہے، شاید چلے،لیکن بندوق سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا،

ایک سوال کے جواب میں دلت نے کہا کہ یاسین بھی اپنی طرح کا آدمی ہے، جب بات چیت ہو رہی تھی تو یاسین حریت کو چھوڑ گیا تھا،یہ ہمیشہ سے ہی اپنی لائین پر چلنا چاہتا تھا،اور اس کی لائین تیڑھی رہی۔

دلت نے کہا کہ کشمیریوں کے ساتھ میری ہمدردی ہمیشہ ہی رہی ہے،میں نے کشمیریوں کے حق میں ہی کہا اور جب میں کشمیریوں کے حق میں نہیں بول سکتا تو میں کچھ بھی نہیں بولتا۔

ایک سوال کے جواب میں دلت نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ کشمیر ایک برج ( پل) بن سکتا ہے ہندوستان اور پاکستان کے بیچ، یہ بات میں نہیں مانتا کہ ہندوستان اور پاکستان کو کشمیر کو بھول جانا چاہئے، یہ بات میں نہیں مانتا کیونکہ جب ہندوستان اور پاکستان کی بات رک جاتی ہے تو کشمیری کی ایک طرح سے مایوسی کی حد ہو جاتی ہے، جب تک ہندوستان اور پاکستان کی بات چیت چلتی رہے۔

کشمیر اشو کے حوالے سے بات کو آگے بڑہانے کے سوال کے حوالے سے دلت نے کہا کہ ٹریک ٹو، بیک چینل تو ٹریک ون کی ہوتی ہے، ٹریک ٹو اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن اب جو ضرورت ہے وہ ٹریک ون کی ہی ہے، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ کی ضرورت ہے،دونوں طرف کے ڈپلومیٹس اب بات کو مانتے نہیںجو میں کہتا ہوں کہ اس کی شروعات جو ہے، جو اسے آگے چلانا ہے تو یہ اوپر سے ہی ہو گا، نیچے سے نہیں ہو گا۔ جب دونوں کی سمٹ میٹنگ ہو گی، اسی لئے میں کہتا تھا کہ اگر بات کو آگے بڑہانا ہے تو عمران خان کو چاہئے کہ وہ یہاں آئے ،مودی کے ساتھ حیدر آباد ہائوس میںکھانا کھائے، سرسوں کا ساگ اور مکھن کی روٹی کھلوائیں گے اس کو، اور پھر شاید بات آگے چلے،نہیں تو بات آگے چلنے والی نہیں ہے، اب شہباز شریف ہے تو ان کو سوچنا چاہئے کہ کب آنا ہے۔
دلت نے کہا کہ میں عمران خان کا کرکٹ کے حوالے سے فین ہوں۔

پروگرام کے ایک ناظر کے اس سوال کہ دونوں ملک کشمیر سے اپنی فوجیں نکال لیں اور کشمیر کو الگ ریاست تسلیم کر لیں ،کیا یہ دونوں ملکوں کے حق میں بہتر نہیں ہے ، کے جواب میں میں دلت نے کہا کہ یہ بات بڑیwishful thinking ہے، جب مشرف نے چار نکاتی فارومولہ بنایا تھا اس میں بھی ایسی بات نہیں تھی،
اب جو سیز فائر ہوا ہے وہ بڑی اچھی بات ہے، اگر دونوں طرف سے ہلکے ہلکے ٹروپس میں کمی ہو ،تھوڑے تھوڑے ٹروپس ہٹائے جائیں تو اچھا ہی رہے گا۔
کشمیریوں کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے،کے سوال کے جواب میں دلت نے کہا کہ کشمیری مجھے تھوڑا جانتے ہیں، اگر کشمیریوں کو میرا پیغام سمجھ نہیں آ رہا تو میر واعظ صاحب سے پوچھیں،وہ جانتے ہیں کہ میرا پیغام کیا ہے۔





واپس کریں