دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خواجہ آصف کا بیان، ماضی کی غلط پالیسیاں، کشمیریوں کی قربانیاں
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
پاکستان کی سیاسی قیادت میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف مختلف مزاج رکھنے والے منفرد سیاست دان ہیں۔ شاید یہ یکتا کشمیری نژاد ہوں جو دبنگ بیان دیتے ہیں اور یو ٹرن بھی کم کم ہی لیتے ہیں۔ اپنے والد کی سیاسی حکمت عملی پر قوم سے معافی مانگتے شرماتے ہیں نہ محمود غزنوی پر لوٹ مار کا الزام لگاتے جھجھکتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں ان کی وہ تقریر بھی ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں انہوں نے قوم کے جسم سے خون چوسنے اور ہڈیوں سے گودا نکالنے کا تذکرہ کیا تھا۔ تازہ بیان کشمیر پر دیا جس میں ماضی حال اور مستقبل سب کچھ کھول رکھ دیا۔اطلاعاتی ادارے صباح نیوز کے مطابق 14 جنوری 2025ء کو پارلیمینٹ ہاؤس میں کشمیر جرنلسٹ فورم کے نو منتخب صدر عرفان سدوزئی کی قیادت میں فورم کے وفد سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ " ماضی کی غلط پالیسیوں کے باعث کشمیریوں کی قربانیاں نظرانداز ہوئیں۔ آزاد کشمیر کے سیاست دانوں میں اتفاق کا فقدان ہے اور عوامی مسائل حل کرنے میں یکسر ناکام رہے۔ ان کی ترجیحات مقامی ڈھانچے کی ترقی نہیں ہے۔ اسی باعث تحریک آزادی کا بیس کیمپ اپنے مقاصد پورے نہیں کر سکا۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کے عوام کا اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ایک فطری عمل ہے۔ انہوں نے آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ الیکشن  اور سلیکشن کس طرح ہوتی ہے سب جانتے ہیں وغیرہ وغیرہ "۔

خواجہ صاحب کا ایک ایک لفظ اور جملہ معنی خیز اور توجہ طلب ہیں تاکہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آئندہ کی حکمت عملی تیار کی جائے، جس سے جموں و کشمیر کو بھارت کے چنگل سے آزاد کرایا جا سکے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ماضی ہماری غلطیوں سے بھرا پڑا ہے۔ وسائل اور جانی نقصان کے باوجود ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ نہیں رہے۔ پہلی غلطی تو 24 اکتوبر 1947ء کو ہی ہو گئی تھی جب انقلابی حکومت کو پہلے صدر سردار محمد ابراہیم خان کی خواہش کے مطابق ڈوگرہ کی جانشین حکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے بجائے لوکل اتھارٹی میں بدلا گیا۔ اس اقدام سے مسئلہ کشمیر قومی آزادی کے بجائے دو ملکی سرحدی تنازعے میں بدلا اور بھارت کو بطور فریق تسلیم کیا گیا۔ ریاست پر 22 اکتوبر کو قبائلی حملہ سے بھارت کو کشمیر میں داخل ہونے کا موقع ملا۔ پاکستان کے ساتھ معاہدہ ہونے کے بعد 14 اگست کو سری نگر میں سرکاری عمارتوں پر پاکستان کا پرچم لہرا دیا گیا پھر حملے کا کیا جواز تھا۔ جب دن کے اجالے میں معاہدہ اور رات کے اندھیرے میں حملہ ہوا تو ریاست کی ہیت ہی بدل گئی۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بہت کوشش کی کہ پاکستان حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کو بھول کر کشمیر پر اکتفادہ کرے مگر لیاقت علی خان نہیں مانے۔ معاہدہ کراچی میں بھی کچھ غلطیاں ہوئیں۔ دفاع اور مواصلات حکومت پاکستان کے اختیار میں رکھے جاتے۔خارجہ امور میں آزاد کشمیر حکومت کو کچھ اختیارات دے کر بھارت کے سامنے کھڑا کرنا چاہئے تھا۔آزاد کشمیر کے عوام میں یہ صلاحیت تھی کہ پاکستان کی مدد اور سرپرستی کے ساتھ خارجہ محاذ پر بھارت کا مقابلہ کر سکیں۔ اسی معاہدے میں گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر سے الگ کر کے اتھارٹی قائم کی گئی اور کشمیر عملا تیں حصوں میں تقسیم ہو گیا ۔

