آزاد کشمیر کی آل پارٹیز کانفرنس نے 15ویں ترمیم کو سختی سے مسترد کر دیا،کونسل سے اثاثے اور کشمیر پراپرٹی واپس لینے کا مطالبہ، مظاہرین کو رہا کیا جائے
اسلام آباد (کشیر رپورٹ) آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ
'' یہ اجلاس آزاد جموں وکشمیر کے عبوری آئین1947میں 15ویں ترمیم کے حوالے سے سامنے آنے والی مجوزہ ترامیم پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیتا ہے کہ 2018میں حکومت پاکسان کی مشاورت سے کی گئی13ویں ترمیم آزاد کشمیر کے عوام کی امنگوں کا مظہر ہے۔13ویں ترمیم کے تحت حکومت آزاد کشمیر کو حاصل شدہ آئینی، قانونی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات میں کسی قسم کی کمی یا تبدیلی قابل قبول نہیں اور ان حاصل کردہ اختیارات کا ہر سطح پر تحفظ کیا جا ئے گا۔
یہ اجلاس تمام متعلقین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان اختیارات میں کمی کرنے کی کسی بھی کوشش سے باز رہیں ، ان اختیارات میں کمی آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر ، آزاد کشمیر کے عوام اور اہل سیاست پر عدم اعتماد کے مترادف ہے اور ایسی مذموم کوششوں سے کشمیری عوام میں شدید بے چینی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔یہ اجلاس ایسی کسی بھی کوشش کو ریاست جموں وکشمیر اور پاکستان کے ساتھ تاریخی رشتوں میں دراڑ ڈالنے کی سازش قرار دیتا ہے۔
اجلاس حکومت آزاد کشمیر سے مطالبہ کرتا ہے کہ13ویں ترمیم کے تحت حاصل جملہ اختیارات کو فی الفور رائے کار لا کر ریاست کے مالیاتی اور انتظامی اثاثہ جات کشمیر کونسل سے واپس حاصل کرے۔ حکومت آزاد کشمیر جموں وکشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا تصرف آزاد کشمیر حکومت کے حوالے کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے۔
یہ اجلاس آزاد جموں وکشمیر میں مجوزہ ٹورازم اتھارٹی کے قیام کی کوششوںکو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اسے آزاد کشمیر کے آئین کی دفعہ52سی کے مغائرقرار دیتے ہوئے حکومت آزاد جموں و کشمیر کو کسی بھی غیر آئینی قانون سازی سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے۔یہ نمائندہ اجلاس حکومت آزاد کشمیر سے پونچھ میں گرفتار مظاہرین کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرین پر زور دیتا ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیں اور سرکاری املاک کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔''
تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان کی میزبانی میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں 84 ہزار 4 سو اکہتر مربع میل ریاست جموں و کشمیر کو ناقابل تقسیم وحدت قرار دیتے ہوئے اسے متنازعہ ریاست جس کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق طے شدہ حق خودارادیت کی بنیاد پر کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اتوار کے روز اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی نمائندہ سیاسی قیادت اور 19 جماعتوں کے زعما نے شرکت کی۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والوں میں وزیراعظم زاد کشمیرسردار تنویر الیاس خان، چوہدری محمد یاسین صدر پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر،شاہ غلام قادرصدر پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر، مرزا محمد شفیق جرال صد مسلم کانفرنس،سردار حسن ابراہیم،صدر جموں وکشمیر پیپلز پارٹی،قائد حزب اختلاف چوہدری لطیف اکبر، سابق صدر راجہ محمد ذوالقرنین خان،سابق صدر حاجی سردار محمد یعقوب خان،سابق وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی،سیکرٹری جنرل مسلم لیگ ن آزاد کشمیرچوہدری طارق فاروق،امیر جمعیت العلما ئے اسلام آزاد کشمیرمولانا سعید یوسف،امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیرڈاکٹر خالد محمود،امیر جمعیت العلمائے پاکستان آزاد کشمیرمولانا امتیاز صدیقی،کنونیئر حریت کانفرنس محمود احمد ساغر،وائس چیئرمین بار کونسل سردار طارق مسعود ایڈووکیٹ،صدر سپریم کورٹ بار آزا دکشمیر راجہ طارق بشیر ایڈووکیٹ،صدر ہائی کورٹ بار آزاد کشمیرہارون ریاض مغل ایڈووکیٹ،ممبراان سمبلی کرنل وقار احمد نور، سردار عامر الطاف،حافظ احمد رضاقادری، محترمہ نثارہ عباسی،حریت رہنمامحمد فاروق رحمانی، صدر جموں کشمیر لبریشن لیگ خواجہ منظو رقادر ڈار، شامل ہیں۔
