دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایک روز سنٹرل جیل کراچی میں۔ قیدی پر قیدی۔ درس گاہ ہے یا باغیچہ(2)
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
ہمیں کافی ساری بیرکوں میں لے جایا گیا۔ سبھی ایک جیسی ہیں۔ دیواروں کے ساتھ کچھ سامان رہائش طہ کر کے رکھا ہوا تھا جس میں تلائی، تکیہ، بیگ اور کچھ پرانے کمبل یا چادریں اور کپڑے نظر آئیے ۔ کسی قیدی کے کپڑے استری نہیں تھے نہ صاف ستھرے، ہمارے حکمران بدعنوانی اور سرکاری خزانے میں خردبرد کے الزام میں جیل جاتے ہیں ان کو صاف ستھرا، آراستہ کیا ہوا کمرہ چاہئے اور ساتھ میں استری بھی، اس کی شکایت کرتے ہیں کہ جیل میں کپڑے استری کرنے کی سہولت نہیں دی گئی۔ ان پر اربوں روپے کا قومی خزانہ لوٹنے کا الزام ہوتا ہے جب کہ ان قیدیوں پر چوری چکاری، موٹرسائیکل چھیننے، ڈگیتی اور چھوٹی چھوٹی وارداتوں کا الزامات ہیں، قتل اور اقدام قتل کے ملزم بھی ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ان غربت کے مارے لوگوں کو جیل میں بھی کوئی سہولت نہیں ہے اور سیاست دانوں سمیت بڑی وارداتوں اور قومی وسائل کو نقصان کے الزام والوں کو ہر سہولت، جیلوں سے یہ امتیازی سلوک ختم ہونا چاہئے۔ ان چھوٹے ملزمان کو تو بیٹھنے اور لیٹنے کی بھی مناسب سہولت نہیں۔ بیرک میں رہائشی سامان کے بعد دونوں جانب قیدیوں کو ٹھنڈے فرش پر بٹھایا گیا تھا۔ گزرنے کے لیے درمیان میں تین فٹ راستہ ہے، اسی راستے پر چلتے ہوئے ہم نے قیدیوں کے ساتھ باتیں کئیں۔ بیرک کے ایک کونے پر رفعِ حاجت کا علاقہ ہے۔ اس پر تبصرہ اس لیے مناسب نہیں کہ بیرک کے باہر کی خوبصورتی اور جیل انتظامیہ کی کارکردگی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ اتنی سہولت تھی کہ نلکوں میں پانی آ رہا تھا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ اس کے لیے وقت مقرر ہے یا پانی ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اسی جگہ پر وضوع خانہ بھی دیکھا۔ البتہ بیرک کو غسل خانے سے پاک دیکھا ممکن ہے انہی باتھ روموں کو غسل کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہو۔ ایک سو سے زائد افراد ان تین باتھ روم پر کیسے گزارا کر رہے ہیں، میں نے اس کو بھی قیدی کی سزا کے طور پر ہی سمجھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ قیدیوں کی پشت پر جو سامان رکھا تھا سوتے وقت اسی میں سے تلائی کھردرے فرش پر بچھا کر سر دیوار کی طرف، بیگ تکیہ کے طور پر استعمال کرتے ہوں گے۔ گویا دونوں دیواروں کے ساتھ قیدیوں کے سر اور پاوں ایک دوسرے کی طرف۔ جیل میں اتنی سزا بھی نہ ہو تو پھر جیل کیسی۔ جرم کی کچھ سزا تو ہوتی ہی ہے۔ بیرکوں میں بیٹھے قیدیوں کی اکثریت نوجوانوں کی ہے اور ان سے وہ بہتر لگے جو کسی کار خیر میں مصروف ہیں۔ قرآن سیکھ رہے ہیں یا دنیا داری مگر کچھ کر رہے ہیں اور جو بھی کچھ کر رہے ہیں اس کے ساتھ توبہ استغفار بھی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی ایک دن سنے کا اور وہ باہر نکلتے ہی اچھے انسان بنیں گے اگر انہوں نے دل سے معافی مانگی اور ایک اچھا اور نیک انسان بننے کا عہد کر لیا، انسانی زندگی کا دارومدار نیت پر ہے جس نے معافی اور توبہ کی نیت کی اسے ضرور معافی اور کامیابی ملی۔ لیکن جو لوگ بیرکوں میں بیٹھے ہیں وہ صرف اسی کوشش میں ہیں کہ ہمیں آزادی ملے اور کسی طرح جیل کے دروازے سے باہر نکلیں۔ ان میں سے بہت سارے تو ہمیں دیکھ کر رونے لگے۔ ایک سے جمشید حسین نے پوچھا کہ تم رو کیوں رہے ہو، تمارے ساتھ سختی یا زیادتی تو نہیں ہو رہی۔ کہا " نہیں " تو پھر روتے کیوں ہو؟ بولا مجھے بے گناہ پکڑ کر بند کر دیا ہے۔ ہم نے پوچھا تم پر الزام کیا ہے؟ بولا کچھ معلوم ہی نہیں۔ مجھے یہاں سے نکالو۔ ایک اور قیدی نے کہا کہ مجھے ایم کیو ایم لندن کے الزام میں پکڑا ہے۔ ہم نے پوچھا تم نے کچھ کارنامہ کیا ہو گا؟ بولا نہیں کچھ بھی نہیں کیا۔ ہم نے اس سے ایک اور سوال کیا کہ کیا اب بھی ایم کیو ایم لندن میں ہی ہو؟ بولا نہیں بہادر آباد۔ ہمارے ایک ساتھی نے اس کو تسلی دی جلد رہا ہو جائے گا۔ ایک قیدی نے بتایا کہ وہ بلوچ ہے، اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے کرائم کا چارج لگایا گیا ہے۔ ایک نے تو سچ سچ بتا دیا کہ شراب پی کر سڑک پر گل گباڑہ کرتے پکڑا گیا اور ایک نے بتایا کہ اس سے ایک کلو چرس پکڑی گئی تھی، قیدی کی اکثریت منشیات کے استعمال یا فروخت کے الزام میں گرفتار ہوئی اور جو دو یا تیسری مرتبہ جیل میں آئے ان کا تو یہی مسئلہ ہے۔ قیدیوں کی ان سب باتوں کے باوجود ہمیں جو اندازہ ہوا کہ 99 فیصد سے بھی زیادہ قیدی وارداتوں میں ملوث معلوم ہوتے ہیں، کوئی اکا دکا فرد ممکن ہے کسی غلط فہمی کا شکار ہو گیا ہو۔ لیکن سب خود کو بے گناہ سمجھتے ہیں۔ سنٹرل جیل کراچی کی بیرکوں میں کئی ایسے ہیں جو تیسری اور چوتھی بار یہاں آئے ہیں۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ بار، بار جیل کیوں آتے ہیں یہ جرائم اور کرائم کا کام چھوڑ کر رزق ہلال، شرافت اور عزت کی زندگی کی طرف کیوں نہیں پلٹتے تو گویا ہوئے بیگناہ پکڑے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا کہ پولیس صرف آپ ہی کو کیوں پکڑتی ہے شہر میں اور بھی تو نوجوان گھوم رہے ہیں۔ جیل انتظامیہ کے افسران بھی اس بات کی خاموش تائید کرتے ہیں کہ جیل سے رہا ہونے والے نوجوان کو علاقہ پولیس بھی چین سے نہیں جینے دیتی۔ اس کا کیا حل ہے کہ مبینہ طور پر ریاست کا بنیادی یونٹ نوجوانوں کو جرائم پر اکساتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس سے محفوظ رہنے کا یہی حل رہ گیا ہے کہ لوگ خود ہی برے کاموں سے احتیاط کریں۔ جیل سے رہا ہونے والے نوجوان رہائشی علاقہ تبدیل کردیں۔ پرانے علاقے سے ہجرت کریں، اور نئے علاقے میں کسی کو کانوں کان خبر تک نہ دیں کہ جیل یاترا کی ہے کراچی انسانوں کا سمندر ہے، اس میں ڈوب جانے کے بعد کسی کو کیا معلوم کہ کون کیا کرتا تھا اور اس کا ماضی کیا ہے۔ اچھی زندگی کے لیے شہر سے ہجرت کرنا باہر باہر کی جیل جانے سے بہتر ہے۔ قیدیوں کے کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جن کا تعلق جیل انتظامیہ سے نہیں جیسے کئی ایسے قیدی ہی جو سالوں سے بند ہیں اور عدالتوں میں مقدمات شروع ہونے کے انتظار میں ہیں۔ اب عدالتوں کے مسائل کیا اور کتنے ہیں یہ الگ بحث ہے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ججوں کو بھی کبھی کبھار جیل آنا چاہئے تاکہ ان کو اندازہ ہو کہ مقدمہ کی تاخیر یا ٹیبل نہ ہونے سے جیل میں بند نوجوان کی زندگی پر کس قدر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انصاف کا برق رفتار نظام ہی جیل کے بہت سارے مسائل حل کر سکتا ہے۔ بلکہ اطمینان معاشرے کی ترقی کا ضامن ہے، شفاف اور برق رفتار انصاف ہی معاشرے کو مطمئن کر سکتا ہے۔۔ سنٹرل جیل کراچی کی بیرکوں کے کھردرے فرش پر پڑے نوجوان اس دن کو دیکھ رہے ہیں جب اس پر لگے الزام کا مقدمہ کسی عدالت میں لگے اور وہاں اس کے مقدر کا فیصلہ ہو جائے، چاہے وہ سزائے موت ہی کیوں نہ ہو۔ موجودہ صورت حال میں تو سزائے قید سے پہلے اسے قید میں سالیں گزر جاتی ہیں اور اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی قسمت کا کیا فیصلہ ہونے والا ہے۔ اگر کسی مقام پر عدالت نے محسوس کیا کہ وہ بے گناہ ہے ،اسے باعزت بری کر دیا تو جو سال اس نے جیل کے بیرک کے عذاب سہے اس کا ازالہ کیسے ہو گا۔ سنٹرل جیل کراچی میں بعض قیدی ایسے بھی ہیں جن کی ضمانت ہو جکی مگر رقم نہیں جو زر ضمانت کے طور پر جمع کرائی جا سکے۔ اس وجہ سے ان کو رہائی نہیں مل رہی۔ ڈپٹی سپریٹیڈٹ سعید سومرو صاحب نے بتایا کہ پچاس ہزار سے کم رقم کا تو ہم خود بھی انتظام کر لیتے ہیں۔ شہر کے مخیر حضرات اور بعض این جی او کے تعاون سے لیکن بڑی رقم مسلہ ہوتی ہے جس کا انتظام کرنا ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے اگر شہر میں کوئی ایسا انتظام ہو سکے کہ مقدمات سے بری ہونے والے قیدیوں کی زر ضمانت جمع ہو جائے تو ایسے لوگوں کے ساتھ بڑی نیکی ہو جائے گی۔۔ ہم نے پوچھا کہ اس طرح کے کتنے قیدی ہوں گے؟ بتایا گیا کہ صحیح تعداد تو ریکارڈ دیکھ کر ہی بتائی جا سکتی ہے، لیکن ایسے لوگ ہیں جو ضمانت ہونے کے باوجود جیل میں ہیں۔ جیل انتظامیہ نے نیا اقدام یہ شروع کیا کہ قیدیوں کو رشتہ داروں سے ملاقات/بات کروانے کے لیے آن لائن سہولت مہیا کی ہے۔ روزانہ تقریبا 600 قیدیوں کو اہل خانہ یا رشتہ داروں سے آئن لائن بات کرائی جاتی ہے۔ اس سے جہاں قیدیوں کے رشتہ داروں کو سہولت حاصل ہوئی وہاں جیل پر رش بھی کم ہوا۔600 افراد کا روزانہ جیل آنا جانا کئی مسائل کو پیدا کرتا ہے۔ ملاقاتیوں کے آنے جانے کی مشکلات اپنی جگہ لیکن جیل کے صدر دروازے اور بیرون جیل ٹریفک کے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں اس سے عام شہری کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ لوگ اب جیل آنے کے بجائے گھر سے ہی اپنے قیدی سے بات کرتے ہیں اور خریت کی اطلاع پا کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور سعید سومرو صاحب کی بے چینی نمایاں تھی جن کو آج سارا دن ہمارے ساتھ جیل کی بیرکوں میں گھومتے اور قیدیوں کی شکایات سنتے گزر گیا۔ اس کا اطمینان ہوا کہ اتنی بڑی جیل میں جہاں ایک ہزار قیدی ہوں جیل انتظامیہ کے حوالے سے کچھ زیادہ شکایات سننے کو نہیں ملی، تاہم چھوٹی موٹی شکایات تو ہوتی ہیں لیکن ان کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سنٹرل جیل کراچی کی انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برت رہی ہے یا غفلت کی مرتکب ہوئی ہے۔ قارئین یہاں ہمیں دوش دیں گے کہ سندھ پولیس کی تعریف کیوں ہو رہی ہے لیکن ہمارے ساتھ جتنے بھی ساتھی تھے وہ جیل انتظامیہ کی کارکردگی اور حسن سلوک سے متاثر ہوئے لیکن اس کا یہ بھی مقصد نہیں کہ سنٹرل جیل کراچی میں سب اچھے کی خبر ہے، ظاہر ہے ہم ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ گھوم رہے تھے اور جو انہوں نے ہمیں دیکھایا وہ تو اطمینان بخش تھا۔ سعید سومرو صاحب نے بلآخر اعلان کر ہی دیا کہ جس قدر سست رفتاری سے چل رہے ہیں اس طرح تو آج سب کچھ نہیں دیکھ سکتے، قدم تیز اٹھنے لگے اور ہم دوسری سمت گول چکر میں پہنچے۔ یہ بھول بھلیاں سنٹرل جیل کراچی کا دل ہے جہاں سے متعدد بیرکوں کی طرف راستہ جاتا ہے۔ گویا ہر بیرک کا راستہ یہاں ہی سے شروع ہوتا اور یہاں ہی ختم ہوتا ہے۔ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہ چوک اس انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے کہ قیدی بھاگنے بھی چاہے تو بھاگ نہیں سکتا جتنا بھی گھومے گا واپس اسی چوک میں آئے گا کیوں کہ ہر راستہ دوسرے کے مشابہ ہے۔

سچ تو یہ ہے،ایک روز سنٹرل جیل کراچی میں۔۔ قیدی پر قیدی۔ درس گاہ ہے یا باغیچہ (4)بشیر سدوزئی، گول چکر کے مرکز میں نیم یا برگد کا قد آور درخت اور اطراف میں پھل پھول کیچھوٹے چھوٹے پیڑ پودے حاطے کو بہت زیادہ دلکش بناتے ہیں، لیکن چاروں طرف کی دیواروں پر خوب صورت پینٹنگ کسی آرٹ گیلری کی تمثال ہیں۔ سائیہ دار درخت کے نیچے پختہ چبوترا ہے، میرا خیال ہے کہ کچھ اوقات کے لیے قیدی اس چبوترے پر بیٹھ کر بیرک کے ماحول کو بھول جاتے ہوں گے اور یہی ان قیدیوں کی تفریح ہے۔ ظاہر ہے یہ جبوترا اور گول چکر خوب صورت باغیچے سے کم نہیں۔ اگر کوئی قیدی بیرک سے نکل کر باغیچے میں آئے تو اس کے لیے اس سے زیادہ اور کیا عیاشی ہو سکتی ہے۔ گول چکر کے چاروں طرف دیواروں پر بنی دیدا زیب پنٹنگ سمیت یہ ساری خوب صورتی اور ڈیزائنگ عزیز بگٹی کی تخلیق ہے جو انہی بھول بھلیوں کی ایک بیرک کا پرانہ مکین ہے، اس کا تعلق بلوچستان کے علاقہ ڈیرہ بگٹی سے ہے۔ اس وقت گرفتار ہوا جب ڈیرہ بگٹی میں آپریشن ہو رہا تھا اور نواب اکبر بگٹی ہلاک ہوئے تھے۔ ہماری ٹیم کے سارے لوگ جب توہین مذہب کے الزام میں گرفتار قیدیوں سے ملاقات اور گفتگو میں مصروف تھے، اس وقت میں گول چکر کے ایک کونے پر عزیز بگٹی اور جہانگیر خان کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہا تھا جن کو ہمارے ساتھ ملاقات کے لیے وہاں لایا گیا تھا۔ عزیز بگٹی نے جہاں اپنی اور اپنے بھائی کی گرفتاری کو افسوس ناک اور بلاجواز قرار دیا، وہاں سنٹرل جیل کراچی کو اپنے لیے نیک شگون پایا اور کہا کہ جیل میں مجھے اپنے،زندہ ہونے کے مقاصد اور ذمہ داریوں کا اندازہ ہوا۔ عزیز بگٹی کا کہنا تھا کہ میں اور میرا بھائی تو محض ڈرائیور اور ملازم تھے۔ اکبر بگٹی، وزیر اعلی، گورنر اور وزیر اور ممبر اسمبلی بھی رہے۔ ان کی سرگرمیوں سے ہمارا کیا تعلق کہ وہ کیا کرتے تھے اور کیا غلط تھا کیا صحیح، بس ہمیں اس جرم میں گرفتار کر کے 210 سال قید کی سزا سنا دی گئی کہ ہم اکبر بگٹی کے ساتھی تھے۔ حالاں کہ ہم تو ملازم تھے، ملازم بھی اس وقت کے جب ہمیں خود معلوم نہیں تھا کہ ڈیرہ بگٹی میں جو کچھ ہوتا ہے دنیا میں اس کے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے۔ اب ہمارا مقدمہ سپریم کورٹ میں ہے اور ہم دونوں بھائی جیل میں ہیں ۔ عزیز بگٹی ٹھیر ٹھیر کر گفتگو کر رہا تھا جیسے کوئی عالم باعمل ہو۔ کسی طور پریشان نہیں دیکھا، بلکہ خوش اور بات بات پر مسکرا بھی رہا تھا۔ میرے ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ گرفتاری سے پہلے مجھے صرف بلوچی زبان ہی سمجھ آتی تھی اور بلوچی ہی بولتا تھا۔ مجھے آج لگتا ہے کہ اس وقت میں اندھیرے میں تھا۔ کراچی سنٹرل جیل میں رہتے ہوئے میں نے اردو، پنجابی، عربی اور انگریزی سیکھی ہے اور اب میں ان زبانوں کی کتابیں پڑھ اور کسی حد تک سمجھ بھی سکتا ہوں۔ عزیز بگٹی نے بتایا کہ میں اب بہترین پینٹر ہوں۔ عزیز نے دیواروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں جیل میں اور بھی بہترین پینٹر اور مصور ہیں لیکن یہ تصویریں میری بنی ہوئی ہیں۔ گویا عزیز بگٹی جو جیل آنے سے پہلے ڈیرہ بگٹی کا خالصتا دیہاتی اور صرف بگٹی زبان و روایت سے زیادہ کچھ نہیں جانتا تھا آج بہترین پینٹر و مصور اور کئی زبانوں کو جانتا سمجھتا ہے۔ ہوش مند اور سمجھدار شہری ہے، جس کو ایک معزز شہری کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کا ادراک ہے۔ لگ بھگ آدھا گھنٹہ عزیز بگٹی سے بات چیت ہوتی رہی اور اندازہ ہوا کہ اب وہ جدیدیت سے کافی حد تک واقف ہو چکا۔ یہ مثبت انقلاب کی طرف اشارہ ہے، اگر عزیز سپریم کورٹ سے بری ہوتا ہے تو پھر ڈیرہ بگٹی کے معاشرے پر اس کے بہت مثبت اور گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ رہا ہوں گے تو دنیا کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوں گے، عزیز نے تھوڑے توقف سے کہا کہ معلوم نہیں زندگی میں وہ وقت آتا ہے یا نہیں۔ میں نے عزیز سے پوچھا کہ جب آپ جیل آئے تھے تو ناخواندہ تھے، یہ علم و ہنر کیسے سیکھا تو عزیز نے بتایا اس جیل میں ہر کسی کو سب کچھ سیکھنے کی سہولت ہے، جو وہ چاہتا ہے اگر کوئی کچھ بھی نہیں سیکھنے چاہتا تو کوئی زور زبردستی نہیں۔ میری نظر اچانک سامنے کتابوں کی ایک دوکان پر پڑی جس کے شلف میں ہزاروں پرانی نئی کتابیں آراستہ پیراستہ تھیں۔ سبحان اللہ سنٹرل جیل کراچی میں کتابوں کی بھی ایک بڑی دوکان ہے۔ مجھے اس موقع پر پنڈت جواہر لال نہرو کا قول یاد آیا جو انہوں نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھا، یہ کتاب اپریل 1934 میں شائع ہوئی تھی جس میں زیادہ تر خطوں ہیں جو انہوں نے جیل میں رہتے ہوئے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کے نام لکھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو اپنی کتاب " تاریخ عالم پر ایک نظر" کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ " جیل کی زندگی میں بعض فائدے بھی ہیں۔ ایک تو فرصت ہوتی ہے، دوسرا آدمی دنیا کے جھگڑوں سے بے تعلق ہو جاتا ہے۔ لیکن اس زندگی میں جو بھی دقتیں ہیں وہ بھی ظاہر ہیں۔ یہاں قیدی کے لیے نہ کوئی کتب خانہ ہوتا ہے نہ حوالے کی کتابیں دستیاب ہو سکتی ہیں۔" لیکن سنٹرل جیل کراچی میں تو ایک بڑا کتب خانہ دیکھا جہاں ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ اس کتب خانے سے ہر قیدی کتاب حاصل کر سکتا ہے، پڑھنے کے بعد جمع کرائے اور دوسری کتاب حاصل کرے۔ تاکہ فرصت کے لمحات کا مثبت استعمال کر سکے۔ جب کہ سنٹرل جیل کراچی میں قیدیوں کے لیے مصروفیات کے موقعے بھی موجود ہیں وہ لکھنا چاہیے پڑھنا چاہے، سیکھنا چاہے یا سیکھانا چاہے۔ لہذا نہرو کے زمانے اور آج کے زمانے کی جیلوں میں بہت فرق ہو گیا ہے، جن چیزوں کی کمی کی شکایت پنڈت جواہر لال نہرو نے کی وہ سہولت آج سنٹرل جیل کراچی میں موجود ہے۔ عزیز بگٹی نے دنیا کے جھگڑوں سے دور فرصت کے لمحات کا درست استعمال کیا اور طرہ یہ کہ ان کو کتاب، قلم، پرش اور پنٹ کی سہولت حاصل ہے، تب ہی وہ آج خطرے نام ملزم سے تبدیل ہو کر معزز شہری بن چکا۔ قریب ہی کھڑا نوجوان جہانگیر خان عزیز بگٹی کی گفتگو پر مسلسل مسکراہتا رہا، جس کو ایک قتل میں سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ جہانگیر خان کا تعلق گلشن اقبال کراچی سے ہے، اس کے مطابق روڑ ایکسیڈنٹ میں ایک فرد کی ہلاکت کے جرم میں سزائے موت کی قید کاٹ رہا ہے۔ خاصا خوشگوار موڈ میں تھا اور عزیز بگٹی کے ساتھ کھڑا اس کی گفتگو کے دوران مسکراہتا رہا۔ اس سے جب میں نے یہ سوال پوچھا کہ جیل کا اندرونی حاطہ تو باغیچہ لگتا ہے اور آپ لوگ یہاں چہل قدمی کر رہے ہیں گھوم پھر رہے ہیں خاصے مسرور و شادماں ہیں۔ کیا کچھ پریشانی و پشیمانی بھی ہے۔ جہانگیر سے پہلے عزیز بگٹی نے جواب دیا کہ یہاں جو باغیچہ اور خوبصورتی آپ دیکھ رہے ہیں یہ سب کچھ ہم قیدیوں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ جہانگیر کے چہرے سے اچانک رنگ و رنق اڑ گئی اور افسردہ لگنے لگا۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد گویا ہوا، خوشی غمی کے ایام میں گھر والے بہت یاد آتے ہیں۔ معلوم ہی نہیں ہوتا خوش ہونے کے کون سے دن ہیں اور غمی کے ایام کون سے ہیں۔ ایسے موقع پر گھر والے اور بچے بہت یاد آتے ہیں۔ جب میں جیل میں آیا تھا تو میرے بچے چھوٹے چھوٹے تھے، پھر جہانگیر خان ایسا خاموش ہوا کہ کوئی بات نہیں کر سکا۔ اس سے پہلے کے جذباتی ماحول تخلیق پاتا میں نے بات کو پلٹا، اور سعید سومرو صاحب سے مخاطب ہوا، اور کیا دیکھائیں گے؟ انہوں نیکہا کہ ہمارے اسپتال کو دیکھیں شہر کے سرکاری اسپتالوں کو بھول جائیں گے۔ ہمارے ساتھی ابھی بھی وہاں ہی کھڑے تھے، ان سے درخواست کی کہ اس قصے کو اب چھوڑیں اور آگلے حصے کو دیکھتے ہیں۔ ساتھیوں نے میری بات پر لبیک کہا، ہم تیزی سے آگئیں بڑے، گول چکر سے باہر آئے اور اسپتال کی طرف چل پڑے۔ سنٹرل جیل کراچی کا اسپتال بیرکوں کے کافی فاصلے پر ہے، پختہ سڑک پر کافی پیدل چلنا پڑھتا ہے۔ گول چکر سے ہم سہ بارہ صدر دروازے پر پہنچے اور نئے صفر کا آغاز کیا۔ سنٹرل جیل کراچی کے ہر حصے کی طرف جانے کے لیے صدر دروازے پر پہنچنا پڑھتا ہے۔ اگر کوئی قیدی بھاگنے بھی چائے تو اسے باہر نکلنے سے پہلے صدر دروازے پر ہی پہنچنا پڑھے گا جہاں فولادی دروازے اور ان پر فورس تعینات ہے۔ لہذا کوئی کوشش کرے بھی تو موت یا مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ (جاری ہے)

واپس کریں