دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبوضہ جموں و کشمیر میں 2024ء کیسا رہا،2025ء کیسا رہے گا؟
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
مودی سرکار نے جموں و کشمیر میں دہشت اور خوف کی فضاء قائم کر رکھی ہے۔ لوگ سہمے ہوئے ہیں حتی کہ نجی محفلوں میں بھی آپس میں آزادی و علیحدگی پر بات نہیں کرتے نہ معلوم کون ایجنسی کا بندہ ہو اور کون بھارتی فوج کا ایجنٹ، بلا وجہ بیٹھے بٹھائے پکڑے جائیں گے۔ خوف کو زیادہ گہرا کرنے کے لیے عام شہریوں کی گرفتاری اور سخت ترین تشدد میں ابھی بھی کمی نہیں آئی۔ 2024ء میں بھی گرفتاریوں اور شہادتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جس قدر ریاستی دہشت گردی اور ظلم و ستم، تشدد و بربریت مقبوضہ کشمیر میں جاری ہے اس کے بعد وہاں بچا ہی کیا جو کوئی احتجاج ہڑتال یا کوئی مظاہرہ کر سکے۔ لوگ حالات سے تنگ آکر خاموش ہیں جسے مودی امن قرار دے رہا ہے۔

2024ء میں بھی مودی سرکار مقبوضہ جموں و کشمیر میں امن اور تحریک آزادی ختم ہونے کا دعوی کرتی رہی، جب کہ مسلحہ افواج میں اضافہ، علاقوں کے محاصرے گرفتاریاں، قتل اور آزادی پسندوں کے ساتھ فائرنگ کے مقابلے جاری رہے۔ بھارت امن کا دعوی اس بنیاد پر کرتا ہے کہ ماضی کی طرح احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں نہیں ہو رہی اسی بنا مودی سرکار نے دنیا کو دیکھانے کے لیے دس سال بعد ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا ڈھونگ رچایا۔ کشمیریوں نے ان انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن نتائج صفر ہی نکلے۔ سری نگر اسمبلی اور عمر عبداللہ کی حکومت بے جان اور بے اثر ہیں نہ اسمبلی کی کسی قرارداد کی کوئی اہمیت ہے اور نہ کابینہ کی کوئی وقعت۔ وزیراعلٰی ہیں کہ لیفٹیننٹ گورنر کی اجازت کے بغیر اپنے دفتر کے چپڑاسی کو بھی تبدیل نہیں کر سکتے۔ پہلے کابینہ اور پھر اسمبلی نے قرارداد منظور کی کہ ریاستی درجے کو بحال کیا جائے، ان قراردادوں پر یونین نے کوئی نوٹس نہیں لیا ۔

کشمیریوں کو امید بندی تھی کہ انتخابات کے بعد ان کے مسائل میں کمی آئے گی جب کہ صورت حال انتخابات کے بعد زیادہ دگرگوں ہو گئی۔ چھاپے گرفتاریاں، محاصرے، تلاشی قتل اور آبروریزی میں کوئی کمی نہیں بلکہ تیزی دیکھنے میں آئی۔ جب کے عمر عبداللہ اعلان کے باوجود 1872ء سے جاری روایت دربار مو پر بھی عمل نہیں کر سکا، جس کے تحت سردیوں میں دارالحکومت جموں جانا تھا۔ یہ روایت جموں و کشمیر کے بادشاہ رنبیر سنگھ نے شاہی حکم سے شروع کی تھی، جسے مودی کے تعینات کردہ لیفٹیننٹ گورنر نے ختم کر کے سری نگر میں ہی قیام رکھا ہوا ہے۔ مبینہ طور پر 2024ء کے دوران بھارتی فورسز نے تین کم سن بچوں سمیت 101 کشمیریوں کو شہید کیا۔ 50 دوران حراست اذیت ناک کرب میں ہلاک ہوئے یا گرفتاری کے بعد جعلی مقابلوں میں مار دیئے گئے۔ خواتین سمیت 3492 عام شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ 2 خواتین کی بھارتی فورسز نے آبروریزی کی۔ 8 خواتین بیوہ اور 24 کم سن بچے یتیم ہو گئے۔ فورسز نے اندھا دھند فائرنگ کرکے 99 افراد کو زخمی کیا۔ محاصروں کے دوران ماٹر گولوں کی شیلنگ اور بھارتی فورسز کی جانب سے آگ لگانے کی وجہ سے 2 مساجد سمیت 14 کمرشل عمارتیں اور 12 مکانات تباہ کئے گئے۔ اسی سال 213 کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کر لی گئی۔ سال 2024ء کے دوران 6 ہزار سے زائد کشمیری بھارت کے مختلف علاقوں یا ریاستی جیلوں میں بند رہے، جن میں صف اول کی حریت قیادت بھی شامل ہے۔ بھارتی فوج کی جانب سے جموں و کشمیر کی زمین پر قبضہ کرنے کا سلسلہ 2024ء میں بھی جاری رہا۔ 60 ہزار کنال زمین پر غیر قانونی قبضہ کیا جا چکا جب کہ دو لاکھ ایکڑ زمین سے پشتی مالکان کو بے دخل کر دیا گیا۔ جموں میں 6 ایکڑ پرائیویٹ رقبے کو مالکان سے چھین کر مندر تعمیر کیا جارہا ہے۔ 550 کنال سے زیادہ زمین کا اسٹیٹس تبدیل کر کے امرناتھ شرائین بورڈ کو آلاٹ کی گئی تاکہ مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔

یہ بھارتی غیر قانونی مذہبی منصوبے کشمیری عوام میں خوف و ہراس پیدا کر رہے ہیں، جو پہلے ہی بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ 2024ء کے دوران بھی ویلج ڈیفنس گارڈز کے نام پر آر ایس ایس کے دہشت گردوں کو سرکاری اسلحہ دیا جاتا رہا اور اب تک سینکڑوں گاوں میں ہزاروں افراد کو اسلحہ پہنچایا جا چکا۔ یہ ولیج گارڈ سرکار کی آشیرباد سے اسلحہ کے زور پر شراب کا دھندا پھیلا رہے ہیں اور منشیات کے اڈے قائم کروا رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انڈین سول سروس میں کشمیر کا کوٹا 50 فیصد سے کم کر کے 33 فیصد کر دیا گیا اس وقت ریاست میں تعینات 20 پرنسپل سیکریٹریز میں سے 16 ہندو ہیں۔ 890 قوانین میں غیر قانونی ترامیم سے بھارتی فاشسٹ حکومت نے ریاست میں مسلمانوں کی نسل کُشی جاری رکھی ہوئی ہے جس میں 2024ء میں تیزی لائی گئی۔ تاہم گوریلا جنگ ابھی بھی جاری ہےاور سال 2024ء کے دوران بھارتی فورسز اس پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں۔ بھارتی فوج کے ساتھ حریت پسندوں کے 100 سے زائد خونی معرکے ہوئے جہاں 75 حریت پسند شہید ہوئے، جن میں حزب المجاہدین کے چیف آپریشنل کمانڈر فاروق احمد بٹ المعروف ابو عبیدہ ، حزب المجاہدین کے اعلیٰ کمانڈر عادل حسین وانی عرف عثمان بھائی ، مجاہد نعمان ضیاء اللہ اور دیگر شامل ہیں۔ ان معرکوں میں بھارتی فوج کے JCO دلاور سنگھ اور اننت سنگھ سمیت 7 فوجی آفیسرز کے علاوہ 155 ہلاک اور 175 فوجی اہلکار زخمی ہوئے۔ عسکریت پسندوں کی مدد کے لزام میں 60 نوجوانوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہ خونی معرکے زیادہ تر پیر پنجال اور وادی جناب میں ہوئے۔ ریاست کی غیر محفوظ صورت حال نے بھارت کی جانب سے حالات معمول پر ہونے اور غیر مقامی مزدوروں پر حملوں کو ان کی حفاظت کے لیے ناکافی اقدامات کے جھوٹے دعوؤں کو بے نقاب کیا۔