آل پاڑٹیز کانفرنس میں جو مشترکہ اعلامیہ جای کیا گیا اس میں کہا گیا ہے ریاست جموں و کشمیر کے دونوں اطراف کے سیاسی عمائدین کا یہ نمائندہ اجلاس 5 اگست 2019 کے بعد مقبوضہ جموں کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوے قرار دیتا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر 84471 مربع میل پر مشتمل ناقابل تقسیم وحدت ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت حق خودارادیت کے ذریعے ہونا ہے۔اجلاس مقبوضہ جموں کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے اور اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے ریاستی باشندہ قانون میں تغیر و تبدل کرنے کے اقدامات کی مذمت کرتا ہے اور ہندوستان کے ان غیر قانونی اقدامات کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریحا اور سنگین خلاف ورزی قرار دیتا ہے ،اجلاس مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں انتخابی سیاست کے توازن کو غیر موثر کرنے کے لیے مجوزہ نئی حد بندیوں کو مسترد کرتا ہے۔اجلاس ہندوستان کی جانب سے ریاست کی وحدت(Statehood) کو ختم کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فوری طور پر ان غیر قانونی اقدامات کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، یورپی یونین اوراسلامی وزرا خارجہ کانفرنس میں پیش کرے۔اجلاس مقبوضہ جموں وکشمیر میں حریت رہنمائوں کی مسلسل نظربندی بھارتی عقوبت خانوں میں قید کشمیریوں پر تشدد اور غیر انسانی سلوک کی شدید مذمت کرتا ہے جس کی مثال یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، میرواعظ عمر فاروق، مسرت عا لم بٹ، محترمہ آسیہ اندرابی کے ساتھ ناروا غیرانسانی سلوک ہے جس میں انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا دی جارہی ہے اور دیگر آزادی پسند رہنماں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک روا رکھے جانے کی اطلاعات ہیں۔اجلاس اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے نوٹس لینے کا مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو روکنے اور غیر قانونی طور پر قید کشمیریوں کی رہائی کے لیے اقدامات اٹھائیں۔
یہ اجلاس آزادجموں وکشمیر کے عبوری آئین 1974 میں پندرویں ترمیم کے حوالے سے سامنے آنے والی مجوزہ ترامیم پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے قراردیتا ہے کہ 2018 میں حکومت پاکستان کی مشاورت سے کی گئی 13 ویں ترمیم آزادکشمیر کے عوام کی امنگوں کا مظہر ہے۔تیرویں ترمیم کے تحت حکومت آزادکشمیر کو حاصل شدہ آئینی، قانونی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات میں کسی قسم کی کمی یا تبدیلی قابل قبول نہیں اور ان حاصل کردہ اختیارات کا ہر سطح پر تحفظ کیا جائیگا۔2018 میں تیرویں ترمیم کی منظوری کو یہ اجلاس ایک تاریخی پیش رفت تصور کرتے ہوے اس پر راجہ محمد فاروق حیدر خان سابق وزیر اعظم،شاہ غلام قادر سابق سپیکر قانون ساز اسمبلی اوراس وقت کے ان تمام اراکین قانون ساز اسمبلی و کونسل کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہیں جنہوں نے شدید ترین دبا کے باوجوداس ترمیم کی منظوری میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔یہ اجلاس تمام متعلقین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان اختیارات میں کمی کرنے کی کسی بھی کوشش سے باز رہیں ان اختیارات میں کمی آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر/آزادکشمیر کے عوام/اور اہل سیاست پر عدم اعتماد کے مترادف ہے اور ایسی مذموم کوششوں سے کشمیری عوام میں شدید بے چینی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ اجلاس ایسی کسی بھی کوشش کو ریاست جموں وکشمیر اور پاکستان کے ساتھ تاریخی رشتوں میں دراڑ ڈالنے کی سازش قرار دیتا ہے۔اجلاس حکومت آزادکشمیر سے مطالبہ کرتا ہے کہ تیرویں ترمیم کے تحت حاصل جملہ اختیارات کو فی الفور بروئے کار لاکرریاست کے مالیاتی اور انتظامی اثاثہ جات کشمیر کونسل سے واپس حاصل کرے۔ حکومت آزادکشمیر جموں کشمیر اسٹیٹ پراپرٹی کا تصرف آزادکشمیر حکومت کے حوالے کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے ۔یہ اجلاس آزادجموں وکشمیر میں مجوزہ ٹوارزم اتھارٹی کے قیام کی کوششوں کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اسے آزادکشمیر کے آئین کی دفعہ 52 سی کے مغائر قرار دیتے ہوے حکومت آزادجموں وکشمیر کو کسی بھی غیر آئینی قانون سازی سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے، ٹوازم اتھارٹی کی موجودہ شکل کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے، حکومت آزاد کشمیر اس سلسلہ میں آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں، وکلا اورسول سوسائٹی کو اعتماد میں لے کر ٹورازم کے حوالے سے آزاد کشمیر کے عوام کے مفاد میں قانون بنایا جائے۔یہ نمائندہ اجلاس حکومت آزادکشمیر سے پونچھ میں گرفتار مظاہرین کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوے مظاہرین پر زور دیتا ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیں اور سرکاری املاک کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔۔اجلاس میں پاک فوج کے بلوچستان میں امدادی سرگرمیوں کے دوران شہید ہونے والے پاک فوج کے اعلی آفیسران اور جوانوں کی شہادت پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔اجلاس میں غزہ میں فلسطینی عوام پر اسرائیلی فوج کی بربریت کی شدید مذمت کی گئی۔
واپس کریں