”الجہاد الجہاد“ ”القتال القتال“ جہادی کلچر کا اعلان اور خاموشی
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
5 جنوری کو وزیراعظم چوہدری انوارالحق کی جانب سے جہادی کلچر کی واپسی کے اعلان کو بعض سیاسی حلقوں نے غیر سنجیدہ اور وزیراعظم کےقد سے بڑا بیان قرار دیا اور کہا کہ سستی شہرت کے سواء اس کا کوئی مقصد نہیں تھا، تاہم خطہ کے حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کو الجہاد الجہاد، القتال القتال کے نعروں کے پیچھے مستقبل میں خطہ کی ابتر صورت حال سمیت بہت کچھ نظر آتا ہے جس کے اثرات مستقبل قریب میں ظاہر ہونا شروع ہوں گے ۔ بیان پر وفاقی حکومت اور پاکستان کی سیاسی جماعتیں کی مکمل خاموشی، حتی کہ وزارت خارجہ کی جانب سے کسی وضاحتی بیان کا جاری نہ ہونا بھی معنی خیز ہے۔ آزاد کشمیر کے وزیر اطلاعات کی جانب سے الفاظ کو توڑ مروڑ کر وضاحت کرنا اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کے کنوینئر غلام محمد صفی اور متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سیّد صلاح الدین احمد کی جانب سے خیر مقدم سے اندازہ ہوتا ہے کہ چوہدری انوارالحق نے الجہاد الجہاد، القتال القتال کی صدا بلند کر کے قد سے بڑی بات نہیں کی بلکہ چھوٹے کے مُنھ سے بڑوں کی بات نکلوائی گئی۔
کچھ بھی پوشیدہ نہیں کہ حریت کانفرنس اور سید صلاح الدین کب اور کیوں بولتے ہیں۔ ان کی جانب سے خیر مقدم اور وفاق پاکستان کی خاموشی، سمجھ لینا چاہئے کہ چوہدری صاحب اقبال کے شاہین ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر مہو پرواز ہیں۔ اونچی اوڑان کی تھپکی بھی دی جا رہی ہے "چَڑْھ جا بیٹا سُولی پَر، رام بَھلا کَرے گا"۔ کشمیریوں کے لیے سولی پر چڑھنا کوئی مشکل بھی نہیں کہ مودی سرکار نے ان کے لیے واپسی اور یو ٹرن کے تمام راستے بند کر رکھے ہیں۔ تھپکی والے ہی ان کے مسیحا ہیں اور اسی تھپکی سے وہ کوشش کریں گے یہ الگ بحث ہے کہ اوڑان بھرتے ہیں کہ نہیں۔ وزیراعظم کا بیان چند روز قبل حریت کانفرنس کے سیکرٹری جنرل سید پرویز ایڈووکیٹ کے مظفر آباد میں کی جانے والی گفتگو کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے آزاد کشمیر کے عوام کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کا اہم حصہ ہیں تحریک آزادی کشمیر میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
گزشتہ ہفتے خطے میں تیزی سے بدلتی سیاسی اور اسٹریٹیجک صورت حال کو بھی مند نظر رکھنا چاہئے۔ جہاں چین نے سنگینگ ریجن میں دو نئی کاونٹی کا اعلان کیا ہے۔ یہ دو کاونٹی ہیان اور ہیکانگ بنیادی طور پر لداخ کا حصہ ہیں۔ ان علاقوں میں اکسائی چن کا ایک بڑا حصہ شامل کر کے باضابطہ طور پر سنگینگ ریجن میں ضم کر دیا گیا ہے جس پر بھارت نے احتجاج کیا۔ یہ اقدام بھارت چین کے درمیان 5 سال بعد سرحدی مذاکرات شروع ہونے کے چند دن کے اندر ہی اٹھا لیا گیا مزید مذاکرات بے معنی ہو جائیں گے۔ خطے میں دوسرا اہم واقعہ بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرام مسری اور طالبان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے درمیان دبئی میں ہونے والی طویل ملاقات ہے۔ افغان وزارتِ خارجہ کے مطابق اس ملاقات میں " بھارت اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو وسعت دینے سمیت ایران کی چاہ بہار بندرگارہ کے ذریعے تجارت بڑھانے جیسے امور پر تبادلۂ خیال ہوا ہے۔ افغانستان کی متوازن اور معیشت پر توجہ پر مبنی خارجہ پالیسی کے تحت افغانستان بھارت کے ساتھ سیاسی و معاشی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے"۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ " نئی دہلی افغانستان میں ترقیاتی کاموں سمیت تجارتی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے"۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک افغان تعلقات میں سرد مہری اور ایران کے ساتھ متزلزل تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے گزشتہ ساڑھے تین برس کے دوران طالبان کے نمائندوں کے ساتھ کئی دور کی بات چیت کی ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ میں پاکستان، ایران اور افغانستان ڈیسک کے جوائنٹ سکریٹری جے پی سنگھ بات چیت کرتے رہے ہیں۔انہوں نے نومبر میں افغان وزیرِ دفاع مولوی محمد یعقوب سے ملاقات کی تھی۔ مولوی یعقوب طالبان کے اہم رکن ہیں جو 2020ء تک طالبان ملٹری کے چیف بھی رہے۔ جے پی سنگھ نے امیر خان متقی اور سابق صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی تھی۔ بھارتی تجزیہ نگار سنجے کپور کہتے ہیں کہ بھارت کچھ برسوں سے طالبان کے ساتھ سرگرم روابط بنائے ہوئے ہے۔ یاد رہے بھارت کی تین تنظیموں نے افغان ہیلتھ کمپنی کے ساتھ 6.5 ملین ڈالر کا معاہدہ کر رکھا ہے جب کہ بھارت کے سرکاری ادارے ’اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا‘ (سیل) کی قیادت میں سات کمپنیوں کے ایک کنسورشیم نے لوہے کی کان کے سلسلے میں افغان حکومت کے ساتھ 6.6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے بارے میں ایک سمجھوتہ کیا ہے۔ بھارت ایران، افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر کے پاکستان کی سرحد پر نیا محاذ کھولنا چاتا ہے جب کہ 20 جنوری کو وائٹ ہاؤس میں نئے مکین کی آمد سے مودی کی جھپیاں کیا رنگ دیکھائیں گی۔ تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال میں خطہ میں نئی پراکسی وار شروع ہونے کا خدشہ ہے جس کی قیادت بھارت کے ہاتھ میں ہو گی۔ اس پراکسی سے ہمالیہ اور کے ٹو کا دامن مضطرب رہنے کا اندیشہ ہے۔ ایسی صورت میں بانیال کے آر پار سکون کیسے رہےگا؟ اس کا جواب چوہدری انوارالحق کے نعروں میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ لہذا وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر کی نعرے بازی بے معنی نہیں ممکن ہے ان قوتوں کو جو پاکستان کی سرحد یا سرحدوں کے اندر پراکسی وار کا سوچ رہی ہیں کو پیغام دیا گیا ہو کہ اگر ایسا ہوا تو وہ تلوار جسے پرویز مشرف نے میان کر کے کھونٹی سے لٹکادیا تھا دوبارہ نکالی اور 1990ء دوبارہ لایا جا سکتا ہے۔