2024ء کے دوران مودی حکومت مقبوضہ کشمیر کو بین الاقوامی سیاحتی مرکز بنانے کی کوششوں میں تیزی لائی۔ ضلع ریاسی کے قریب ستلج پر دنیا کا سب سے بلند ریلوے پل بھی مکمل ہوا جب کہ اننت ناگ سے پہلگام تک 77.5 کلومیٹر ریلوے لائن کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے جو بجبہارہ اور دیریہامہ گاؤں سے گزرے گا۔ مقامی آبادی کے احتجاج کے باوجود سیکڑوں ایکڑ زیر کاشت آراضی پر سے ہزاروں سیب کے درختوں کو کاٹنے سمیت فصلوں کو تباہ و برباد اور سیکڑوں کسانوں کو باعزت روزگار سے محروم کر کے کشمیریوں کے معاشی قتل عام کی پالیسی جاری رکھی گئی، جس کو کشمیری اپنی خودمختاری، روزگار، علاقے کی شناخت کے لیے خطرہ اور بھارت کے نوآبادیاتی عزائم کا حصہ سمجھتے ہیں۔ کشمیریوں کا خیال ہے کہ بھارت کے یہ منصوبے اور پالیسیاں ان 35 لاکھ غیر مقامی افراد کو کشمیریوں کے مساوی حقوق فراہم کرتی ہیں جن کو 5 اگست 2019ء کے بعد کشمیر کی شہریت دی گئی۔ اس سے کشمیر کی زبان و ثقافت اور شناخت کو خطرہ ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کے چارٹر کی بھی خلاف ورزی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت کے جاری اور تجویز کردہ منصوبے کشمیر میں زرعی آراضی اور سبز علاقوں کو مزید کم کر رہے ہیں، جو کاشت کاری کو متاثر اور بے روزگاری میں اضافہ کریں گے۔ یہ ماحولیاتی نظام کو سنگین خطرہ لاحق ہونے کے علاوہ جموں و کشمیر کی خوبصورتی اور زمینی ساخت کو متاثر کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے مطابق بھارت کی یہ تمام کارروائیاں اور انفراسٹرکچر غیر قانونی اور ناجائز ہے۔ ان کا مقصد مقبوضہ علاقے کے موجودہ آبادیاتی کردار کو متاثر اور تبدیل کرنا ہے۔ یہ منصوبے جموں و کشمیر کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے نہیں بلکہ بھارت کے قبضے کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا کے لیے ہیں اسی لیے کشمیری اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسی بنا پر مقبوضہ کشمیر کو بین الاقوامی سیاحتی مرکز بنانے کی مودی کی پالیسی 2024ء میں بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ کون اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ایسے غیر محفوظ ماحول میں سیاحت کرے گا؟ یہ سوال 800 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود مودی کی سوچ کا پیچھا کرتا رہا۔ تاہم سال گزرنے تک ریاست میں امن کا جھوٹا تاثر پیش کرنا براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور زمینی صورت حال کو چھپانے کی مذموم کوشش بھی ہوتی رہی۔

افسوس کن صورت حال یہ رہی کے حسب سابق سال 2024ء کے دوران بھی مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کو، آزاد کشمیر کے عوام اور حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی اخلاقی اور مالی امداد نہیں ملی۔جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے سال 2024ء کے دوران آزاد کشمیر میں سوک مطالبات کو منوانے کے لیے احتجاج اور ہڑتالوں کا ریکارڈ قائم کیا تاہم شوکت نواز میر کو بھی مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام یاد نہیں رہے جس کے ابواجدا کا تعلق بھی وادی سے ہے اور اب بھی اس کے رشتہ دار دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں بند ہیں۔ اتنے بڑے مظالم پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے سال بھر میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے لیے ایک ہڑتا بھی نہیں کی۔ نہ آزاد کشمیر کی حکومت نے عملی اقدام کیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو بیرونی امداد نہ ہونے کے باعث 2025ء میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ جیسا مار دھاڑ اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں 2024ء گزرا 2025ء بھی اس سے بدتر نہیں تو کم و بیش ایسا ہی گزرے گا۔ اللہ تعالی ان مظلوم عوام پر اپنا خصوصی کرم فرمائے جن کے مصائب کی کوئی بات نہیں کرتا، نہ کوئی حکمران، نہ کوئی اینکر، نہ کوئی کالم نویس۔
واپس کریں