دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایک روز سنٹرل جیل کراچی میں، قیدی پر قیدی، درس گاہ ہے یا باغیچہ (1)
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
جیل چورنگی یا سنٹرل جیل کراچی کے اطراف سے گزرنے والے مدت سے جیل کے چاروں طرف فٹ پاتھ پر رکھی ریت بھری بوریوں کا حصار دیکھتے ہیں۔ جس سے قلعہ نما جیل آسیب لگتی ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ دہشت گرد گاڑی ٹکرانے کی کوشش کریں تو ان کو ناکامی ہو۔ ان حفاظتی تدابیر کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ جیل کے مکینوں کو دہشت گردانہ کارروائیوں سے محفوظ رکھا جائے بلکہ غیر ریاستی فن کاروں کی جانب سے جیل میں موجود قیدیوں کو غیر فطری طور پر جیل سے نکالنے کی منصوبہ بندی کے سامنے دیوار کھڑی کر رکھی ہے جو زمانہ قدیم سے نہیں۔ کل کی بات ہے جب ہم جیل کے اطراف سے گزرتے تھے تو صاف ستھرا ماحول اور کراچی کے دوسرے علاقوں کی طرح یہ علاقہ بھی اجلا دھلا لگتا تھا۔ پھر پاکستان نے افغانستان میں جہاد شروع کیا، پرسکون، خوش حال ،صاف و شفاف کراچی بدآمنی کا شکار ہو گیا۔ گویا دہشت گردوں، منشیات فروشوں اور جرم پیشہ افراد کے لیے کراچی جنت اور محفوظ پناہ گاہ بن گیا۔ جیلیں بھرتی گئیں، لیکن ڈکیتیاں، اور چھینا چھپٹی بھی بے قابو ہوتی گئی، اسلحہ اور منشیات کی رہل پیل ہوئی۔ سیاست کے نام پر کراچی تین عشرے تک مافیا کے قبضے میں رہا کبھی لسانی سیاست کے نام پر کبھی امن کی بحالی کے نام پر۔ اس مافیا میں کبھی حکومت کی شمولیت رہی کبھی اپوزیشن کی۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز بھی پیچھے نہیں رہے۔قصہ مختصر یہ کہ جس کا جتنا ہاتھ پڑا اس نے اتنا ہی ہاتھ صاف کیا۔ اس لاقانونیت میں ہزاروں افراد بے گناہ قتل ہوئے، جیلوں کے ساتھ قبرستان بھی بھر گئے ۔ لاتعداد جرائم پیشہ افراد گرفتار ہوتے اور رہا ہوتے رہے، پھر گرفتار ہوئے اور کچھ مارے گئے۔ مگر جرائم اور کرائم ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے اور نہ جرائم پیشہ عناصر ختم ہوتے ہیں۔ گزرے سال کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران 6  ہزار افراد کو سینٹرل جیل کراچی منتقل کیا گیا۔ سال کا تناسب نکالیں تو یہ تعداد کم از کم 13 ہزار سے زائد ہے۔ گویا دونوں جیلوں میں قید ہونے والوں کی تعداد 20 ہزار سے زائد ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں گرفتاریوں کے باوجود شہر میں جرائم میں کمی نہیں آ رہی۔ دو ماہ قبل ہم بھی اس وقت لوٹے گئے جب اے ٹی ایم سے کیش نکال کر گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔ گن بردار تیزی سے ہماری طرف لپکا تو ہم سمجھ گئے کہ تقاضا کیا ہے۔ جان کی امان پائی، چوں کیا نہ چراں اے ٹی ایم سے نکالی جانے والی رقم اس بہادر آدمی کے حوالے کی جو ہمارے اوپر گن ایسا تانا ہوا تھا جیسے سپاہی محاذ جنگ پر کھڑا ہو۔ میرے پاس رقم حوالے کرنے کے سواء کوئی چارہ بھی نہ تھا ورنہ ہڈیاں چورا چورا اور خون سڑک پر بہہ رہا ہوتا۔ فٹ پاتھ کا بہادر اس پر بھی مطمئن نہیں ہوا، میری جسمانی تلاشی ہی نہیں لی بلکہ بٹوا بھی پورا کھنگالا۔ بے خوفی کے ساتھ اس وقت تک تحقیقات اور تلاشی لیتا رہا جب تک اسے تسلی نہیں ہوئی کہ میرے پاس کوئی اور قیمتی شہ نہیں جسے وہ ہتھیائے۔ کتنا مہربان اور خدا ترس انسان تھا کہ اس ساری کارروائی کے دوران مجھے کچھ نہیں کہا۔ نہ کوئی تھپڑ، نہ کوئی گھونسا، نہ لات منکا۔ کچھ نہیں بس اتنا پوچھتا رہا کہ موبائل کہا چھپا رکھا ہے۔ مجھے تو خوف ہو چلا تھا کہ موبائل نہ لانے کی سزائے موت ہونے والی ہے لیکن بچت ہو گئی۔ شہر میں آج بھی امن و امان کی صورت حال ابتر ہے اور بہتر ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ سنٹرل جیل کراچی میں نامی گرامی دہشت کردوں کو بند گیا گیا تو ان کی رہائی قانونی طریقہ کار کے بجائے بزور طاقت عمل میں لانے کی کوشش کی گئی۔ دہشت گردی کے حملے ہوئے جس سے جیل کے درو دیوار ہل گئے۔ ان کارروائیوں کو جیل کی دیوار سے دور رکھنے کے لیے بوریوں میں بند ریت جیل کے اطراف کی فٹ پاتھ پر جمع کی گئی۔ یہ ریت بھری بوریاں بدنما تو ہیں ہی لیکن ساتھ ہی کچرے اور ملبے کے ڈھیر خوف ناک منظر پیش کرتے ہیں۔ جیل میں داخلے کا صدر دروازہ اس سے بھی زیادہ خوف ناک جگہ بن چکا، جہاں جیل میں داخل اور نکلنے والی گاڑیوں کے علاوہ تین سمتوں سے آنے والی ٹریفک کے ساتھ ساتھ ہزاروں پیدل چلنے والوں کے رش کا عالم ہے جہاں پیر رکھنے کی جگہ دیکھنا پڑتی ہے۔ باہر سے تو اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کے جیل کا اندرونی منظر کیسا ہے، بظاہر ایک بڑا قلعہ نما کمپلیکس لگتا ہے۔ ظاہر ہے بلند بالا دیوار کے اندر کا تصور تو خوف ناک اور بھیانک ہی ہے۔ لیکن ہمارا سنٹرل جیل کراچی کا ایک روزہ تجربہ خوش گوار اور بے حد معلوماتی رہا۔ ہفتہ 18 جنوری 2025ء کا دن کراچی سنٹرل جیل میں گزرا۔ یہ ہمیں ایک روزہ سزا نہیں تھی بلکہ ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کا ایک بھاری بھرگم وفد قیدیوں کے ساتھ جیل حکام کے حسن سلوک کا معائنہ کرنے چئیرمین جمشید حسین کی قیادت میں وہاں گیا اور صبح سے شام تک جیل کے مختلف حصوں، بیرکوں کے معائنے، قیدیوں اور انتظامی افسران کے ساتھ تبادلہ خیال میں گزرا۔ جیل میں قائم تعلیم و تربیت کے اداروں نے بہت متاثر کیا جہاں تربیت حاصل کرنے والے قیدیوں سے کلاس روم بھرے ہوئے ہیں ۔ وفد میں ریحانہ عزیز، ان کے شوہر نامدار محمد عزیز خان، نوجوان عبدالمعیز طیب چودھری، دبئی سے آئی ہوئی ثناء قدوائی، عالیہ اور دیگر خواتین و حضرات شامل تھے۔ چوں کہ سنٹرل جیل کراچی جانے کا یہ میرا پہلا تجزیہ تھا لہذا مجھے لگا کہ گاڑیاں باہر سڑک پر کھڑی کرنا ہوں گی تاہم جمشید حسین جو اس دن صبح سویرے سندھ ہائی کورٹ میں ہیومن رائٹس کے حوالے سے کسی مقدمے میں مصروف تھے، وقت مقرر سے ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے پہنچے اور کہا کہ گاڑیاں جیل کے اندر جائیں گی۔ ہم جو جیل کے سامنے ایک ہوٹل کے باہر سڑک پر انتظار کر رہے تھے، جان میں جان آئی کہ اب ہماری گاڑیاں تو محفوظ رہیں گی۔ کراچی میں یہ تاثر عام ہے کہ زیادہ کرائم جیل کے اطراف کی آبادیوں میں ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس سوائے خوف کے اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ آیا جیل میں بند نوجوانوں سے ہی ففٹی ففٹی پر یہ کام لیا جاتا ہے۔
"بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو، زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو" وَاللہُ اَعلَمُ بِالصَّواب۔۔۔ جیل کی مختلف بیرکوں میں بہت سارے ایسے نوجوانوں سے تعارف ہوا جن کے گھر جیل کے اطراف کی آبادیوں میں ہیں۔ لیکن یہ کو دلیل نہیں۔ بھیڑ بھاڑ سے نکل کر ہماری گاڑیاں صدر دروازے سے بڑی مشکل سے داخل ہوئیں جگہ جگہ خاردار تاریں، اونچی نیچی موٹی چوڑی دیواریں، اور دیواروں پر بنے مورچے، فولادی دروازے اور ان پر کھڑے پہرے داروں کی موجودگی میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ عام جگہ نہیں اور جتنے آگئیں بڑتے ہیں خود کو بے اختیار اور محبوس محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہی جیل کا ماحول اور احساس ہے جو انسان کو خوف زدہ کرتا ہے۔ جتنی بھی سہولتیں اور انتظامی مہربانیاں ہوں قیدی جیل سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیوں کہ جیل جیل ہے۔ جیل میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے باہر کی دنیا سے رابطہ منقطع ہوتا ہے جب موبائل فون سروس بند ہو جاتی ہے۔ ہم بھی سب شہر اور اہل خانہ سے کٹ چکے تھے۔ یہ تو ہمارے فائدے میں تھا کہ جیل سے واپس باہر آنے تک کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو ورنہ دوست احباب کو معلوم ہو جاتا کہ ہم سنٹرل جیل کراچی پہنچ چکے تو جب تک واپس باہر آتے سوشل میڈیا پر عزت سعادت بھی گنوا بیٹھے ہوتے۔ ہم نے گاڑیاں صدر دروازے سے کافی اندر ایک پختہ پارکنگ میں کھڑی کی جو غالبا مہمانوں، ملاقاتوں یا افسران کے لیے مختص ہے۔ یہ احاطہ صاف ستھرا اور کرب اسٹون سے پختہ ہے۔ اس سے آگئیں جا کر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں پہنچایا گیا۔ بے جان موبائل کو بھی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں جمع کرا کر اصل دروازے سے اندر جانے کی اجازت ملتی ہے۔ جیل اہلکاروں کو چکما دے کر ہم موبائل تو ساتھ لے گئے لیکن ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے دروازے سے آگئیں نکلنا آسان نہ رہا، لہذا فرمانبردار لوگوں کی طرح ہم سب نے بھی اپنے فون ڈپٹی صاحب کے حوالے کئے جنہوں نے دراز میں ڈال کر تالا لگایا اور چابی اپنی ہی جب میں رکھ لی۔ ہمارے ہاتھ کی پشت پر جیل داخلے کی مہر لگی اور رجسٹرڈ پر نام و پتہ درج ہوا تو ہمارے لیے جیل کا دروازہ کھلا۔ خواتین مہر سے مستثنی قرار پائیں۔ نرم و نازک ہاتھ جیسے گئے تھے اسی طرح واپس آئے۔ سیاہی مردوں کے ہاتھوں پر ہی ملی گئی، کچھ لوگوں نے تو مردوں کے ساتھ اس امتیازی سلوک پر احتجاج بھی کیا لیکن جیل کے اندر کس کی سنی جاتی ہے۔ بادل نخواستہ احتجاجی بھی خاموش ہوئے اور ہاتھ کالا کرا کر اندر داخل ہوئے۔ ممکن ہے کسی سیانے نے کانا پھوسی سے احتجاجیوں کو سمجھا دیا ہو کہ خاموش ہو جاو سیاہی ہاتھ تک ہی رہنے دو، منہ پر لگانے کا حکم ہوا تو پھر کہاں شہر میں منہ چھپاتے وضاحت کرتےپھریں گے اور کس کس کو سمجھائیں گے کہ جیل کیسے جانا ہوا اور منہ کیوں کر کالا ہوا۔ برحال الجھانے والے سے زیادہ سلجھانے والے نے کام کیا اس سے بھی زیادہ یہ کہ سلجھا ہوا سربراہ جمشید حسین ساتھ تھا جو جگہ جگہ ہمراہیوں کی نگرانی، رہنمائی اور سرپرستی کر رہا تھا۔ سارے ہی لوگ خیر و خوبی سنٹرل جیل کراچی میں داخل ہوئے تو دروازے کے بالکل سامنے کیچن کی عمارت نظر آئی۔ عمارت پر کچن لکھا تو نہیں لیکن خوشبو سے لگ رہا تھا کہ قریب ہی کچھ ذائقہ دار پک رہا ہے اطراف میں اس نوعیت کی کوئی اور عمارت تھی نہیں لہذا یقین ہو گیا کہ یہی کچن ہے جہاں قیدیوں کا کھانا پکتا ہے۔ خوشبو ایسی تھی کہ منہ میں پانی آئے، وفد کے اکثر اراکین للچائی ہوئی نظروں سے جمشید حسین کی طرف دیکھنے لگے کے اگلا حکم کیا ہو گا، وہ بھی خوب سمجھے اور اشاروں کنایوں میں سمجھایا کہ واپسی پر منہ کا ذائقہ تبدیل کریں گے آخر چیک تو کرنا ہے کہ قیدیوں کو کیسا کھانا دیا جاتا ہے۔ اسی اثنا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سعید سومرو نے ہمیں اس جانب مڑنے کو کہا جہاں تعلیم و تربیت کے محکمہ جات ہیں۔

صحیح معنوں میں جیل کے حاطے کی شروعات یہاں ہی سے ہوتی ہے جہاں سے قیدیوں اور قیدیوں کے لیے مختلف سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے ۔ آپ سمجھتے ہوں گے قیدیوں کی کیا سرگرمیاں ہوتی ہوں گی، سوائے مشقت اور سزا کے۔ لیکن سنٹرل جیل کراچی میں ایسا ہرگز نہیں۔ میرا دل کر رہا ہے کہ جو کچھ سنٹرل جیل کراچی میں دیکھا وہ سب سچ سچ لکھوں پھر خیال آیا کہ ایسا نہ ہو نوجوان جیل جانے کی طرف راغب ہو جائیں کہ آزادی کے اس عذاب سے جیل کیا بری ہے۔ جی ہاں جیل تو پھر جیل ہے خواہ جتنی بھی خوبیاں اور اچھائیاں بیان کریں اور سنٹرل جیل کراچی میں بھی کچھ اسی طرح کا ملا جلا ماحول ہے، جہاں صفائی ستھرائی، کے ساتھ اصلاحی سرگرمیاں قابل تحسین ہیں وہاں بیرکوں کی حالت قابل تعریف نہیں۔ مختصر سچ تو یہ ہے کہ ہمیں سنٹرل جیل کراچی میں داخل ہوتے ہی مختلف ماحول لگا، جیسے یہ درسگاہ ہو یا باغیچہ۔ صاف ستھرا ماحول اور بیرکوں کے اطراف باغ و باغیچے، کیاریاں اور ان میں انواع و اقسام کی سبزیاں اور پھول۔ ہم نے دریافت کیا کہ اس ہریالی اور سبزے و باغ بانی کے لیے مالیوں کی فوج رکھی ہو گی، بتایا گیا نہیں قیدی ہی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ کیا اس کا ان کو کچھ معاوضہ ملتا ہے۔ اس سوال کا جواب گول مول کر دیا گیا۔ لیکن ہمیں خود سمجھ آ گئی کہ درست و تربیت میں خدمات انجام دینے والوں کو معاوضہ دیا جاتا ہے۔ لیکن قید بامشقد بھی ہوتی ہے اور وہ یہی تو ہے، بیرکوں میں قید اور باغبانی و صفائی مشقد۔ لیکن یہ مشقد بھی اچھی ہے۔گویا جو قیدی جیل کے اندر باغ بانی کے اتنے ماہر ہو گئے، باہر آنے کے بعد بلدیاتی اداروں کو ان کی خدمات حاصل کرنا چاہئے تاکہ شہر بھی سنٹرل جیل کراچی کی طرح باغ و بہار اور سرسبز ہو جائے۔ ہرے بھرے پودے، سبزیاں اور پھول دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر کن تعلیم و تربیت کے ادرے ہیں جہاں قیدی ہی سکھاتے پڑھاتے ہیں اور قیدی ہی سیکھتے پڑھتے ہیں۔ یہ ادارے کراچی بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن سے رجسٹرڈ ہیں۔ یہاں سے فارغ ہونے والے قیدیوں کو ڈپلومہ دیا جاتا ہے جس پر جیل کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ کزشتہ سال سینٹرل جیل کراچی میں کانووکیشن منعقد ہوا، جس کے دوران تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے قیدیوں کو سرخ رنگ کے گائون پہنا کر پنڈال میں لایا گیا تو پہلے سے پنڈال میں بیٹھے لوگوں نے تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔ اس وقت ان کے احساسات اور جذبات کیسے ہوئے ہوں گے۔۔ ظاہر ہے قیدیوں کو ڈگری دینے کے لیے باری باری اسٹیج پر بلایا گیا ہو گا اور حاضرین نے تالیوں سے ان کا استقبال بھی کیا ہو گا ۔ اس دن کمپیوٹر، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور لینگویج کورس سمیت دیگر شعبوں میں تربیت حاصل کرنے والے 248 قیدی کو اسناد دی گئیں جب کہ پوزیشن ہولڈر طلبا کو 25، 25 ہزار روپے اور تحائف بھی دئیے گئے۔ کئی ایسے افراد جو مختلف الزامات میں سالوں سے جیل  میں ہیں، آئی ٹی، پلمبرنگ، الیکٹریشن، ڈیزائن و گرافک چینی زبان سمیت مختلف کورس کر کے بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن سے ڈپلومہ حاصل کر چکے۔ لہذا کراچی سینٹرل جیل خانہ کسی حد تک اصلاح خانہ میں بدل رہا ہے۔ جیل انتظامیہ کی اس پالیسی سے ہم نے اتفاق نہیں کیا کہ اس حوالے سے قیدیوں پر کوئی سختی نہیں کی جاتی کہ آپ نے ہر حال میں کوئی نہ کوئی کورس کرنا ہی ہے۔ یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ کوئی کورس کرنا چائیں تو کریں ورنہ بیرک میں ہی قید رہنا چاتے ہیں تب بھی ان کی رضا۔ میری رائے ہے کہ جیل میں داخل ہونے والے ہر قیدی کے لیے لازم ہونا چاہئے کہ وہ کچھ نہ کچھ سیکھے لیکن 7 ہزار افراد کو ایک ساتھ تعلیم و تربیت کی سہولت مہیا کرنا مشکل کام ہے، پھر جیل کیا رہ جائے گی یونیورسٹی بن جائے گی۔ اس موقع پر جیل سپرنٹنڈنٹ جناب نصرت علی منگن بہت یاد آئے جن کے ویژن، اخلاص اور حب الوطنی کی تعریف نہ کی جائے تو بخیلی ہو گی۔ 2007ء میں جیل کی حدود میں انہوں نے ہی"فائن آرٹ اسکول" قائم کیا جہاں قیدیوں کو فنی تعلیم دی جانے لگی اس سکول کو چلانے کے لیے اس وقت ماہر استاد کی خدمات حاصل کی گئیں تھی لیکن اب طویل قید بھگتنے والے قیدی ہر شعبہ میں استاد کا کردار ادا کر رہے ہیں، جس کا ان کو معاوضہ بھی ملتا ہے اور سزا میں کچھ سہولت اور رائت بھی۔ جماعت اسلامی کے خدمتی ادارے الخدمت فاؤنڈیشن کی خدمات سنٹرل جیل کراچی میں بھی نمایاں ہیں جہاں اس کی جانب سے" سکل ڈیولپمنٹ اینڈ وکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ" قائم کیا گیا ہے، جس سے بہت سے قیدی مستفید ہو رہے ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے پلمبرنگ کی کلاس میں لے جایا گیا جہاں انسٹریکٹر 20، 25 طلباء کی کلاس کو پلمبرنگ کا ہنر سکھانے میں مصروف تھا، کچھ طلباء سے سوال کئے اور تسلی بخش جواب ملنے پر برابر والے کلاس روم میں گئے جہاں الیکٹریشن کا کام سیکھایا جا رہا تھا۔ گرافکس اور ڈیزائن کے شعبہ میں بھی طلباء خاصے متحرک پائے گئے جن کی بنی ہوئی اشیاء خوب صورت اور معیاری تھی جو زیادہ طر خواتین کے استعمال کی تھی۔ ہماری گروپ ممبر ریحانہ عزیز بے یہاں کچھ خریداری بھی کی۔ پینٹنگ کا شعبہ بھی کیا خوب ہے قیدیوں نے بے نظیر بھٹو، قائد اعظم، علامہ اقبال سمیت مختلف پینٹنگ بنائی ہیں۔ بتایا گیا کہ قیدی پنٹروں کی پینٹنگ کی نمائشیں بھی ہو چکی جب کے جیل کی دیواروں اور کمروں میں جو بھی پینٹنگ ہے وہ یہاں کے قیدیوں کی بنائی ہوئی ہیں۔ کمپیوٹر سیکشن کیا خوب ہے، قیدی طلباء کو کمپیوٹر کے جدید کورس کرائے جا رہے ہیں۔ جو باہر کمرشل انسٹیٹیوٹ میں کیا جائے تو 20 ہزار ماہانہ سے زیادہ فیس ادا کرنا پڑے۔ ہمارے وفد میں موجود کمپیوٹر واقف کاروں نے سلیبس کے معائنے کے علاوہ طلبا کو کمپیوٹر پر کام کرتے بھی دیکھا اور اس پر تعریف کی کہ یہ لوگ جب جیل سے بائر جائیں گے تو لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ کی ملازمت تیار پڑی ہے۔ ایک بیرک میں سو سواء سو قیدی قرآن کی تلاوت میں مصروف تھے معلوم ہوا یہ مدرسہ ہے اور جو لوگ قرآن سیکھنے چاتے ہیں ان کو اس بیرک میں منتقل کیا جاتا ہے۔ وہاں کے استاد بھی قیدی ہیں۔ کچھ لوگ ترجمہ قرآن کی تلاوت میں مصروف تھے اور کچھ مذہبی کتابیں پڑھ رہے تھے۔ موسیقی کے شعبہ میں درجب بھر افراد ساز پر راگ میں مصروف تھے۔ جمشید حسین نے انسٹریکٹر سے ساز پوچھے تو اس نے فرفر جواب دیا۔ اس گروپ سے ہم نے ایک اردو اور ایک سندھی میں قوالی سنی اور جیو جیو پاکستان ان کی خواہش پر سنا۔ ان تمام اداروں میں روزانہ دو، دو گھنٹے کی دو کلاسیں ہوتی ہیں۔ اس کا یہ مقصد نہیں کہ تمام قیدی درس و تدریس اور سیکھنے سیکھانے میں مصروف ہیں۔ تمام شعبہ جات میں مجموعی طور ایک ہزار سے کم طالبان ہوں گے جو مثبت سرگرمیوں میں مصروف ہیں جب کہ لگ بھگ چھ ہزار بیرکوں میں ہی بند ہیں۔ سنٹرل جیل کراچی کی مسجد کی عمارت بھی وسیع و عریض ہے۔ پانچ وقت باجماعت نماز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مسجد میں مولوی اور معزن سے ملاقات ہوئی جو دونوں قیدی ہیں۔ ماشاءاللہ نورانی چہرے سے کہیں یہ نہیں لگ رہا تھا کہ یہ لوگ جرائم میں ملوث رہ چکے، ممکن ہے یاد اللہ میں مصروفیات کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے ان کے دلوں کو صاف کر دیا ہو جس کے اثرات چہرے پر نمایاں ہوئے ہیں ۔ ہم نے ان نوجوانوں کے لیے دل سے دعا کی کہ ان کو جلد رہائی ملے۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ مسجد میں لوڈ اسپیکر موجود نہیں جس کے باعث بعض اوقات آذان کی آواز قیدیوں تک نہیں پہنچتی۔ ہمارے ساتھ محمد عزیز خان نے لوڈ اسپیکر دینے کی یقین دہانی کرائی۔ وفد کو جیل انتظامیہ کی جانب سے مختلف بیرکس کا دورہ کرایا گیا، جہاں قیدیوں سے ملاقات ہوئی۔ یہاں صورت حال بہت زیادہ تسلی بخش نہیں تھی۔ ہمیں دیکھ کر قیدی ہوشیار ہو گئے جیسے ہماری انتظار میں تھے۔ ہر کوئی للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ بیرک کے دورے کے دوران اندازہ ہوا کہ اس جیل میں ایسے لوگ موجود ہیں جن پر اغوا، قتل، ڈکیتی اور دہشت گردی جیسے سنگین الزامات ہیں جن کو سزا بھی ہو چکی لیکن ہزاروں میں چند ایک نے ہی اپنا جرم تسلیم کیا اور کہا کہ اس جرم کا میں سزا یافتہ ہوں۔ اکثریت کا کہنا تھا کہ وہ بے گنا ہے اور ان کو جس جرم میں پکڑا گیا اس کے بارے میں اسے خود معلوم نہیں کہ اس نے یہ جرم کب کیا۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کو طویل قید اور موت کی سزائیں سنائی گئیں لیکن وہ بھی جرم سے انکاری ہیں ۔ ایک قیدی نے کہا کہ انھیں چار سال سے یہاں رکھا گیا مگر کبھی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ بعض قیدیوں نے تو شکایت کی کہ انہیں وکیل کی سہولت میسر نہیں جس پر سعید سومرو صاحب کے جواب کے بعد اس کے پاس مذید سوال کرنے کی گنجائش نہیں کہ تم نے کسی کو بتایا کہ وکیل کی سہولت چاہئے۔ عملے کے ایک فرد نے اس موقع پر بتایا کہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی جج کا دورہ ہے اور ہم خود کو بے گناہ کہیں تو ممکن ہے ابھی رہائی مل جائے۔(جاری ہے)
واپس کریں