یہ دونوں ممالک کے درمیان علانیہ سرد گرم جنگ ہو گی جو آزاد کشمیر سے لڑی جانے کے اشارے ملتے ہیں۔ جس کا مرکز وادی کشمیر ہو سکتا ہے ۔ یہی جہادی کلچر ہے جسے انوار الحق نے واپسی کا اندیہ دیا ہے۔ جہاں جہادی کیمپوں میں نوجوانوں کو تربیت دی جائے گی، الجہاد الجہاد، القتال القتال کی نعرے بازی ہو گی اور کمانڈر بڑی بڑی گاڑیوں میں اسلحہ بردار نان اسٹیٹ ایکٹرز کے حصار میں گھومیں گے۔ انوارالحق نے یہ تو درست کہا کہ اقوام متحدہ نے آج تک مسلم امہ کا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔ اور یہ بھی درست کہا کہ پاکستان ہمارے حصہ کا کام نہیں کرسکتا، یہ کام کشمیریوں کو خود کرنا ہوگا۔ لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ کشمیریوں نے اپنا کام تمام کیا اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ اسی طرف سے ہے۔ اگر ہمیں آج تک کسی محاذ پر پسپائی ہوئی تو وہ سفارتی محاذ ہے جو کشمیریوں کے پاس نہیں۔ 1990ء کی دہائی میں کشمیری بھارت کو عسکری محاذ پر شکست دے چکے ناکامی ہوئی تو سفارتی محاذ پر اس کے بعد بھارت نے کشمیریوں کو گاجر مولی کی طرح کترا۔ ضیاء الحق کا جہاد کشمیر میں دوبارہ شروع ہوتا ہے تو اس کا اثر وادی کشمیر، پیر پنجال کے پونچھ اور راجوری ریجن تک ہی ہو گا۔ جس سے تحریک آزادی کشمیر کو تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا سوائے اس کے کہ روزانہ شام کو پاکستانی میڈیا مقبوضہ جموں و کشمیر میں شہداء کی تعداد کا اعلان کرتا رہے گا۔ اگر یہ پالیسی ہے کہ بھارت کو کمزور اور کشمیر کو بھارت کے چنگل سے آزاد کریا جائے تو اس کے لیے نیا بیانیہ تیار کرنا ہو گا اور کشمیریوں کو مسئلہ کا فریق تسلیم کر کے چوہدری انوارالحق کو زیادہ بااختیار بنانا ہو گا تاکہ دنیا اس کے بیان کو سنجیدہ لے، مسئلہ کشمیر دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ نہیں ایک قوم کی آزادی کے مسئلے کے طور پر دنیا کے سامنے رکھا جائے اس کے لیے جموں ریجن، وادی چناب اور لداخ کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنا ضروری ہے جو آزادی کے نام پر تو ممکن ہے وادی کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں جہاد کے نام پر نہیں۔
اگر صرف خطہ میں پراکسی وار کا جواب دینا مقصد ہے تو پھر وادی کشمیر زرخیز تو ہے لیکن اب کے بار بانیال کے اس پار بہت کچھ تبدیل ہو چکا۔ نہ سید علی گیلانی ہے نہ اشرف صحرائی۔ یاسین ملک ہے، شبیر شاہ، آسیہ اندرابی اور دیگر جو نعرہ مستانہ بلند کرتے تھے اور ہزاروں لاکھوں کا مجمع جمع کرتے تھے، جیلوں میں بند ہیں حتی کہ میرواعظ عمر فاروق میں بھی وہ دم خم نہیں رہا۔ عوام ہیں کہ بے یار و مددگار ہیں، پراکسی وار کو وادی میں کون تھامےگا بہت جلد معلوم ہو جائے گا۔ مودی سرکار بھی اس سے بے خبر نہیں جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے نریندر مودی مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع گاندربل کے علاقے سونہ مرگ میں 6.4 کلومیٹر لمبی زیڈ موڈ سرنگ (Tunnel) کا افتتاح کر رہے ہوں گے۔ بظاہر تو زیڈ موڈ سرنگ وادی کشمیر اور لداخ کے درمیان سال بھر کے رابطے کو یقینی بنانے کے لیے بنائی گئی ہے۔ تاہم بھارت نے مقبوضہ جموں کشمیر پر اپنے غیرقانونی قبضے کو مضبوط کرنے کے لیے علاقے میں اس سمت دفاعی نوعیت کے کئی منصوبوں پر کام تیز کر دیا ہے ۔ زیڈ موڈ ٹنل کی تعمیر کا اصل مقصد لداخ خطے تک بھارتی فوجیوں کی نقل و حرکت کو مزید آسان بنانا ہے جہاں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر بھارت کی چین کے ساتھ سخت محاذ آرائی جاری ہے۔
واپس کریں