بین الاقوامی حمایت اور کشمیریوں کو اعتماد میں لیے بغیر کشمیر میں مجاہدین یا کمانڈو بھیجنا ایوب خان کا دانش مندانہ فیصلہ نہیں تھا جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان خوف ناک جنگ چھڑی ۔ اسی غلطی کا خمیازہ تاشقند میں بھگتا پڑا جہاں بھارت کے ساتھ معاہدہ کر کے کشمیر پر اس کے حق کو تسلیم اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو غیر موثر کر دیا گیا۔ اسی معاہدے سے قومی آزادی کی تحریک کو دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعے میں بدلنے کا آغاز ہوا۔ ایک ہزار سال تک جنگ کرنے کا اعلان کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ شملہ میں تقریبا کشمیر کی تقسیم کی بنیاد ڈالی، واپس آکر آزاد کشمیر ریگولر فورس کو پاکستان آرمی میں ضم کر کے آزاد کشمیر حکومت کے دفاعی اختیارات بھی ختم کر دیئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ایک اور بڑی غلطی تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی آزاد کشمیر میں فرنچائز کھول کر کشمیری سیاست کو دفن گیا اور کشمیر کی سیاست، سفارت اور تحریک مکمل طور پر پاکستانی سیاست دانوں کے کنٹرول میں آ گئی۔ جن کو اس کا ادراک تھا نہ تڑپ انہوں نے محض وقت گزارنے کی پالیسی اختیار کی۔ ضیاء الحق کے جہاد نے بلاشبہ بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن انہوں نے بھی عالمی برادری کو اعتماد میں نہیں لیا اور نہ حریت کانفرنس یا حکومت آزاد کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر لابنگ کی اجازت دی۔ بلآخر بے پناہ قربانیوں کے باوجود کشمیری جیتی ہوئی جنگ ہار گئے۔ اس وقت عسکری محاذ گرم کرنے سے پہلے کے ایچ خورشید کی تجویز مان لی جاتی تو ہمیں آج یہ دن نہ دیکھنے پڑھتے۔ گو کہ بین الاقوامی دباؤ تھا لیکن پرویز مشرف نے ضیاء الحق کی پالیسی کو یکسر تبدیل کر کے مجاہدین کی حمایت ختم کر دی۔ بھارت نے غیر علانیہ سیزفائر کا فائدہ اٹھا کر مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کو کچلا اور سیاسی تحریک کو بھی ختم کر دیا۔

انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر بھی ہم بھارت پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ نواز شریف صاحب نے مشتاق گورمانی کی اس غلطی کا کچھ ازالہ کیا۔ کشمیر کونسل کے اختیارات کم کر کے حکومت آزاد کشمیر کے اختیارات کو بحال کیا کشمیری نواز شریف صاحب اور مسلم لیگ ن کی اس مہربانی کو یاد رکھتے ہیں جس سے حکومت آزاد کشمیر میں کچھ جان پڑی۔ جب کہ عمران خان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019ء کو کیا ہوا اور ہمیں کیا کرنا ہے۔ اس وقت مذید خوف ناک صورت حال پیدا ہوئی جب آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے خود کو آخری وزیر اعظم قرار دیا اور طویل رخصت پر بیرون ملک جانا پڑا۔ جارہانہ سفارت کاری نہ ہونے کے باعث بھارت نے غیرقانونی طورپر کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ بعد میں مبینہ طور پر کہا گیا کہ اس میں اعتماد سازی کا عمل دخل بھی تھا۔ اسی اعتماد سازی نے کشمیریوں کے دلوں میں بداعتمادی پیدا کی جس پر علی گیلانی کے آخری خط نے اسے مذید پختہ کر دیا۔ کشمیر کی تحریک آزادی میں 370 کے خاتمے کی تو کوئی اہمیت نہیں لیکن 35۔ اے کشمیریوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس حوالے سے ہماری جانب سے کوئی مضبوط پالیسی نہیں بنائی گئی۔ اب بھارت کشمیر کی آبادی کے تناسب کو بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ اسی باعث جموں ریجن جو کم آبادی کا علاقہ تھا وادی کشمیر کے مقابلے میں کھڑا ہے جہاں انتہا پسند ہندو کی اکثریت ہوتی جا رہی ہے۔

