کیرالہ منی پاکستان اور بھارتی پارلیمان میں مسلم لیگ کی نمائندگی؟
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ کراچی منی پاکستان ہے لیکن اب بھارت کے علاقے کیرالہ کو بھی منی پاکستان کہا جا رہا ہے جہاں کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی یک بعد دیگرے بھاری اکثریت سے جیت کر مودی کو خوف زدہ کرنے پارلیمان پہنچ چکے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی نسل نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے بے لگام گھوڑے کو نتھ ڈال دی اور متعصب ہندو قیادت کی ناکامیوں پر ناکامیوں کے بعد چیخیں نکل گئی۔ کیرالہ حلقہ وائناڈ کے عوام نے راہول گاندھی کی خالی کردہ نشت پر سونیا گاندھی کو چھ لاکھ 20 ہزار ووٹ دے کر کامیاب کیا جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا امیدوار دو لاکھ ووٹ حاص کر سکا۔ راہول کو اس نشت پر چار لاکھ ووٹوں سے کامیابی ہوئی تھی۔ پرینکا جو پہلی مرتبہ انتخابی سیاست میں داخل ہوئی بھارت بھر میں ہل چل مچا رکھی ہے اور مودی سمیت بھاجپا کی قیادت جو ہر لمحے پنڈت جواہر لعل نہرو سمیت کانگریس کی قیادت پر تبرے بھیجتی تھی ان دونوں بہن بھائی خاص طور پر پرینکا سے خوف زدہ ہے جس نے اپنی کامیاب حکمت عملی اور سیاسی بصیرت سے مودی اور اس کے ساتھیوں کی بولتی بند کر رکھی ہے۔ پرینکا نے عوامی سیاست کا آغاز ہی عوامی میل جول سے کیا، وہ جہاں جاتی ہے غریب اور متوسط طبقہ میں گھل مل جاتی ہے۔ لوگوں سے ہاتھ ملاتی ہے، دلتی اور غریب خواتین سے گلے ملتی ہے۔ پرینکا نے بھارت میں اقلیتوں اور غریبوں کو اپنی سیاست کا مہور بنا رکھا ہے جن کی بھارت میں اکثریت ہے۔
کیرالہ کے حلقہ وائناڈ میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے پریانکا نے ووٹ حاصل کرنے میں اپنے بھائی کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس شکست کا بدلہ کیرالہ کے عوام کو یہ طعنہ دے کر لیا کہ یہ منی پاکستان ہے جہاں کے عوام نے پنڈت جواہر لعل نہرو کی نسل کے دونوں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کیا۔ مسلمانوں کے خلاف بیان بازی اور نفرت انگیزی میں شہرت یافتہ مہاراشٹر کے وزیر نتیش رانے نے کیرالہ کا موازنہ پاکستان سے کیا ہے اور کہا کہ دونوں افراد مسلمانوں کی وجہ سے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جس پر ایک ہنگامہ برپا ہے کہ بھاجپا نے کیرالہ کے عوام کی توہین کی ہے۔ کانگریس کی خارجہ پالیسی متوازن اور کسی حد تک لبرل ہے جس کے باعث اقلیتیں خاص طور پر مسلمان مودی کے فاشزم سے بچنے کے لیے کانگریس کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اسی باعث بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت بھارت بھر میں شور مچاتی ہے کہ بھارتی مسلمان کانگریس کے حمایتی ہیں۔ اسی پروپیگنڈے کے باعث مودی کانگریس کے ہندو ووٹ کو توڑنے میں کافی حد تک کامیاب ہوا تھا لیکن اب راجیو گاندھی کی اولاد پرینکا اور راہل گاندھی نے مودی کے بھارت ہندو ریاست بنانے کے خواب کو چکنا چور کر دیا۔
ایک زمانے میں پاک بھارت سیاست دونوں ممالک کی شدید مخالفت پر ہوتی تھی۔ بھارتی سیاست دان پاکستان اور پاکستانی سیاست دان بھارت کے خلاف خوب تقریریں کرتے اور زیر اگلتے تھے۔ بلکہ بات یہاں تک پہنچی کہ ہمارے مذہبی حلقے جوشیلی تقریروں میں دلی پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کی باتیں کرتے تو سامعین کا لہو گرم ہو جاتا اور پنڈال اللہ اکبر کے نعروں کی گونج سے لرزنے لگتا۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ایک آزاد ملک کی دارالحکومت پر اپنا پرچم لہرانے کی یہ معصومانہ خواہش اس کے ایک ارب سے زائد شہری کیوں کر پوری ہونے دیں گے۔ لیکن نہ معلوم کیا وجہ بنی آہستہ آہستہ پاکستانی سیاست میں دلی پر سبز ہلالی پرچم لہرائے بغیر ہی وہ جذبہ ختم ہوتا گیا، بلآخر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے منشور سے کشمیر بھی نکل کیا۔ اب تو کشمیر پاکستان کی سیاست کا بھولا بسرا قصہ لگتا ہے اور بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور تجارت کی بحالی کی تڑپ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حتی کہ آزاد جموں و کشمیر میں بھی جب سے پاکستانی سیاسی فرنچائز قائم ہوئیں لوگ آزادی کی باتیں بھول چکے۔ البتہ ہماری اس نعرے بازی سے اکھنڈ بھارت والوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور بھارت بھر میں اس کا خوب چرچہ کر کے ایک سیکولر ملک کو کٹر ہندو ریاست میں بدلنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں ۔ مودی اور اس کی پارٹی لیڈر کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے کہ پاکستان پے ہرزہ سرائی نہ کریں۔ بھاجپا نے بھارت بھر میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ اب لگتا ہے کہ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے ہندو ازم کے سیلاب کے سامنے بند باند لیا ہے۔
بھارت کثیرالجہتی معاشرہ ہے، اگر اسے سلامت رہنا ہے تو یہ ممکن نہیں کہ ایک ارب چالیس کروڑ انسانوں پر کسی ایک عقیدے کے نظریات کو مسلط کر دیا جائے۔ اسی باعث بھارتی عوام نے مودی کی اس نعرے کو مسترد کر دیا کہ اب کے بار چار سو پار۔ ہمارے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی ہو یا کانگریس دونوں میں زیادہ فرق نہیں تاہم دشمن ڈھنگ اور اصول کا ہو تو مقابلے میں لطف آتا ہے۔ جب سے بھارت پر بھاجپا کا راج آیا اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھے بغیر ہندو دھرم کی پرچار ہو رہی ہے اور اکھنڈ بھارت کے نظریہ نے اطرف میں خطے کے ممالک کو بھی متاثر کیا ہوا ہے۔ بھاجپا خطے میں امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کر رہی ہے جس کے باعث جنوبی ایشیا کا امن خطرے میں ہے۔ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں معمول بن چکی۔ جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ جو ظلم ہوا وہ تاریخ انسانیت کی نئی مثال ہو گی۔۔ یہ بھی کہنا محال ہے کہ کانگریس نے کشمیریوں کے ساتھ انصاف کیا۔ لیکن کانگریس نے جو بھی کیا وہ کشمیر پر قبضے کے لیے اس کی سیاسی حکمت عملی تھی اس وقت کشمیر میں تحریک اور سیاست آزاد تھی اور 370 کاے خاتمے کا کبھی نہیں کہا کشمیر کا جھنڈا لہراتا تھا اور اسمبلی خود مختار تھی۔ مودی نے فاشزم کی انتہاء کر دی ۔تاہم گاندھی خاندان کے ان بہن بھائی نے بے حد محنت کر کے مودی کو نکیل ڈالی ہے۔ گزشتہ ہفتے فلسطینی سفیر کی پرینکا گاندھی سے ملاقات کی پریس ریلیز پڑھ کر وہ زمانہ یاد آگیا جب یاسر عرفات بھارت کا دورہ کرتا تو اندرا گاندھی ان کا استقبال کرتی تھی۔ فلسطین کے سفیر کے ساتھ پرینکا نے بھی یاسر عرفات کو یاد کیا اور کہا کہ اندرا جی کے ساتھ ان کی ملاقاتیں ہمیں یاد ہیں۔ دوسرے دن پرینکا جی پارلیمان میں جو بیک لیے کر گئی اس پر " فلسطین " لکھا ہوا تھا۔ یہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا انداز تھا۔ بھاجپا کے ممبران نے شدید غصہ اور برہمی کا اظہار کیا۔ ظاہر ہے بنیامن نتن یاہو ہفتوں مودی جی کے مہمان رہے، فلسطینی طرز کا کشمیر میں آپریشن کا مشورہ اسی کا تھا جس پر عمل کر کے مودی نے جموں و کشمیر پر غیرقانونی قبضہ کیا۔ اس کے خلاف کوئی بھی ایکشن مودی جی کے پیروکاروں کو برا تو لگے گا۔
پرینکا گاندھی کافی پہلے سے اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کر کے غزہ میں جنگ کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کرتی رہی ہیں۔ اب بھارتی پارلیمان کے اندر فلسطینیوں کی آواز بنی ہیں اور بی جی پی نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ پرینکا گاندھی پہلی بار ایوان پہنچی اور توجہ کا مرکز بن گئی جیسے کوئی اسٹار ہو۔ اسے جلتے دیکھ کر لوگ تبصرہ کرتے ہیں کہ اندرا گاندھی پارلیمان میں آ رہی ہیں۔ پرینکا کی چال ڈھال، وضع قطع اور مسکراہٹ نے پارلیمانی سیاست کے ابتداء ہی میں نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر کے لبرل عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ سوشل میڈيا پر پرینکا کے لیے بہت کچھ لکھا گیا تاہم سب سے دلچسپ تبصرہ پاکستان کے ایک سابق وفاقی وزیر چودہری فواد حسین نے کیا۔ فواد کی تعریف کے بعد پرینکا گاندھی پر مذید تنقید اور نکتہ چینی ہو رہی ہے کہ اس خاندان کے تانا بانا پاکستان کے ساتھ ملتا ہے ۔ چوہدری فواد حسین نے اپنی ایک پوسٹ میں کہا، "جواہر لعل نہرو جیسے عظیم آزادی پسند مجاہد کی نواسی پست قد والوں کے درمیان قد آور ہو کر کھڑی تھی۔" انہوں نے مزید لکھا، "ہم جواہر لعل نہرو جیسے عظیم مجاہد آزادی کی پوتی سے اور کیا توقع کر سکتے ہیں؟ کتنی شرم کی بات ہے کہ آج تک کسی پاکستانی ممبر پارلیمنٹ نے ایسی جرات کا مظاہرہ تک نہیں کیا۔ شکریہ۔" ہندو فاشسٹ جماعت بھاجپا نے پرینکا گاندھی کی طرف سے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے اس اقدام پر شدید تنقید کی اور کہا کہ وہ گھریلو مسائل پر غیر ملکی خدشات کو ترجیح دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے سینیئر وزیر انوراگ ٹھاکر نے کہا، "کیا یہ بیگ ایک بیان تھا؟ تو یہ بنگلہ دیشی ہندوؤں کے مسائل پر خاموش کیوں رہا؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے؟" انہوں نے کہا کہ یہ بھارتی پارلیمنٹ ہے، جہاں ملکی عوام کے خدشات کو اجاگر کرنے رکن منتخب کیے جاتے ہیں۔ "پہلے اسد الدین اویسی نے 'جئے فلسطین' کا نعرہ لگایا تھا اور اب یہ پرینکا گاندھی ہیں جنہوں نے 'جئے فلسطین' کا نعرہ لگایا ہے۔" بی جے پی کے کئی دیگر رہنماؤں نے بھی پرینکا گاندھی پر نکتہ چینی کی اور بعض نے تو یہاں تک کہا کہ پرینکا گاندھی، "بھارت میں مسلم لیگ کی نمائندگی" کر رہی ہیں۔ پرینکا گاندھی سے جب ان کے ’فلسطین‘ بیگ پر تنازعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بی جے پی کی تنقید کو یکسر مسترد کیا اور کہا، "اب یہ کون فیصلہ کرے گا کہ میں کون سے کپڑے پہنوں؟ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ یہ عام پدرانہ نظام ہے کہ مرد فیصلہ کرتے ہیں کہ خواتین کیا پہنیں۔ میں تو اس کی تائید نہیں کرتی۔ میں وہی پہنوں گی جو میں چاہوں گی۔"
52 سالہ پرینکا گاندھی پارلیمان میں کیا داخل ہوئی کہ دھوم مچا دی۔ وہ تقریر کے لیے کھڑی ہوتی ہیں تو میڈیا سمیت پوری پارلیمان کی توجہ اسی طرف چلی جاتی ہے۔ مودی جی کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ کوئی ٹکر کا ملا ہے۔ اس سے قبل پرینکا کو رائے بریلی میں اپنی والدہ سونیا گاندھی کی انتخابی مہم کا انچارج بنایا گیا تھا۔ گذشتہ بیس برس سے ان کی بیشتر سیاست راہل گاندھی کے حلقے امیٹھی اور اپنی والدہ کے پارلیمانی حلقے رائے بریلی کی دیکھ بھال اور وہاں کے سیاسی انتظام پر مرکوز تھی۔ انہوں نے باضابطہ سیاست کا آغاز 2020 میں اس وقت کیا جب انھیں کانگریس پارٹی کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں پریانکا نے ملک کی 16 ریاستوں میں انتخابی مہم کی نگرانی کی اس دوران 108 جلسوں سے خطاب کیا اور عوام سے اپیل کی کہ وہ مذہب اور ذات پات کے جذباتی نعروں کے بجائے روزی روٹی کے بنیادی مسائل پر ووٹ ڈالیں۔ اس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئیں اور چار سو پار کا مودی کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عوام سے گھل مل جانے کی خصوصیت، ٹھہرے ہوئے لب و لہجے، نرم اور سادہ زبان میں سیاسی حریفوں کو جواب دینے کی صلاحیت، حاضر جوابی اور کرشماتی شخصیت سے وہ نئی نسل کے ابھرتے ہوئے سیاست دانوں میں ایک منفرد مقام حاصل کر چکی۔ انتخابی مہم کے دوران پریانکا نےمودی کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ مودی جی میرے بھائی کو شہزادہ، راج کمار اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔ وہ ہمیں ملک دشمن کہتے ہیں۔ میری دادی وزیر اعظم تھیں۔ وہ دہشت گردی کا شکار ہوئیں۔ میں نے اپنے والد کی لاش کو ٹکڑوں میں وصول کیا تھا۔ ہم نے وراثت میں دھن دولت نہیں حاصل کی شہادت کی وراثت حاصل کی ہے۔ ہمیں پتا ہے کہ شہادت کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ بھارت پر ایک اور عورت حکومت کرے گی اور اس کا تعلق بھی کشمیری نژاد پنڈت خاندان سے ہو گا۔
واپس کریں