آزاد کشمیر کے سیاست دانوں کے حوالے سے خواجہ آصف نے کہا کہ ان میں اتفاق نہیں۔ لیکن بعض امور میں ان کے درمیان ہم آہنگی ضرور ہے۔ ممبران اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ اور پنشن کے حصول میں ان میں مکمل ہم آہنگی ہے، اور حال ہی میں ایک اور زبردست ہم آہنگی دیکھنے میں آئی جب مظفرآباد میں سوروں کی نسل معلوم کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم ہوئی اس میں قائد حزب اختلاف، سمیت وزیر اور پارلیمانی قائدین شامل ہیں جو مل کو معلوم کریں گے کہ مظفرآباد پر حملہ آور سوروں کی نسل کون سی ہے۔ جہاں تک تحریک آزادی اور آزاد کشمیر کی تعمیر و ترقی کا مسئلہ ہے اس میں آزاد کشمیر کے سیاست دانوں میں اتفاق نہ ہونا فطری عمل ہے۔ وہ پاکستانی سیاسی فرنچائز ہیں۔ پاکستان میں ہی سیاسی اتفاق نہیں تو فرنچائز میں اتفاق کیسے ہو سکتا ہے۔ عوامی مسائل کا حل نہ ہونے کے ذمہ داری بھی ان پر نہیں بلکہ پاکستانی سیاسی پارٹیاں ہیں، جنہوں نے پاکستان کے مسائل حل نہیں کئے تو ان کی فرنچائز آزاد کشمیر کے مسائل کیسے حل کر سکتی ہیں۔ آزاد کشمیر میں سیاسی بیماریاں تب سے شروع ہوئیں جب سے پاکستان کی سیاسی فرنچائز قائم کی گئی۔ اس سے پہلے کشمیری سیاست دان مسئلہ کشمیر پر کھل کر بات کرتے تھے۔ لہذا مقامی قیادت کو کوسنا جائز نہیں وہ وہاں بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو پاکستان میں ہو رہا ہے۔ اس صورت حال میں جب بیس کیمپ کے فیصلے، بلاول ہاؤس، راونڈ اور بنی گالا ہونے لگیں تو بیس کیمپ مقاصد کیا پورے کرتا۔

آزاد کشمیر کے عوام کا اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کو فطری عمل کہہ کر خواجہ صاحب نے وزیر اعظم انوار الحق کے اس موقف کی نفی کر دی کہ عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے احتجاج میں بھارت ملوث ہے۔ ممکن ہے کسی سطح پر بھارتی مداخلت بھی ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ ماضی کی غلط پالیسیوں سے کشمیری نوجوان ناراض ہے وہ مقبوضہ کشمیر کا ہو یا آزاد کشمیر کا۔ اس کو منانا وقت کی ضرورت ہے یہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور کشمیریوں کے بھی۔ بقول فرزانہ یعقوب کشمیر پاکستان کا سرمایہ ہے اور پاکستان کے بغیر کشمیری کچھ نہیں دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں۔ پاکستان بڑا بھائی ہے، چھوٹا بھائی بوجھ نہیں ہوتا۔ اسے دست شفقت اور بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ خواجہ آصف صاحب نے آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ الیکشن  اور سلیکشن کس طرح ہوتی ہے سب جانتے ہیں۔ الیکشن تو اسی طرح اور اتنے ہی شفاف ہوتے ہیں جتنے خود ان کے حلقے کے بارے میں خلق خدا کہتی ہے اس پر کیا ہی تبصرہ۔ البتہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ اور آزاد کشمیر کی ابتر صورت حال میں کشمیر جرنلسٹ فورم کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ان کا یہ کہنا کہ پہلے سے بڑھ گئی ہیں۔ کشمیری صحافی، ریاست کی آنکھ اور کان ہیں۔ بغیر کسی دباؤ کے حکمرانوں کی غلطیوں کی نشان دہی کریں۔ جو حالت پاکستان میں صحافیوں کی ہے اس کو دیکھ کر حکومت کی ناکامیوں اور پالیسیوں پر کون تنقید کرے گا۔ بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کے بعد کشمیر کی تاریخی شناخت ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے خواجہ صاحب نے درست کہا اور یہ بھی درست کہا کہ عالمی دنیا کو بھارت کے مظالم پر کھل کر بات کرنی چاہئ، لیکن عالمی دنیا کے آگئیں کوئی روئے گا تو دنیا توجہ دے گی۔ بھارت کشمیریوں کو مار رہا ہے اور آپ رونے بھی نہیں دیتے کہ ہم تماری جگہ رو لیں گے۔ آپ کو زخم ہی نہیں لگا تو آنسوؤں کیوں کر نکلیں گے۔ غلطیوں کو گننا اصل کام نہیں غلطیوں کی اصلاح اصل کام ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کی سفارت کاری کشمیریوں کو دی جائے اور مسئلہ کشمیر کو دو قومی نہیں ایک قومی مسئلہ بنایا جائے جو آزادی کے لیے لڑ رہی ہے۔ ورنہ بقول راجہ فاروق حیدر خان ساڑھے سات سو سال میں بھی کشمیری آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔
" یہ خاموش مزاجی تمہے جینے نہیں دے گی
اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچا دو "
واپس کریں